یوسف (اسلام)

یوسف علیہ السلام اللہ تعالٰی کے نبی تھے۔ آپ کا ذکر بائبل میں بھی ملتاہے۔ آپ یعقوب علیہ السلام کے بیٹے تھے۔ آپ کا تعلق انبیا اللہ کے خاندان سے تھا۔ گیارہ سال کی عمر سے ہی نبی ہونے کے آثار واضح ہونے لگے۔ آپ نے خواب میں دیکھا کہ گیارہ ستارے، سورج اور چاند آپ کو سجدہ کر رہے ہیں۔ آپ کے والد یعقوب علیہ السلام نے آپ کو اپنا خواب کسی اور کو سنانے سے منع کیا۔ قرآن مجید کی ایک سورت ان کے نام پہ ہے۔ قران نے یوسف علیہ السلام کے قصے کو احسن القصص کہا ہے۔ سورہ انعام اور سورہ غافر میں بھی ان کا ذکر آیا ہے۔ آپ نے 120 سال عمر پائی۔

سانچہ:حضرت یوسف علیہ السلام
وجہ وفات طبعی (120 سال کی عمر مین وفات)
قبر مسجد خلیل، فلسطین
والد حضرت یعقوب علیہ السلام
والدہ راحیل
آسمانی کتابوں میں ذکر بائبل و سانچہ:قرآن سورہ یوسفکے نام سے

زندگی

خواب

آپ نے 12 سال کی عمر میں خواب میں دیکھا کہ آپ ایک سونے کے تحت پر بیٹھے ہیں اور سورج، چاند اور دس ستارے آپ کو سجدہ کر رہے ہیں آپ نے یہ خواب اپنے والد محترم یعقوب(ع) کو سنایا خواب سننے کے بعد یعقوب(ع) نے آپ کو یہ خواب اپنے بھائیوں اور ہر کسی کو سنانے سے منع کیا۔۔

حسدِ برادران

یوسف(ع) کی سوتیلی ماں لیاہ نے یہ خواب چپکے سے سن لیا اور یہ خواب کے کے بھائیوں کو سنا دیا اور اس پر آپ کے ایک بھائی یہودا نے کہا :- خواب میں سورج چاند ستارے مطلب یہ کہ سورج کو باپ چاند کو ماں اور دس ستارے یعنی ہم دس بھائی ہیں یعنی یوسف ہمیں خود سے حقیر سمجھتا ہے اور بابا کو ہم سے چھیننا چاہتا ہے۔۔۔ ان کے بھائی اس خواب کے بعد ان سے حسد کرنے لگے اور ایک دن ان کو اپنے ساتھ صحرا لے گئے (صحرا کعنان سے تین میل دور ایک مقام ہے) انہوں نے یوسف(ع) کو مار مار کر زخمی کر دیا اور آپ کے ایک بھائی یہودا نے تو خنجر نکال کر قتل کرنے کی بھی کوشش کی اس پر آپ کے سب سے بڑے بھائی لاوی نے اپنے بھائیوں کو منع کیا اور اپ کے زخموں سے خون صاف کرنے لگ گئے پھر لاوی نے اپنے بھائیوں سے یوسف کو چھوڑدینے اور گھر واپس لے جانے کی بات کی اس پر انہرں نے لاوی کو بھی قتل کرنے کی دھمکی دی پھر لاوی نے ان سے کہا یوسف کو گھر مت لے کر جاؤ اور نہ ہی قتل کرو بلکہ اسے یہاں سے دور بھگا دو اس پر وہ سارے بھائی یوسف(ع) کو لے کر صحرا کے ایک سب سے نمکین پانی والے اور گہرے کنویں کی طرف لے گئے اور یوسف(ع) کو اس میں ڈال دیا اورآپ کی قمیض اتار کر اس پر بکری ذبح کر کے اس کا خون لگا دیا اور اپنے والد محترم یعقوب علیہ سلام کے پاس گھر واپس چلے گئے گھر پہنچنے کے بعد جب یعقوب(ع) نے دریافت کیا کہ یوسف کہاں ہے تو وہ سارے بھائی زمین پر گھٹنوں کے بل بیٹھ کر رونے لگے اور یعقوب(ع) کو وہ خون الود قمیض دیکھا کر کہنے لگے کہ ہم یوسف کو سامان کے پاس چھوڑ کر کھیل رہے تھے جب شام ہوئی تو ہم نے سوچا کہ اب واپس جانا چاہیے جب واپس مڑ کر دیکھا تو یوسف کو بھیڑیا کھا گیا تھا۔ اس پر اپ وہ قمیض لے کرروتے روتے اپنے حجرے میں چلے گئے اور کچھ ہی لمحے بعد باہر ائے اور فرمانے لگے کہ اگر یوسف کو بھیڑیا کھا گیا ہے تو یوسف کی قمیض کیوں نہیں پھٹی۔ اس کے بعد ان بھائیوں کے پاس کوئی جواب نہ تھا کچھ دیر بعد یہودا نے کہا بابا ہم تو خود اس بات پر حیران ہیں پھر یعقوب(ع) نے فرمایا کہ اے میری اولاد توبہ کرلو وہ اللہ سب جانتا ہے۔ اس کے بعد یعقوب(ع) کافی عرصہ اپنے بیٹوں سے ناراض رہے یہاں تک کے ان کی اولادیں بھی ہو گیئں۔ اور نکل مقانی کر کے ان سے علاحدہ ہو گئے۔

قافلے والے

آپ ایک قافلے والوں کے ہاتھ کنویں سے نکالے گئے اور اسی قافلے والوں نے انھیں مصر لا کر عزیز مصر کو بطور غلام بیچ ڈالا عزیزِ مصر نے انھیں اچھی طرح رکھا اور کئی سالوں تک آپ ان کے گھر پر رہے اور جوان ہو گئے جوانی اور خوبصورتی کے عالم میں عزیز مصر کی بیوی زلیخا یوسف علیہ وسلام کے عشق میں مبتلا ہو گئی اور چاہا کہ یوسف سے جنسی تعلق بنائے اور ان کو اپنے کمرے بلوایا خواہش کا اظہار یوسف سے کیا یوسف علیہ وسلام نے ان کی یہ خواہش رد کردی عزیزِ مصر کی بیوی نے زبر دستی کرنی چاہی تو یوسف علیہ وسلام دروازے کی طرف بھاگے اور خدائے پاک کے حکم سے ساتوں دروازے خودبخود کھلتے چلے گئے آخری دروازے پر انھوں نے عزیز مصر کو کھڑا پایا عورت نے جلد چالاکی سے کہا۔ جو تیرے گھر میں برائی کا ارادە کرے یا تو اُس کو قید کیا جائے اور یا سخت عذاب دیا جائے۔ یوسف علیہ اسلام نے فرمایا۔ معاملہ اس کے برعکس ہے۔ یہ ہی مجھ کو اپنا مطلب پورا کر نے کے لیے پھسلاتی تھی۔ اس موقع پر زلیخا کے خاندان کے ایک شیر خوار بچے نے گواہی دی۔ کہ قمیص اگر آگے سے پھٹی ہے۔ تو عورت سچی ہے اور اگر قمیض پیچھے سے پھٹی ہے تو یوسف سچا اور عورت جھوٹی ہے۔ یہ یوسف علیہ السلام کا معجزە تھا کہ دودھ پیتاگہوارہ میں جھولتا ہوا بچہ الله کے حکم سے بول اُٹھا۔ ابن عباسؓ فرماتے ہیں کہ چار بچوں نے الله کے حکم سے کلام کیا۔ فرعون کی مشاطہ کے لڑکے نے۔ یوسف کے گواە نے۔ عیسٰی نے اپنی والدە کی پاکدامنی بیان کی جس کا ذکر سورە مریم میں ہے۔ اور بنی اسرائیل کے ایک بزرگ جریح پر اس طرح کی تہمت لگی تو ایک نوزائیدە بچے نے گواہی دی۔ زلیخا بادشاە وقت ریان بن ولید کی بھانجی تھی۔ لیکن اس واقعے کی خبر شہر بھر میں مشہور ہو گئی۔ شہر کی عورتوں نے زلیخا پر طن و تشنیع شروع کردی۔ چند عورتوں نے کہا دیکھو وزیر کی بیوی اپنے نوکر پر جان دے رہی ہے۔ عزیز کی بیوی صریح غلطی میں ہے۔ اصل میں یوسف علیہ السلام کے حُسن کی شہرت پورے مصر میں پھیل چکی تھی۔ اصل میں ان کو بھی یوسف علیہ السلام کے دیدار کا شوق تھا۔ جیسا کہ قرآن پاک میں ارشاد ہے۔ (شہر کی عورتوں نے کہا کہ عزیز کی بیوی اپنے جوان غلام کو اپنا مطلب نکالنے کے لیے بہلانے پھسلانے میں لگی رہتی ہے۔ اس کے دل میں یوسف علیہ السلام کی محبت بیٹھ گئی ہے۔ وە صریح غلطی میں ہے۔) زلیخا نے جب ان کی اس فریب والی غیبت کا حال سُنا تو زلیخا نے انکو بلایا۔ اور ان کے لیے مجلس مرتب کی۔ اور ان میں سے ہر ایک کے ہاتھ میں چُھری اور سامنے پھل رکھ دیے۔ جن کو وە کاٹ کر کھائیں۔ جیسا کہ قرآن میں ہے۔ اور ان میں سے ہر ایک کو چُھری دی اور کہا زلیخا نے کہ اے یوسف ان کے سامنے نکل آوٴ۔ پھر جب ان عورتوں نے یوسف علیہ السلام کو دیکھاتو بڑا جانا اور اپنے ہاتھ کاٹ لیے اور زبان سے نکلا پاکی ہے الله کو یہ تو انسان نہیں یہ تو یقیناً کوئی بڑا بزرگ فرشتہ ہے۔

یوسف علیہ السلام زلیخا کے کہنے پر جب کمرے سے باھر نکلے تو ان کے رعب و جلال اور جمال سے بے خود ہوگئیں۔ اور ان تیز چُھریوں سے پھل کاٹنے کی جگہ اپنے ہاتھ کاٹ لیے۔ پھر زلیخا نے  یوسف سے کہا چلے جاوٴ۔ یوسف علیہ السلام وآپس کمرے میں آ گئے۔ پھر زلیخا نے کہا کہ دیکھا تم تو ایک دفعہ یوسف کے جمال کو برداشت نہ کرسکیں بتلاوٴ میرا کیا ہوا ہوگا۔ اس پر سب عورتوں نے زلیخا سے معافی مانگی۔

حسن و جمال

حدیث میں ہے کہ رسول کریم ( صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے فرمایا :

جب دنیا بنی تو حُسن کے تین حصے کیے گئے جن میں سے ایک حصہ یوسف علیہ السلام ایک انکی والدە کو دیا گیا اور ایک حصہ پوری دُنیا میں تقسیم کیا گیا۔

اس سے یہ صاف معلوم ہوتا ہے کہ یوسف(ع) کتنے حسین تھے۔

شجرہ نسب

آدم علیہ السلام
چند پشتیں اور
تارخ یا آزر
ابراہیم علیہ السلام (پردادا)
اسحاق علیہ السلام (دادا)
یعقوب علیہ السلام(باپ)
یوسف(ع)دس بھائی اور ایک بہن

دیگر حالاتِ زندگی

یوسف علیہ السلام بن یعقوب بن اسحاق بن ابراہیم کا دین اسلام کی آسمانی کتاب قرآن پاک میں تذکرہ آیاہے۔ اندازہ ہے کہ ان کی بعثت کا زمانہ سترھویں صدی قبل مسیح تھا۔ یہ وہی یوسف عہ ہیں جن کا ذکر یہودیوں کی کتاب تنک اور مسیحیوں کی مقدس کتاب بائبل میں بطور یوسف علیہ السلام آیا ہے۔ یوسف نام مشرق وسطیٰ میں مستعمل ایک نام ہے جبکہ تمام عالم اسلام بھی اس کو استعمال کیاجاتاہے۔ یعقوب کے تمام بیٹوں میں سے صرف یوسف کو ہی مقام نبوت سے سرفراز کیاگیاتھا۔ اگرچہ دیگر انبیا کا تذکرہ قرآن کی مختلف سورتوں میں تھوڑا تھوڑا آیاہے تاہم یوسف عہ کے ذکر سے مزین ایک مکمل سورۃ جس کانام سورۃ یوسف ہے میں آیاہے تاکہ ان کے واقعات کو خاص اہمیت دی جاسکے۔ گو کہ سارا قرآن پاک اہمیت کے حامل واقعات و دروس پر مبنی ہے۔ قرآن پاک میں یوسف عہ کی زندگی کے اہم ترین واقعات کو تفصیل سے بیان کیاگیاہے کہ کسی دیگر نبی کا اس قدر تفصیلی تذکرہ نہیں ہے اسی طرح بائبل سے زیادہ تفصیل بابت یوسف عہ قرآن پاک میں دستیاب ہے۔ علما کے نزدیک یوسف اپنے والد یعقوب عہ کے گیارھویں اور لاڈلے فرزند تھے۔
ابن کثیر کے بیان کے مطابق یعقوب کے بارہ بیٹے تھے اور بنی اسرائیل میں ان سب کے ناموں سے قبیلے موسوم تھے تاہم ان سب قبائل میں سے سب سے عظیم، بہتر اور خاص قبیلہ بنی یوسف ہے۔

مزید دیکھیے

حوالہ جات

    This article is issued from Wikipedia. The text is licensed under Creative Commons - Attribution - Sharealike. Additional terms may apply for the media files.