مسجد نبوی

مسجد نبوی سعودی عرب کے شہر مدینہ منورہ میں قائم اسلام کا دوسرا مقدس ترین مقام ہے۔ مکہ مکرمہ میں مسجد حرام مسلمانوں کے لیے مقدس ترین مقام ہے جبکہ بیت المقدس میں مسجد اقصی اسلام کا تیسرا مقدس مقام ہے ۔

مسجد نبوی
ٱلْمَسْجِدُ ٱلنَّبَويّ
موجودہ سعودی عرب میں مقام
بنیادی معلومات
مقام مدینہ منورہ، حجاز، سعودی عرب[1]
متناسقات 24.468333°N 39.610833°E / 24.468333; 39.610833
مذہبی انتساب اسلام
ملک سعودی عرب
انتظامیہ حکومت سعودی عرب
سربراہی امام:
  • علی بن عبدالرحمان الحذیفی
  • صلاح البدیر
  • عبد الباري عوض الثبيتی
  • عبد المحسن القاسم
  • حسين عبد العزيز آل شيخ
  • احمد بن طالب حميد
  • عبد الله بعيجان
تعمیراتی تفصیلات
نوعیتِ تعمیر مسجد
طرز تعمیر کلاسیکی اور معاصر اسلامی طرز تعمیر؛ عثمانی طرز تعمیر؛ اسلامی طرز تعمیر
تاریخ تاسیس c. 622
تفصیلات
گنجائش 600,000 (حج کے دوران 1,000,000 تک اضافہ)
مینار 10
مینار کی بلندی 105 میٹر (344 فٹ)


بسلسلہ مضامین:
اسلام

تعمیر

مسجد الحرام کے بعد دنیا کی سب سے اہم مسجد ”مسجد نبوی“ کی تعمیر کا آغاز 18 ربیع الاول سنہ 1ھ کو ہوا۔ حضور اکرم ﷺ نے مدینے ہجرت کے فوراً بعد اس مسجد کی تعمیر کا حکم دیا اور خود بھی اس کی تعمیر میں بھر پور شرکت کی۔ مسجد کی دیواریں پتھر اور اینٹوں سے جبکہ چھت درخت کی لکڑیوں سے بنائی گئی تھی۔ مسجد سے ملحق کمرے بھی بنائے گئے تھے جو آنحضرت ﷺ اور ان کے اہل بیت اور بعض اصحاب رضی اللہ تعالٰی عنہم کے لیے مخصوص تھے ۔

مسجد نبوی جس جگہ قائم کی گئی وہ دراصل دو یتیموں کی زمین تھی۔ ورثاء اور سرپرست اسے ہدیہ کرنے پر بضد تھے اور اس بات کو اپنے لیے بڑا اعزاز سمجھتے تھے کہ ان کی زمین شرف قبولیت پا کر مدینہ منورہ کی پہلی مسجد بنانے کے لیے استعمال ہو جائے مگر محمدﷺ نے بلا معاوضہ وہ زمین قبول نہیں فرمایا، دس دینار قیمت طے پائی اور آپ ﷺ نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہم کو اس کی ادائیگی کا حکم دیا اور اس جگہ پر مسجد اور مدرسہ کی تعمیر کا فیصلہ ہوا۔ پتھروں کو گارے کے ساتھ چن دیا گیا۔ کھجور کی ٹہنیاں اور تنے چھت کے لیے استعمال ہوئے اور اس طرح سادگی اور وقار کے ساتھ مسجد کا کام مکمل ہوا۔ مسجد سے متصل ایک چبوترا بنایا گیا جو ایسے افراد کے لیے دار الاقامہ تھا جو دوردراز سے آئے تھے اور مدینہ منورہ میں ان کا اپنا گھر نہ تھا۔

آپﷺ نے اپنے ہاتھ سے مسجد نبوی کی تعمیر شروع کی جبکہ کئی مسلم حکمرانوں نے اس میں توسیع اور تزئین و آرائش کا کام کیا۔ گنبد خضراء کو مسجد نبوی میں امتیازی خصوصیت حاصل ہے جس کے نیچے محمدﷺ، حضرت ابوبکر صدیق اور حضرت عمر فاروق کے روضہ مبارک ہیں۔ یہ مقام دراصل ام المومنین حضرت عائشہ کا حجرہ مبارک تھا۔ ریاست مدینہ میں مسجد نبوی کی حیثیت مسلمانوں کے لیے عبادت گاہ، کمیونٹی سینٹر، عدالت اور مدرسے کی تھی۔

مسجد کے درمیان میں عمارت کا اہم ترین حصہ محمدﷺ کا مزار واقع ہے جہاں ہر وقت زائرین کی بڑی تعداد موجود رہتی ہے۔ مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ یہاں مانگی جانے والی ہر دعا مقبول ہوتی ہے۔ خصوصاً حج کے موقع پر رش کے باعث اس مقام پر داخلہ انتہائی مشکل ہوجاتا ہے۔ اسی مقام پر منبر رسول بھی ہے۔ سنگ مرمر کا بنا حالیہ منبر عثمانی سلاطین کاتیار کردہ ہے

سعودی عرب کے قیام کے بعد مسجد نبوی میں کئی مرتبہ توسیع ہوئی لیکن شاہ فہد بن عبد العزیز کے دور میں مسجد کی توسیع کاعظیم ترین منصوبہ تشکیل دیا گیا جس کے تحت حضرت محمد ﷺ کے دور کے تمام شہر مدینہ کو مسجد کا حصہ بنادیا گیا۔ اس عظیم توسیعی منصوبے کے نتیجے میں مسجد تعمیرات کا عظیم شاہکار بن گئی۔

مسجد نبوى كا مقام

Sun rises over al-Masjid al-Nabawi

رسول اللہ ﷺ نے اسی مسجد کے سنگریزوں پر بیٹھ کر معاشرہ کے تمام مسائل کو قرآن کریم کی روشنی میں حل فرمایا۔ آپ کی تمام اصلاحی اور تعمیری سرگرمیاں یہیں سے انجام پاتی تھیں۔ سینکڑوں مہاجرین کی اس چھوٹی سی بستی میں منتقل ہونے کے نتیجہ میں آبادی کے مسائل تھے اور ان نووارد افراد کو معاشرے میں ضم کرنے کے مسائل تھے۔ اس مسئلہ کو مسجد نبوی کے صحن میں بیٹھ کر مواخات کی شکل میں حل کیا گیا۔ نئی مملکت کے تمام سیاسی مسائل کے حل اور قانون سازی کے لیے اس مسجد نے پارلیمنٹ ہاوس کا کردار ادا کیا۔ عدالتی فیصلوں کے لیے اسی مسجد نے سپریم کورٹ کا کردار ادا کیا۔ ہر قسم کی تعلیمی کارروائیاں اسی مسجد سے سر انجام پانے لگیں۔ تمام رفاہی کاموں کا مرکز یہی مسجد قرار پائی۔ تجارت و زراعت کے مسائل کے لیے یہی کامرس چیمبر اور یہی ایگریکلچر ہاوس قرار دیا گیا۔ دفاعی اقدامات اور جنگی حکمت عملی کے لیے بھی یہی مسجد بطور مرکز استعمال ہونے لگی۔ رسول اللہ ﷺ نے جب کسی علاقے میں جہاد کے لیے لشکر روانہ کرنا ہوتا تو اسی مسجد سے اس کی تشکیل کی جاتی اور ایک موقع پر مجاہدین نے جہاد کی تربیت کا مرحلہ بھی اس مسجد کے صحن میں مکمل کیا۔ حضرت عائشہ ا فرماتی ہیں کہ حبشہ کے کچھ لوگ آئے ہوئے تھے اور عید کے روز مسجد نبوی کے صحن میں وہ نیزہ بازی کی مشق کر رہے تھے جسے میں نے رسول اللہ ﷺ کی اوٹ میں کھڑے ہوکر دیکھا۔ رسول اللہ ﷺ نے مسجد ومدرسہ کو مسلم معاشرہ کا محور بنا دیا تھا اور مسجد ومدرسہ کا کردار زندگی کے ہر شعبہ پر محیط تھا، جس کے نتیجے میں دیکھتے ہی دیکھتے صدیوں کے الجھے ہوئے تمام مسائل حل ہو گئے اور مدینہ منورہ کا معاشرہ دنیا کے لیے ایک عظیم الشان مثال بن گیا۔

رسول اکرم ﷺ نے مسجد نبوی کو صرف عبادت کی جگہ قرار نہیں دیا بلکہ اس سے لوگوں کی سماجی، سیاسی، علمی اور زندگی کے دیگر امور سے متعلق مسائل کے حل کے لیے بھی استفادہ کرتے تھے اسی لیے یہ مسجد مسلمانوں کے لیے انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔ برسوں سے لاکھوں مسلمان مسجد نبوی اوراس کے احاطے میں واقع روضہ نبوی کی زیارت کے لیے نہایت عقیدت و احترام اور ذوق و شوق کے ساتھ مدینے جاتے ہیں ۔

اسلام میں مسجد نبوی کی اہمیت

اسلام میں حرم المکی کے بعد سب سے زیادہ اہمیت اسی حرم النبوی کو حاصل ہے۔

قرآن مجید میں

قرآن کریم کی سورۃ التوبہ میں مسجد نبوی کی طرف اشارہ اس آیت میں ملتا ہے:

لَا تَقُمْ فِيهِ أَبَدًا لَمَسْجِدٌ أُسِّسَ عَلَى التَّقْوَى مِنْ أَوَّلِ يَوْمٍ أَحَقُّ أَنْ تَقُومَ فِيهِ فِيهِ رِجَالٌ يُحِبُّونَ أَنْ يَتَطَهَّرُوا وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُطَّهِّرِين
ترجمہ:جو مسجد پہلے روز سے ہی تقویٰ کی بنیاد پر بنائی گئی ہے وہ اس بات کے لیے زیادہ موزوں ہے کہ تم اس میں (عبادت کے لیے) کھڑے ہو، اس میں ایسے لوگ (عبادت کرنے) آتے ہیں جو پاک رہنا پسند کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ پاک رہنے والوں سے محبت کرتا ہے۔

احادیث میں

اس مسجد کی اہمیت کا اندازہ رسول ﷺ کی درج ذیل احادیث سے لگایا جاسکتا ہے:

عن جَابِرٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قال صَلَاةٌ في مَسْجِدِي أَفْضَلُ من أَلْفِ صَلَاةٍ فِيمَا سِوَاهُ إلا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ وَصَلَاةٌ في الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ أَفْضَلُ من مِائَةِ أَلْفِ صَلَاةٍ فِيمَا سِوَاهُ۔[2]
حضرت جابر () سے روایت ہے كہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمايا کہ ميرى اس مسجد ميں نماز (اجر كے اعتبار سے )دوسرى مساجد ميں نماز پڑهنے سے ايك ہزار گنا افضل ہے، سوائے مسجد حرام كے اور مسجد حرام ميں نماز پڑهنا اس كے سوا مساجد ميں ايك لاكھ نمازيں پڑهنے سے افضل ہے۔

ایک اور جگہ فرمایا:

لاَ تَشُدُّوا الرِّحَالَ إِلاَّ إِلَى ثَلاَثَةِ مَسَاجِدَ مَسْجِدِى هَذَا وَالْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَالْمَسْجِدِ الأَقْصَى
ترجمہ:تین مساجد کے علاوہ کسی دوسری مسجد کا (زیادہ ثواب حاصل کرنے کی نیت سے ) سفر اختیار نہ کیا جائے۔ یعنی مسجد الحرام،مسجد النبوی اور مسجد الاقصیٰ

ایک اور حدیث ہے :

مَا بَيْنَ بَيْتِي وَمِنْبَرِي رَوْضَةٌ مِنْ رِيَاضِ الْجَنَّةِ وَمِنْبَرِي عَلَى حَوْضِي
یعنی کہ آپ ﷺ کے منبر شریف اور حجرہ مبارک کا درمیانی حصّہ جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے۔

شاہ عبد اللہ كا تعميرى منصوبہ

سعودی عرب کے فرمانروا شاہ عبداللہ نے مسجد نبوی کی تعمیر و توسیع کے لیے 4ارب 70کروڑ ریال کے عظیم منصوبے کا اعلان کیا ہے۔ منصوبے کے مطابق مسجد نبوی کے مشرقی حصے کی توسیع کی جائے گی جس کے بعد اس حصہ میں مزید 70 ہزار نمازیوں کی گنجائش ہو جائے گی۔ اس منصوبہ میں مسجد نبوی میں 182 بڑی خودکار چھتریاں بھی نصب کی جائیں گی تاکہ زائرین سورج کی گرمی اور بارش سے محفوظ رہ سکیں۔

مسجد نبوى كى توسيع

تاريخ میں، مسجد نبوى كى توسيع نو مرتبه هوئى.

توسيعتوسيع كى تاريخزمانہآمركل علاقہ (مربع میٹر)[3]نسبة الزيادةدروازوں كى تعدادميناروں كى تعدادديگر
پہلى مرتبہ مسجد كو بنانبے والے1 هـ
622م
النبوینبی محمد1,050-3-پہلى مرتبہ
پہلى توسيع7 هـ
628م
نبوینبی محمد2,475136%3-غزوة خيبر کے بعد مكمل ہوئى
دوسرى توسيع17 هـ
638م
خلفاء راشدينعمر بن خطاب3,57544.4%6-كنواں
تيسرى توسيع29 هـ - مطابق:30 هـ|30 هـ
649م - 650م
خلفاء راشدينعثمان بن عفان4,07113.9%6-جنوبى توسيع مكمل كى
چوتهى توسيع88 هـ - مطابق:91 هـ|91 هـ
707م - 710م
اموى دورعمر بن عبد العزيز
بأمر من الوليد بن عبد الملك
6,44058.2%204حجره نبوى كو مسجد مين داخل كيا
پہلی مرتبہ اذان كى جگہ بنوائى
پہلى مرتبہ كهوكهلى محراب بنوائى
پانچويں توسيع161 هـ - مطابق:165 هـ|165 هـ
779م - 782م
عہد عباسيہابو عبد الله محمد المہدی8,89038%243-
ترميمات وإصلاحات654 هـ
1275م
مكمل عہد عباسيہ
شروع عہد مملوكيہ
شروع كى المستعصم بالله
مكمل كى ظاہر بيبرس
8,8900%243تمت بعد الحريق الأول للمسجد
ترميمات وإصلاحات881 هـ
1476م
عہد مملوكيہقايتباي8,8900%243-
چھٹی توسيع886 هـ - 888 هـ
1481م - 1483م
عهد مملوكيةقايتباي9,0101.3%44تمت بعد الحريق الثاني للمسجد
ترميمات وإصلاحات947 هـ
1540م
عهد عثمانيهسليمان القانونی9,0100%44-
ساتويں توسيع (مجيديہ)1265 هـ - 1277 هـ
1849م - 1860م
عهد عثمانىيهعبد المجيد الأول10,30314.4%55عهد عثمانى كى بنيادى عمارة
آٹھویں توسيع1372 هـ - 1375 هـ
1952م - 1955م
سعوديہعبدالعزیز ابن سعود16,32758.5%10450 ملين سعودى ريال كى لاگت
نوىں توسيع1406 هـ - 1414 هـ
1985م - 1994م
سعوديہفہد بن عبدالعزیز98,327
و235,000 چوك
502%4110سب سے بڑى توسيع

مسجد نبوی کے مؤذنین

  • حضرت بلال حبشیؓ
  • كامل بن صالح بن احمد نجدى.
  • مصطفى بن عثمان بن حسن نعمانى.
  • عبد المطلب بن صالح بن احمد نجدى.
  • عصام بن حسين بن عبد الغنى بخارى.
  • عبد الرحمن بن عبد الإله بن إبراهيم خاشقجي (شيخ المؤذنين).
  • عمر بن يوسف بن محمد كمال۔
  • سامي بن محمد حسن ديولی۔
  • فيصل بن عبد الملك بن محمد سعيد نعمان۔
  • سعود بن عبد العزيز بن حسين بخاری۔
  • محمد بن ماجد بن حمزة حكيم۔
  • إياد بن أحمد بن عباس شكری۔
  • أشرف بن محمد بن حمزة عفيفی۔
  • عبد المجيد بن سلامة بن عودة السريحی۔
  • عمر بن نبيل سنبل۔[حوالہ درکار]

بیرونی روابط

حوالہ جات

  1. Google maps۔ "Location of Masjid an Nabawi"۔ Google maps۔ اخذ شدہ بتاریخ 24 ستمبر 2013۔
  2. ابن ماجہ، حدیث :1406
  3. بوابة الحرمين الشريفين: عمارة وتوسعة المسجد النبوي

تصاویر

This article is issued from Wikipedia. The text is licensed under Creative Commons - Attribution - Sharealike. Additional terms may apply for the media files.