جانور

دنیا میں طرح طرح کے حیوانات پائے جاتے ہیں۔ سب اپنی نوعیت میں الگ ہی نظر آتے ہیں اور ان کی انوکھی وضع و ساخت انہیں ایک دوسرے سے بہت مختلف ظاہر کرتی ہیں۔ کہیں لمبی سونڈ والا ہاتھی تو مختصر سی جسامت والا چوہا اور ان میں ہمیں کوئی مشابہت نظر نہیں آتی ہے۔ لیکن ہم ان کی ساخت کا گہری نظر سے مطالعہ کریں تو ان کے آپس میں اختلافات اور مشابہتیں معلوم ہوں گیں۔ اگرچہ ہاتھی اور چوہا ظاہری طور پر ایک دوسرے سے مختلف ہیں لیکن دونوں ریڑھ کی ہڈی والے جانور ہیں۔

تقسیم

یہ جانور جاندار اپنی ساخت کی وجہ سے دو گروہوں میں تقسیم ہیں۔ (1) ریڑھ کی ہڈی دارVertebrates  (2) جن میں ریڑھ کی ہڈی نہیں ہوتی ہےInvertebrates ۔ ڑیڑھ کی ہڈی والے جانوروں میں ہڈیوں کا ایک مضبوط ڈھانچہ بھی۔ جب کہ اس کے مقابلے میں جن میں ریڑھ کی ہڈی نہیں ہوتی ہے اور نہ ہڈیوں کا ڈھانچہ بھی ہوتا ہے۔ تمام حشرات الرض میں ریڑھ کی ہڈی نہیں ہوتی ہے۔ زمین پر سب سے پہلے بغیر ریڑھ کی ہڈی والے جاندار پیدا ہوئے تھے۔ ریڑھ کی ہڈی والے جانوروں کو ان کی ساخت کے حساب سے پانچ گروہ میں تقسیم کیا جاتا ہے۔

(1) مچھلی Fish

(2) خشکی اور پانی میں پائے جانے والے جانور  Amphibins

(3) رینگنے والے یا پیٹ کے بل چلنے والے جانورReptiles   

(4) پرندے Birds

(5) شیر خوار یا دودھ دینے والے جانور  Mammals

مچھلی Fish

ریڑھ کی ہڈی والے جانوروں میں سب سے پہلے مچھلیاں پیدا ہوئی اور اگلے مرحلے میں مچھلیاں پانی سے نکل کر کنارے پر آنے لگیں۔

خشکی اور پانی میں پائے جانے والے جانور  Amphibins

خشکی کے تعلق سے ان اعضا میں رفتہ رفتہ تغیر ہوا اور ایسے جانور وجود میں آئے جو پانی اور خشکی دونوں پر رہنے لگے۔ مینڈک اس کی بڑی مثال ہے، اس کا جسم ابتدا میں مچھلی کی طرح ہوتا ہے اور پانی میں ہی سانس لیتا ہے اور رفتہ رفتہ ان کی جسامت میں تبدیلی ہوتی ہے اور اس کے ہاتھ اور پیر نمودار ہوتے ہیں اور وہ خشکی پر زندگی گزارنے کے قابل ہوجاتا ہے۔ مچھلیوں کے خون میں حرارت نہیں ہوتی ہے۔ خون کی حرارت کی جگہ ان جسم میں موٹی چربی کی تہ ہوتی ہے۔ جس کی وجہ سے سرد پانی کا ان پر اثر نہیں ہوتا ہے۔  

رینگنے والے یا پیٹ کے بل چلنے والے جانورReptiles   

اس کے بعد پیٹ کے بل چلنے والے جانور پیدا ہوئے۔ اس جنس کے ہاتھ پیر ہوتے نہیں ہیں یا اتنے مختصر ہوتے ہیں کہ وہ پیٹ کے بل رینگتے معلوم ہوتے ہیں۔ سانپ اور اژدھوں کے ہاتھ پیر نہیں ہوتے مگر ان کے نشانات ہوتے ہیں اور استعمال نہ ہونے کی وجہ سے یہ غائب گئے۔ قدیم زمانے میں یہ زمین پر کثرت سے تھے اور پوری دنیا خوفناک قسم کے جانوروں بھری ہوئی تھی اور اب یہ فنا ہوچکے۔ مگر کچھ چھوٹے جانور جیسے کچھوا، سانپ اور گرگٹ وغیر اب بھی موجود ہیں۔ ان میں دوسری خصوصیت یہ ہوتی ہے ان جانوروں کے جانوروں کے خون میں حرارت نہیں ہوتی ہے۔ اس لیے یہ سرد موسم میں سست ہوجاتے ہیں اور گرم میں پھرتیلے ہوجاتے ہیں۔

پرندے Birds

اس کے بعد پرندنے وجود میں آئے۔ ابتدائی پرندوں میں پیٹ کے بل چلنے والوں کی خصوصیات موجود تھیں۔ وہ موجودہ پرندوں سے یکسر مختلف تھے۔ ان کے پر کے جگہ جھلی جیسی کھال تھی۔ جیسے کے چمکاڈر میں ہوتی ہے اور ان کے دو بڑے دانت تھے اور دم گرگٹ کی طرح تھی۔  

شیر خوار یا دودھ دینے والے جانور  Mammals

یہ اپنی خوبیوں اور ساخت کے اعتبار سے سب سے اعلیٰ ہیں۔ ان سے انسان بہت سے فائدے حاصل کرتا ہے۔ مثلاً گائے، بھینس اونٹ اور گھوڑا وغیرہ۔ ان سے دودھ، گوشت، اون اور سیکڑوں چیزیں حاصل ہوتی ہیں۔ ان جانوروں میں مادہ کے تھن ہوتے ہیں۔ جن سے وہ اپنے بچوں کی پرورش کرتی ہے۔ ان جانورں میں حرارت ہوتی ہے۔ یہ انڈے نہیں بچے دیتے ہیں۔ لیکن ایک قسم ایسی ہے جو اس کلیہ سے مبرا ہے۔ ان کے جسم میں تھوڑے بہت بال ضرور ہوتے ہیں اور بالوں کا ہونا ان کی خاص علامت ہے۔ جن کے بدن پر بال نہیں ہوتے ان کے بھی کچھ بال ہوتے ہیں۔ ان میں سے کچھ جانوروں کے سینگ بھی ہوتی ہیں۔ ان میں بعض پر موٹے کانٹے ہوتے ہیں مثلاً سہی۔ اس طرح بعض جانورں پر موٹے چلکے ہوتے ہیں مثلاً پنگولین۔

تقسیم

جانوروں کے مطالعہ کے لیے ان کو پانچ گروہ میں تقسیم کر دیا گیا ہے۔

(1) حصہ Division

(5) جنس Class

(5) طبقہ Order

(5) خاندان Family

(5) نوع Gemus

(5) صنف Species

(5) فرد  Variety

حصہ Division

ہر طبقہ کے جانور بعض خوصیات کی بنا پر طبقوں میں تقسیم ہوتے ہیں۔ مثلاً جگالی والے جانور، تھیلی دار جانور، گوشت خور جانور۔

جنس Class

اس کے علاوہ ہر طبقہ میں چند جنسیں ہوتی ہیں۔ مثلاً گوشت خور جانور، بلی کی جنس، کتے کی جنس، بھالو وغیرہ۔ یہ سب جانور گوشت خور ہیں لیکن ان میں تفریق آسانی سے کی جاسکتی ہے،

طبقہ Order

ہر جماعت میں مختلف نوع کے جانور شامل ہوتے ہیں۔ ان بہت کچھ مشترک ہونے ساتھ ان میں تفریق بھی ہوتی ہے۔ مثلاًً بلی ، ببر شیر، شیر، تیندوا مختلف نوع کے جانور ہیں۔

صنف Species

اس طرح ایک ہی خاندان کے جانوروں میں بھی تفریق ہوتی ہے۔ مثلاً لکڑبھگے دو طرح کے ہوتے ہیں۔ ایک کے جسم پر دھاریاں ہوتی ہیں اور دوسری کے بدن پر گل یا دھبے ہوتے ہیں۔ یہ ان کی صنف مانی جاتی ہیں

خاندان Family

ایک ہی صنف کے جانوروں میں رنگ، شکل، صورت اور قد وغیرہ میں آب و ہوا اور عادتوں کی وجہ سے بھی فرق ہوجاتا ہے۔ یہ خاندان کہلاتے ہیں۔

فرد  Variety

دنیا کا ہر جانور تغیر پزیر ہے مگر پالتو جانورں میں یہ تبدیلیاں جلد ہوجاتی ہیں، کیوں کہ ان مقامات کی تبدیلی، خوراک اور بود باش کے طریقوں سے ان میں فرق ہوجاتا ہے۔ ایک ہی نسل کی بھیڑوں کو دو علحیدہ علحیدہ مقامات پر علحیدہ رکھا جائے تو پچاس سال میں ان میں اس قدر تبدیلیاں واقع ہوجاتی ہیں کہ الگ فرو کی جانور معلوم ہوتی ہیں۔ اس طرح اونٹوں میں دو نسلیں وجود میں آئیں۔ ایک فربہ جو سبک رو جو باربرداری کے کام آتے ہیں اور لمبے پتلے دبلے جو تیزروی اور سواری کے کام آتی ہیں۔ یہ تقسیم قدرتی ہیں انسانی محنت کا ثمر ہیں قدرتی نہیں۔ کیوں کہ قدرت نے جانور کو اس طرح تقسیم نہیں کیا ہے۔

ارتقا

خیال کیا جاتا ہے کہ ابتدا میں تمام جانور ایک ہی قسم کے یا کچھ خاص قسم کے پیدا ہوئے تھے۔ پھر ارتقا نے ترقی کے مدراج طہ کروا کر ادنیٰ سے اعلیٰ درجہ پر پہنچے اور ابتدائی شکل سے رفتہ رفتہ نئی نئی شکلیں اور صورتیں اختیار کیں اور طرح طرح باطنی اور ظاہری تبدیلیوں سے ان میں تبدیلیاں واقع ہوئیں اور یہ تبدیلیاں اب بھی جاری ہیں اور یعنی یہ ارتقا مسلسل جاری ہے۔  

اگر ہم وسیع نظری سے مطالعہ کریں تو ہم پر واضح ہوتا ہے کہ محض طاقت ور ہمیشہ کامیاب نہیں ہوتا ہے۔ کتنے ہی دیو ہیکل اور خونخوار جانور اس دنیا سے فنا ہوچکے ہیں۔ ان ڈائینوسار، میتھ ہاتھی وغیرہ کی صرف ہڈیاں ملتی ہیں۔ دو صدی پہلے ببر شیر شمالی ہند میں بنارس کے قرب و جوار میں پائے جاتے تھے اب کاٹھیاوار تک محدود ہو گئے ہیں۔ اس اس کے باوجود گھوڑا لاکھوں سال سے ترقی کرتا ہوا اب بھی موجود ہے۔ بارسنگہ اور ہرن جو انسانوں اور جانوروں کا نوالہ بنتے رہے اب بھی پائے ہیں۔ اونٹ بھی زمانہ قدیم سے اب بھی موجود ہے۔ نظریہ ارتقا کے مطابق جانور زمین سے اس لیے نیست و نابود ہوجاتے ہیں کہ وہ اپنے ارضی تبدیلیوں کے مطابق خود کو ڈھال نہیں سکے۔       

ماخذ

برجیش بہادر۔ عالم حیوانی


اضغط هنا للاطلاع على كيفية قراءة التصنيف

جانور

 

اسمیاتی درجہ مملکت [1][2] 
جماعت بندی
طبقہ: گوشت خور، نباتات خور، شکار خور، مردم خور
سائنسی نام
Animalia[1][2][3] 
لنی اس   ، 1758 


    درجہ (Rank) نباتات (Plants) طَحالِب (Algae) فُطریات (Fungi) حیوانات (Animal) اولانیات (Protista)
    • حیوانیات = قسمہ (Phylum)
    • نباتیات = شعبہ (Division)
    -تات (-phyta) -قط (-mycota) -یا (-a)
    ذیلی قسمیہ/ذیلی شعبہ

    Subdivision/Subphylum

    -تاتیہ (-phytina) -قطہ (-mycotina)
    جماعت (Class) -یتی (-opsida) -یبی (-phyceae) -قطر (-mycetes)
    ذیلی جماعت (Subclass) -یتیہ (-idae) -یبیہ (-phycidae) -قطریہ (-mycetidae) -تیہ
    فوقی طبقہ (Superorder) -فط (-anae) -فطق
    طبقہ (Order) -طب (-ales) -طبق
    ذیلی طبقہ (Suborder) -طبی (-ineae) -طبقی
    زیریں طبقہ (Infraorder) -طبیہ (-aria) -طبقیہ
    فوقی خاندان (Superfamily) -فان (-acea) -(oidea) -خان
    خاندان (Family) -آن (-aceae) (-idae) -خن
    ذیلی خاندان (Subfamily) -آنہ (-oideae) (-inae) -خنہ
    قبیلہ (Tribe) -یل (-eae) (-ini) حیل
    ذیلی قبیلہ (Subtribe) -یلی (-inae) (-ina) حیلی

    حوالہ جات

    1. عنوان : Integrated Taxonomic Information System
    2. مصنف: Michael A. Ruggiero ، Dennis P. Gordon ، Thomas M. Orrell ، Nicolas Basile Bailly ، Thierry Bourgoin ، Richard C. Brusca ، Thomas Cavalier-Smith ، Michael D. Guiry اور پال ایم۔ کرک — عنوان : A Higher Level Classification of All Living Organisms — جلد: 10 — صفحہ: e0119248 — شمارہ: 4 — شائع شدہ از: PLOS ONE — https://dx.doi.org/10.1371/JOURNAL.PONE.0119248https://pubmed.ncbi.nlm.nih.gov/25923521https://www.ncbi.nlm.nih.gov/pmc/articles/PMC4418965 — اجازت نامہ: CC0
    3.  "معرف Animalia دائراۃ المعارف لائف سے ماخوذ"۔ eol.org۔ اخذ شدہ بتاریخ 30 دسمبر 2019۔
    This article is issued from Wikipedia. The text is licensed under Creative Commons - Attribution - Sharealike. Additional terms may apply for the media files.