دار الحکومت

دار الحکومت (انگریزی: Capital City) ایسا شہر یا علاقہ جہاں سے کسی ملک کا نظام چلایا جاتا ہے یا جہاں قومی و سرکاری ادارے اور دفاتر موجود ہوں دار الحکومت کہلاتا ہے۔

نام

دار الحکومت لفظ کا مطلب ہوتا ہے "حکومت کا گھر"، "حکومتی جگہ" "شہر اقتدار" یا "سربراہ شہر"۔ موجودہ وقت میں تو دار الحکومت کا لفظ استعمال ہوتا ہے جبکہ جب خلافت ہوتی تهی تو اس وقت دار الخلافہ یا دارالخلافت کہا جاتا تها۔

اقسام

خاص طور پر دار الحکومت سے مراد ملکی یا قومی دار الحکومت مراد لیا جاتا ہے۔ لیکن عام طور پر اس کے علاوہ بھی دار الحکومت ہوسکتے ہیں جیسے ضلعی دار الحکومت، تحصیلی دار الحکومت اور دیگر اقسام بھی ہوسکتی ہیں۔

مشترکہ دار الحکومت

دو ریاستوں کا نظم نسق کبھی کبھار ایک ہی دار الحکومت کے ذمہ ٹہرتا ہے۔ ہندوستان میں دو دار الحکومت ایسے ہیں جہاں سے دو ریاستوں کے انتظامی امور انجام دیے جاتے ہیں۔ ایک دار الحکومت کا نام چنڈی گڑھ ہے جو شمالی ہندوستانی کی دو ریاستوں پنجاب اور ہریانہ کا مشترکہ دار الحکومت ہے۔ دوسرے مشترکہ دار الحکومت کا نام حیدرآباد ہے جو جنوبی ہندوستان کی ریاستیں آندھرا پردیش اور تلنگانہ کے انتظامی امور انجام دیتا ہے۔

مختلف ممالک اور ان کے دار الحکومت

  • پاکستان:اسلام آباد
  • بھارت: نئی دہلی
  • چین:بجنگ
  • افغانستان: کابل
  • ترکی: انقرہ
  • امریکا:واشنگٹن
  • ایران:تہران
  • سعودی عرب: ریاض
  • متحدہ عرب امارات: ابوظہبی
  • کینیڈا: اوٹاوا
  • نیپال: کٹھمنڈو
  • مصر: قاہرہ
  • سوڈان:خرطوم
  • اسپین: میڈرڈ
  • برطانیہ: لندن

تفصیل

سیاسی اعتبار سے دار الحکومت، حکومت سے متعلقہ مخصوص شہر یا قصبہ ہوتا ہے، دوسرے الفاظ میں دار الحکومت وہ شہر ہوتا ہے جہاں حکومتی دفاتر، مجلس گاہیں وغیرہ ہوتی ہیں۔ تاریخی اعتبار سے دیکھا جائے تو وہ شہر جو کسی علاقہ میں معاشی مرکز کی اہمیت رکھتے تھے وہی وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ زیادہ اہمیت اختیار کرتے گئے اور وہی دار الحکومت قرار پائے مثلاً لندن یا ماسکو۔

دار الحکومت قدرتی طور پر ایسے لوگوں کو اپنی طرف کھینچتے ہیں جو سیاسی شعور رکھتے ہیں یا انتظامی قابلیت رکھتے ہیں مثلاً وکیل، صحافی، سماجی محققین وغیرہ۔ دار الحکومت کسی ملک کے معاشی، ثقافتی و سماجی مرکز کے طرح ہوتا ہے۔ لیکن دیکھنے میں آیا ہے کہ حکومتوں کو دار الحکومت جیسے بڑے شہر کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے انتظامات بھی کرنے پڑتے ہیں اور دار الحکومت تبدیل بھی کرنے پڑتے ہیں۔ جس کی مثال برازیل کی ہے جہاں ریو ڈی جینیرو میں زیادہ بھیڑ بھاڑ ہونے کی وجہ سے براسیلیا کو دار الحکومت بنایا گیا۔ ایسے ہی اعلانات جنوبی کوریا کی حکومت بھی کر چکی ہے جو سیول کو زیادہ رش والی جگہ قرار دے کر یونگی گونگجو کو دار الحکومت بنانا چاہتی ہے۔

ایسی بھی مثالیں موجود ہیں جہاں کسی ملک کے ایک سے زیادہ دار الحکومت ہیں یا کوئی مخصوص دار الحکومت نہیں ہے۔ جس کی مثالیں درج ذیل ہیں۔

  • بولیویا: سوکرے ابھی تک قانونی دار الحکومت ہے لیکن زیادہ تر حکومتی معاملات کو لاپاز منتقل کیا جاچکا ہے۔
  • چلی: دار الحکومت سانتیاگو ہے لیکن قومی اسمبلی والپاریزو میں ہے۔
  • آئیوری کوسٹ: 1983ء میں یاموسوکرو کو دار الحکومت قرار دیا گیا، لیکن زیادہ تر حکومتی دفاتر اور سفارتخانے عابد جان میں ہی ہیں۔
  • اسرائیل: یروشلم کو قانونی دار الحکومت قرار دیا گیا ہے جہاں عدالت عظمی اور دوسرے حکومتی دفاتر ہیں لیکن فلسطین کے ساتھ تنازع کی وجہ سے عالمی برادری اس کو دار الحکومت تسلیم نہیں کرتی اور ان کے سفارت خانے تل ابیب میں ہیں۔ اسرائیل میں امریکی سفارتخانہ بھی تل ابیب میں ہے۔
  • ناؤرو: صرف 21 مربع کلو میٹر رقبہ پر مشتمل ملک ہے جس کا کوئی دار الحکومت نہیں ہے۔
  • نیدرلینڈز: قانونی دار الحکومت کا درجہ ایمسٹرڈیم کو حاصل ہے لیکن حکومتی دفاتر، اسمبلی، عدالت عظمی وغیرہ دی ہیگ میں ہیں۔
  • جنوبی افریقا۔ انتظامی دار الحکومت پریٹوریا ہے، قانون سازی کے لیے دار الحکومت کا درجہ کیپ ٹاؤن کا ہے اور عدالتی دار الحکومت بلوم فاؤنٹین ہے۔

مزید پڑھیے

This article is issued from Wikipedia. The text is licensed under Creative Commons - Attribution - Sharealike. Additional terms may apply for the media files.