ناروے

  

ناروے
ناروے
پرچم
ناروے
نشان

، ،  

ترانہ:
زمین و آبادی
متناسقات 65°N 11°E / 65; 11   [1]
پست مقام بحیرہ ناروے (0 میٹر ) 
رقبہ 385207 مربع کلومیٹر (27 فروری 2018)[2] 
دارالحکومت اوسلو [3] 
سرکاری زبان بوکمول ، سامی زبانیں ، نینوشک ، ناروی  
آبادی 5328212 (1 جنوری 2019)[4] 
حکمران
طرز حکمرانی آئینی بادشاہت  
اعلی ترین منصب ہارالد پنجم (17 جنوری 1991–) 
قیام اور اقتدار
تاریخ
یوم تاسیس 7 جون 1905، 26 اکتوبر 1905، 17 مئی 1814، صدی 9 
عمر کی حدبندیاں
شادی کی کم از کم عمر 18 سال  
لازمی تعلیم (کم از کم عمر) 6 سال  
لازمی تعلیم (زیادہ سے زیادہ عمر) 15 سال  
شرح بے روزگاری 3 فیصد (2014)[5] 
دیگر اعداد و شمار
منطقۂ وقت متناسق عالمی وقت+01:00 (معیاری وقت ) 
ٹریفک سمت دائیں [6] 
ڈومین نیم no.  
سرکاری ویب سائٹ {{#اگرخطا:باضابطہ ویب سائٹ،باضابطہ ویب سائٹ،باضابطہ ویب سائٹ  |}}
آیزو 3166-1 الفا-2 NO 
بین الاقوامی فون کوڈ +47 

پتھر کا زمانہ

پرانا پتھر کا زمانہ (10000 قبل مسیح):
آج سے 18000 سال پہلے نارڈک کا پورا حصہ برف سے ڈھکا ہوا تھا جو گلیشئر کی صورت میں تھا۔
10000 سال قبل مسیح درجہء حرارت میں تبدیلی کی وجہ سے برف پگھلنا شروع ہوئی۔ اس طرح ناروے کا ساحل برف سے آزاد ہو گیا۔
اس کے بعد یہاں لوگوں نے بسنا شروع کیا جو جانوروں کا شکار اور ماہی گیری سے گزارہ کرتے تھے۔ آہستہ آہستہ انہوں نے پتھروں، درختوں، جانوروں کی ہڈیوں اور کھال سے ہتھیار بنانا شروع کیے۔ یہ لوگ غاروں اور کھال کے بنے ہوئے خیموں میں رہتے تھے۔
وقت کے ساتھ ساتھ درجہ حرارت میں مزید تبدیلی آتی گئی۔ بہت سے لوگ یہاں آ کر آباد ہونے لگے۔ تقریباً 6000 قبل مسیح تک ساحل اور پہاڑوں پر کافی آبادی بڑھ گئی۔
تاریخ میں اس کا پتہ نہیں ملتا کہ یہ لوگ کہاں کہاں سے آئے لیکن اندازہ یہی لگایا جاتا ہے کہ یہ لوگ جنوب کی طرف سے یا مغربی جزیروں سے آئے تھے۔ اور یہ لوگ شمال کی طرف روس کے راستے سے بھی آئے ہوں گے۔

نیا پتھر کا زمانہ: (4000۔ 1800 قبل مسیح)

پرانے پتھر کے زمانے کے بعد کو نیا پتھر کا زمانہ کہا جاتا ہے۔ اور یہ زمانہ تقریباً 4000 سے 1800 قبل مسیح تک رہا۔ سب سے بڑا فرق جو ان دو پتھر کے زمانے میں تھا وہ یہی تھا کہ نئے پتھر کے زمانے میں کھیتی باڑی کا آغاز ہوا۔ جو مختلف اناج، غلہ کی صورت میں تھا۔ (گندم، جو اور باجرہ وغیرہ) لوگوں نے اس زمانے میں گھروں میں گائے اور بھیڑوں کو بھی پالنا شروع کیا۔ کھیتی باڑی کا طریقہ جنوب کی طرف سے آئے ہوئے لوگوں نے یہاں پھیلا دیا تھا۔ کھیتی باڑی کی وجہ سے لوگوں نے مستقل رہنا شروع کر دیا۔ 2000 قبل مسیح تک شکار اور ماہی گیری سب سے بڑا پیشہ تھا۔ جس کا اندازہ ہمیں پتھروں پر جانوروں کی تصویروں سے ہوتا ہے۔ جو وہ لوگ پتھروں وغیرہ پر بنایا کرتے تھے۔ اس دور کے آخر تک کھیتی باڑی کے پیشے نے بہت اہمیت حاصل کر لی تھی۔

دھاتوں کا زمانہ (1800قبل مسیح۔ 500 مسیح)

1800 سے 500 قبل مسیح تک کے زمانے کو دھاتوں کا زمانہ کہا جاتا ہے۔ اس زمانے کے امیر لوگوں نے کانسی اور ٹین سے ہتھیار اور زیورات بنانے شروع کیے۔
لیکن ابھی تک کافی لوگ پتھروں، ہڈیوں اور درختوں سے ہی ہتھیار وغیرہ بنایا کرتے تھے۔ کھڈی پر کپڑا بننا اور اون کا استعمال اسی زمانے میں شروع ہوا۔ اون بھیڑوں کی کھال سے حاصل کی جاتی تھی۔

لوہے کا زمانہ (500۔ 800 مسیح)

اس زمانے میں لوہا بنانے کا ہنر اس شمالی علاقے تک پہنچ چکا تھا۔ ناروے کے بہت بڑے حصے میں کوئلے کی مدد سے لوہے کو پگھلایا جانے لگا۔ یہ کوئلہ دلدل سے حاصل کیا جاتا تھا۔ لوہے سے انہوں نے چاقو، کلہاڑی اور دوسرے ہتھیار بنائے۔
ناروے چھوٹی چھوٹی بہت سی ریاستوں میں تقسیم تھا۔ اور ہر ریاست کا حکمران ہوتا تھا۔ ان میں سے کچھ حکمران کافی مذہبی ہوتے تھے۔

3۔ وائی کنگ کا زمانہ، ریاستوں کا اکھٹا ہونا اور مسیحیت تقریباً 800 سے 1030 تک

۔ وایکنگ کا زمانہ Lindisfarne پر حملہ۔ (793۔ 1030)

پہلے وائی کنگ نے 793 میں انگلینڈ کے جزیرہ Lindisfarne ایک مذہبی جگہ پر حملہ کیا۔ انہوں نے بہت سے لوگوں کو قتل کیا اور بہت سے لوگوں کر قید کر لیا۔ اس حملے کی خبر باقی یورپ ممالک میں بھی پھیل گئی۔ بہت سے مذہبی لوگوں نے ان وحشیوں کے بارے میں سن رکھا تھا۔ ایک سال کے بعد دوبارہ انہوں نے انگلینڈ کی مذہبی جگہوں Monkwearmouth, Jarrow پر حملہ کیا۔ اسی سال 795 میں وائی کنگ نے ناروے سے آئر لینڈ میں لوٹ مار شروع کر دی۔ وہ جہاں جہاں گئے انہوں نے لوٹ مار کے ساتھ ساتھ قتل و غارت بھی کی۔ تقریباً اسی دور میں کچھ نارویجین وائی کنگ اسکاٹ لینڈ اور ارد گر دکے جزیروں میں آ کر رہنے لگے۔ دوسرے وائی کنگ جنگ کرتے ہوئے بحری جہازوں کے ذریعے جرمنی، فرانس، سپین اٹلی اور شمالی افریقہ تک گئے۔ وہاں انہوں نے بہت سا خزانہ چوری کیا۔ اور ساتھ ہی کافی لوگوں کو قتل کیا اور بہت سوں کو غلام بنا کر لے گئے۔

آٹھویں سے گیارویں صدی کے درمیان وائی کنگ جن تجارتی راستوں پر حملے کرتے رہے انہیں ہرے رنگ سے دکھایا گیا ہے۔

سویڈن کے وائی کنگ جنوب کی طرف سے ہوتے روس کی جانب گئے۔ وہاں انہوں نے کئی شہروں کو لوٹا۔ اسی زمانے میں انہوں نے اپنے خدا بنائے۔ جن کے نام تھور، اودن تھے۔ 830 مسیحیت مذہب کے کچھ لوگ آئے انہوں نے وائی کنگ کو اس مذہب کے بارے میں بتایا لیکن وائی کنگ کو یہ مذہب اپناتے ہوئے کچھ عرصہ لگا۔ 835 سے 841 تک انہوں نے انگلینڈ، آئر لینڈ میں لوٹ مار کا سلسلہ جاری رکھا۔ 930 میں وائی کنگ کی تعدا آئس لینڈ میں تقریباً 10000 ہو گئی تھی۔ 930 میں ڈنمارک کے وائی کنگ کی تعداد مسیحیت مذہب میں بڑھنے لگی۔ لیکن ان کا بادشاہ دس سال کے بعد اس مذہب میں آیا۔ 982 میں نارویجین وائی کنگ Eirik آئس لینڈ کے ایک بندے کو قتل کر کے وہاں سے بھاگ کر ایک جزیرہ پر چلا گیا۔ جس کا نام اس نے گرین لینڈ رکھا۔ بہت سالوں کے بعد اس کے ساتھ آ کر کئی لوگ رہنے لگے۔ 1002 میں ایرک کا بیٹا Leif Eriksson نے ایک اور جزیرے پر گیا جس کا نام اس نے Vinland (Wine Land رکھا۔ 1000 سال میں انگریزوں نے وائی کنگ کو بہت سا خزانہ دے کر انھیں لوگوں کو آزادانہ رہنے کے لیے کہا۔ لیکن اس کے باوجود 1016 تک وائی کنگز وہیں رہے۔ اسی دوران ناروے کے وائی کنگ مسیحی ہونا شروع ہوئے۔ انہوں نے چرچ بنائے۔ مسیحیت کے پھیل جانے کے بعد انہوں نے جنگ، لوٹ مار اپنے مطالبات کو ختم کر دیا۔ 1066 کے بعد وہ آرام و سکوان سے زندگی گزارنے لگے۔ وائی کنگ اس زمانے میں بہت بڑے تاجر تھے۔ انہوں نے تجارت کا سلسلہ انگلینڈ، آئر لینڈ اور یورپ کے دوسرے ممالک میں جاری رکھا۔ جہاں جہاں وائی کنگز گئے انہوں نے وہیں کی زبان اور کلچر کو اپنا لیا۔ اور جلد ہی فرانسیسی، انگریز، روسی یا آئریش بن گئے۔

ریاستوں کا اکھٹا ہونا

وائی کنگ کے آخری زمانے میں ناردن میں تین ریاستیں تھیں۔ ڈنمارک، ناروے اور سویڈن۔ Harald وہ پہلا بادشاہ تھا جس نے ناروے کو ایک ریاست بنایا۔ Harald کو Gyda نامی لڑکی سے پیار ہو گیا تھا۔ اس وقت ملک کے کئی حصوں تھے جس کا الگ حکمران تھا۔ گیدا اس کی بیوی اس وقت تک بننے کے لیے تیار نہیں تھی جب تک Harald پورے ناروے کا بادشاہ نہ بن جاتا۔ تب ہی Harald نے قسم کھائی کہ وہ جب تک پورے ناروے کو فتح نہیں کر لے گا اپنے بال نہیں کٹوائے گا۔ اسی لیے اس کا نام Harald the Fairhair پڑ گیا۔ کئی مقابلوں کے بعد ہارلڈ پورے ناروے کا بادشاہ بن گیا تب اس کی شادی گیدا سے ہوئی۔ اس نے 1319 تک بادشاہت کی۔ اس کے مر جانے کے بعد اس کے بیٹے ناروے کے بادشاہ بنے۔

مسیحیت کا آغاز

وایکنگ پہلے ہی یورپ کے بہت سے ممالک میں جا چکے تھے۔ اور اس کے بعد نارویجین بادشاہوں نے مسیحیت کو آگے بڑھایا۔ بادشاہ Olav 1 جو ہارلڈ کا بیٹا تھا۔ اس نے ہر علاقے میں مسیحیت کو پھیلا دیا۔ بے شک بہت سے علاقوں میں مسیحیت پھیل چکی تھی لیکن اس کے باوجود بہت سے لوگ اس نئے مذہب کے خلاف تھے۔ ان کے لیے اپنے باپ دادا کا مذہب چھوڑنا بہت مشکل تھا۔ بادشاہ Olav 2 بھی مسیحی تھا۔ اس نے اپنے دور میں ملک میں مکمل مسیحیت کے نظام کا آغاز کیا۔ اس کا قول تھا۔ ’ مسیحی بنو یا مر جاؤ۔! اس نے پرانے خداؤں کی تصویریں اور بتوں کو توڑ ڈالا۔ 1030 میں اس پر دوسرے مذہب کے لوگوں نے حملہ کیا۔ اور اسے قتل کر دیا۔ اور اس بادشاہ کو ’مقدس Olav ’ کا نام دیا گیا۔ اور اسی وجہ سے 1030 سال کو مسیحیت کے آغاز کا سال بھی مانا جاتا ہے۔

دورِ وسطٰی (1537۔ 1030)

سنہری زمانہ : ء1200۔1030ء معاشی بدحالی کا زمانہ: 1300ء

1000 سے 1300 تک ناروے کی آبادی 150،000 سے 400،000 تک ہو گئی تھی۔ اس وقت تک بہت سے لوگوں کا پیشہ کھیتی باڑی تھا۔ اور جوں جوں آبادی میں اضافہ ہوتا گیا توں توں ان کھیتوں کی تقسیم ہوتی گئی۔ اس زمانے کا بادشاہ بھی بہت سی زمینوں کا مالک تھا۔ ء1000 میں کئی شہر آبادی کے بڑھ جانے کی وجہ سے بڑے شہر کہلانے لگے۔ برگن اس زمانے کا بہت اہم شہر تھا۔ 1200 سے برگن ناروے کا بڑا شہر تھا۔

سنہری زمانہ: 1100 سے 1200 کے زمانے کو سنہری زمانہ کہا گیا کیونکہ یہ زمانہ ناروے کے لیے معاشی و سیاسی ہر لحاظ سے بہت اچھا ثابت ہوا تھا۔ بادشاہت کے نظام کو منظم کیا گیا۔ لیٹریچر، خطاطی کو فروغ دیا گیا۔ چرچوں میں آرٹ اور کلچر کو فروغ دیا۔ گرین لینڈ، آئس لینڈ اور کئی دوسرے جزیرے ناروے کے پاس تھے۔

معاشی بدحالی کا زمانہ:1349 میں طاعون کی وجہ سے آبادی کا تیسرا حصہ ہلاک ہو گیا۔ اس کے بعد بھی کئی بار اس بیماری کا حملہ ہوا۔1400 سے پہلے لوگ اس وباء کی وجہ سے آگے نہ بڑھ سکے۔

1319 میں ناروے کا بادشاہ (جس کا کوئی بیٹا نہیں تھا)کے مر جانے کے بعد سویڈن اور ناروے کا ایک ہی بادشاہ بنا دیا گیا تھا۔ 1380 سے ناروے اور ڈنمارک کا بادشاہ ایک ہی تھا۔ جو 1814 تک رہا۔ Margaret نے ان تین ممالک کو ایک یونین میں اکھٹا کیا۔ 1536 میں فیصلہ کیا گیا کہ ناروے ایک الگ ملک نہیں رہے گا بلکہ اسے ڈنمارک کا ایک صوبہ بنا دیا جائے۔

Reformation 1537

ناروے بھی یورپ کے باقی ممالک کی طرح ایک مسیحی ملک تھا جو کیتھولک مذہب تھا۔ آخری نارویجین پادری کا نام Olav تھا اس کے دو مقصد تھے ایک کہ ناروے میں سرکاری مشورے کو بادشاہت سے برتری دی جائے۔ اور دوسرا کہ نارویجین Martin Luther کے مذہب کی پیروی کریں۔ جو ایک جرمن پادری تھا۔ Luther نے کہا تھا کہ بائیبل کا لاطینی زبان میں ترجمہ کیا جائے۔ تاکہ ہر زبان بولنے والا اس کو سمجھ سکے۔ بادشاہ فریڈرک 1 کے 1533 میں مر جانے کے بعد 1536 میں Christian 3 نے Luther کے مذہب کو ڈنمارک میں پھیلایا۔ اور ناروے میں بھی اسی مذہب کو سرکاری مذہب بنانے کا فیصلہ کیا گیا۔ 1537 میں بادشاہ کی فوج ناروے میں آئی۔

1380 میں ناروے ڈنمارک ایک ہی ملک بن گیا تھا۔ اور ڈنمارک کی حکومت ہونے کی وجہ سے ہی ناروے بہت پیچھے رہ گیا۔ ناروے میں بھی وہی قانون تھے جو ڈنمارک میں بنائے گئے۔ Christian 4 وہ بادشاہ تھا جس نے اپنے دور میں ناروے کا 25 بار سب سے زیادہ دورے کیے تھے۔ اسی دور میں Peter Wessel اپنی کوششوں سے جنگ کی اور جیت گیا۔ 1700 میں اس کا قبضہ کافی علاقوں میں ہو گیا۔ اس نے سویڈن کے بحری بیڑے کو بھی اپنے قبضے میں کر لیا۔ نپولین کے جنگوں کی اثرات کی وجہ سے 1814 میں ڈنمارک اور ناروے علاحدہ ہو گئے۔ ناروے جیتنے والوں کی طرف تھا اسی وجہ سے اس نے ناروے کو حاصل کرنے کا مطالبہ کر دیا۔ جو نارویجین لوگ نہیں چاہتے تھے۔ 17 مئی 1814 میں ناروے کو مجبوراً سویڈن کی یونین میں رکنیت کرنی پڑی۔ جو 7 جون 1905 تک رہی۔ اس کے بعد شہزادہ Carl جو ڈنمارک کا تھا بادشاہ بنا۔ جس نے اپنا نام Hakon 7 رکھا۔ 9 اپریل 1940 میں ناروے کی تاریخ کا ایک نیا باب کھلا۔ جو بالکل غیر متوقع تھا۔ جرمن لوگوں نے ناروے پر حملہ کر دیا۔ انہوں نے ملک کے کئی حصوں میں جنگ کی۔ تقریباً دو مہینوں کے بعد ناروے کو ہار ماننی پڑی۔ بادشاہ اور اس کی حکومت انگلینڈ چلی گئی۔ اس طرح باقی ملک میں جنگ جاری رہی۔ اور 8 مئی 1945 کو ختم ہوئی۔ اور اس کے بعد ناروے نے سکھ کا سانس لیا۔

ڈیموگرافی

ناروے کی زیادہ تر آبادی نورویجین ہیں ، زیادہ تر غیر ملکی قومیتوں پولینڈ، سویڈن، ایران & کردستان ، پاکستان اور عراق سے ہیں.

فہرست متعلقہ مضامین ناروے

  1.   "صفحہ ناروے في خريطة الشارع المفتوحة"۔ OpenStreetMap۔ اخذ شدہ بتاریخ 24 دسمبر 2019۔
  2. Arealstatistikk for Norge — ناشر: Norwegian Mapping and Cadastre Authority — شائع شدہ از: 27 فروری 2018
  3. https://www.cia.gov/library/publications/the-world-factbook/geos/no.html — اخذ شدہ بتاریخ: 1 جون 2015
  4. https://www.ssb.no/befolkning/statistikker/folkemengde/aar-per-1-januar
  5. http://data.worldbank.org/indicator/SL.UEM.TOTL.ZS
  6. http://chartsbin.com/view/edr
This article is issued from Wikipedia. The text is licensed under Creative Commons - Attribution - Sharealike. Additional terms may apply for the media files.