ایوب (اسلام)

پیغمبر۔ قرآن میں متعدد جگہ آپ کا ذکر ہے۔ سورۃ النساء آیہ 163 اور سورۃ انعام آیہ 85 میں ‌دوسرے انبیا کرام کے ناموں کے ساتھ صرف آپ کا نام ہے، حالات نہیں۔ سورۃ انبیا (آیہ 83 تا 84) اور سورۃ ص (آیہ 41 تا 44) میں ‌آپ کا مختصر حال بیان کیا گیا ہے۔ قرآن سے صرف اتنا معلوم ہوتا ہے کہ آپ بہت خوشحال اور مالدار تھے۔

ایوب (اسلام)
(عربی میں: أيوب) 
 

معلومات شخصیت
مدفن مقبرہ ایوب  
عملی زندگی
پیشہ واعظ ، اسلامی نبی  

تعارف

مفسرین نے آپ کے تفصیلی حالات لکھے ہیں جو تھوڑے سے اضافے کے ساتھ تمام تر بائبل سے ماخوذ ہیں۔ بائبل میں پورا ایک صحفہ (سفر ایوب) کے نام سے ہے۔ جو قدیم شاعری کا ایک عظیم شاہکار ہے۔ اس کے مطابق آپ کا نا یوباب تھا اور آپ زراح بن رعوائل بن عیسوا دوم بن اسحاق کے بیٹے تھے۔ عیسوا دوم حضرت اسحاق سے ناراض ہو کر اپنے چچا حضرت اسماعیل کے پاس چلے گئے تھے، کیونکہ ان کے بھائی یعقوب نے اپنے باپ سے نبوت حاصل کر لی تھی۔ بائبل نے آپ کا وطن بصری بتایا ہے جو فلسطین کے پاس ایک چھوٹا سا شہر ہے۔

مورخین کا بیان ہے کہ آپ نے حضرت اسماعیل کی لڑکی سے شادی کی۔ علاوہ ازیں دو اور نکاح کیے اور ان سے جو اولاد ہوئی اُسے لے کر کوہ شعر (کوہ سرات) کے دامن میں ‌چلے گئے۔ یہ مقام شمال مغربی عرب میں واقع ہے۔ کچھ مدت بعد آپ کے قبیلے نے ایک طاقتور قوم کی شکل اختیار کر لی جس پر آٹھ بادشاہوں نے حکومت کی۔ حضرت ایوب دوسرے بادشاہ تھے، بائبل میں ان آٹھوں بادشاہوں کے نام درج ہیں۔ بعض مورخین نے آپ کا زمانہ 1000 ق م اور بعض نے 1520 ق م بتایا ہے۔ بائبل کے مطابق آپ نے ایک سو چالیس سال کی عمر پائی۔

صبر ایوب

حضرت ایوب علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے بہت برگزیدہ نبی ہوئے ہیں۔
وَخُذْ بِيَدِكَ ضِغْثًا فَاضْرِب بِّهِ وَلَا تَحْنَثْ إِنَّا وَجَدْنَاهُ صَابِرًا نِعْمَ الْعَبْدُ إِنَّهُ أَوَّابٌ
حضرت ایوب کے لیے ابتلا و آزمائش کے اس امتحان میں کامیابی کی سند کے طور پر ارشاد فرمایا گیا کہ " بیشک ہم نے انکو صابر پایا "۔ اور ایسا صابر کہ اس کی دوسری کوئی نظیر و مثال نہیں مل سکتی۔ یہاں تک کہ صبر ایوب ضرب المثل بن گیا۔
بعض روایتوں اور کتابوں میں یوں آیا ہے کہ شیطان نے کہا کہ ایوب علیہ السلام اس لیے عبادت کرتے اور شکر گزاری کرتے ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان کو مال و دولت سے نواز رکھا ہے۔ اگر ان کی آزمائش کی جائے تو وہ ناشکری کریں گے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت ایوب علیہ السلام کی آزمائش مختلف آفات سے کی۔ سب سے پہلے اُن کے جانور مر گئے، پھر بچے انتقال کر گئے۔ پھر بیماری نے آ لیا کہ صرف زبان ہی محفوظ تھی۔ اس حال میں بھی اُن کو یہ فکر تھی کہ زبان کو کچھ ہو گیا تو اللہ تعالیٰ کا شکر کیسے ادا کریں گے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی بیماری دور کی، مال ودولت بھی دوبارہ دیا۔ بچے بھی ہوئے۔

آزمائش

خدا نے آپ کی آزمائش کی۔ آپ کی تمام جائداد تباہ ہو گئی، آل اولاد، نوکر چاکر سب مرگئے اور آپ خود ایک موذی مرض میں مبتلا ہو گئے۔ آہ و زاری کی تو اللہ نے فرمایا (زمین پر پیر مار) پیر مارنے سے ایک چشمہ پھوٹ پڑا۔ اس میں آپ نہائے تو تندرست ہو گئے خدا نے آپ کا مال و اسباب آپ کو واپس بخش دیا اور بال بچے، نوکر چاکر بھی دوبارہ زندہ کر دیے۔ قرآن نے آپ کو صبر کرنے والا، رجوع کرنے والا اور اچھا بندہ کہا ہے۔

قصص الانبیاء کا بیان

نام و نسب

اسلامی مؤرخ محمد بن اسحاق نے ان کا شجرہ نسب یوں بتایا ہے : ایوب بن موص بن رزاح بن العیض بن اسحاق بن ابراہیم الخلیل اللہ علیہم السلام
دیگر مؤرخین نے ایوب کا نسبی سلسلہ یوں بیان کیا ہے : ایوب بن موص بن رعوایل بن عیض بن اضحاق بن ابراہیم [1]

خاندان

ابن عساکر کے مطابق ایوب علیہ السلام کی والدہ لوط علیہ السلام کی بیٹی تھیں اور ایوب کے والد ان لوگوں میں شامل تھے جو ابراہیم علیہ السلام پر ایمان لائے جب ابراہیم علیہ السلام کو آگ میں ڈالا گیا اور نہیں جلے۔ پہلی بات کو زیادہ مستند سمجھا جاتا ہے کہ ایوب ابراہیم علیہ السلام کی اولاد میں سے تھے قرآن میں اللہ فرماتا ہے کہ

وَوَهَبْنَا لَـهٝٓ اِسْحَاقَ وَيَعْقُوْبَ ۚ كُلًّا هَدَيْنَا ۚ وَنُوْحًا هَدَيْنَا مِنْ قَبْلُ ۖ وَمِنْ ذُرِّيَّتِهٖ دَاوُوْدَ وَسُلَيْمَانَ وَاَيُّوْبَ وَيُوْسُفَ وَمُوْسٰى وَهَارُوْنَ ۚ وَكَذٰلِكَ نَجْزِى الْمُحْسِنِيْنَ

ترجمہ : اور ہم نے ابراہیم کو اسحاق اور یعقوب بخشا، ہم نے سب کو ہدایت دی، اور اس سے پہلے ہم نے نوح کو ہدایت دی، اور اس کی اولاد میں سے داؤد اور سلیمان اور ایوب اور یوسف اور موسیٰ اور ہارون ہیں، اور اسی طرح ہم نیکو کاروں کو بدلہ دیتے ہیں۔[1][2]

مندرجہ بالا بیان کے تحت وَمِنْ ذُرِّيَّتِهٖ کی ضمیر ابراہیم کی طرف لوٹتی ہے نہ کہ نوح کی طرف۔ اور سب سے مستند یہی سمجھا جاتا ہے کہ ایوب عیض بن اسحاق کی نسل سے تھے۔ ایوب کی اہلیہ کا نام ”لیا بنت یعقوب“ تھا بعض روایات کے مطابق ”رحمت بنت افرائیم“ تھا۔ اور بعض کے مطابق لیا بنت منسا بن یوسف بن یعقوب تھا۔ اور لیا بنت منسا ہی سب سے مستند سمجھا جاتا ہے۔[1]

صاحبِ وحی

ایوب مذہبِ اسلام میں ان انبیاء علیہم السلام میں سے ہیں جن کی طرف وحی بھیجنے کی صراحت اللہ نے اپنے اس فرمان سے کری ہے :

إِنَّا أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ كَمَا أَوْحَيْنَا إِلَى نُوحٍ وَالنَّبِيِّينَ مِن بَعْدِهِ وَأَوْحَيْنَا إِلَى إِبْرَاهِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ وَإْسْحَقَ وَيَعْقُوبَ وَالأَسْبَاطِ وَعِيسَى وَأَيُّوبَ وَيُونُسَ وَهَارُونَ وَسُلَيْمَانَ وَآتَيْنَا دَاوُودَ زَبُورًا

ترجمہ :

ہم نے تیری(محمد) طرف وحی بھیجی جیسے ہم نے وحی بھیجی نوح پر اور ان نبیوں پر جو اس کے بعد آئے، اور ہم نے وحی بھیجی ابراہیم اور اسماعیل اور اسحاق اور یعقوب اور اس کی اولاد اور عیسیٰ اور ایوب اور یونس اور ہارون اور سلیمان پر، اور ہم نے داؤد کو زبور دی۔[3]

قرآن میں ذکر

قرآن میں متعدد جگہ ایوب کا ذکر کیا گیا ہے۔ سورہ النساء آیت 163 اور سورہ انعام آیت 85 میں ‌دوسرے انبیا کرام کے ناموں کے ساتھ صرف ایوب کا نام ہے، حالات کا ذکر نہیں ہے۔ صرف سورہ انبیاء (آیت 83 تا 84) اور سورہ ص (آیت 41 تا 44) میں ‌ ایوب کا مختصر حال بیان کیا گیا ہے۔

ایوب کا مرض

تاریخ و تفسیر کے علماء کے مطابق ایوب بے حد مالدار تھے ایوب کے پاس مال مویشی نوکر چاکر اور کافی زمین بھی تھی۔ ارض حوران کا ثنیہ کا علاقہ ایوب کی ملکیت تھا۔[1] ابن عساکر اپنی سند سے بیان کرتے ہیں کہ

یہ سب زمین ایوب کی ذاتی ملکیت تھی اور ایوب کے اہل وعیال کثیر تعداد میں تھے۔پھر یہ سب اللہ تعالیٰ کی طرف واپس لے لیا گیا اور ایوب مختلف جسمانی تکالیف میں مختلف ہوگئے دل اور زبان کے سوا جسم کا کوئی بھی حصہ اور عضو صحیح سالم نہ رہا۔دل اور زبان کے ساتھ ایوب یادِ الٰہی میں مشغول رہتے تھے اور صبر کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا۔اور ایوب نے ان تمام جسمانی ومالی مصائب میں اللہ سے ثواب کی امید لگائے رکھی۔اور ہر وقت اللہ کی یاد میں مصروف رہے اور جب ایوب کی بیماری نے طول پکڑا تو دوست احباب وحشت محسوس کرنے لگے۔اور ساتھ بیٹھنے والے نفرت کرنے لگے تو ایوب کو شہر سے باہر کوڑا کرکٹ میں پھینک دیا گیا۔اور بیوی کے سوا سب دور رہنے لگے۔اور ان کی بیوی کے سوا ان کا کوئی غمخوار نہ رہا۔اور وہی ایوب کی نگرانی کرتی رہی۔ان کی زوجہ ان کی ہر ضرورت کا خیال رکھتی تھیں۔جب ان کے مالی حالات کمزور ہوگئے تو شوہر کی کفالت کرنے کی وجہ سے محنت مزدوری کرنے لگیں۔اور شوہر کی ہر ضروریات کا خاص خیال رکھتی رہی۔[1]

حضرت مجاہد فرماتے ہیں کہ

چیچک کی بیماری کی زد میں آنے والے سب سے پہلے ایوب علیہ السلام ہیں۔

مرض کا عرصہ

اس میں کئی اقوال ہیں :

  • وہب بن منبہ کے مطابق ”مکمل تین سال“
  • انس بن مالک کے مطابق ”سات سال اور کچھ مہینے اور آپ کو کوڑا کرکٹ میں پھینک دیا گیا اور آپ کے جسم میں بہت سے کیڑے پیدا ہو گئے یہاں تک کہ اللہ نے ان کی تکلیف کو دور فرمایا“
  • حضرت حمید کے مطابق ”18 سال آپ اس مرض میں مبتلا رہے “۔
  • اسماعيل بن عبد الرحمن السدی فرماتے ہیں کہ
آپ کا گوشت گل سڑا گیا تھا، ہڈیاں اور پٹھے باقی رہ گئے تھے اور آپ کی زوجہ راکھ لاکر ان کے جسم کے نیچے بچھا دیتی جب تکلیف کی مدت زیادہ ہوگئی تو آپ کی بیوی نے کہا اے ایوب! آپ اپنے رب سے دعا کریں کہ وہ اس تکلیف سے چھٹکارا عطا کرے اور آزمائش ٹال دے۔ایوب علیہ السلام نے جواب دیا اللہ نے مجھے ستر سال صحت وسلامتی سے نوازا تو کیا میں ستر سال بیماری پر صبر نہیں کر سکتا تو آپ کی زوجہ روپڑیں اور لوگوں کے گھروں میں محنت ومزدوری کرتیں اور اس کی جو کچھ مزدوری ملتی تو اس سے آپ کے کھانے کا انتظام کرتیں۔

شفایابی

اللہ تعالیٰ نے ایوب پر ایک وحی نازل فرمائی تھی جس کے بعد وہ شفایاب ہو گئے تھے۔

اُرْكُضْ بِـرِجْلِكَ ۖ هٰذَا مُغْتَسَلٌ بَارِدٌ وَّشَرَابٌ

ترجمہ :
اپنا پاؤں (زمین پر) مار، یہ ٹھنڈا چشمہ نہانے اور پینے کو ہے۔[4]

اور ایوب شفا کے پانی میں نہانے کے بعد شفایاب ہو گئے تھے۔ جب ان کی بیوی آئیں تو وہ ان کو دیکھ کر پہچان نہیں پائیں۔[1]

  • ابن کثیر کے مطابق ”جب ان کی بیوی دیر سے پہنچی تو دیکھنے لگ گئی اتنے میں ایوب علیہ السلام اس کی طرف آئے جب اللہ نے ان کی بیماری ختم کردی تھی۔ اور وہ بہت خوبصورت حالت میں تھے بیوی آپ کو دیکھ کر پہچان نہیں سکی اور کہنے لگی کیا تو نے اللہ کے نبی کو دیکھا ہے جو اس جگہ بیماری کی حالت میں موجود تھے؟ اللہ کی قسم میں نے کوئی نہیں دیکھا جو آپ کی مشابہ ہو جب وہ صحیح اور تندرست تھے انہوں نے جواب دیا میں وہی ہوں۔ “
  • ابن جریر طبری کے مطابق ”ایوب علیہ السلام کے دو کھلیان تھے ایک گندم کا ایک جو اللہ نے دو بادل بھیجے ایک بادل گندم کے کھلیان پر آیا اور اس نے سونا برسایا یہاں تک وہ لباب بھر گیا پھر دوسرے نے جو کے کھلیان پر چاندی برسائی یہاں تک کہ وہ لباب بھر گیا“۔[1]
  • ابن ابو حاتم نے اپنی سند کے ساتھ بیان کیا ہے کہ ”اللہ تعالیٰ آپ کو جنت کا لباس پہنایا۔ ایوب علیہ السلام ایک طرف ہوکر بیٹھ گئے آپ کی بیوی آئی اور آپ کو پہچان نہ سکی۔ اور کہنے لگی اے اللہ کے بندے اس جگہ ایک مریض تھا وہ کہاں گیا شاید اسے کتے لے گئے یا بھیڑئیے کھا گئے وہ کچھ دیر بات کرتی رہی۔ تو آپ نے فرمایا میں ہی ایوب ہوں تو کہنے لگی اے اللہ کے بندے میرے ساتھ کیوں مذاق کر رہا ہے۔ آپ نے فرمایا تجھ پر افسوس ہے میں ہی ایوب ہوں اللہ نے مجھے شفا عطا فرمائی اور میرا جسم درست کر دیا“۔[1]
  • ابو ہریرہ فرماتے ہیں کہ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: ”جب اللہ پاک نے حضرت ایوب علیہ السلام کو تندرستی دی تو ان پر سونے کی ٹڈیوں کی بارش برسائی آپ اپنے ہاتھ سے ان کو لے کر کپڑوں پر ڈالنے لگے آپ کو کہا گیا کہ کیا تو سیر نہیں ہوا آپ نے بارگاہ الہٰی میں عرض کی یا اللہ تیری رحمت سے کون سیر ہو سکتا ہے۔ “(ابن ابی حاتم)

صحت یابی کے بعد

ایوب صحت یابی کے بعد ستر برس تک زندہ رہے اور دینِ حنیف کے لیے محنت کرتے رہے۔[1] مسلم عقائد کے مطابق ایوب کے بعد ان کی قوم نے ابراہیمی مذہب کو تبدیل کر دیا تھا۔

وفات

ابن جریر طبری اور دیگر مؤرخین کے مطابق وفات کے وقت ایوب کی عمر تقریباً ترانوے برس تھی اور بعض کے خیال میں اس بھی زائد تھی۔[1]

مزید دیکھیے

حوالہ جات

  1. مصنف: امام حافظ عماد الدین ابو ابوالفداء ابن کثیر، مترجم: مولانا عبد الرشید، ماہتمام: معاذ حسن، اشاعت: اکتوبر 2011ء، کتاب: قصص الانبياء، تابع: گنج شکر پرنٹرز لاہور
  2. القرآن، سورہ الانعام: 84
  3. القرآن، سورہ النساء 163
  4. القرآن، سورہ ص آیت 42
This article is issued from Wikipedia. The text is licensed under Creative Commons - Attribution - Sharealike. Additional terms may apply for the media files.