ذو الکفل

حضرت ذوالکفل علیہ اسلام اللہ کے برگزیدہ نبی تھے۔ ان کا اصل نام ثعلبی کے مطابق بشر بن ایوب علیہ اسلام(عرائس- ص94) اور بروایت جرائری،'عوید' یا 'بن اوریم' [1] تھا۔ ناسخ التواریخ نے 'عوید یاھو' لکھا ہے۔ یہ عبرانی لفظ ہے۔ اس کے معنی "عبد اللہ کے ہیں۔ آپ کا لقب ذوالکفل تھا۔ آپ شام اور روم پر مبعوث ھوئے تھے۔ آپ کو غصہ کبھی نہیں آیا تھا۔ اور آپ بے مثل مہمان نواز تھے۔ آپ مقدمات کے فیصلے بھی کیا کرتے تھے۔


ذو الکفل
 

معلومات شخصیت
پیدائش 1 ہزاریہ ق م 
عملی زندگی
پیشہ نبی  
مزارِ ذو الکفل

پیغمبر۔ قرآن کی دو سورتوں میں آپ کا نام آیا ہے سورت النبیاء میں آیت نمبر 85 اور اس سے صرف اتنا پتا چلتا ہے کہ آپ خدا کے برگزیدہ پیغمبر تھے۔ کب کہاں اور کس قوم کے لیے معبوث ہوئے؟ اس کے بارے میں کچھ معلوم نہیں احادیث سے بھی آپ کے حالات پر روشنی نہیں پڑتی۔ بائبل میں کتابِ ذوالکفل میں آپ کا ذکر موجود ہے ۔ بعض علما کا خیال ہے کہ زوالکفل۔ حرقیل کا لقب ہے۔ بعض کی رائے ہے کہ گوتم بدھ کا لقب ہے اور کفل دراصل کپل وستو کا معرب ہے جو بدھ کا دار الحکومت تھا۔ ذوالکفل کے معنی کپل وستو کا مالک ۔۔

لقب ذوالکفل کی وجوہات

روایت نمبر1:
آپ علیہ اسلام نے ایک نبی علیہ اسلام کی ہدایات اور احکام کی کفالت کی تھی، اس نبی علیہ اسلام نے کہا تھا کہ"جو قائم الیل اور صائم النہارھو" یعنی رات بھر نمازیں پڑھتا ہو اور دن بھر روزے رکھتا ہو اور غصہ کبھی نہ کرتا ہو، میں اسے اپنا جانشین بناوں گا۔ چنانچہ آپ علیہ اسلام نے وعدہ فرمایا اور ان کے احکام کی پوری کفالت کی اور ان کی وصایت کے مالک بنے، اس لیے آپ علیہ اسلام کو ذوالکفل کہا گیا۔[2]
روایت نمبر2:
آپ علیہ اسلام درجہ نبوت پر فائزھونے سے پہلے شام کے بادشاہ کے وزیر تھے۔ اس بادشاہ کو بنی اسرائیل سے سخت دشمنی تھی۔ بادشاہ نے اپنی فوج کا ایک عظیم دستہ بھیج کر بنی اسرائیل کو قتل کروادیا اورسو(100)علما وفضلا اور زعماء کو گرفتار کرالیا۔ حضرت ذوالکفل علیہ اسلام نے بادشاہ سے کہا کہ ابھی ان کے قتل کا وقت نہیں آیا ہے بہتر ھوگا کہ انہیں میرے حوالے کر دیں۔ ذوالکفل علیہ اسلام ان تمام قیدی علما وزعماء کو اپنے ہمراہ لے گئے ان کی عزت و توقیر کی،ان کی بیڑیاں کٹوائیں۔ انہیں خوش گوارکھانا کھلایا۔ اور ان کو وقتِ شب رہاکردیا اور بادشاہ کے قلمرو سے بھاگ جانے کو کہا۔ اور صبح کو حضرت ذوالکفل علیہ اسلام نے ایسی صورت اختیار کی کہ بادشاہ ناراض بھی نہ ہوا اور اٌن کی جان بچ گئی اسی کفالت کو وجہ سے آپ علیہ اسلام کو ذوالکفل علیہ اسلام کہا گیا۔[3]
روایت نمبر3:
اللہ تعالٰیٰ نے آپ علیہ اسلام کو حکم دیا کہ آپ'عمالقہ' کے ایک بادشاہ کنعان کو دعوتِ حق دیں۔ بادشاہ نے کہا، میں بے انتہاگناہ کرچکا ھوں۔ اب میرا ایمان لانا بے سود ہے۔ حضرت ذوالکفل علیہ اسلام نے فرمایا کہ ایسا نہیں ہے۔ اگر تو ایمان لائے گا توخداوندِعالم تجھے بخش دے گا اور نعمات جنت سے متنعم کرے گا۔ بادشاہ نے دلیل وثبوت مانگا۔ آپ علیہ اسلام نے کہا میں اس کی ضمانت وکفالت کروں گا۔ بادشاہ کے ایمان لانے پر آپ علیہ اسلام نے ایک نوشتئہ ضمانت دے دیا۔ بادشاہ ترکِ سلطنت کر کے گوشہ نشین ھوگیا۔ لیل و نہار عبادت میں گزارتا۔ اور بوقتِ موت بادشاہ کو وصیت کے مطابق وہ نوشتہ خط اس کے کفن میں رکھ دیا گیا۔ اللہ نے اسے بخش دیا اور جنت میں بلند مقام پر فائز فرمایا۔ جولوگ بوقتِ کفن وہاں موجود تھے وہ سب کے سب بھی ایمان لے آئے۔ اسی ضمانت و کفالت کی وجہ سے آپ کا لقب ذوالکفل علیہ اسلام ھوگیا۔[4]
روایت نمبر4:
بنی اسرائیل میں تین سگے بھائی تھے۔ ایک ان میں عالم تھا ایک زاہد اور ایک عابد، ان میں سے ایک کوامیری مل گئی وہ حکومت کرنے لگا اور بھ حدبدراہ ھوگیا۔ اس بادشاہ کے پاس اس کا ایک بھائی گیا اور تنبیہ کی اور کہا کہ خدا کے لیے راہ راست پر آجاؤ،گناہ ترک کردو اور مثل سابق بن جاؤ۔ اس بدراہ بادشاہ نے کہا کہ میں نے قلیل عرصے میں کثیر گناہ کرڈالے ہیں اور اب میرے بخشے جانے کا کوئی امکان نہیں ہے۔ اس کے بھائی نے کہا کہ ایسا نہیں ہے،خداوند عالم بڑے سے بڑا گناہ بخشتا ہے تم توبہ کرو، خدا تمہیں معاف کر دے گا۔
بدراہ بادشاہ کے لیے اس کا نیک بھائی حضرت ذوالکفل علیہ اسلام کے پاس آیا اور سارا واقعہ سنایا۔ حضرت ذوالکفل علیہ اسلام نے جواباً کہا کہ اگر وہ توبہ کرلے تو میں اس کے جنت میں لے جانے کا ضامن ھوں۔ اس بھائی نے اپنے بھائی کو بتایا کہ وہ جنت کی ضمانت دینے کو تیار ہیں۔ بدراہ بادشاہ نے کہا کہ ان سے لکھوادے، چنانچہ حضرت ذوالکفل علیہ اسلام ضمانت نامہ لکھ کر، اس کے جنت میں لے جانے کے کفیں بن گئے۔ بنابریں آپ علیہ اسلام ذوالکفل علیہ اسلام کہا گیا۔[5]
روایت نمبر5:
آپ علیہ اسلام سے کہا گیا کہ اس کا وعدہ کرو کہ قوم پر عذاب نازل نہ ھوگا تو آپ علیہ اسلام نے کہا کہ اگر قوم راہ راست پر رہے گی۔ گناہ نہ کرے گی تو اس پر عذاب نازل نہ ھوگا لہذا آپ علیہ اسلام کا لقب ذوالکفل علیہ اسلام قرار پاگیا۔[6]
روایت نمبر6:
آپ علیہ اسلام ہر شخص کی کفالت کرتے تھے اور اپنے ذمہ اس کا کام لے لیتے تھے۔ اس ذمہ داری کی وجہ سے آپ علیہ اسلام کا لقب ذوالکفل علیہ اسلام ہو گیا۔ یعنی ذمّہ داری لینے والا۔[7]
روایت نمبر7:
حضرت ذوالکفل علیہ اسلام کو جہاد کا حکم ملا۔ آپ علیہ اسلام نے اپنی قوم سے جہاد کے لیے کہا۔ قوم نے اس شرط پر آمادگی کا اظہار کیا کہ موت نہ آنے پائے آپ علیہ اسلام نے خدا کی بارگاہ میں قوم کی عرضداشت پیش کی۔ خدانے منظور کیا اور حکم دیا کہ تم ان سے اس کی کفالت میری طرف سے کرلو، میں ان کی موتوں کو ان کی خواہش پر موقوف کردوں گا۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا جب وہ سب ہر طرف محفوظ ہوتے رہے تو بے انتہا کثرت ہو گئی۔ پھر انہوں نے موت مانگی تب وہ مرنے لگے۔[8]

ذوالکفل علیہ اسلام کو غصہ میں لانے کے لیے شیطان کے چیلے کی جدوجہد

ایک مرتبہ شیطان نے اپنے شاگردوں سے کہا کہ کون ہے جوذوالکفل کو غصے میے لائے۔ یہ سن کر ایک شاگرد جس کا نام"ابیض"تھا کہنے لگا کہ یہ کام میں کروں گا۔ چنانچہ ایک روز جب کہ حضرت ذوالکفل علیہ اسلام لوگوں کے مقدمات کے فیصلوں سے فارغ ہوئے اپنے گھر پہنچے اور آرام کا ارادہ کیا تو ابیض آگیا اور کہنے لگا کہ مجھ پر ایک شخص نے ظلم کیا ہے فیصلہ کیجئے، آپ علیہ اسلام نے فرمایا کہ اس کو میرے پاس لے آؤ ابیض نے کہا وہ میرے کہنے سے نہیں آتا، آپ علیہ اسلام نے اس کو ایک انگشتری دی اور کہا کہ میری یہ انگشتری اس کو دکھاؤ اور کہو کہ تم کو ذوالکفل نے بلایا ہے وہ انگشتری لے کر گیا اور آپ علیہ اسلام نے اس کا انتظار کیا اور آرام نہیں کیا اور شب کو بھی آرام نہیں کیا تھا اور دن بھی اسی طرح گزرگیا۔ جب دوسرادن ہوا تو ابیض آیا اور اس نے کہا کہ آپ علیہ اسلام کی انگشتری دیکھ کر بھی وہ نہیں آیا،اب آپ آرام کرنے کے لیے تیار تھے۔ اور دربان نے بھی اس کو سمجھایا کہ دوسرا روزہے انہوں نے آرام نہیں کیا ہے مگراس نے کہا کہ میں مظلوم ھوں، میری فریاد سنو اور فیصلہ کرو چنانچہ جناب ذوالکفل علیہ اسلام نے ایک خط لکھ کر دیا اور کہا کہ میرا یہ خط لے کر جاؤاور اس کو میرے پاس بلا کر لے آؤ۔ چنانچہ آپ علیہ اسلام تیسرے دن بھی اس کے انتظار میں رہے اور پھر شب آگئی اور تمام رات عبادت کی اب چوتھا روز آیا کہ پھر ابیض آگیااور کہنے لگا کہ وہ آپ علیہ اسلام کا خط دیکھ کر بھی نہیں آیا، حضرت ذوالکفل علیہ اسلام یہ سن کر اٌٹھ کھڑے ہوئے اور اس کے ہمراہ روانہ ھوگئے۔ دھوپ سخت تیزتھی چار دن جاگتے ھوے گزرچکے تھے۔ مگر پھر بھی آپ علیہ اسلام کے چہرے پر غصے کے آثارنہ تھے۔ جب آپ راستے میں جا رہے تھے تو وہ شخص غائب ہو گیا۔ اور جاکر شیطان سے کہا کہ میں ذوالکفل علیہ اسلام کو غصہ میں لانے سے معذور ھوں، میں نے بڑی کوشش کی مگر وہ کسی طرح غصہ نہیں کرتے۔

حضرت ذوالکفل علیہ اسلام کی حیات اور وفات

حضرت ذوالکفل علیہ اسلام بعثت کے بعد مسلسل تبلیغ دین کر رہے تھے کہ داعی اجل آپہنیچا اور آپ نے لبیک کہہ کر ملکِ بقا کی راہ لی۔ مورخ طبری نی آپ علیہ اسلام کی عمر 75 سال تحریر کی ہے۔ 95 سال بھی کئی علما تاریخ نے لکھی ہے۔

حوالہ جات

  1. قصص الانبیاء۔ ص302
  2. قصص الجزائری۔ ص 370
  3. روضتہ اصفا۔ ص 113، ناسخ التواریخ جلد۔1 ص238
  4. منتخب المعارف،صدرالدین اصفہانی
  5. تاریخ اسلام
  6. جنات الخلود، دسعدالسعود ابن طاوس
  7. تاریخ اسلام، علامہ محمد بشیر
  8. عرائس ثعلبی۔ ص 95
This article is issued from Wikipedia. The text is licensed under Creative Commons - Attribution - Sharealike. Additional terms may apply for the media files.