خضر

خضر ایک بزرگ شخصیت کا لقب ہے۔ ان کا اصل نام ابو العباس بلیا بن ملکان ہے۔ جبکہ محمد حسین طباطبائی کے مطابق ان کا اصلى نام تالیا بن ملکان بن عبر بن ارفکشد بن سام بن نوح ہے۔[1] بفتح خ، بکسر ض اور بکسر خ وہ بسکون ض، دونوں صحیح۔ قرآن کی سورۃ کہف میں خدا کے ایک بندے کا ذکر ہے[2] اور مفسرین کی اکثریت کے نزدیک اس سے مراد خضر ہیں۔ قرآن میں ہے کہ موسیٰ علیہ السلام اپنے خادم ’’جسے مفسرین نے یوشع لکھا ہے‘‘ کے ساتھ مجمع البحرین جا رہے تھے کہ راستے میں آپ کی ملاقات خدا کے بندے سے ہوئی۔ موسیٰ نے اس سے کہا کہ آپ اپنے علم میں سے کچھ مجھے بھی سکھا دیں تو میں چند روز آپ کے ساتھ رہوں۔ بندے نے کہا کہ آپ جو واقعات دیکھیں گے ان پر صبر نہ کر سکیں گے۔ اگر آپ کو میرے ساتھ رہنا ہے تو مجھ سے کسی چیز کی بابت سوال نہ کرنا۔ اس قول و قرار کے بعد دونوں سفر پر روانہ ہو گئے۔ راستے میں خدا کے بندے نے چند عجیب و غریب باتیں کیں۔ کشتی میں سوراخ، ایک لڑکے کا قتل اور بغیر معاوضہ ایک گرتی ہوئی دیوار کو سیدھا کرنا، موسیٰ سے صبر نہ ہو سکا اور آپ ان باتوں کا سبب پوچھ بیٹھے۔ خدا کے بندے نے سبب تو بتا دیا۔ لیکن موسیٰ کا ساتھ چھوڑ دیا۔[1]

خضر
الخضر کی سترہویں صدی کی مغل دور کی تصویر
الحکیم، العَالِم، العبد الصالح
محترم در زرتشتیت
اسلام
دروز
احمدیہ
مزار دنیا بھر میں ان گنت مزارات
متاثر شخصیات تمام صوفی اولیا اور عارفین

ایک دوسرا قصہ جو خضر سے منسوب ہے، ان کا سکندر اعظم کے ساتھ سفر کرنا ہے۔ جس میں یہ دونوں آب حیات کی تلاش میں روانہ ہوتے ہیں۔ سکندر ایک گھاٹی میں راہ بھول کر رہ جاتا ہے۔ اور خضر چشمہ آب حیات پی لیتے ہیں۔ جس کی وجہ سے وہ قیامت تک زندہ رہیں گے۔ عام اعتقادات کے مطابق خضر کا کام سمندر اور دریاؤں میں لوگوں کی رہنمائی کرنا ہے۔ عوام آپ کو خواجہ خضر کہتے ہیں۔ بعض علما آپ کو پیغمبر نہیں مانتے کیونکہ اس امر کا پتا نہیں چلتا کہ آپ نے کسی قوم کی ہدایت کی ہو۔

مزید دیکھیے

حوالہ جات

  1. الطباطبائی، المیزان فى تفسیر القران، جلد 13،صفحہ 584
  2. القرآن، سورہ کہف آیات 65 اور 82

بیرونی روابط

This article is issued from Wikipedia. The text is licensed under Creative Commons - Attribution - Sharealike. Additional terms may apply for the media files.