ابراہیم (اسلام)

ابراہیم علیہ السلام وہ پہلے پیغمبر تھے جن کو اللہ نے مُسلمان نبی پیغمبر ابو الانبیاء، خلیل اللہ امام الناس اور حنیف کہہ کر پُکارا۔[1]

ابراہیم (اسلام)
 

معلومات شخصیت
پیدائش دہائی 1810 ق م 
اُر  
وفات الخلیل  
اولاد اسماعیل علیہ السلام ، اسحاق علیہ السلام  

اللہ تعالی نے اپنے اس دوست برگزیده اور پیارے نبی کو قرآن مجید میں امتہ (النحل : 120) امام الناس (البقره: 124) حنیف اور مسلم (آل عمران: 67) کے ناموں سے بار بار بار کیا ہے۔ اکثر انبیائے کرام انہی کی اولاد سے ہیں۔[1]

ابراہیم علیہ السلام کے نام کی وجہ تسمیہ کے بارے میں بائبل کا بیان ہے کہ خدا تعالی ان سے مخاطب ہو کر کہتا ہے۔

دیکھ میرا عہد تیرے ساتھ ہے اور تو بہت قوموں کا باپ ہو گا۔ اور تیرا نام ابرام نہیں بلکہ ابراہام ہو گا۔ کیونکہ میں نے تجھے قوموں کا باپ بنایا ہے۔ (پیدائش 170:5)[1]

اکثر ماہرین کے نزدیک ابراہام یا ابراہیم ؑ بھی لفظ ہے۔ ہو سکتا ہے کہ پہلے آپ کا نام ابراہم ہو اور پھر ابراہام یا ابو رہام ہو گیا ہو۔مُسلمان اُن کو خلیل اللہ (اللہ کا دوست) کہتے ہیں۔ ابراہیم کی نسل سے کئی پیغمبر پیدا ہوئے، جن کا تذکرہ عہدنامہ قدیم میں ہے۔ اسلام کی کتاب قرآن مجید میں بھی بہت سارے ایسے انبیا کا ذکر ہے جو ابراہیم کی نسل میں سے تھے۔ اسلام کے آخری نبی مُحمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بھی ابراہیم کی نسل میں سے ہیں۔[1]

شرک، ستارہ پرستی اور بت سازی کے خلاف اپنی قوم اور اوروں کے ساتھ ان کا مجادلہ و محاجہ بڑے زور سے پیش کیا گیا ہے۔ ابراہیم کا بچپن میں ہی رشد عطا کیا گیا اور قلب سلیم بھی عنایت فرمایا گیا۔ تکوینی عجائبات اور ملکوت السمٰوت والارض ان کے سامنے تھے۔ انہیں کے مشاہدے سے اُن کو یقین کامل حاصل ہوا۔

بت پرستی کے خلاف ابراہیم کے جہاد کا ذکر بھی قران کریم میں کئی بار آیا ہے۔قرآن حکیم میں حضرت ابراہیم ؑ اور آذر کے اختلاف عقائد کو جس طرح نمایاں کیا گیا ہے اور جس طرح آپ اپنی قوم کے شرک سے متنفر اور متصادم ہوئے۔ اس سے ہم آپ کی عظمت و جلالت کی حقیقت کو بھی پاسکتے ہیں۔ اور اپنے لیے شمع ہدایت بھی روشن کر سکتے ہیں۔ اس وجہ سے مسلمانوں کو ملت براہیمی ہونے پر فخر ہے۔

ان کے بارے میں یہ توکہیں وضاحت نہیں ہوئی کہ کیا وحی ان پر نازل ہوئی تھی یا ان کی بعثت محض روحانی تھی؟ البتہ قرآن مجید میں ایک جگہ اس امر کی تصدیق ہوئی ہے کہ اللہ تعالی آپ سے ہمکلام تھا۔ اہل تاریخ کے نزدیک متعدد صحیفے تھے جو ابراہیم پر نازل ہوئے۔ ایک صحیفہ جو ان کی طرف سے منسوب ہے یونانی سے انگریزی میں ترجمہ ہو کر شائع ہو چکا ہے۔

حضرت ابراہیم ؑ کے دین کے بارے میں قرآن مجید میں کئی جگہ پر ارشار ہوتا ہے کہ آپ موحد مسلم اورراست رو تھے۔ ارشاد ہوتا ہے۔

اللہ تعالیٰ کا فرما ن ہے: ثُمَّ أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ أَنِ اتَّبِعْ مِلَّةَ إِبْرَاهِيمَ حَنِيفًا وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ

”پھر ہم نے تیری طرف (حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی طرف) وحی کی کہ ابراہیم ؑ راست رو (مسلم) کے دین پر چل اور وہ مشرکوں میں سے نہیں تھا “

اللہ تعالیٰ کا فرما ن ہے: يَا أَهْلَ الْكِتَابِ لِمَ تُحَآجُّونَ فِي إِبْرَاهِيمَ وَمَا أُنزِلَتِ التَّورَاةُ وَالإنجِيلُ إِلاَّ مِن بَعْدِهِ أَفَلاَ تَعْقِلُونَ هَاأَنتُمْ هَؤُلاء حَاجَجْتُمْ فِيمَا لَكُم بِهِ عِلمٌ فَلِمَ تُحَآجُّونَ فِيمَا لَيْسَ لَكُم بِهِ عِلْمٌ وَاللّهُ يَعْلَمُ وَأَنتُمْ لاَ تَعْلَمُونَ مَا كَانَ إِبْرَاهِيمُ يَهُودِيًّا وَلاَ نَصْرَانِيًّا وَلَكِن كَانَ حَنِيفًا مُّسْلِمًا وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ إِنَّ أَوْلَى النَّاسِ بِإِبْرَاهِيمَ لَلَّذِينَ اتَّبَعُوهُ وَهَـذَا النَّبِيُّ وَالَّذِينَ آمَنُواْ وَاللّهُ وَلِيُّ الْمُؤْمِنِينَ

”اے اہل کتاب! تم ابراہیم ؑ کے بارے میں کیوں جھگڑتے ہو۔ حالانکہ توریت اور انجیل اس کے بعد ہی اتاری گئیں۔ پھر کیا تم عقل سے کام نہیں لیتے۔ سنو! تم وہ ہو جو اس میں جھگڑ چکے، جس کا تمہیں علم تھا پھر اس میں کیوں جھگڑتے ہو جس کا میں علم نہیں اور اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔ ابراہیم ؑ  نہ یہودی تھا اور نہ عیسائی، لیکن وہ راست رو اور فرماں بردار (مسلم اور حنیف)تھا  اور وہ مشرکوں میں سے تھا۔ يقينا ابراہیم ؑ کے بہت نزدیک وہ لوگ ہیں جنھوں نے اس کی پیروی کی اور یہ نبی اور وہ جو اس پہ ایمان لائے اورالله مومنوں کا ولی ہے۔

قرآن مجید کی تقریبا بائیس سورتوں میں حضرت ابراہیم ؑ کا ذکر آتا ہے۔ آپ مسلمانوں کے رسول مقبول حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے جد امجد ہیں۔ گویا مسلمان نہ صرف امت محمدیہ سے تعلق رکھتے ہیں بلکہ امت براہیمیہ سے بھی متعلق ہیں۔ مسلمان حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ساتھ حضرت ابراہیم ؑ اور ان کی اولاد پر بھی درود بھیجتے ہیں-

نسب نامہ

عرب مورخوں نے ابراہیم کا سلسلہ نسب یوں بیان کیا ہے : - ابراہیم بن تارخ بن ناحور بن ساروغ بن ارغو بن فالغ بن عابر بن شالخ بن ارفخشد بن سام بن نوح۔ یہ سلسلہ نسب انجیل میں سے لیا گیا ہے۔ اکثر علما نے ابراہیم کو عجمی قرار دیا ہے۔ اس لفظ کی کئی صورتیں بیان کی ہیں مثلاََ اِبراھام، اِبراہم، ابرھم، ابراہیم، براہم اور براہمہ۔ انجیل کے پُرانے عہد نامے کے مطابق خُدا ابراہیم سے یہ فرماتا ہے کہ تیرا نام پھر ابرام نہیں کہا جائے گا بلکہ ابراھام [2](ابورھام کا مطلب بہت زیادہ اولاد والا یا گروہ کثیر کا باپ) ہوگا۔

قرآن میں

ابراہیم کے نام سے قرآن مجید میں ایک سورۃ بھی ہے جو قران مجید کی چودہویں صورت ہے جو مکہّ میں نازل ہوئی۔ اللہ نے اُنہیں اُمت [3] اور امام النّاس [4] کے لقب سے پُکارا اور اُنہیں بار بار حنیف بھی کہا۔ قراآن مجید میں اُن کو مسلمان یا مسلم بھی کہا گیا ہے۔ اور یہ کہا گیا ہے کہ ابراہیم ملتِ حنیفہ تھے۔ اللہ نے آلِ ابراہیم کو کتاب و حکمت سے نواز اور اُنہیں ملکِ عظیم عطا کیا۔ اللہ تعالیٰ نے اُنہیں خُلّت کا شرف بخشا اُنہیں خلیل اللہ (اللہ کا دوست ) کہا اور سب اُمتوں میں اُنہیں ہر دلعزیز بنایا۔ اکثر انبیائے کرام ان کی اولاد سے ہیں۔ قران مجید میں حضرت ابراہیم کے احوال و اوصاف بالصّراحت مذکور ہیں ۔

حالات زندگی

النووی نے نقل کیا ہے کے ابراہم اقلیم(صوبہ) بابل کے مقام کوثا میں پیدا ہوئے اور ان کی والدہ کا نام نونا تھا ایک اور روایت ہے کہ ابراہیم کلدانیہ کے شہر اُر میں پیدا ہوئے -

تورات کی رو سے حضرت ابراہیم ؑ 2200 ق۔ م میں عراق کے قصبہ عر (ار) میں پیدا ہوئے۔ ناحور اور حاران ان کے بھائی تھے اور حضرت لوط حاران کے بیٹے تھے۔ قرآن حکیم اور تورات اس امر پر متفق ہیں کہ آپ کی قوم بت پرست تھی۔ آپ کے والد کا نام تورات میں تارخ لکھا ہے۔ لیکن قرآن حکیم نے اسے صنم سازی اور بت تراشی کی وجہ سے آذر کہہ کر یاد کیا ہے۔ (دیکھیں آذر)

قرآن حکیم کی رو سے آپ کو بچپن ہی میں ”رشد" (الانبیاء= 51) اور قلب سلیم (صافات= 84) عطا ہوا اور کائنات کے مشاہدے سے آپ کو یقین کامل حاصل ہوا۔ (الانعام = 75)

تالمود میں جو یہودیوں کی کتاب ہے سیرت ابراہیم ؑ کے عراقی دور کا حوالہ ملتاہے جو قرآن مجید کے مقابلے میں خلاف واقعہ اور بے بنیاد معلوم ہوتا ہے۔ تالمود کی رو سے حضرت ابراہیم ؑ کی پیدائش کے روز نجومیوں نے آسمان پر ایک علامت رکھ کر نمرود بادشاہ کو مشورہ دیا کہ تارخ کے ہاں جو بچہ پیدا ہو اسے قتل کر دے۔ چنانچہ نمرود حضرت ابراہیم ؑ کے قتل کے درپے ہوا۔ مگر تارخ نے اپنے ایک غلام کا بچہ اس کے بدلے میں دے کر اپنے بچے کو بچا لیا۔ اس کے بعد تارخ نے اپنی بیوی اور بچے کو ایک غار میں چھپا دیا جہاں وہ دس برس تک رہے۔ گیارہویں سال حضرت ابراہیم ؑ کو حضرت نوح ؑ کے پاس بھیجا۔ جہاں وہ انتالیس برس تک رہے۔ تالمود کے بیان کے مطابق حضرت ابراہیم ؑ نے اپنی بھتیجی سارہ سے نکاح کر لیا اور جب ابراہیم ؑ پچاس برس کے تھے تو آپ حضرت نوح ؑ کا گھر چھوڑ کر اپنے والد کے گھر آگئےجہاں وہ تبلیغ کرتے رہے۔ وغیرہ وغیرہ (17 : 17, 69 : 11)[1]

اس دوران حضرت ابراہیم ؑنے حیات بعد الموت کے راز سے آگای چاہی تو اللہ تعالی نے تشفی فرمائی۔

اللہ تعالیٰ کا فرما ن ہے: وَإِذْ قَالَ إِبْرَاهِيمُ رَبِّ أَرِنِي كَيْفَ تُحْيِـي الْمَوْتَى قَالَ أَوَلَمْ تُؤْمِن قَالَ بَلَى وَلَـكِن لِّيَطْمَئِنَّ قَلْبِي قَالَ فَخُذْ أَرْبَعَةً مِّنَ الطَّيْرِ فَصُرْهُنَّ إِلَيْكَ ثُمَّ اجْعَلْ عَلَى كُلِّ جَبَلٍ مِّنْهُنَّ جُزْءًا ثُمَّ ادْعُهُنَّ يَأْتِينَكَ سَعْيًا وَاعْلَمْ أَنَّ اللَّهَ عَزِيزٌ حَكِيمٌ

اور جب ابراہیم ؑ نے کہا اے میرے رب! مجھے دکھا دے کہ تو کس طرح مردے کو زندہ کرتا ہے۔ فرمایا کیا (اس پر) تیرا ایمان نہیں؟ بولے۔ کیوں نہیں۔ایمان تو ہے لیکن میں اپنے دل کے لیے اطمینان چاہتا ہوں۔ فرمایا! اچھا تو چار پرندے لے۔ پھر انھیں اپنے ساتھ مانوس کرلے، پھر ان میں سے ہر پہاڑ پر ان کا گوشت کا ایک ٹکڑا رکھ ۔ پھر انھیں بلا۔ وہ تیری طرف دوڑ کر آئیں گے اور یقین رکھ کہ اللہ بڑی عزت والا اور حکمت والا ہے “

حضرت ابراہیم ؑ شروع ہی سے بت پرستی کے خلاف تھے۔ ان کی قوم کا سب سے بڑا دیوتا سورج تھا۔ آپ نے تبلیغ کے سلسلے میں سب سے پہلے اپنے والد کو سمجھانے کی کوشش کی۔ قرآن مجید میں حضرت ابراہیم ؑ اور ان کے بزرگ کا مباحث اس طرح سے مذکور ہے۔

اللہ تعالیٰ کا فرما ن ہے: وَاذْكُرْ فِي الْكِتَابِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّهُ كَانَ صِدِّيقًا نَّبِيًّا إِذْ قَالَ لِأَبِيهِ يَا أَبَتِ لِمَ تَعْبُدُ مَا لَا يَسْمَعُ وَلَا يُبْصِرُ وَلَا يُغْنِي عَنكَ شَيْئًا يَا أَبَتِ إِنِّي قَدْ جَاءنِي مِنَ الْعِلْمِ مَا لَمْ يَأْتِكَ فَاتَّبِعْنِي أَهْدِكَ صِرَاطًا سَوِيًّا يَا أَبَتِ لَا تَعْبُدِ الشَّيْطَانَ إِنَّ الشَّيْطَانَ كَانَ لِلرَّحْمَنِ عَصِيًّا يَا أَبَتِ إِنِّي أَخَافُ أَن يَمَسَّكَ عَذَابٌ مِّنَ الرَّحْمَن فَتَكُونَ لِلشَّيْطَانِ وَلِيًّا قَالَ أَرَاغِبٌ أَنتَ عَنْ آلِهَتِي يَا إِبْراهِيمُ لَئِن لَّمْ تَنتَهِ لَأَرْجُمَنَّكَ وَاهْجُرْنِي مَلِيًّا قَالَ سَلَامٌ عَلَيْكَ سَأَسْتَغْفِرُ لَكَ رَبِّي إِنَّهُ كَانَ بِي حَفِيًّا وَأَعْتَزِلُكُمْ وَمَا تَدْعُونَ مِن دُونِ اللَّهِ وَأَدْعُو رَبِّي عَسَى أَلَّا أَكُونَ بِدُعَاء رَبِّي شَقِيًّا

اور کتاب میں ابراہیم ؑ کا ذکر کرو ،بے شک وہ سچا نبی تھا۔ جب اس نے اپنے ابی سےکہا اے میرے بزرگ تو کیوں اس کی عبادت کرتا ہے جو نہ سنتا ہے اور نہ دیکھتا ہے اور نہ تیرے کچھ کام آ سکتا ہے۔ اے میرے بزرگ مجھے وہ علم ملا ہے جو تجھے نہیں ملا۔ سو تو میری پیروی کر میں تجھے سیدھا رستہ دکھاؤں گا۔“اے میرے بزرگ! شیطان کی عبادت نہ کرے کیونکہ شیطان رحمان کا نافرمان ہے۔ اے میرے بزرگ میں ڈرتا ہوں کہ مجھے رحمان کی طرف سے کوئی عذاب آپہنچے تو تو شیطان کا دوست بن جائے۔اس نے کہا: اے ابراہیم ؑ کیا تو میرے معبودوں سے منہ موڑتا ہے۔ اگر تو باز نہ آئے تو میں تجھے سنگسار کروں گا اور تو ایک مدت تک مجھے سے الگ ہو جا۔کہا تجھ پر سلامتی ہو میں اپنے رب سے تیرے لیے استغفار کروں گا وہ مجھے پر بہت مہربان ہے اور میں تم سے اور ان سے جنھیں تم اللہ کے سوا پکارتے ہو الگ ہوتا ہوں اور میں اپنے رب سے دعا کروں گا امید ہے میں اپنے رب سے دعا کر کے محروم نہیں رہوں گا “

حضرت ابراہیم ؑ نے بت پرستی کو کن کن دلائل و براہین سے رد کیا اس کی بھی ایک جھلک قرآن مجید میں موجود ہے۔ ارشاد ہوتا ہے۔

اللہ تعالیٰ کا فرما ن ہے: وَإِذْ قَالَ إِبْرَاهِيمُ لأَبِيهِ آزَرَ أَتَتَّخِذُ أَصْنَامًا آلِهَةً إِنِّي أَرَاكَ وَقَوْمَكَ فِي ضَلاَلٍ مُّبِينٍ وَكَذَلِكَ نُرِي إِبْرَاهِيمَ مَلَكُوتَ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ وَلِيَكُونَ مِنَ الْمُوقِنِينَ فَلَمَّا جَنَّ عَلَيْهِ اللَّيْلُ رَأَى كَوْكَبًا قَالَ هَـذَا رَبِّي فَلَمَّا أَفَلَ قَالَ لا أُحِبُّ الآفِلِينَ فَلَمَّا رَأَى الْقَمَرَ بَازِغًا قَالَ هَـذَا رَبِّي فَلَمَّا أَفَلَ قَالَ لَئِن لَّمْ يَهْدِنِي رَبِّي لأكُونَنَّ مِنَ الْقَوْمِ الضَّالِّينَ فَلَمَّا رَأَى الشَّمْسَ بَازِغَةً قَالَ هَـذَا رَبِّي هَـذَآ أَكْبَرُ فَلَمَّا أَفَلَتْ قَالَ يَا قَوْمِ إِنِّي بَرِيءٌ مِّمَّا تُشْرِكُونَ إِنِّي وَجَّهْتُ وَجْهِيَ لِلَّذِي فَطَرَ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضَ حَنِيفًا وَمَا أَنَاْ مِنَ الْمُشْرِكِينَ وَحَآجَّهُ قَوْمُهُ قَالَ أَتُحَاجُّونِّي فِي اللّهِ وَقَدْ هَدَانِ وَلاَ أَخَافُ مَا تُشْرِكُونَ بِهِ إِلاَّ أَن يَشَاء رَبِّي شَيْئًا وَسِعَ رَبِّي كُلَّ شَيْءٍ عِلْمًا أَفَلاَ تَتَذَكَّرُونَ وَكَيْفَ أَخَافُ مَا أَشْرَكْتُمْ وَلاَ تَخَافُونَ أَنَّكُمْ أَشْرَكْتُم بِاللّهِ مَا لَمْ يُنَزِّلْ بِهِ عَلَيْكُمْ سُلْطَانًا فَأَيُّ الْفَرِيقَيْنِ أَحَقُّ بِالأَمْنِ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ

اور جب ابراہیم ؑ نے اپنے ابی آذر سے کہا۔ تو بتوں کو معبود بناتا ہے میں تجھے اور تیری قوم کو کھلی گمراہی میں دیکھتا ہوں اور اسی طرح ہم ابراہیم ؑ کو آسمانوں اور زمین کی بادشاہت دکھاتے رہے تاکہ وہ یقین کرنے والوں میں سےہو- جب اس پر رات چھا گئی۔ اس نے ستارہ دیکھا۔ کہا کیا یہ میرا رب ہے؟ سو جب وہ ڈوب گیا، کہا میں ڈوب جانے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ پھر جب چاند کو چمکتا ہوا دیکھا۔ کہا کیا یہ میرا رب ہے؟ سو جب وہ بھی ڈوب گیا ، کہا ، اگر میرے رب نے مجھے ہدایت نہ دی ہوتی تو میں یقین گمراہ لوگوں میں سے ہو جاتا۔کہا اے میری قوم میں اس سے بری ہوں جو تم شریک ٹهراتے ہو۔ میں نے یک سو ہو کر اپنا منہ اس کی طرف کیا ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے اور میں مشرکوں میں سے نہیں اور اس قوم نے اس سے جھگڑا کیا۔ کہا کیا تم مجھ سے اللہ کے بارے میں جھگڑتے ہو اور اس نے مجھے یقیناً ہدایت کی ہے اور میں اس سے نہیں ڈرتا جس کو تم اس کے ساتھ شریک کرتے ہو ہاں یہ کہ میرا رب کچھ چاہے۔ میرے رب کا علم تمام چیزوں کو لیے ہوئےہے۔ پس کیا تم نصیحت نہیں پکڑتے۔اور میں کس طرح اس سے ڈروں جس کو تم شریک بناتے ہو اور تم نہیں ڈرتے کہ تم نے اللہ کے ساتھ اسے شریک بنایا ہے، جس کے لیے اس نے تم پر کوئی سند نہیں اتاری، پس (بتاؤ) دونوں گروہوں میں سے کون امن کا زیادہ حق دار ہے۔ اگر تم جانتے ہو

اس کے بعد حضرت ابراہیم ؑ نے اپنی قوم کو شرک سے باز رکھنا چاہا اور جب وہ نہ مانے تو ایک بار جب سارے لوگ کسی تہوار پر گئے ہوئے تھے آپ نے تمام بتوں کو توڑ دیا اور کلہاڑا بڑے بت کے کندھے پر رکھ دیا۔ اس پر قوم بہت سیخ پا ہوئی اور آپ کے لیے سزا تجویز کرنے گئی۔ قرآن مجید میں یہ واقعوں بیان ہواہے۔

جب اس نے اپنے ابی اور اپنی قوم سے کہا یہ مورتیں کیا ہیں۔ جن کی تنظیم میں تم لگے ہو۔ (یعنی عبادت کرتے ہو انھوں نے کہا ہم نے اپنے بڑوں کو (اسی طرح) عبادت کرتے ہوئے پایا۔ کہا تم اور تمہارے بزرگ کھلی گمراہی میں انھوں نے کہا کیا توہمارے پاس حق لایا ہے یا دل دلگی کرنے والوں میں سےہے؟(یہ نہیں)بلکہ تمہارا رب آسمانوں اور زمین کا رب ہے-جس نے انہیں پیدا کیا اور میں اس پر گواہی دینے والوں میں سے ہوں اور اللہ کی قسم میں تمھارے  پیٹھ پیچھے ، چلے جانے کےبعد تمھارے بتوں کو   تکلیف پہنچاؤں گا-سوان (بتوں) کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا۔ مگر ایک بڑے (بت) کو رہنے دیا۔ تاکہ وہ اس کی طرف رجوع کریں۔ کہنے لگے: ہمارے معبودوں کے ساتھ کس نے یہ فعل کیا ہے۔ یقیناً وہ ظالموں میں سے ہے۔ لوگوں نے کہا: ہم نے ایک نوجوان کو ان کا ذکر کرتے سنا تھا جسے ابراہیم ؑ کہتے ہیں۔ کہنے لگے اسے لوگوں کے سامنے لاؤ تاکہ وہ گواہی دیں۔ کہا اے ابراہیم ؑ کیا تو نے ہمارے معبودوں کے ساتھ یہ کام کیا ہے؟ اس نے کہا (نہیں) بلکہ ان کا بڑا یہ ہے ،سو ان سے پوچھو اگر وہ بولتے ہیں۔ سو انھوں نے اپنے آپ کی طرف رجوع کیا اور کہنے لگے۔ تم خود ہی ظالم ہو۔ پھر اپنے سر اوندھے ڈال کر گر گئے (یعنی قائل ہو گئے ) تو جانتا ہے کہ یہ بات نہیں کرتے‘ کہا تو کیا اللہ کو چھوڑ کر تم اس کی عبادت کرتے ہو جو تمھیں کچھ نفع نہیں دیتا اور نہ ہی نقصان پہنچا سکتا ہے۔ تف ہے تم پر اور اس پر جس کی تم عبادت اللہ کے سوا کرتے ہو کیا تم عقل سے کام نہیں لیتے۔ کہنے لگے اسے جلا دو اور اپنے دیوتاؤں کی مدد کرو اگر تم کرنے والے ہو۔

تالمود کے بیان کے مطابق حضرت ابراہیم ؑ نے اپنی بھتیجی سارہ سے نکاح کر لیا اور جب ابراہیم ؑ پچاس برس کے تھے تو آپ حضرت نوح ؑ کا گھر چھوڑ کر اپنے والد کے گھر آگئے۔ جہاں بارہ مہینوں سے منسوب بارہ بتوں کی پرستش کی جاتی تھی۔ آپ نے پہلے تو والد کو سمجھانے کی کوشش کی، لیکن جب وہ نہ مانا تو آپ نے ان بتوں کو توڑ دیا۔ تارخ نے اس کی شکایت نمرود سے کی کہ پچاس برس پہلے میرے ہاں جو لڑکا پیدا ہوا تھا آج اس نے یہ حرکت کی ہے۔ نمرود نے حضرت ابراہیم ؑ کو بلا کر باز پرس کی۔ آپ نے سخت لہجہ میں جواب دیا۔ نمرود نے آپ ؑ کو جیل بھجوا دیا۔ اور معاملہ کو شوری کے سپرد کر دیا۔ شوری کے ارکان نے مشورہ دیا کہ اس شخص کو آگ میں ڈال دیا جائے۔ چنانچہ آگ کا بڑا الاؤ تیار کیا گیا اور حضرت ابراہیم ؑ کے ساتھ آپ کے بھائی اور خسرحاران کو بھی آگ میں ڈال دیا گیا۔ کیونکہ نمرود نے جب تارخ سے یہ پوچھا کہ تیرے بیٹے کو تو میں نے پیدائش کے دن ہی قتل کرنا چاہا تو تو نے اسے بچا کر دوسرا بچہ کیوں قتل کروایا تو اس نے کہا کہ میں نے حاران کے کہنے پر یہ حرکت کی تھی۔ اس لیےاسے بھی مستوجب سزا گردانا گیا۔آگ میں گرتے ہی حاران جل مرا اور لوگوں نے دیکھا کہ حضرت ابراہیم ؑ آگ میں ٹہل رہے ہیں۔[1]

قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے۔

اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: قُلْنَا يَا نَارُ كُونِي بَرْدًا وَسَلَامًا عَلَى إِبْرَاهِيمَ

”ہم نے کہا اے آگ! ابراہیم ؑ پر ٹھنڈک اور سلامتی ہو جا“ (نیز دیکھیے "آتش نمرود)

اسی دور میں ایک کافر بادشاہ نمرود بن کنعان (سنحارب بن نمرود بن کوش بن کنعان بن حام بن نوح) نے بھی آپ سے مناظرہ کیا تھا۔

اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِي حَآجَّ إِبْرَاهِيمَ فِي رِبِّهِ أَنْ آتَاهُ اللّهُ الْمُلْكَ إِذْ قَالَ إِبْرَاهِيمُ رَبِّيَ الَّذِي يُحْيِـي وَيُمِيتُ قَالَ أَنَا أُحْيِـي وَأُمِيتُ قَالَ إِبْرَاهِيمُ فَإِنَّ اللّهَ يَأْتِي بِالشَّمْسِ مِنَ الْمَشْرِقِ فَأْتِ بِهَا مِنَ الْمَغْرِبِ فَبُهِتَ الَّذِي كَفَرَ وَاللَّهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ

”اور کہا تھا کہ میرے معبودنے ملک و سلطنت بخشی ہے۔ حضرت ابراہیم ؑ نے کہا: ”میرا معبود اور پروردگار تو وہ ہے جو زندہ کرتا اور مارتا ہے۔ نمرود نے کہا میں بھی (جسے چاہوں)زندہ رہنے دوں اور جسے چاہوں مار ڈالوں۔ ابراہیم ؑ نے جواب دیا اچھا تو اللہ سورج کو مشرق سے نکالتا ہے۔ آپ اسے مغرب سے نکالیں۔ اس پر وہ کافر ہکا بکا رہ گیا“

قوم ابراہیم

قوم ابراہیم سے مراد ان کی وہ قوم ہے جس کو انہوں نے توحید کی دعوت دی، پھر ان سے مایوس ہو کر اللہ کے حکم سے انہوں نے ہجرت فرمائی۔ قرآن میں دو مرتبہ ذکر موجود ہے

اللہ تعالیٰ کا فرما ن ہے: أَلَمْ يَأْتِهِمْ نَبَأُ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ قَوْمِ نُوحٍ وَعَادٍ وَثَمُودَ وَقَوْمِ إِبْرَاهِيمَ وِأَصْحَابِ مَدْيَنَ وَالْمُؤْتَفِكَاتِ أَتَتْهُمْ رُسُلُهُم بِالْبَيِّنَاتِ فَمَا كَانَ اللّهُ لِيَظْلِمَهُمْ وَلَـكِن كَانُواْ أَنفُسَهُمْ يَظْلِمُونَ


اللہ تعالیٰ کا فرما ن ہے: وَقَوْمُ إِبْرَاهِيمَ وَقَوْمُ لُوطٍ

قوم ابراہیم : اللہ تعالیٰ نے اس قوم سے اپنی نعمت چھین کر اس کو طرح طرح کے عذاب میں مبتلا کیا اور ایک حقیر مچھر یا چیونٹی سے ان کے بادشاہ نمرود بن کنعان کو ہلاک کر دیا اور اس کے ساتھیوں کو غارت کر دیا ۔[5] قوم ابراہیم کو ہلاک نہ کیا گیا چونکہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اللہ سے ان کی ہلاکت کے لیے کوئی مطالبہ نہ کیا تھا بلکہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے ان کو اور ان کی بت پرستی کو چھوڑ کر ان سے علیحدگی اختیار کرلی تھی ۔[6] قوم ابراہیم (علیہ السلام) دنیا سے مٹ گئی اور ایسی مٹی کہ اس کا نام و نشان تک باقی نہ رہا، اس میں سے اگر کسی کو بقا نصیب ہوا تو صرف ابراہیم (علیہ السلام) اور ان کے مبارک فرزندوں (اسماعیل (علیہ السلام) و اسحاق (علیہ السلام) کی اولاد ہی کو نصیب ہوا۔ قرآن میں اگرچہ اس عذاب کا ذکر نہیں کیا گیا ہے جو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے نکل جانے کے بعد ان کی قوم پر آیا، لیکن اس کا شمار معذب قوموں ہی میں کیا گیا ہے،[1]

قران کریم میں ہے کہ

اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: قَدْ كَانَتْ لَكُمْ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ فِي إِبْرَاهِيمَ وَالَّذِينَ مَعَهُ إِذْ قَالُوا لِقَوْمِهِمْ إِنَّا بُرَاء مِنكُمْ وَمِمَّا تَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللَّهِ كَفَرْنَا بِكُمْ وَبَدَا بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمُ الْعَدَاوَةُ وَالْبَغْضَاء أَبَدًا حَتَّى تُؤْمِنُوا بِاللَّهِ وَحْدَهُ إِلَّا قَوْلَ إِبْرَاهِيمَ لِأَبِيهِ لَأَسْتَغْفِرَنَّ لَكَ وَمَا أَمْلِكُ لَكَ مِنَ اللَّهِ مِنْ شَيْءٍ رَبَّنَا عَلَيْكَ تَوَكَّلْنَا وَإِلَيْكَ أَنَبْنَا وَإِلَيْكَ الْمَصِيرُ (4) رَبَّنَا لَا تَجْعَلْنَا فِتْنَةً لِلَّذِينَ كَفَرُوا وَاغْفِرْ لَنَا رَبَّنَا إِنَّكَ أَنْتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ

بلا شک و شبہہ ابراہیم اور ان کی جمیعت مومنوں کے لیے اسوہ حسنہ ہے

چنانچہ ضمناََ نتیجہ بھی اخذ کیا جاسکتا ہے کہ ان مہاجرین کی فہرست میں آزر کا نام شامل نہیں تھا جسے ابراہیم سلام کرکے رخصت کرچُکے تھے۔ یاقوت الحموی نے بھی آزر کے شام میں وارد ہونے پر شک ظاہر کیا ہے لیکن تاریخ سے جو بہت حد تک اسرائلیات سے ماخوز ہے پتہ چلتا ہے کہ ابراہیم کے والد تارخ کی وفات حاران میں واقع ہوئی۔ اس سے اس گمان کی مزید تائید ہوتی ہے کہ تارخ اور آزر دو مختلف ہستیاں ہیں۔ دیارِ غریب میں پہنچ کر ابراہیم ؑ سرگرداں رہے۔جیسا کہ تالمود کا بیان ہے اس کی رو سے بالآخر آپ ؑ کنعان کے علاقے میں مقیم ہو گئے۔لیکن آپ ؑ کے ساتھ آذر نہیں تھا ۔[1]

(دیکھیں آذر)

اولاد

ابراہیم کی بیٹے اسمٰعیل ہاجرہ ؑ کے بطن سے اور اسحاق ؑ سارہ ؑ کے بطن سے پیداہوئے اور اس کے علاوہ کئی اور بچے ایک کنعانی زوجہ کے بطن سے۔

ابراہیم ؑ کی بیوی سارہ ؑ (سارہ بنت لابن بن بشویل بن ناحور) جو براہیم ؑ کے گھرانے سے تعلق رکھتی تھیں کی کوئی اولاد نہ تھی اس لیے انہوں نے ہاجرہ سے نکاح کر لیا۔

سارہ ؑ کے متعلق مشہور ہے کہ وہ خوب صورت تو تھیں لیکن بانجھ عورت تھیں۔ جب آپ ؑ مصر پہنچے تو فرعون مصر نے ان کی خوب صورتی کے پیش نظر انہیں اپنے مال میں رکھنا چاہا۔ اس موقع پر تورات میں آپ ؑ کو کاذب کہا گیا ہے کہ آپ ؑ نے اپنی سترہ سالہ بیوی سارہ ؑ کو بہن کہہ کر مصریوں کی دستبرد سے محفوظ رکھنا چاہا۔[1]

بائبل میں آیا ہے

سو جب ابراہام مصر پہنچا، مصریوں نے اس کی عورت کو دیکھا کہ وہ نہایت خوبصورت ہے اور فرعون کے امیروں نے بھی اسے دیکھا اور فرعون کے حضور اس کی تعریف کی اور اس عورت کو فرعون کے گھر لے گئے اور اس نے اس کے سبب ابراہام پر احسان کیا کہ اس کو بھیڑ بکری یا گائے بیل گدھے اور غلام لونڈی اور گدھیاں اور اونٹ لے۔ پھر خداوند نے فرعون اور اس کے خاندان کو ابراہام کی بیوی سری (سارہ) کے سبب بڑی مار دی۔ تب فرعون نے ابراہام کو بلا کر اس سے کہا کہ تو نے مجھ سے کیا کہا؟ کیوں نہ بتایا کہ یہ میری بیوی ہے تو نے کیوں کہا کہ یہ میری بہن ہے؟ یہاں تک کہ میں نے اسے اپنی جورو بنانے کو لیا۔ دیکھ یہ تیری بیوی حاضر ہے۔ اس لے اور چلا جا اور فرعون نے اس کے حق میں لوگوں کو حکم دیا۔ تب انھوں نے اسے اور اس کی بیوی کو اور جو کچھ اس کا تھا روانہ کیا۔" (پیدائش: 14تا 20)[1]

یوسف ظفر اپنی کتاب ”یہودی"ت میں ابن خلدون اور تورات کے دیگر مفسرین کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ اس وقت کے فرعون نے اپنی بیٹی ہاجرہ ؑ بھی آپ کی زوجیت میں دے دی۔ چونکہ دوسری بیوی رسم و رواج کے مطابق پہلی کی لونڈی بن کر رہتی ہے۔ اس لیے یہودیوں اور عیسائیوں نے حضرت ہاجرہ ؑ کو لونڈی کہہ کر بتایا ہے کہ حضرت اسماعیل ؑ لونڈی کی اولاد ہونے کی وجہ سے حضرت اسحاق ؑ سے کم ترہیں-[1]

ابراہیم ؑ کو اولاد کی تمنا تھی ،کنعان کے علاقے میں مقیم ہونے کے بعد آپ نے اولاد کے لیے دعا کی۔

قرآن میں وارد ہوا : رَبِّ هَبْ لِي مِنَ الصَّالِحِينَ

”اے میرے پروردگار! مجھے ایک نیک بیٹا عطا کر۔“ حضرت ابراہیم ؑ نے ہاجرہ ؑ سے نکاح کیا تو اللہ تعالی نے ابراہیم کو ایک حلیم بچے (اسمٰعیل ) بشارت دی۔ ان کے بطن سے حضرت اسماعیل ؑسا فرزند عطا کیا۔ ہو سکتا ہے کہ اس بات سے سارہ ؑ جل اٹھیں ہوں اور حضرت ابراہیم ؑ اللہ کے حکم کے مطابق ہاجرہ ؑ اور اسماعیل ؑ کو گھر سے دور چھوڑنے پر مجبور ہو گئے ہوں۔ بہرحال حضرت ابراہیم ؑ نے ماں اور بچے کو عرب کے تپتے ریگزاروں میں چھوڑ دیا۔ جہاں اللہ کی قدرت سے چشمہ پیدا ہوا اور آبادی بڑھی۔ (دیکھیے: آب زمزم)[1]

جب حضرت اسماعیل ؑ نوجوان ہوئے تو حضرت ابراہیم ؑ واپس آئے اورسرزمین مکہ کی آبادی دیکھ کر انھوں نے وہاں اللہ کا گھر (کعبہ) تعمیر کیا۔ چنانچہ اس لیے کعبہ کی عظمت مسلمانوں کے دل میں ہے۔ کیونکہ یہ سب سے پہلی مسجد تھی جو خدائے واحد کی عبادت کے لیے بنی تھی۔[1]

قران مجید میں آیا ہے کہ ابراہیم اور اسمٰعیل نے مل کر جب کعبے کی بنیادوں کو اٹھایا تو یہ دُعا مانگی کہ ہماری اولاد میں سے ایک نبی پیدا کر اور اس شہر کو برکت والا شہر بنادے۔

اس واقعہ کے ساتھ ہی حضرت اسماعیل ؑ کی قربانی کا ذکر آتا ہے۔ جب یہ بچے بڑے ہوئے تو ابراہیم ؑ آئے تو انھوں نے کہا اے میرے پیارے بیتے میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ میں تجھے ذبح کر رہا ہوں۔ چنانچہ باپ بیٹا دونوں نے اپنے آپ کو اللہ کی رضا پر چھوڑ دیا اس آزمائش میں جب ابراہیم ؑ پورے اترے تو اللہ نے انھیں ”امام للناس“ کا خطاب دیا (البقره : 124) اور انھیں ایک اور بیٹے اسحاق کی بشارت دی۔ (الصفات:101)

قرآن مجید میں آیا ہے جب ابراہیم ؑ اور اسماعیل ؑ نے مل کر کعبے کی بنیادوں کو از سر نو تعمیر کرنا شروع کیا تو یہ دعا مانگی۔

اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: وَإِذْ قَالَ إِبْرَاهِيمُ رَبِّ اجْعَلْ هَـَذَا بَلَدًا آمِنًا وَارْزُقْ أَهْلَهُ مِنَ الثَّمَرَاتِ مَنْ آمَنَ مِنْهُم بِاللّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ قَالَ وَمَن كَفَرَ فَأُمَتِّعُهُ قَلِيلاً ثُمَّ أَضْطَرُّهُ إِلَى عَذَابِ النَّارِ وَبِئْسَ الْمَصِيرُ وَإِذْ يَرْفَعُ إِبْرَاهِيمُ الْقَوَاعِدَ مِنَ الْبَيْتِ وَإِسْمَاعِيلُ رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا إِنَّكَ أَنتَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ رَبَّنَا وَاجْعَلْنَا مُسْلِمَيْنِ لَكَ وَمِن ذُرِّيَّتِنَا أُمَّةً مُّسْلِمَةً لَّكَ وَأَرِنَا مَنَاسِكَنَا وَتُبْ عَلَيْنَآ إِنَّكَ أَنتَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ


”اور جب کہا ابراہیم نے اے میرے رب بنا اس کو شہر امن کا اور روزی دے اس کے رہنے والوں کو میوے جو کوئی ان میں سے ایمان لاوے اللہ پر اور قیامت کے دن پر فرمایا اور جو کفر کریں اس کو بھی نفع پہنچاؤں گا تھوڑے دنوں پھر اس کو جبرًا بلاؤں گا دوزخ کے عذاب میں اور وہ بری جگہ ہے رہنے کی-اور یاد کرو جب اٹھاتے تھے ابراہیم بنیادیں خانہ کعبہ کی اور اسمٰعیل اور دعا کرتے تھے اے پروردگار ہمارے قبول کر ہم سے بیشک تو ہی ہے سننے والا جاننے والا-اے پروردگار ہمارے اور کر ہم کو حکم بردار اپنا اور ہماری اولاد میں بھی کر ایک جماعت فرماں بردار اپنی اور بتلا ہم کو قاعدے حج کرنے کے اور ہم کو معاف کر بیشک تو ہی ہے توبہ قبول کرنے والا مہربان“

منادی حج

اللہ تعالیٰ کا فرما ن ہے: وَأَذِّنْ فِي النَّاسِ بِالْحَجِّ يَأْتُوكَ رِجَالًا وَعَلَى كُلِّ ضَامِرٍ يَأْتِينَ مِنْ كُلِّ فَجٍّ عَمِيقٍ لِيَشْهَدُوا مَنَافِعَ لَهُمْ وَيَذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ فِي أَيَّامٍ مَّعْلُومَاتٍ عَلَى مَا رَزَقَهُم مِّن بَهِيمَةِ الْأَنْعَامِ فَكُلُوا مِنْهَا وَأَطْعِمُوا الْبَائِسَ الْفَقِيرَ ثُمَّ لْيَقْضُوا تَفَثَهُمْ وَلْيُوفُوا نُذُورَهُمْ وَلْيَطَّوَّفُوا بِالْبَيْتِ الْعَتِيقِ

اور پکار دے لوگوں میں حج کے واسطے کہ آئیں تیری طرف پیروں چل کر اور سوار ہو کر دبلے دبلے اونٹوں پر چلے آئیں راہوں دور سےتاکہ پہنچیں اپنے فائدہ کی جگہوں پر اور پڑھیں اللہ کا نام کی دن جو معلوم ہیں ذبح پر چوپایوں مواشی کے جو اللہ نے دیے ہیں اُنکو سو کھاؤ اُس میں سے اور کِھلاؤ برے حال کے محتاج کوپھر چاہیے کہ ختم کر دیں اپنا میل کچیل اور پوری کریں اپنی منتیں اور طواف کریں اس قدیم گھر کا

امام ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں: یعنی آپ لوگوں کے درمیان منادی کرکے انہیں اس گھر کی طرف حج کرنے کی دعوت دیجئے جس کی تعمیر کا ہم نے آپ کو حکم دیا تھا، کہتے ہیں کہ یہ حکم سن کر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کہا: میں کیسے انہیں یہ پیغام پہنچا سکتا ہوں جب کہ میری آواز ان تک نہیں پہنچ سکتی؟ تو اللہ تعالی نے فرمایا: تم آواز لگاؤ؛ پیغام پہنچانا ہمارا کام ہے، لہذا وہ اپنے مقام (مقام ابراہیم) پر کھڑے ہوئے اور ایک روایت کے مطابق کسی پتھر پر کھڑے ہوئے، ایک دوسری روایت کے مطابق صفا پر کھڑے ہوئے، ور ایک تیسری روایت کے مطابق ابو قبیس پہاڑ پر کھڑے ہوئے، چنانچہ وہاں کھڑے ہو کر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے آواز لگائی: اے لوگو! تمھارے رب نے اپنے لیے ایک گھر بنایا ہے سو اس کا حج کیا کرو، کہا جاتا ہے کہ یہ آواز سن کر پہاڑ جھک گئے حتی کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی آواز روئے زمین کے تمام گوشوں میں پہنچ گئی اور اپنی آواز کو انہوں نے باپوں کی صلب اور ماؤں کے بطن میں پوشیدہ انسانوں تک کو سنا دی، جس شے نے بھی ان کی آواز سنی اس نے ان کا جواب دیا خواہ وہ پتھر ہو، ڈھیلا ہو یا کوئی درخت ہو، اوران تمام لوگوں نے بھی ان کے جواب میں "میں حاضر ہوں یا اللہ میں حاضر ہوں" کا جملہ دہرایا تاقیامت جن کی قسمت میں اللہ نے حج کی سعادت لکھـ دی ہے۔ یہ ان مرویات کا خلاصہ ہے جو حضرت ابن عباس، مجاہد، عکرمہ، سعيد بن جبير اور متعدد علما سلف سے منقول ہیں، واللہ اعلم اور ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے اس قصے کو بڑی تفصیل سے نقل کیا ہے-  یہاں پر ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ کا کلام ختم ہوتا ہے- اور حقیقت حال کا علم صرف اللہ کے پاس ہے- البتہ جہاں تک آواز لگانے کا مسئلہ ہے تو اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ایسا ہوا تھا[7][8]


مہمان نوازی

حضرت ابراہیم کی سیرت سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ بہت ہی مہمان نواز تھے- بعض روایات میں ان کی مہمان نوازی کو ان کی اولیات میں شمار کیا گیا ہے اول من قری الضیف [9]

اول من الضاف الضیف - بعض  روایات میں ہے کہ وہ مہمان کو شریک کیے بغیر کھانا نہیں کھاتے تھے حتی کہ مہمان کی تلاش میں  دو دو میل تک دور نکل جاتے تھے[10]

خود قران ان کی مہمان نوازی کی گواہی دیتا ہے

اللہ تعالیٰ کا فرما ن ہے: وَنَبِّئْهُمْ عَن ضَيْفِ إِبْراَهِيمَ إِذْ دَخَلُواْ عَلَيْهِ فَقَالُواْ سَلامًا قَالَ إِنَّا مِنكُمْ وَجِلُونَ قَالُواْ لاَ تَوْجَلْ إِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلامٍ عَلِيمٍ

اور ان کو ابراہیم کے مہمانوں کا احوال سنادو جب وہ ابراہیم کے پاس آئے تو سلام کہا۔ (انہوں نے) کہا کہ ہمیں تو تم سے ڈر لگتا ہے (مہمانوں نے) کہا کہ ڈریئے نہیں ہم آپ کو ایک دانشمند لڑکے کی خوشخبری دیتے ہیں

اللہ تعالیٰ کا فرما ن ہے: وَلَقَدْ جَاءتْ رُسُلُنَا إِبْرَاهِيمَ بِالْبُـشْرَى قَالُواْ سَلاَمًا قَالَ سَلاَمٌ فَمَا لَبِثَ أَن جَاء بِعِجْلٍ حَنِيذٍ فَلَمَّا رَأَى أَيْدِيَهُمْ لاَ تَصِلُ إِلَيْهِ نَكِرَهُمْ وَأَوْجَسَ مِنْهُمْ خِيفَةً قَالُواْ لاَ تَخَفْ إِنَّا أُرْسِلْنَا إِلَى قَوْمِ لُوطٍ وَامْرَأَتُهُ قَآئِمَةٌ فَضَحِكَتْ فَبَشَّرْنَاهَا بِإِسْحَقَ وَمِن وَرَاء إِسْحَقَ يَعْقُوبَ قَالَتْ يَا وَيْلَتَى أَأَلِدُ وَأَنَاْ عَجُوزٌ وَهَـذَا بَعْلِي شَيْخًا إِنَّ هَـذَا لَشَيْءٌ عَجِيبٌ قَالُواْ أَتَعْجَبِينَ مِنْ أَمْرِ اللّهِ رَحْمَتُ اللّهِ وَبَرَكَاتُهُ عَلَيْكُمْ أَهْلَ الْبَيْتِ إِنَّهُ حَمِيدٌ مَّجِيدٌ

اور ہمارے فرشتے ابراہیم کے پاس بشارت لے کر آئے تو سلام کہا۔ انہوں نے بھی (جواب میں) سلام کہا۔ ابھی کچھ وقفہ نہیں ہوا تھا کہ (ابراہیم) ایک بھنا ہوا بچھڑا لے آئے جب دیکھا کہ ان کے ہاتھ کھانے کی طرف نہیں جاتے (یعنی وہ کھانا نہیں کھاتے) تو ان کو اجنبی سمجھ کر دل میں خوف کیا۔ (فرشتوں نے) کہا کہ خوف نہ کیجیے، ہم قوم لوط کی طرف (ان کے ہلاک کرنے کو) بھیجے گئے ہیں اور ابراہیم کی بیوی (جو پاس) کھڑی تھی، ہنس پڑی تو ہم نے اس کو اسحاق کی اور اسحاق کے بعد یعقوب کی خوشخبری دی-

یہ واقعہ سورۃ ہود اور سورۃ حجر میں بھی گزر چکا ہے یہ مہمان فرشتے تھے جو بہ شکل انسان آئے تھے جنہیں اللہ نے عزت و شرافت دے رکھی ہے حضرت امام احمد بن حنبل اور دیگر علمائے کرام کی ایک جماعت کہتی ہے کہ مہمان کی ضیافت کرنا واجب ہے حدیث میں بھی یہ آیا ہے اور قرآن کریم کے ظاہری الفاظ بھی یہی ہیں ۔ انہوں نے سلام کیا جس کا جواب خلیل اللہ نے بڑھا کر دیا اس کا ثبوت دوسرے سلام پر دو پیش کا ہونا ہے ۔ اور یہی فرمان باری تعالیٰ ہے فرماتا ہے ( وَاِذَا حُيِّيْتُمْ بِتَحِيَّةٍ فَحَــيُّوْا بِاَحْسَنَ مِنْھَآ اَوْ رُدُّوْھَا ۭ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ حَسِيْبًا 86؀) 4- النسآء:86) یعنی جب کوئی تمہیں سلام کرے تو تم اس سے بہتر جواب دو یا کم ازکم اتنا ہی ۔ پس خلیل اللہ نے افضل صورت کو اختیار کیا حضرت ابراہیم چونکہ اس سے ناواقف تھے کہ یہ دراصل فرشتے ہیں اس لیے کہا کہ یہ لوگ تو ناآشنا سا ہیں ۔ یہ فرشتے حضرت جبرائیل حضرت میکائیل اور حضرت اسرافیل علیہم السلام تھے ۔ جو خوبصورت نوجوان انسانوں کی شکل میں آئے تھے ان کے چہروں پر ہیبت و جلال تھا حضرت ابراہیم اب ان کے لیے کھانے کی تیاری میں مصروف ہو گئے اور چپ چاپ بہت جلد اپنے گھر والوں کی طرف گئے اور ذرا سی دیر میں تیار بچھڑے کا گوشت بھنا بھنایا ہوا لے آئے اور ان کے سامنے رکھ دیا اور فرمایا آپ کھاتے کیوں نہیں ؟ اس سے ضیافت کے آداب معلوم ہوئے کہ مہمان سے پوچھے بغیر ہی ان پر شروع سے احسان رکھنے سے پہلے آپ چپ چاپ انہیں خبر کیے بغیر ہی چلے گئے اور بہ عجلت بہتر سے بہتر جو چیز پائی اسے تیار کر کے لے آئے ۔ تیار فربہ کم عمر بچھڑے کا بھنا ہوا گوشت لے آئے اور کہیں اور رکھ کر مہمان کی کھینچ تان نہ کی بلکہ ان کے سامنے ان کے پاس لا کر رکھا ۔ پھر انہیں یوں نہیں کہتے کہ کھاؤ کیونکہ اس میں بھی ایک حکم پایا جاتا ہے بلکہ نہایت تواضع اور پیار سے فرماتے ہیں آپ تناول فرمانا شروع کیوں نہیں کرتے ؟ جیسے کوئی شخص کسی سے کہے کہ اگر آپ فضل و کرم احسان و سلوک کرنا چاہیں تو کیجئے پھر ارشاد ہوتا ہے کہ خلیل اللہ اپنے دل میں ان سے خوفزدہ ہو گئے جیسے کہ اور آیت میں ہے آیت ( فَلَمَّا رَآٰ اَيْدِيَهُمْ لَا تَصِلُ اِلَيْهِ نَكِرَهُمْ وَاَوْجَسَ مِنْهُمْ خِيْفَةً ۭ قَالُوْا لَا تَخَفْ اِنَّآ اُرْسِلْنَآ اِلٰي قَوْمِ لُوْطٍ 70؀ۭ) 11-ھود:70) ، یعنی آپ نے جب دیکھا کہ ان کے ہاتھ کھانے کی طرف بڑھتے نہیں تو دہشت زدہ ہو گئے اور دل میں خوف کھانے لگے اس پر مہمانوں نے کہا ڈرو مت ہم اللہ کے بھیجے ہوئے فرشتے ہیں جو قوم لوط کی ہلاکت کے لیے آئے ہیں آپ کی بیوی صاحبہ جو کھڑی ہوئی سن رہی تھیں وہ سن کر ہنس دیں تو فرشتوں نے انہیں خوشخبری سنائی کہ تمہارے ہاں حضرت اسحاق پیدا ہوں گے اور ان کے ہاں حضرت یعقوب اس پر بیوی صاحبہ کو تعجب ہوا اور کہا ہائے افسوس اب میرے ہاں بچہ کیسے ہوگا ؟ میں تو بڑھیا پھوس ہو گئی ہوں اور میرے شوہر بھی بالکل بوڑھے ہو گئے ۔ یہ سخت تر تعجب کی چیز ہے فرشتوں نے کہا کیا تم اللہ کے کاموں سے تعجب کرتی ہو ؟ خصوصًا تم جیسی ایسی پاک گھرانے کی عورت ؟ تم پر اللہ کی رحمتیں اور برکتیں نازل ہوں ۔ جان رکھو کہ اللہ تعالیٰ تعریفوں کے لائق اور بڑی بزرگی اور اعلیٰ شان والا ہے یہاں یہ فرمایا گیا ہے کہ بشارت حضرت ابراہیم کو دی گئی کیونکہ بچے کا ہونا دونوں کی خوشی کا موجب ہے۔ پھر فرماتا ہے یہ بشارت سن کر آپ کی اہلیہ صاحبہ کے منہ سے زور کی آواز نکل گئی اور اپنے تئیں دوہتڑ مار کر ایسی عجیب و غریب خبر کو سن کر حیرت کے ساتھ کہنے لگیں کہ جوانی میں تو میں بانجھ رہی اب میاں بیوی دونوں بوڑھے ہو گئے تو مجھے حمل ٹھہرے گا ؟ اس کے جواب میں فرشتوں نے کہا کہ یہ خوشخبری کچھ ہم اپنی طرف سے نہیں دے رہے بلکہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں فرمایا ہے کہ ہم تمہیں یہ خبر پہنچائیں ۔ وہ حکمت والا اور علم والا ہے ۔ تم جس عزت وکرامت کے مستحق ہو وہ خوب جانتا ہے اور اس کا فرمان ہے کہ تمہارے ہاں اس عمر میں بچہ ہوگا اس کا کوئی کام حکمت سے خالی نہیں نہ اس کا کوئی فرمان حکمت سے خالی ہے ۔ [11][12][13][14]


بالوں کی سفیدی

روایت میں ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی شکل وصورت کے ان کے صاحبزادے حضرت اسماعیل علیہ السلام  تھے جن کو اللہ تعالیٰ نے ذبیح اللہ کہہ کر پکارادونوں باپ بیٹے ایک ہی جسے شکل کے تھے کبھی کبھی مغالطے میں لوگ حضرت اسماعیل علیہ السلام کوخلیل اللہ کہہ دیا کرتے تھے اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کوذبیح اللہ ، اللہ تعالیٰ کویہ بات پسند نہیں آئی تو اللہ تعالیٰ نے باپ اوربیٹے میں تھوڑاسافرق پیدافرمادیا۔سب سے پہلے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بال سفیدہوئے اس وقت تک دنیامیں کسی انسان کے بال سفیدنہیں ہوئے تھے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے آئینہ دیکھا بڑا تعجب ہواکہاکہ یہ بال کیسے سفیدہوگئے اللہ سے عرض کیا اے اللہ ! یہ کیاہے ؟ اللہ تعالیٰ نے ارشادفرمایاکہ یہ ہمارانو رہے اورفرمایاکہ ہمیں یہ بات پسندنہیں آئی کہ کوئی ہمارے خلیل کوذبیح کہہ کرپکارے اس لیے ہم نے سفیدبال پیدافرمادیئے تاکہ لوگوں کومغالطہ نہ ہو،تو ابراہیم علیہ السلام کی یہ خصوصیت ہے کہ سب سے پہلے دنیامیں آپ کے بال سفیدہوئے گویااللہ تعالیٰ نے آپ کوبزرگی مسلّم طورپر عطافرمائی تھی ظاہری طورپربھی اورباطنی طورپربھی ،رسالت کے اعتبارسے بھی اورانسانیت کے اعتبارسے بھی ۔[15][16]

ختنے کی ابتدا

 ابراہیمی ملت  کا ایک شعار ختنہ ہے، توریت میں اللہ نے ابراہیم سے کثرت ذریت کا وعدہ کیا  اور یہ عہد لیا کہ اگر ان کی نسل توحید پہ قائم رہی تو زمین میں اسے اقتدار دیگا- اس عہد کو یاد دلاتے ہوئےاللہ نے ختنے کو اس کی علامت قرار دیا

پھر خدا نےابراہم سے کہا کہ   تو میرے عہد کو ماننا اور تیرے بعد تیرے پشت در پشت تیری نسل مانے اور میرا عہد جو میرے اور تیرے درمیان ہے اور تیرے بعد تیری نسل کے درمیان ہے  اور جسے تم مانو گے سو یہ ہے کہ  تم میں سے ہر فرزند نرینہ  کا ختنہ کیا جائےاور تم اپنے بدن کی کھلڑی کا ختنہ کیا کرنا اور یہ اس عہد کا نشان ہوگا جو میرے اور تمہارے درمیان ہے[7]

قبر ِ ابراہیم

اور توریت میں اللہ نے انہیں حکم دیا  " اور وہ فرزند نرینہ  جس کا ختنہ نہ ہوا ہواپنے لوگوں میں سے کاٹ ڈالا جائے کیونکہ  اس نے میرا عہد توڑا[17] [18]

چنانچہ یہ حکم ملتے ہی حضرت ابراہیم نے  گھر کے سب لوگوں کو جمع کیا  اور اسی روز ان کا ختنہ کیا  ان میں حضرت اسماعیل بھی تھے  اس وقت ابراہیم کی عمر ٩٩ سال تھی اور اسماعیل کی ١٣  پھر  اگلے سال اسحاق کی ولادت ہوئی تو حضرت  ابراہیم نے انکا بھی ختنہ کیا

حضرت ابوھریرہ سے مروی ہے کہ حضور نے فرمایا

”حضرت ابراہیم نے اسی سال کی عمر میں قدوم(ایک اوزارسے ختنہ) کروایا“[18][19]

انتقال و قبر

غارِ ابراہیم

ایک روایت میں ہے کہ جب حضرت ابراہیم ؑ نے وفات پائی تو ان کی عمر 175 برس تھی اور وہ حبرون میں مکفیلہ کے غار میں دفن ہوئے۔ اب اس مقام کو ” خلیل" کہتے ہیں جو بیت المقدس کے قریب واقع ہے۔[1]

مزید دیکھیے

حوالہ جات

  1. شاہکار اسلامی انسائیکلو پیڈیا- ص ٦٧-٧٠، ج اول،از سید قاسم محمود، عطش درانی- مکتبہ شاہکار لاہور
  2. کتابِ پیدائش باب 17 آیت 5
  3. النحل،120
  4. البقرۃ،124
  5. تفسیر احسن البیان سورۃ التوبہ آیت 70
  6. تفسیر فی ظلال القرآن سید قطب شہید ،الاعراف آیت 79
  7. تفسیر ابن کثیر جلد سوم صفحہ ٢١٧
  8. دائمی کمیٹی کے فتوے
  9. البدیہ و النہایہ – ابن کثیر ١٦٣/١
  10. قصص الانبیاء- ثعلبی-ص ١٠٤
  11. Quran - الحجر - Al-Hijr - Urdu Tafseer - Urdu Tafseer Ibne-Kaseer - تفسیر ابن کثیر
  12. تفسیر ابن کثیر مترجم اردو جلد 2 ، صفحہ 1 - مکتبہ جبریل
  13. Quran - ھود - Hud - Urdu Tafseer - Urdu Tafseer Ibne-Kaseer - تفسیر ابن کثیر
  14. تفسیر ابن کثیر مترجم اردو جلد 3 ، صفحہ 1 - مکتبہ جبریل
  15. خطبات رحیمی جلد سوم ، صفحہ 49 - مکتبہ جبریل
  16. خطباتِ رحیمی مدیر دار العلوم محمدیہ بنگلور صحفہ٤٩
  17. (کتاب  پیدائش باب ١٧ :١٤)
  18. https://kitabosunnat.com/kutub-library/hazrat-ibrahim-a-s-imam-e-insaniat
  19. صحیح بخاری ،کتاب الانبیاء ، باب قولہ و اتخذ اللہ ابراہیم خلیلا)،فتح لباری- ابن حجر عسقلانی، ٦/`٢٤٥
This article is issued from Wikipedia. The text is licensed under Creative Commons - Attribution - Sharealike. Additional terms may apply for the media files.