عراق

عراق ایشیا کا ایک اہم عرب اور مسلمان ملک ہے۔ یہ قدیم میسوپوٹیمیا (مابین النھرین)، قدیم شام کے کچھ صحرائی علاقوں اور مزید کچھ علاقوں پر مشتمل ہے۔ تیل کے ذخائر میں دنیا میں دوسرے نمبر پر ہے۔ اس کے جنوب میں کویت اور سعودی عرب، مغرب میں اردن، شمال مغرب میں شام، شمال میں ترکی اور مشرق میں ایران (کردستان علاقہ) ہے۔ اسے ایک محدود سمندری رسائی بھی حاصل ہے جو خلیج فارس کے ساحل ام قصر پر ہے۔ جو بصرہ سے قریب ہے۔ عراق دنیا کے قدیم ترین ممالک میں شامل ہے جس نے کئی تہذیبوں کو جنم دیا ہے۔ فلسطین کی طرح اسے انبیا کی سرزمین کہا جاتا ہے۔ حضرت نوح علیہ السلام، حضرت ابراھیم علیہ السلام اور حضرت خضر علیہ السلام کا تعلق اسی علاقے سے تھا اور بروایتے حضرت آدم علیہ السلام نے بھی اس کے شہر قرنہ کو اپنا وطن بنایا تھا۔ 2003ء میں اس پر امریکا نے قبضہ کر لیا تھا جو تا حال جاری ہے البتہ ایک برائے نام حکومت قائم ہے۔ اس کی غالب اکثریت مسلمانوں پر مشتمل ہے البتہ کافی تعداد میں مسیحی بھی ہیں۔ اس کا دار الحکومت بغداد ہے جو اس کا سب سے بڑا شہر ہے۔ اس کے علاوہ نجف، کوفہ، بصرہ، کربلا، سامرا، موصل اور کرکوک اس کے مشہور شہر ہیں۔ دریائے دجلہ اور فرات اس کے مشہور دریا ہیں۔ ان کے درمیان میں کی وادی انتہائی زرخیز ہے اور اس میں سات سے نوہزار سال سے بھی پرانے آثار ملتے ہیں۔ سمیری، اکادی، اسیریا اور بابل کی تہذیبیں اسی علاقے میں پروان چڑھیں اور فنا ہوئیں۔

  

عراق
عراق
پرچم
عراق
نشان

،  

ترانہ:موطنی  
زمین و آبادی
متناسقات 33°N 43°E / 33; 43   [1]
رقبہ 437072 مربع کلومیٹر  
دارالحکومت بغداد  
سرکاری زبان عربی [2]، کردی زبان [2] 
آبادی 33417476 (2013)[3] 
حکمران
طرز حکمرانی وفاقی جمہوریہ  
اعلی ترین منصب برہم صالح (2 اکتوبر 2018–) 
سربراہ حکومت عادل عبد المہدی (25 اکتوبر 2018–) 
قیام اور اقتدار
تاریخ
یوم تاسیس 1932 
عمر کی حدبندیاں
شادی کی کم از کم عمر 18 سال  
شرح بے روزگاری 16 فیصد (2014)[4] 
دیگر اعداد و شمار
منطقۂ وقت متناسق عالمی وقت+03:00 (معیاری وقت )
متناسق عالمی وقت+04:00 (روشنیروز بچتی وقت ) 
ٹریفک سمت دائیں [5] 
ڈومین نیم iq.  
سرکاری ویب سائٹ {{#اگرخطا:باضابطہ ویب سائٹ  |}}
آیزو 3166-1 الفا-2 IQ 
بین الاقوامی فون کوڈ +964 

مختصر تاریخ

قبل از تاریخ

عراق قدیم ترین انسانوں کی رہائش گاہ تھی۔ طوفانِ نوح یہیں پر آیا تھا۔ عراق سے ملنے والے آثارِ قدیمہ ثابت کرتے ہیں کہ زمانہ قبل از تاریخ میں بھی یہاں کے لوگ باقاعدہ زبان، ثقافت اور مذہب رکھتے تھے۔ عراق کے شمال مشرق میں شانیدر کے غاروں سے ملنے والے نیاندرتھال انسان کے ڈھانچوں سے، جو پچاس سے ساٹھ ہزار سال پرانے ہیں، یہ پتہ چلتا ہے کہ وہ بولنے کی صلاحیت رکھتے تھے اور رسومات ادا کیا کرتے تھے مثلاً اپنے مردے پھولوں کے ساتھ دفناتے تھے۔[6]

زمانہ قدیم

عراق کو پہلی انسانی تہذیب کی آماجگاہ سمجھا جاتا ہے۔ عراق کا قدیم نام میسوپوٹیمیا ہے۔ مگر یہ وہ نام ہے جو یونانیوں نے انہیں دیا تھا جس کا مطلب یونانی زبان میں ،دریاووں کے درمیان، کے ہیں چونکہ یہ تہذیب دریائے دجلہ اور دریائے فرات کے درمیان میں پروان چڑھی۔ اسے ہم تہذیب مابین النھرین یا بلاد الرافدين کہتے ہیں۔ یہ علاقہ سمیریا، اکادی، اسیریائی، کلدانی، ساسانی اور بابل کی تہذیبوں کا مرکز تھا جو پانچ ہزار سال قبل از مسیح باقی دنیا میں بھی نفوذ کر گیا۔ انھوں نے دینا کو لکھنا سکھایا اور ابتدائی ریاضیات، فلسفہ اور سائنسی علوم کے اصول دیے۔ اکادی سلطنت لبنان کے ساحلوں تک پھیلی ہوئی تھی۔ لبنان وہ علاقہ ہے جس نے ابتدائی حروف بنائے اور سمندری جہاز رانی کی ابتدا کی۔ اکادیوں کے بعد سمیریوں اور اس کے بعد بابل کی تہذیب نے فروغ پایا۔ بابل کی تہذیب میں حمورابی کی بادشاہت میں انھوں نے دنیا کو شہریت کے ابتدائی قوانین دیے۔ چھٹی صدی قبل مسیح میں یہ علاقہ اگلے چار سو سال کے لیے سائرس اعظم کی سلطنتِ فارس کا حصہ بن گیا۔ جس کے بعد سکندر اعظم نے یہ علاقہ فتح کیا جو دو سو سال کے لیے یونانی سلطنت کے زیرِنگیں رہا۔ سکندر کے بعد ایرانیوں نے ساتویں صدی عیسوی تک راج کیا۔

اسلامی عہد

مسلمانوں نے ساتویں صدی عیسوی میں یہ علاقہ فتح کیا۔ مسلمانوں کے خلیفہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے اس کے شہر کوفہ کو اپنا دار الخلافہ بنایا۔ اس کے بعد عربوں نے اموی اور عباسی سلطنت کی صورت میں عراق پر حکومت کی۔ عباسیوں نے بغداد کو پہلی دفعہ دار الحکومت بنایا۔ 1258 عیسوی میں منگولوں نے ہلاکو خان کی قیادت میں بغداد کو تاراج کیا (دیکھیے: سقوط بغداد)۔ اس کے بعد یہ 16 ویں صدی عیسوی میں عثمانی سلطنت کا حصہ بنا جس کی یہ حیثیت جنگ عظیم اول تک برقرار رہی۔

زمانہ جدید

جنگ عظیم اول کے دوران میں برطانیہ نے اس پر قبضہ کر لیا۔ بعد میں فرانس اور برطانیہ نے بندر بانٹ کر کے مشرق وسطی کے حصے بخرے کیے۔ 1932 میں انگریزوں نے اسے آزادی دی اور حکومت شریف مکہ کے بھائی امیر فیصل کو ترکوں کے خلاف جنگ لڑنے کے معاوضے کے طور پر دی۔ مگر عراق میں برطانیہ کے فوجی اڈے برقرار رہے اور اصل طاقت اسی کے پاس تھی۔ جنگ عظیم دوم کے بعد امریکا کا اثر اس خطے میں بڑھنا شروع ہو گیا۔ 1956ء میں عراق، پاکستان، ترکی، ایران، امریکا اور برطانیہ کے درمیان میں معاہدہ بغداد ہوا جو مصر کے جمال عبدالناصر اور شام کے خلاف ایک محاذ بن گیا۔ اس پر جمال عبدالناصر نے عراقی بادشاہت کے خلاف آواز اٹھائی جس کا اثر عراق میں بھی ہوا۔ 14 جولائی 1958ء کو بریگیڈئیر جنرل عبدالکریم قاسم اور کرنل عبدالسلام عارف کی قیادت میں عراقی فوج نے انقلاب برپا کیا اور عراقی بادشاہت کا خاتمہ کر دیا۔ انھوں نے عراق کو جمہوریہ قرار دیا اور معاہدہ بغداد کو قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ بریگیڈئیر جنرل عبدالکریم قاسم اور کرنل عبدالسلام عارف میں بعد میں اختلافات پیدا ہو گئے کیونکہ کرنل عبدالسلام عارف مصر کے ساتھ گہرے تعلقات کے حامی تھے مگر بریگیڈئیر جنرل عبدالکریم قاسم ایسا نہیں چاہتے تھے۔ اس وقت کرنل عبدالسلام عارف کو فارغ کر دیا گیا۔ 1963ء میں ایک اور فوجی بغاوت میں بعث پارٹی نے اقتدار پر قبضہ کر لیا اور کرنل عبدالسلام عارف کو صدر بنا دیا گیا۔ یہ وہی پارٹی ہے جس کے رکن صدام حسین بعد میں صدر بن گئے۔ درمیان میں کچھ وقت کے لیے اقتدار بعث پارٹی کے ہاتھ سے نکل گیا مگر انھوں نے دوبارہ اقتدار پر قبضہ کر لیا۔ 1968ء میں تیل کی برطانوی کمپنی کو فارغ کر کے ایک فرانسیسی کمپنی کے ساتھ معاہدہ کر لیا گیا۔ مگر بعد میں تیل کی صنعت کو قومیا لیا گیا۔ یہی وہ دور ہے جس میں عراق نے کچھ اقتصادی ترقی کی۔ جو پہلے برطانوی لوٹ کھسوٹ کے ساتھ ممکن نہیں تھی۔ بعث پارٹی کے صدام حسین کی حکومت 2003ء تک قائم رہی جس کے بعد امریکا نے عراق پر قبضہ کر لیا۔ صدام حسین کے زمانے میں ایران کے ساتھ ایک طویل وقت (ایران عراق جنگ) لڑی گئی جس میں عراق کو سعودی عرب اور امریکا کی آشیر باد حاصل تھی۔ مگر جب صدام حسین نے کویت پر قبضہ کرنے کی کوشش کی تو سعودی عرب اور امریکا نے اس کے خلاف جنگ لڑی۔ اس جنگ میں امریکا نے ترکی اور سعودی عرب کا علاقہ عراق کے خلاف استعمال کیا۔ کویت پر عراق کا قبضہ چھڑا لیا گیا مگر اس کے بعد بھی امریکا کے عزائم جاری رہے حتیٰ کہ امریکا نے مارچ 2003ء میں ایک اور جنگ (جنگ عراق 2003ء) میں عراق پر قبضہ کر لیا۔

امریکی قبضہ اور اس کے بعد

آج کل عراق میں ایک برائے نام حکومت قائم ہے جو 30 جنوری 2005ء کے انتخابات کے نتیجے میں قائم ہوئی تھی مگر امریکی قبضہ جاری ہے اور اصل طاقت اسی کے پاس ہے۔ تیل کی عراقی دولت کو برطانیہ اور امریکا دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہے ہیں۔ یہ دور ایک خون آلود دور کے طور پر یاد کیا جائے گا کیونکہ ان چند سالوں میں اتنی عراقی عوام قتل ہوئی ہے جو پچھلے پچاس سال میں نہیں ہوئی۔ عراق کے سابق صدر صدام حسین کو امریکی کی زیرِنگیں حکومت نے پھانسی دے دی ہے جس سے فرقہ وارانہ فساد میں اضافہ ہوا ہے۔ استعماری طاقتیں سنی، شیعہ اور کرد مسلمانوں میں اختلافات کو ہوا دے رہے ہیں جس کا منطقی نتیجہ عراق کی تقسیم کی صورت میں نکل سکتا ہے۔ اس کے علاوہ امریکا کی نظریں ایران اور پاکستان پر لگی ہوئی ہیں جو اس وقت ھر طرف سے امریکی افواج یا ان کی ساتھی حکومتوں کے درمیان میں گھری ہوئی ہیں۔ اس سے مشرقِ وسطیٰ کا نقشہ ایک بار پھر بدلنے کا امکان ہے۔

انتظامی ڈھانچہ

عراق کو 18 محافظات (محافظۃ صوبہ کا ہم معنی ہے) میں تقسیم کیا گیا ہے جو کچھ یوں ہیں۔

  1. بغداد
  2. صلاح الدین
  3. دیالیٰ
  4. واسط
  5. میسان
  6. بصرہ
  7. ذی قار
  8. المثنیٰ
  9. القادسیہ
  1. بابل
  2. کربلا
  3. نجف
  4. الانبار
  5. نینویٰ
  6. دہوک
  7. اربیل
  8. کرکوک
  9. السلیمانیہ
عراق کا نقشہ محافظات کے ساتھ

عراق کے شہر

عراق کے شہر

اعداد و شمار

عراق کی آبادی ڈھائی کروڑ سے زیادہ ہے۔ (جولائی2005ء میں 26,074,906)۔ ان میں سے 80 فی صد عرب ہیں اور باقی کرد (پندرہ فی صد کے قریب) اور دوسری نسلوں(ترک، اسیریائی وغیرہ) سے تعلق رکھتے ہیں۔ مسلمان 97 فی صد ہیں جن میں سے ساٹھ فی صد کے قریب شیعہ مسلمان ہیں۔[7] اھلسنت کی اکثریت شافعی مسلک سے تعلق رکھتی ہے۔ تین فی صد افراد دوسرے مذاہب س تعلق رکھتی ہے جن میں زیادہ مسیحی ہیں۔ اور کچھ یہودی، بہائی وغیرہ ہیں۔ عراق کی زندہ آبادی کی اوسط عمر 19.7 سال ہے۔ اور متوقع عمر 67 سال کے قریب ہے۔ 25 سے 30 فی صد افراد بے روزگار ہیں اور یہ شرح بڑھ رہی ہے۔

عراق کے اعداد و شمار
آبادی26 783 383  
آبادی کی شرح نمو2,66 فی صد  
اوسط عمر سالوں میں (کل آبادی)
- مرد
- خواتین
19.7
19.6
19.8
آبادی کی تقسیم عمر کے حساب سے
 0-14 سال
  15-64 سال
  65 سال اور زائد

39.7  فی صد
57.3  فی صد
3.0  فی صد
آبادی کی تقسیم مذہب کے حساب سے
 شیعہ مسلمان
  سنی مسلمان
  مسیحی، بہائی اور دوسرے

60-65  فی صد
32-37  فی صد
3.0  فی صد
آبادی کی تقسیم نسلی حساب سے
 عرب
  کرد
  ترک، اسیریائی اور دوسرے

75-80  فی صد
15-20  فی صد
5  فی صد
بحوالہ:اقوام متحدہ۔2005

جغرافیہ

عراق کا نقشہ

عراق کا کل رقبہ 168,743 مربع میل (437,072 مربع کلو میٹر) ہے۔ اس کا زیادہ تر علاقہ صحرائی ہے مگر دریائے دجلہ اور دریائے فرات کے درمیان میں کا علاقہ انتہائی زرخیز ہے۔ اس علاقے کو میسوپوٹیمیابلادالرافدين یا مابین النھرین کہتے ہیں۔ زیادہ تر شہر انہی دو دریاؤں کے کناروں پر آباد ہیں۔ عراق کا ساحلِ سمندر خلیجِ فارس کے ساتھ بہت تھوڑا ہے جو ام قصر کہلاتا ہے اور بصرہ کے پاس ہے۔ عراق عرب کی آخری سرزمین کہلائی جا سکتی ہے کیونکہ اس کے بعد ایران اور پاکستان ہیں۔ عراق کے ایک طرف کویت ہے جو کسی زمانے میں عراق ہی کا حصہ تھا۔ ایک طرف شام ہے اور ایک طرف سعودی عرب۔ عراق کو اپنے تیل کے ذخائر کی وجہ سے بہت اہمیت حاصل ہے جو دنیا میں دوسرے نمبر پر ہیں۔ عراق میں خشک گرمیوں کا موسم آتا ہے جس میں بادل تک نہیں آتے مگر سردیوں میں کچھ بارش ہوتی ہے۔ عراق کے شمال میں کچھ پہاڑی علاقے بھی ہیں۔ مگر اس کا سب سے بڑا صوبہ (محافظۃ الانبار) جو سعودی عرب کے ساتھ لگتا ہے مکمل طور پر صحرائی ہے۔

معیشت

عراق کی معیشت بین الاقوامی لوٹ کھسوٹ کی ایک اعلیٰ داستان ہے۔ معیشت تیل کے ارد گرد گھومتی ہے۔ تیل کی دولت کو پہلے تو برطانوی کمپنیوں نے خوب لوٹا۔ بعث پارٹی کی ابتدائی حکومت میں عراق برطانوی کمپنیوں سے جان چھڑا کر فرانسیسی چنگل میں پھنس گئے۔ مگر بعد میں بعث پارٹی کی دوسری حکومت نے تیل کی صنعت کو قومیا لیا اور عراق نے کچھ عرصہ ترقی کی۔ عالمی طاقتوں نے عراق کو ایران سے ایک لمبی جنگ میں پھنسا کر خوب برباد کیا۔ اس کی ساری دولت اس جنگ کی نذر ہو گئی۔ امریکا، برطانیہ، فرانس اور اسرائیل نے عراق کو بے تحاشا اسلحہ بیچا۔ حتیٰ کہ عراق کے بیرونی قرضے ایک سو بیس ارب ڈالر تک پہنچ گئے۔ ایران سے جنگ بندی کے بعد تیل کی صنعت میں کچھ بہتری آئی مگر زیادہ وسائل تیل کی صنعت کی بحالی اور بیرونی قرضوں کی ادائیگی پر خرچ ہوتی رہی جس کی وجہ سے عراق خاطر خواہ ترقی نہ کرسکا۔ اس موقع پر عراق نے عالمی طاقتوں کے جال میں آ کر کویت پر قبضہ کرنے کی کوشش کی جس کا نتیجہ اسے ایک اور جنگ اور بین الاقوامی پابندیوں کی صورت میں بھگتنا پڑا۔ اس سے عراق کی معیشت تباہ ہو گئی۔ ایک دہائی کی مسلسل پابندیوں سے عراق کمزور ہو گیا تو بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے کیمیائی ہتھیاروں کا بہانہ کر کے امریکا نے 2003ء میں عراق پر قبضہ کر لیا۔ اگرچہ پیرس کلب کے ممالک نے 33 ارب ڈالر کے قرضے معاف کرنے کا عندیہ دیا ہے ۔[8] مگر اس سے عراق کے ایک سو بیس ارب ڈالر کے قرضوں میں کوئی خاص کمی نہیں آتی جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ جنگ اور خانہ جنگی کے ممکنہ خاتمے کے بعد بھی عراق کو اپنی نئے سرے سے تعمیر اور بیرونی قرضوں کی ادائیگی کے لیے عالمی طاقتوں اور اداروں پر انحصار کرنا پڑے گا اور مستقبل قریب میں عراق میں معاشی ترقی کے کوئی آثار نظر نہیں آتے۔ عراق کی تعمیرِ نو کے نوے فی صد ٹھیکے امریکی کمپنیوں اور باقی برطانوی اور کچھ فرانسیسی اور اطالوی کمپنیوں کو مل رہے ہیں جو مہنگا کام کرنے میں مشہور ہیں اور یوں لوٹ کھسوٹ کا ایک اور در کھل گیا ہے۔

سیاست

عراق سلطنتِ عثمانیہ میں شامل تھا مگر انگریزوں نے پہلی جنگ عظیم میں اس پر قبضہ کر لیا۔ ترکوں کے خلاف جنگ کے انعام میں جہاں انگریزوں نے دیگر عرب ممالک ان لوگوں کے حوالے کیے جو ہمیشہ انگریزوں کے زیر نگیں رہیں وہاں عراق کی حکومت انھوں نے 1932ء میں شریف مکہ کے بھائی شاہ فیصل کے حوالے کر دی۔ مگر اپنے فوجی اڈے اور تیل پر اپنی مکمل حاکمیت برقرار رکھی۔ اور یوں عراق بیشتر عرب ممالک کی طرح مصنوعی طور پر آزاد ہو گیا۔ 1958ء میں فوجی انقلاب آیا جس کے بعد تیل کی صنعت کو قومیا لیا گیا اور بادشاھت ختم کر دی گئی مگر آمریت برقرار رہی۔ اس میں کچھ ہاتھ مصر کے جمال عبد الناصر کا سمجھا جاتا ہے جو تمام عرب ممالک کو متحد کرنا چاہتے تھے۔ 1968ء سے 2003ء تک بعث پارٹی کی حکومت رہی جس میں صدام حسین بھی شامل تھے۔ یہ ایک قسم کی مصنوعی جمہوریت تھی۔ 2003 میں امریکا نے اتحادی فوج کا لبادہ اوڑھ کر عراق پر قبضہ کر لیا جو آج تک جاری ہے البتہ 15 اکتوبر 2005ء کو انتخابات کروا کر عراق کا نیا آئین 78 فی صد اکثریت سے منظور کیا گیا۔ جس کے تحت دسمبر میں نئی عراقی حکومت کی تشکیل کی گئی۔ عراق میں شیعہ اور سنی دونوں موجود ہیں اور اس کے علاوہ عراق عرب، کرد اور کچھ ترک نسلوں میں منقسم ہے جس کا فائدہ اتحادی افواج اٹھا رہی ہیں۔ اتحادی افواج نے مختلف طریقوں سے شیعہ اور سنی تفرقہ پھیلا کر اپنی موجودگی کا ایک جواز پیدا کیا ہوا ہے۔ حال ہی میں عراقی پولیس نے چند نقاب پوش دھشت گردوں کو پکڑا تو وہ انگریز نکلے جو ایک مسجد میں بم دھماکا کرتا چاہتے تھے۔ انھیں ایک جیل میں رکھنے کے تھوڑی ہی دیر بعد برطانوی افواج نے جیل پر ھلہ بولا اور اس کی دیواریں توڑ کر وہ قیدی رہا کروا لیے۔[9][10] موجودہ صورت حال یہ ہے کہ عراقی مزاحمت کا رخ امریکی افواج سے ھٹ کر آپس کی لڑائی کی طرف ہو چکا ہے۔ اتحادی افواج بدستور عراق میں ہیں۔ عراقی تیل ان کے مرضی سے بیچا جا رہا ہے۔ ایک پرانی غیر استعمال شدہ تیل کی پائپ لائن بھی بحال کی گئی ہے جو اسرائیل تک جاتی ہے۔ عراق میں ایک کمزور حکومت قائم ہے جو نہ امریکا کے خلاف کچھ کر سکتی ہے نہ علاقائی خانہ جنگی کو ختم کر سکی ہے۔

بیرونی روابط

  • "عراق"۔ کتاب عالمی حقائق۔ سینٹرل انٹیلی جنس ایجنسی۔
  • عراق برائے فروخت۔ یو ٹیوب

حوالہ جات

This article is issued from Wikipedia. The text is licensed under Creative Commons - Attribution - Sharealike. Additional terms may apply for the media files.