موسی ابن عمران

موسیٰ علیہ السلام خدا کے برگزیدہ پیغمبروں میں سے ایک تھے۔ آپ کے بھائی ہارون علیہ السلام بھی اللہ کے برگزیدہ نبیوں میں سے ایک ہیں۔

موسیٰ بن عمران
معروفیت موسیٰ علیہ السّلام
پیدائش مصر
وفات جبل موآب
وجہ وفات طبعی
قبر مسجد خلیل، فلسطین
والد عمران
والدہ یوکابد
علاقۂ بعثت قوم بنی اسرائیل مصر
صحائف صحف موسیٰ
آسمانی کتابوں میں ذکر موسیٰ (بائبل)
پیشرو نبی شعیب علیہ السلام
جانشین نبی ہارون علیہ السلام

نام و نسب

نسب

عمران موسیٰ (علیہ السلام) کے والد کا نام ہے۔ آپ کا نسب نامہ اس طرح ہے موسیٰ بن عمران بن یصھر بن قاہث بن لاوی بن یعقوب بن اسحق بن ابراہیم، علیہم السلام۔[1]

نام

آپ (ع) کا نام موسیٰ ہے۔ قرآن میں آپ (ع) کا نام موسیٰ اور لقب کلیم اللہ آیا ہے۔ جبکہ انگریزی بائبل میں آپ کا نام موسیس (Moses) آیا ہے۔

قرآن میں ذکر

تمام پیغمبر کی نسبت قرآن میں موسیٰ علیہ السلام کا واقعہ زیادہ آیا ہے۔ تیس سے زیادہ سورتوں میں موسیٰ علیہ السلام و فرعون اور بنی اسرائیل کے واقعہ کی طرف سومرتبہ سے زیادہ اشارہ ہوا ہے۔

عصائے موسیٰ

موسیٰ علیہ السلام کے ہاتھ کی لکڑی جس میں یہ معجزہ تھا کہ فرعون کے ساحروں کے مقابلے میں سانپ یا اژدہا بن گئی تھی۔ مروی ہے کہ موسیٰ کا عصا جنتی آس کا تھا آپ کے قد کے برابر دس ہاتھ لمبا تھا اور اس میں دو شاخیں تھیں تاریکی میں روشن ہوجاتیں اس عصا کو آدم ( علیہ السلام) جنت سے لائے تھے۔ آدم کے بعد انبیا میں نسلاً بعد نسلٍ چلا آیا حتیٰ کہ شعیب کو مرحمت فرمایا۔[2] یہ لاٹھی آدم کی لاٹھی ہے۔ ان کو خاص طور پر ایک فرشتے نے دی تھی جب وہ مدینہ جا رہے تھے۔ یہ رات کو روشنی دیتی تھی اور دن کے وقت آپ اسے ساتھ لے کر زمین میں گھومتے پھرتے اور اپنے لیے رزق تلاش کرتے اور اس کے ساتھ اپنی بکریوں کے لیے پتے بھی جھاڑتے تھے۔[3]

تخقیق

اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کو بنی اسرائیل سمیت مصر چھوڑنے کا حکم دیا۔ چنانچہ جب موسیٰ علیہ السلام بنی اسرائیل کو ہمراہ لیے دریائے نیل پار کر رہے تھے یہ بھی اپنے لشکر سمیت ان کا پیچھا کرتے ہوئے دریائے نیل میں اتر پڑا مگر اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو دریا پار کروانے کے بعد دریا کے پانی کو چلا دیا اور فرعون کو اس کے لشکرسمیت ڈبوکر ہلاک کر دیا ضمناًیہ بات بھی ذہن میں رکھنا چائیے کہ اس زمانے میں مملکت مصر نسبتاً وسیع مملکت تھی۔ وہاں کے رہنے والوں کا تمدن بھی نوح علیہ السلام، ہود علیہ السلام اور شعیب علیہ السلام کی اقوام سے زیادہ ترقی یافتہ تھا۔ لہٰذا حکومت فراعنہ کی مقاومت بھی زیادہ تھی۔

فرعون نے موسیٰ علیہ السلام اورآپ کی قوم بنی اسرائیل پر بہت مظالم ڈھائے تھے۔ دراصل فرعون اس وقت کے بادشاہوں کا لقب تھا جو بھی بادشاہ بنتا اس کو فرعون کہا جاتا تھا۔ ڈاکٹر مورس بوکائیے کی تحقیق کے مطابق بنی اسرائیل پر ظلم وستم کرنے والے حکمران کا نام رعمسس دوم تھا۔ بائیبل کے بیا ن کے مطابق اس نے بنی اسرائیل سے بیگا رکے طور پر کئی شہر تعمیر کروائے تھے جن میں سے ایک کانام رعمسس رکھا گیا تھا۔ جدیدِ تحقیقات کے مطابق یہ تیونس اور قطر کے اس علاقے میں واقع تھا جو دریائے نیل کے مشرقی ڈیلٹے میں واقع ہے۔

رعمسس کی وفات کے بعد اس کا جانشین مرنفتاح مقر ر ہوا۔ اسی کے دورِ حکمرانی میں اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کو بنی اسرائیل سمیت مصر چھوڑنے کا حکم دیا۔ چنانچہ جب موسیٰ علیہ السلام بنی اسرائیل کو ہمراہ لیے دریائے نیل پار کر رہے تھے یہ بھی اپنے لشکر سمیت ان کا پیچھا کرتے ہوئے دریائے نیل میں اتر پڑا مگر اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو دریا پار کروانے کے بعد دریا کے پانی کو چلا دیا اورفرعون کو اس کے لشکرسمیت ڈبوکر ہلاک کر دیا۔ اس سارے واقعہ کو اللہ تعالیٰ نے درجِ ذیل آیات میں بیان کیا ہے:

  • (وَجٰوَزْنَا بِبَنِیْ اِسْرَآئِیْل الْبَحْرَ فَاَتْبَعَھُمْ فِرْعَوْنُ وَجُنُوْدُہ بَغْیًا وَّعَدْوًا ط حَتّٰی اِذَآاَدْرَکَہُ الْغَرَقُ قَالَ اٰمَنْتُ اَنَّہ لَآ اِلٰہَ اِلَّا الَّذِیْ اٰمَنَتْ بِہ بَنُوآ اِسْرِآئِیْلَ وَاَنا مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ۔ اٰلْئٰنَ وَقَدْ عَصَیْتَ قَبْلُ وَکُنْتَ مِنَ الْمُفْسِدِیْنَ۔ فَالْیَوْمَ نُنَجِّیْکَ بِبَدَنِکَ لِتَکُوْنَ لِمَنْ خَلْفَکَ اٰیَةً ط وَاِنَّ کَثِیْرًا مِّنَ النَّاسِ عَنْ اٰیٰتِنَا لَغٰفِلُوْنَ)

اورہم بنی اسرائیل کو سمندر سے گزار لے گئے۔ پھر فرعون اوراس کے لشکر ظلم اورزیادتی کی غرض سے ان کے پیچھے چلے۔ حتیٰ کہ جب فرعون ڈوبنے لگا تو بول اٹھا میں نے مان لیا کہ خداوندِحقیقی اُس کے سوا کوئی نہیں ہے جس پر بنی اسرائیل ایمان لائے اور میں بھی سرِاطاعت جھکا دینے والوں میں سے ہوں(جواب دیا گیا) اب ایمان لاتا ہے!حالانکہ اس سے پہلے تک تو نافرمانی کرتا رہا اورفساد برپا کرنے والوں میں سے تھا۔ اب تو ہم صرف تیری لاش ہی کو بچائیں گے تاکہ تو بعد کی نسلوں کے لیے نشان ِ عبرت بنے، اگرچہ بہت سے انسان ایسے ہیں جو ہماری نشانیوں سے غفلت برتتے ہیں ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے ایک پیشین گوئی فرمائی ہے کہ ہم فرعون کی لاش کو محفوظ رکھیں گے تاکہ بعدمیں آنے والے لوگوں کے لیے وہ باعث عبرت ہو۔ اپنے آپ کو خداکہلوانے والے کی لاش کو دیکھ کر آنے والی نسلیں سبق حاصل کریں۔ چنانچہ اللہ کا فرمان سچ ثابت ہوا اور اس کا ممی شدہ جسم 1898ء میں دریائے نیل کے قریب تبسیہ کے مقام پر شاہوں کی وادی سے اوریت نے دریافت کیا تھا۔ جہاں سے اس کو قاہرہ منتقل کر دیا گیا۔ ایلیٹ اسمتھ نے 8جولائی 1907ء کو ا س کے جسم سے غلافوں کو اتارا، تو اس کی لاش پر نمک کی ایک تہ جمی پائی گئی تھی جو کھاری پانی میں اس کی غرقابی کی ایک کھلی علامت تھی۔ اس نے اس عمل کا تفصیلی تذکرہ اورجسم کے جائزے کا حال اپنی کتاب شاہی ممیاں (1912ء) میں درج کیا ہے۔ اس وقت یہ ممی محفوظ رکھنے کے لیے تسلی بخش حالت میں تھی حالانکہ ا س کے کئی حصے شکستہ ہو گئے تھے۔ اس وقت سے ممی قاہرہ کے عجائب گھر میں سیاحو ں کے لیے سجی ہوئی ہے۔ اس کا سر اورگردن کھلے ہوئے ہیں اورباقی جسم کو ایک کپڑے میں چھپاکرر کھا ہواہے۔ محمد احمد عدوی دعوة الرسل الی اللہ میں لکھتے ہیں کہ اس نعش کی ناک کے سامنے کا حصہ ندارد ہے جیسے کسی حیوان نے کھا لیا ہو ،غالباً سمندری مچھلی نے اس پر منہ مارا تھا، پھر اس کی لاش اُلوہی فیصلے کے مطابق کنارے پر پھینک دی گئی تاکہ دنیا کے لیے عبرت ہو۔ جون 1975ء میں ڈاکٹر مورس بوکائیے نے مصری حکمرانوں کی اجازت سے فرعون کے جسم کے ان حصوں کا جائزہ لیا جو اس وقت تک ڈھکے ہوئے تھے اور ان کی تصاویر اتاریں۔ پھر ایک اعلیٰ درجہ کی شعاعی مصوری کے ذریعے ڈاکٹر ایل میلجی اور راعمسس نے ممی کا مطالعہ کیا اور ڈاکٹر مصطفیٰ منیالوی نے صدری جدارکے ایک رخنہ سے سینہ کے اندرونی حصوں کا جائزہ لیا۔ علاوہ ازیں جوف شکم پر تحقیقات کی گئیں۔ یہ اندرونی جائزہ کی پہلی مثال تھی جو کسی ممی کے سلسلے میں ہوا۔ اس ترکیب سے جسم کے بعض اندرونی حصوں کی اہم تفصیلات معلوم ہوئیں اور ان کی تصاویر بھی اتاری گئیں۔ پروفیسر سیکالدی نے پروفیسر مگنو اور ڈاکٹر دوریگون کے ہمراہ ان چند چھوٹے چھوٹے اجزا کا خوردبینی مطالعہ کیا جوممی سے خود بخود جد اہوگئے تھے۔ ان تحقیقات سے حاصل ہونے والے نتائج نے ان مفروضوں کو تقویت بخشی جو فرعون کی لاش کے محفوظ رہنے کے متعلق قائم کیے گئے تھے۔ ان تحقیقات کے نتائج کے مطابق فرعون کی لاش زیادہ عرصہ پانی میں نہیں رہی تھی اگر فرعون کی لاش کچھ اورمدت تک پانی میں ڈوبی رہتی تو اس کی حالت خراب ہوسکتی تھی،حتیٰ کہ اگر پانی کے باہر بھی غیر حنوط شدہ حالت میں ایک لمبے عرصے تک پڑی رہتی تو پھر بھی یہ محفوظ نہ رہتی۔ علاوہ ازیں ان معلومات کے حصول کے لیے بھی کوششیں جاری رکھی گئیں کہ اس لا ش کی موت کیا پانی میں ڈوبنے سے ہوئی یا کوئی اور وجوہات بھی تھیں؟چنانچہ مزید تحقیقات کے لیے ممی کو پیرس لے جایا گیا اور وہاں Legal Identification Laboratory کے مینیجر Ceccaldi اور Dr. Durigon نے مشاہد ات کے بعد بتایا کہ : اس لا ش کی فوری موت کا سبب وہ شدید چوٹ تھی جو اس کی کھوپڑی (دماغ) کے سامنے والے حصے کو پہنچی کیونکہ اس کی کھوپڑی کے محراب والے حصے میں کافی خلا موجودہے۔ اور یہ تما م تحقیقات آسمانی کتابوں میں بیان کردہ فرعون کے (ڈوب کرمرنے کے ) واقعہ کی تصدیق کرتی ہیں جس میں بتایا گیا ہے کہ فرعون کو دریا کی موجوں نے اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا-ان نتائج سے ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرعون کی لاش کو محفوظ رکھنے کا خا ص اہتمام کیا تھا جس کی وجہ سے یہ ہزاروں سال تک زمانے کے اثرات سے محفوظ رہی اورآخرکار اس کو انیسویں صدی میں دریافت کیا گیا۔ مزید برآں اللہ تعالیٰ کایہ فرمان کہ ہم فرعون کی لاش کوسامانِ عبرت کے لیے محفوظ کر لیں گے صرف قرآن مجید میں موجود ہے، اس سے پہلے کسی دوسری آسمانی کتاب میں اس کا اعلان نہیں کیا گیا تھا۔

مزید دیکھیے

حوالہ جات

  1. تفسیر جلالین،جلال الدین سیوطی۔ آل عمران،31
  2. تفسیر مظہری قاضی ثناء اللہ پانی پتی سورۃ البقرہ،آیت60
  3. تفسیر در منثور جلال الدین سیوطی،الاعراف،104

بیرونی روابط

This article is issued from Wikipedia. The text is licensed under Creative Commons - Attribution - Sharealike. Additional terms may apply for the media files.