سلیمان علیہ السلام

سلیمان علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ نبی تھے۔ سلیمان علیہ السلام داؤد علیہ السلام کے بیٹے تھے۔ سمجھا جاتا ہے کہ انہوں نے متحدہ اسرائیل پر 970 قبل از مسیح سے لے کر 931 قبل از مسیح تک حکومت کی۔ ان کے بعد ملک اسرائیل کے دو حصے (شمالی اور جنوبی) ہو گئے۔

دیگر استعمالات کے لیے، دیکھیے سلیمان (بادشاہ)۔
سلیمان علیہ السلام
معلومات شخصیت
مقام پیدائش یروشلم  
والد داؤد علیہ السلام  
عملی زندگی
پیشہ نبی ، بادشاہ  

سلسلہ نسب

سلیمان کا سلسلہ نسب یہودا (اولاد یعقوب) کے واسطے سے یعقوب سے جا ملتا ہے۔ قرآن پاک میں انھیں اولاد ابراہیم میں شمار کیا ہے۔

حافظ ابنِ عساکر نے آپ کے نسب نامے کی تفصیل یوں بیان کی ہے:

سلیمان بن داؤد بن ایشا بن عوید بن عابر بن سلمون بن نحشون بن عیمنا ذب بن ارم بن حصرون بن فارص بن یہودا بن یعقوب بن اسیاق بن ابراہیم۔

معجزے

داؤد علیہ السلام کی طرح اللہ تعالیٰ نے سلیمان علیہ السلام کو بھی بہت سے معجزے عطا کر رکھے تھے۔

سلیمان علیہ السلام کی سب سے بڑی خصوصیت یہ تھی کہ

مسجد اقصی اور بیت المقدس کی تعمیر

سلیمان علیہ السلام نے مسجد اقصی اور بیت المقدس کی تعمیر شروع کی۔ جن دور دور سے پتھر اور سمندر سے موتی نکال نکال کر لایا کرتے تھے۔ یہ عمارتیں آج تک موجود ہیں۔ اس کے علاوہ آپ نے جنوں سے اور بھی بہت سے کام لیے۔

ایک موقع پر اللہ تعالیٰ نے سلیمان علیہ السلام کو آزمائش میں ڈال دیا۔ آپ کے پاس ایک انگوٹھی تھی، جس پر اسم اعظم کندہ تھا، اس انگوٹھی کی بدولت آپ جن و انس پر حکومت کیا کرتے تھے۔ لیکن وہ انگوٹھی کسی وجہ سے گم ہو گئی اور شیطان کے ہاتھ آگئی۔ چنانچہ آپ تخت و سلطنت سے محروم ہو گئے، ایک مدت کے بعد وہ انگوٹھی شیطان کے ہاتھ سے دریا میں گرپڑی، جسے ایک مچھلی نے نگل لیا، وہ مچھلی سلیمان علیہ السلام نے پکڑ لی، جب اس کو چیرا گیا تو انگوٹھی اس کے پیٹ سے مل گئی اور اسی طرح آپ کو دوبارہ سلطنت اور حکومت مل گئی۔ حالانکہ یہ بات غلط ہے کہ وہ انگوٹھی کی بدولت حکومت کرتے تھے۔ حکومت ان کو اللہ نے اپنے فضل خاص سے دی تھی ۔

ملکہ سبا

سلیمان علیہ السلام کے زمانے میں یمن کے علاقے پر ملکہ سباکی حکومت تھی، ایک دن سلیمان علیہ السلام کا دربار لگا ہوا تھا، جس میں تمام جن وانس، چرند، پرند اپنی اپنی جگہوں پر بیٹھے ہوئے تھے، دیکھا کہ ہدہد غیر حاضر ہے آپ نے فرمایا ہد ہد نظر نہیں آتا اگر اس نے اس غیر حاضری کی معقول وجہ بیان نہ کی تو اسے سخت سزا دی جائے گی، ابھی یہ باتیں ہو رہی تھیں کہ ہدہد بھی حاضر ہو گیا، سلیمان علیہ السلام کے دریافت کرنے پر ہدہد نے بتایا کہ میں اڑتا ہوا یمن کے ملک میں جا پہنچا تھا، جہاں کی حکومت ملکہ سبا کے ہاتھ میں ہے۔ خدا نے سب کچھ دے رکھا ہے اس کا تخت بہت قیمتی اور شاندار ہے لیکن شیطان نے اس کو گمراہ کر رکھا ہے، وہ خدائے واحد کی بجائے آفتاب کی پرستش کرتی ہے۔

ملکہ سبا کو خط

سلیمان علیہ السلام نے فرمایا کہ اچھا تو میرا خط اس کے پاس لے جا، تیرے جھوٹ اور سچ کا امتحان ابھی ہو جائے گا چنانچہ ہدہد آپ کا خط لے کر ملکہ سبا کے پاس پہنچا اور خط اس کے آگے ڈال دیا، ملکہ نے خط پڑھ کر درباریوں کو بلایا اور خط کا مضمون پڑھ کر سنایا، جس میں درج تھا۔

یہ خط سلیمان علیہ السلام کی طرف سے ہے اور اللہ کے نام سے شروع کیا جاتا ہے جو بڑا مہربان اور رحم والا ہے۔ تم کو سرکشی اور سربلندی کا اظہار نہیں کرنا چاہیے اور تم میرے پاس خدا کی فرماں بردار بن کر آؤ۔

سلیمان کا جواب

ملکہ سبا نے بہت سے تحفے تحائف سلیمان علیہ السلام کی خدمت میں بھیجے۔ آپ نے ان تحائف کو دیکھ کر فرمایا کہ ملکہ نے میرے پیغام کا مقصد نہیں سمجھا۔ آپ نے ملکہ کے سفیروں کو دیکھ کر فرمایا۔ تم نہیں دیکھتے کہ میرے پاس کس چیز کی کمی ہے، یہ تحفے واپس لے جاؤ اور اپنی ملکہ سے کہو کہ اگر میرے پیغام کی تعمیل نہ کی تو میں عظیم الشان لشکر لے کر وہاں پہنچوں گا اور تم کو رسوا اور ذلیل کرکے تمہارے شہر سے نکال دوں گا۔
جب قاصد سلیمان علیہ السلام کا پیغام لے کر ملکہ کے پاس گئے تو اس نے یہی مناسب سمجھا کہ خود سلیمان علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہو جائے۔ جب سلیمان علیہ السلام کو ملکہ کی روانگی کا علم ہوا تو آپ نے فرمایا کہ دربار والوں میں کوئی ایسا ہے جو ملکہ کا تخت یہاں لے آئے۔ ایک جن نے کہا کہ آپ کے دربار برخاست ہونے تک میں تخت لاسکتا ہوں اور میں امین بھی ہوں۔ آپ کے وزیر آصف بن برخیا نے کہا کہ میں آنکھ جھپکتے تک اس کا تخت پیش کر سکتا ہوں۔ اس نے اسم اعظم پڑھا تو ملکہ سبا کا تخت حاضر ہو گیا۔[1]

ملکہ سبا کا قبول اسلام

اور جونہی سلیمان علیہ السلام نے مڑ کر دیکھا تو ملکہ کا تخت وہاں موجود تھا۔ اس پر سلیمان علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا اور فرمایا کہ خدا کا یہ فضل میری آزمائش کے لیے ہے تاکہ وہ دیکھے کہ اس حالت میں بھی اس کا شکر ادا کرتا ہوں یا نہیں۔ اب آپ نے حکم دیا کہ اس کی شکل بدل دی جائے جب ملکہ سلیمان علیہ السلام کے دربار میں پہنچی تو اس سے پوچھا گیا، کیا تیرا تخت بھی ایسا ہی ہے جیسا یہ ہے،اس نے کہا یہ تو وہی ہے۔ ملکہ سبا نے سلیمان علیہ السلام کے پیغمبرانہ جاہ و جلال کو دیکھ کر دین حق قبول کر لیا۔

ازواج

سلیمان علیہ السلام کے پاس ایک سو زوجات تھیں جس کا ثبوت صحیح بخاری کی مندرجہ ذیل حديث سے ملتا ہے : ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ بیان کرتے ہیں :

سلیمان بن داود علیہم السلام نے کہا کہ آج رات میں سو عورتوں کے پاس جاؤں گا ، ہرعورت ایک بچہ جنے گی جو اللہ تعالیٰ کے راستے میں قتال کرے گا ، تو فرشتے نے کہا انشاء اللہ کہہ لو ، تو انہوں نے نہ کہا اور ان شاء اللہ کہنا بھول گئے تواس رات سب کے پاس گئے تو ان میں سے کسی نے بھی کچھ نہ جنا صرف ایک نے آدھا بچہ جنا ۔ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : کہ اگر وہ ان شاء اللہ کہہ لیتے تو ایسا نہ ہوتا اور ان کی ضرورت کو پورا کرنے کا باعث بن سکتا تھا ۔ [2]


اور صحیح مسلم کی حدیث نمبر (1654) میں نوے عورتوں کا ذکر ہے اور ایک اور روایت جسے امام بخاری نے جہاد کے لیے اولاد طلب کرنے کے باب میں تعلیقا ذکر کیا ہے جس میں ننانوے عورتوں کا ذکر ہے ۔

نبوت

داؤد علیہ السلام کے انتقال کے وقت، ایک روایت کے مطابق سلیمان علیہ السلام کی عمر پچیس سال تھی۔ اللہ تعالیٰ نے نبوت اور حکومت دونوں میں سلیمان علیہ السلام کو داؤد علیہ السلام کا جانشین بنایا۔ یوں نبوت کے ساتھ ساتھ اسرائیلی حکومت بھی ان کے قبضے میں آ گئی۔

ترجمہ:

اور سلیمان علیہ السلام داؤد علیہ السلام کا وارث ہوا۔

تفسیر

یہاں وراثت سے مراد مال و دولت اور حکومت و سلطنت نہیں ہے، کیونکہ سلیمان علیہ السلام داؤد علیہ السلام کی واحد اولاد نہ تھے۔ ان کی سو بیویاں تھیں ان سے اولادیں بھی تھیں اور داؤد علیہ السلام کی وفات کے وقت آپ کے انیس بیٹوں کا ذکر ملتا ہے۔ اگر وراثت سے مراد مال و دولت، جائداد اور سلطنت ہے تو پھر انیس کے انیس بیٹے وارث ٹھہرتے اور سلیمان علیہ السلام کی تخصیص باقی نہ رہتی۔ اب چونکہ یہاں وارث ہونے میں سلیمان علیہ السلام کا ذکر ہے تو وہ علم اور نبوت ہی کی وراثت ہو سکتی ہے۔ (وان العلماء ورثۃ الأنبیاء) بے شک علما ہی انبیا کے وارث ہوا کرتے ہیں (علم کے ) پھر دوسری بات یہ بھی ہے کہ انبیا کی وفات کے بعد ان کی اولاد ان کے مال و دولت کی وارث نہیں ہوتی بلکہ تمام مال و اسباب مساکین و فقرا کا حق سمجھتے ہوئے خدا کے نام پر صدقہ کر دیا جاتا ہے کیونکہ یہ حقیقت ہے کہ انبیا کے مال کی میراث تقسیم نہیں ہوا کرتی۔ رسول پاکﷺ کا ارشاد مبارک ہے کہ

ہم جماعت انبیا ہیں۔ ہمارے ورثے بٹا نہیں کرتے۔ ہم جو کچھ چھوڑ جائیں، صدقہ ہے۔

وفات

سلیمان علیہ السلام کی وفات کا واقعہ بڑا دلچسپ ہے۔ سلیمان علیہ السلام کے حکم سے جنوں کی ایک جماعت ہیکل سلیمانی (بیت المقدس) بنانے میں مصروف تھی کہ سلیمان علیہ السلام کی وفات کا وقت آن پہنچا، آپ ایک لاٹھی کے سہارے کھڑے ہو گئے اور انتقال فرما گئے۔ جنوں کو آپ کی موت کی خبر نہ ہوئی اور وہ اپنے کام میں لگے رہے۔ آخر ایک عرصہ کے بعد جب ان کی لاٹھی کو دیمک نے چاٹ لیا تو وہ بودی ہو کر ٹوٹ کر گر پڑی اور سلیمان علیہ السلام جو لاٹھی کے سہارے کھڑے تھے وہ بھی گر پڑے۔ اس وقت جنوں کو معلوم ہوا کہ سلیمان علیہ السلام تو مدت سے انتقال کرچکے ہیں۔

دولت

سلیمان علیہ السلام اپنے زمانے کے امیر ترین آدمی تھے۔ اگر آج کے حساب سے دیکھا جائے تو وہ 2200 ارب ڈالر کے مالک تھے۔ اپنے 39 سالہ دور حکومت میں انہیں ہر سال 25 ٹن سونا بطور نذرانہ ملتا تھا۔[3]

اقتباس

روایت ہے کہ یروشلم کے شمال میں بحیرہ روم کے ساحل پر ٹائر (Tyre) نامی ایک بڑا تجارتی شہر تھا۔ وہاں کے بادشاہ نے اپنا سفیر بادشاہ سلیمان کے پاس بھیجا اور اپنے شہر میں امن و امان اور لوٹ مار کی بگڑتی صورت حال پر مشورہ مانگا۔ بادشاہ سلیمان نے کہا کہ اگر اچھے تعلقات قائم کرنے ہیں تو اپنے بادشاہ کو کہو کہ اپنی سب سے چہیتی اور خوبصورت بیٹی کی مجھ سے شادی کر دے۔ جب شادی ہو گئی تو بادشاہ سلیمان نے سفیر سے مسئلے کی تفصیلات پوچھیں۔ سفیر نے بتایا کہ شہر کے مزدور روٹی نہ ملنے کی وجہ سے اکثر لوٹ مار کرتے ہیں اور پولیس انہیں اس جرم میں قتل کرتی ہے۔ اس وجہ سے شہر کی آبادی کم ہوتی جا رہی ہے اور ہمارے بادشاہ کا خیال ہے کہ عوام ہی ہماری اصل دولت ہیں۔
بادشاہ سلیمان اس نتیجے پر پہنچے کہ جب شہر میں گندم کی بہتات ہوتی ہے اور قیمتیں بہت گری ہوئی ہوتی ہیں تو بھی تنخواہ اتنی کم ہوتی ہے کہ مزدور گندم خرید نہیں سکتے۔ اس کے برعکس جب گندم کی شدید قلت ہوتی ہے اور قیمت زیادہ ہوتی ہے تو تنخواہ بڑھنے کے باوجود گندم مزدوروں کی قوت خرید سے باہر ہوتی ہے۔
بادشاہ سلیمان نے سفیر کو خط دیا اور کہا کہ تمہاری زندگی اس خط کی رازداری سے مشروط ہے۔ اپنے بادشاہ کو میرا مشورہ دو کہ اپنے شہر میں امپورٹ اور ایکسپورٹ پر سے کسٹم ڈیوٹی بالکل ختم کر دے۔ اور دو سال بعد دوبارہ میرے پاس آنا۔
بادشاہ سلیمان اس بات سے اچھی طرح واقف تھے کہ ٹائر کے شہر میں کسٹم کے حکام رشوت خور ہیں۔ جب وہاں کسٹم کا محکمہ ہی ختم کر دیا گیا تو تاجروں کو درآمد برآمد کی بڑی آزادی مل گئی ورنہ پہلے انہیں 20 فیصد کسٹم ڈیوٹی ادا کرنی پڑتی تھی۔ بحری جہازوں کے کپتانوں اور کاروانوں نے ٹائر شہر کا رخ کیا۔ کچھ ہی دنوں میں وہاں حکومتی کرپشن سے آزاد تجارت کی وجہ سے بڑی خوشحالی آ گئی۔
دو سال بعد شہر ٹائر کا سفیر دوبارہ بادشاہ سلیمان کے دربار میں حاضر ہوا۔ بادشاہ سلیمان نے اس سے کہا کہ تمہیں کچھ کہنے کی ضرورت نہیں ہے۔ میں اپنے یہودی بینکاروں کی مدد سے تمہاری خوشحالی سے واقف ہوں۔ اپنے بادشاہ کو میرا دوسرا مشورہ دو کہ کسٹم کا محکمہ دوبارہ بحال کر دے مگر اس دفعہ کسٹم کا کام صرف اعداد و شمار جمع کرنا ہو گا، ڈیوٹی وصول کرنا نہیں ہو گا۔ اب پھر دو سال بعد آنا۔
دو تین سال بعد جب سفیر پھر حاضر ہوا تو بادشاہ سلیمان نے تیسرا خط دیا اور سفیر کو دو سال بعد بلایا۔ خط میں لکھا تھا کہ اپنے شہر میں بڑی ضیافت کا اہتمام کرو جس میں شہر کے سارے بینکروں کا آنا لازمی ہو اور نہ آنے والے بینکر کو فوراً شہربدر کر دیا جائے۔ ضیافت کے اختتام پر ٹائر کے بادشاہ نے کہا کہ ہمارے پاس درست ترین اعداد و شمار ہیں کہ کس نے کتنی درآمد اور برآمد کی ہے اور ان اعداد و شمار پر تم بھی مکمل اعتبار کرتے ہو۔ آج سے ہر بینکر اپنی ہر درآمد اور برآمد پر ماہانہ 10 فیصد ٹیکس دے گا۔ بینکروں نے بڑا شور مچایا مگر بادشاہ نے ایک نہ سنی۔
دو سال بعد شہر ٹائر کا سفیر پھر بادشاہ سلیمان کی خدمت میں حاضر ہوا۔ اب اس کا شہر انتہائی خوشحال ہو چکا تھا۔ بادشاہ سلیمان نے اسے آخری خط دیا اور کہا کہ اب واپس یہاں آنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اس خط میں ٹائر کے بادشاہ کو مشورہ دیا گیا تھا کہ دوبارہ بینکاروں کو ضیافت پر بلاو اور جو بینکار نہ آئے اسے قتل کر کے اس کے بیوی بچوں کو غلام بنا کر بیچ دیا جائے۔ اور انہیں حکم دو کہ اگر شہر ٹائر میں قیمتیں 10 فیصد بڑھ جاتی ہیں تو بینکروں کو 11 فیصد ٹیکس دینا پڑے گا۔ اور اگر قیمتیں 15 فیصد بڑھ جاتی ہیں تو بینکروں کو 13 فیصد ٹیکس دینا پڑے گا۔ اور اگر قیمتیں 20 فیصد بڑھ جائیں تو ٹیکس 15 فیصد ہو جائے گا۔ اس زمانے کی دستاویزات سے پتہ چلتا ہے کہ ٹائر کے شہر میں اگلے 70 سالوں تک قیمتیں مستحکم رہی تھیں۔[4]

حوالہ جات

1۔ القرآن، 2:249

2۔ تہامی، ص 46

3۔ ادارہ سیارہ ڈائجسٹ ص 272 تا 276

4۔ مہر، غلام رسول، ص 89

5۔ ادارہ سیارہ ڈائجسٹ ص 272 تا 276

6۔ مہر، غلام رسول، ص 82

7۔ ادارہ سیارہ ڈائجسٹ ص 272 تا 276

8۔ القرآن، ص: 20

9۔ القرآن، البقرہ:2:252

10۔ ا محمد حفیظ الرحمن سینوہاروی، مولانا، ص 92

11۔ القرآن، المائدہ:78

12۔ القرآن، الاعراف: 166

13۔ عبد العزیز ہزاروی، مولانا ص 568۔ 569

14۔ محمد شفیع، مولانا، ص 496

15۔ القرآن، ص: 24

16۔ القرآن، ص:26

17۔ قاضی عبد الرزاق، ص206

18۔ القرآن، ص: 20

19۔ القرآن، بنی اسرائیل : 55

20۔ القرآن، سبا:11۔ 10

21۔ عبد الرحمن، مولانا، ص 36

22۔ حفیظ الرحمن سیوہاروی، مولانا، ص 93

23۔ مہر، ص 83

24۔ القرآن (38: 30)

25۔ عطا اللہ ساجد مولانا، ص 572

26۔ عبد الرحمن، مولانا، ص 37۔ 38

27۔ عطا اللہ ساجد، مولانا، ص 587

28۔ عطا اللہ ساجد، مولانا، ص 587

29۔ القرآن، ص :25

30۔ مولانا عبد الرحمن، مولانا، ص 41۔ 42

31۔ عطا اللہ ساجد، ص 586

32۔ قاضی عبد الرزاق، ص 214

33۔ القرآن، النمل: 16

34۔ قاضی عبد الرزاق، حافظ قاضی ص 209

35۔ عبد الرحمن، مولانا، ہدایت کے چراغ۔ سیرت انبیائے کرام، ص 84۔ 85

36۔ القرآن، النمل:21۔ 20

37۔ عبد الرزاق، حافظ قاضی، تذکرۃ الانبیا، ص 228۔ 229

38۔ غلام نبی بن عنایت اللہ، ص 369

39۔ القرآن، ص:33۔ 30

40۔ القرآن، ص: 35۔ 34

41۔ القرآن ص:36

42۔ چراغ علی، مولوی، ص 156

43۔ ایضاً ص 154

44۔ معارف القرآن جلد دوم ص 116

45۔ القرآن، الانبیا:82

46۔ القرآن، سبا: 13۔ 12

47۔ چراغ علی، مولوی، ص 152۔ 153

48۔ قصص القرآن، ص 110۔ 111

49۔ القرآن، البقرہ:248

50۔ تفہیم القرآن، جلد اول ص 189

51۔ شاہکار اسلامی انسائیکلوپیڈیا ص409

52۔ معارف القرآن جلد ہفتم‘ ص۔ 276

53۔ القرآن، النمل: 19

54۔ تہامی، ص 53

This article is issued from Wikipedia. The text is licensed under Creative Commons - Attribution - Sharealike. Additional terms may apply for the media files.