مصر

عرب جمہوریہ مصر یا مصر، جمهورية مصر العربية (قبطی زبان:Ⲭⲏⲙⲓ Khēmi)، بر اعظم افریقا کے شمال مغرب اور بر اعظم ایشیا کے سنائی جزیرہ نما میں واقع ایک ملک ہے۔ مصر کا رقبہ 1،001،450 مربع کلو میٹر ہے۔ مصر کی سرحدوں کو دیکھا جائے تو شمال مشرق میں غزہ پٹی اور اسرائیل، مشرق میں خلیج عقبہ اور بحیرہ احمر، جنوب میں سوڈان، مغرب میں لیبیا اور شمال میں بحیرہ روم ہیں۔ خلیج عقبہ کے اس طرف اردن، بحر احمر کے اس طرف سعودی عرب اور بحیرہ روم کے دوسری جانب یونان، ترکی اور قبرص ہیں حالانکہ ان میں سے کسی کے ساتھ بھی مصر کی زمینی سرحد نہیں ملتی ہے۔

  

مصر
مصر
پرچم
مصر
نشان

،  

ترانہ:بلادی، بلادی، بلادی  
زمین و آبادی
متناسقات 27°N 29°E / 27; 29   [1]
بلند مقام پہاڑ کاثرین (2629 میٹر ) 
رقبہ 1010407.87 مربع کلومیٹر  
دارالحکومت قاہرہ  
سرکاری زبان عربی [2] 
آبادی 94798827 (28 مارچ 2017)[3] 
حکمران
طرز حکمرانی جمہوریہ  
اعلی ترین منصب عبدالفتح السیسی (8 جون 2014–) 
سربراہ حکومت مصطفی مدبولی  
قیام اور اقتدار
تاریخ
یوم تاسیس 3150 ق م، 28 فروری 1922 
عمر کی حدبندیاں
شادی کی کم از کم عمر 21 سال  
لازمی تعلیم (کم از کم عمر) 6 سال  
لازمی تعلیم (زیادہ سے زیادہ عمر) 14 سال  
دیگر اعداد و شمار
منطقۂ وقت 00  
ٹریفک سمت دائیں [4] 
ڈومین نیم eg.  
سرکاری ویب سائٹ {{#اگرخطا:باضابطہ ویب سائٹ  |}}
آیزو 3166-1 الفا-2 EG 
بین الاقوامی فون کوڈ +20 
    اگر یہ آپ کا مطلوبہ صفحہ نہیں تو دیکھیے، مصری (ضدابہام)

    کسی بھی ملک کے مقابلے میں مصر کی تاریخ سب سے پرانی اور طویل ہے اور اس کی تاریخی ابتدا 6 تا 4 ملنیا قبل مسیح مانی جاتی ہے۔ مصر کو گہوارہ ثقافت بھی مانا جاتا ہے۔ قدیم مصر میں کتابے، زراعت، شہرکاری، تنظیم اور مرکزی حکومت کے آثار ملتے ہیں۔[5] مصر میں دنیا کے قدیم ترین یادگار عمارتیں موجود ہیں جو مصر کی قدیم وراثت، تہذیب، فن اور تقافت کی گواہی دیتی ہیں۔ ان میں اہرامات جیزہ، ابوالہول، ممفس، مصر، طیبہ اور وادی ملوک شامل ہیں۔ ان مقامات پر اکثر سائنداں اور محققین تحقیق و ریسرچ میں سرگرداں نطر آتے ہیں اور مصر کی قدیم روایات اور تاریی حقائق سے آشکارا کرتے ہیں۔ مصر کی قدیم تہذیب ہی وہاں کی قومی علامت ہے جسے بعد میں یونانی قوم، فارس، قدیم روم، عرب قوم، ترکی عثمانی اور دیگر اقوام نے متاثر کرنے کی کوشش کی ہے۔ قدیم مصر مسیحیت کا ایک بڑا مرکز تھا لیکن 7ویں صدی میں مسلمانوں نے یہاں اپنے قدم جمانے شروع کیے اور مصر مکمل طور سے مسلم اکثریت ملک بن گیا مگر عیسائی بھی وہاں موجود رہے گوکہ اقلیت میں تھے۔

    16ویں صدی تا 20ویں صدی کے آغاز تک مصر پر بیرونی طاقتوں کے حکومت کی۔ شروع میں سلطنت عثمانیہ اور بعد میں سلطنت برطانیہ نے مصر کو اپنی حکومت کا حصہ بنایا۔ جدید مصر کا آغاز 1922ء سے ہوا جب مصر کو برطانیہ سے آزادی ملی مگر آزادیکے بعد وہاں بادشاہت قائم ہو گئی۔ البتہ اب بھی وہاں برطانوی فرج کا غلبہ تھا اور کئی مصریوں کا کہنا ہے کہ بادشاہت دراصل برطانیہ کی ایک چال تھی تاکہ مصر ان کی کالونی کا حصہ بنا رہے۔ مصری انقلاب، 1952ء میں مصریوں نے برطانوی فوج اور افسروں کو اپنے ملک سے بھگا دیا اور اس طرح مصر سے برطانیہ کا مکمل خاتمہ ہو گیا۔ برطانوی نہر سوئز کا قومیانہ کیا گیا اور شاہ فاروق اول کو مع اہل خانہ ملک بدر کر دیا گیا۔ اس طرح مصر ایک جمہوری ملک بن گیا۔ 1958ء میں جمہوریہ سوریہ کے ساتھ مل کر متحدہ عرب جمہوریہ کی بنیاد ڈالی گئی مگر 1961ء میں اسے تحلیل کرنا پرا۔ 20ویں صدی کے نصف آخر میں مصر میں سماجی اور مذہبی اتار چڑھاو دیکھنے کو ملا جس کی وجہ سیاسی عدم استحکام کی صورت حال پیدا ہو گئی اور اسی دوران میں 1948ء میں اسرائیل کے ساتھ تنازع، 1956ء میں سوئز بحران، 1967ء میں روزہ جنگ اور 1973ء میں جنگ یوم کپور جیسے نا خوشگوار واقعات رونما ہوئے۔ مصر نے 1967ء تک غزہ پٹی پر اپنا قبضہ برقرار رکھا۔ 1978ء میں مصر نے کیمپ ڈیوڈ معاہدہ پر دستخط کیے اور غزہ پٹی سے اپنا قبضہ واپس لے لیا اور ساتھ اسرائیل کو ایک ملک کی حیثیت سے تسلیم کر لیا۔ ملک میں بدستور سیاسی ہنگامہ جاری رہا اور بے امنی کو دور دورہ رہا۔ 2011ء میں پھر ایک انقلاب برپا ہوا اور مصر کی سیاست میں زبردست تبدیلی آئی۔ اسی دوران مصر دہشت گردی کی زد میں رہا اور معاشی مسائل سے بھی دوچار رہا۔ مصر کی موجودہ حکومت بین صدارتی جمہوریہ ہے اور مصر کے موجودہ صدر عبدالفتاح السیسی ہیں۔ سیاست میں انہیں آمریت کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔

    مصر کا سرکاری مذہب اسلام ہے اور سرکاری زبان عربی ہے۔[6] مصر کی کل آبادی تقریباً 95 ملین ہے اور اس طرح یہ شمالی افریقا، مشرق وسطی اور عرب دنیا کا سب سے زیادہ آبادی والا ملک ہے۔ نائیجیریا اور ایتھوپیا کے بعد بر اعظم افریقا کا تیسرا برا آبادی والا ملک ہے اور دنیا بھر میں بلحاظ آبادی اس کا نمبر 15واں ہے۔ ملک کی زیادہ تر آبادی دریائے نیل کے کنارے بسی ہے۔ ملک یا زیادہ تر زمینی حصہ صحرائے اعظم پر مشتمل ہے جو تقریباً ناقابل آباد ہے۔ کثیر آبادی والے علاقوں میں قاہرہ، اسکندریہ اور دریائے نیل کے جزیرے ہیں۔

    مصر کی خود مختار ریاست شمالی افریقا، مشرق وسطی اور عالم اسلام میں ایک مضبوط حکومت مانی جاتی ہے۔ دنیا بھر میں مصر ایک اوسط درجہ کی طاقتور حکومت ہے۔[7] مصر کی معیشت مشرق وسطی کی بڑی معیشتوں میں شمار کی جاتی ہے اور 21ویں صدی میں اس کے دنیا کی بڑی معیشتوں میں شمار ہونے کا امکان ہے۔ 2016ء میں جنوبی افریقا کو پیچھے چھوڑتے ہوئے مصر نائیجیریا کے بعد افریقا کی سب سے بڑی معیش بن گیا۔[8][9] مصر مندرجہ ذیل تنظیموں کا بانی/شرک بانی اور رکن ہے؛

    نام

    مصر (بکسر المیم) Miṣr" (عربی تلفظ: [mesˤɾ]; "مِصر") is the کلاسیکی عربی خالص کلاسیکی عربی کا لفظ ہے اور قرآن میں بھی اسی نام سے پکارا گیا ہے۔ اس کا یہی نام زماہ قدیم سے چلا آرہا ہے۔ البتہ مصری عربی میں Maṣr" (مصری عربی تلفظ: [mɑsˤɾ]; مَصر) (بفتح المیم) کہتے ہیں۔ [10]

    فہرست متعلقہ مضامین مصر

    مزید دیکھیے

    1.   "صفحہ مصر في خريطة الشارع المفتوحة"۔ OpenStreetMap۔ اخذ شدہ بتاریخ 24 دسمبر 2019۔
    2. باب: 2
    3. https://www.citypopulation.de/Egypt-Cities.html
    4. http://chartsbin.com/view/edr
    5. Béatrix Midant-Reynes۔ The Prehistory of Egypt: From the First Egyptians to the First Kings۔ Oxford: Blackwell Publishers۔
    6. "Constitution of The Arab Republic of Egypt 2014" (پی‌ڈی‌ایف)۔ sis.gov.eg۔ مورخہ 18 جولائی 2015 کو اصل (پی‌ڈی‌ایف) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 13 اپریل 2017۔ Unknown parameter |url-status= ignored (معاونت)
    7. Cooper، Andrew F.; Antkiewicz، Agata; Shaw، Timothy M. (2007). "Lessons from/for BRICSAM about south–north Relations at the Start of the 21st Century: Economic Size Trumps All Else?". International Studies Review 9 (4): 673–689. doi:10.1111/j.1468-2486.2007.00730.x.
    8. "South Africa just lost its spot as Africa's second largest economy"۔ مورخہ 13 نومبر 2017 کو اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 11 نومبر 2017۔ Unknown parameter |url-status= ignored (معاونت)
    9. "South Africa's Economy Falls To Third Behind Nigeria, Egypt"۔ مورخہ 1 دسمبر 2017 کو اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 19 نومبر 2017۔ Unknown parameter |url-status= ignored (معاونت)
    10. Z.، T. (1928). "Il-Belt (Valletta)" (Maltese میں). Il-Malti (Il-Ghaqda tal-Kittieba tal-Malti) 2 (1): 35. http://melitensiawth.com/incoming/Index/Il-Malti/Il-Malti.%20004(1928)2/01.pdf.
    This article is issued from Wikipedia. The text is licensed under Creative Commons - Attribution - Sharealike. Additional terms may apply for the media files.