ازبکستان

ازبکستان، باضابطہ نام جمہوریہ ازبکستان (ازبک زبان: O‘zbekiston Jumhuriyati، اوزبکستون جمہوریتی) وسط ایشیا خشکی سے محصور (landlocked) ملک ہے۔ اس کی سرحدیں مغرب و شمال میں قازقستان، مشرق میں کرغزستان اور تاجکستان اور جنوب میں افغانستان اور ترکمانستان سے ملتی ہیں۔

  

ازبکستان
ازبکستان
پرچم
ازبکستان
نشان

 

ترانہ:ازبکستان کا ریاستی ترانہ  
زمین و آبادی
متناسقات 41°N 66°E / 41; 66   [1]
بلند مقام حضرت سلطان  
رقبہ 448978.0 مربع کلومیٹر  
دارالحکومت تاشقند  
سرکاری زبان ازبک زبان [2] 
آبادی 32387200 (2017)[3] 
حکمران
طرز حکمرانی صدارتی نظام  
اعلی ترین منصب شوکت میرضیایف (8 ستمبر 2016–) 
قیام اور اقتدار
تاریخ
یوم تاسیس 1991 
عمر کی حدبندیاں
شادی کی کم از کم عمر 17 سال  
شرح بے روزگاری 11 فیصد (2014)[4] 
دیگر اعداد و شمار
منطقۂ وقت متناسق عالمی وقت+05:00  
ٹریفک سمت دائیں [5] 
ڈومین نیم uz.  
سرکاری ویب سائٹ {{#اگرخطا:باضابطہ ویب سائٹ  |}}
آیزو 3166-1 الفا-2 UZ 
بین الاقوامی فون کوڈ +998 

یہ لیختینستائن کے بعد دنیا کا واحد ملک ہے جو چاروں طرف سے ایسے ممالک میں گھرا ہے جو خود بھی سمندر سے محروم ہیں۔ انگریزی میں اسے doubly landlocked country کہا جاتا ہے۔

ملک کی قومی زبان ازبک ہے جو ایک ترک زبان ہے جو ترکی اور دیگر ترک زبانوں سے ملتی جلتی ہے۔ چند ذرائع کے مطابق ملک کی کل آبادی کا تقریباً 42 فیصد تاجک النسل ہیں۔ لفظ ازبک کا مطلب حقیقی/اصل (اوز) رہنما(بک) ہے۔

ازبکستان کی تاریخ

پہلی ملینیم قبل از مسیح میں ایران کے خانہ بدوش نے وسط ایشیا کی ندیوں پر آبپاشی کا نظام قائم کیا اور بخارا و سمرقند جیسے شہر آباد کیے۔ اپنے محل وقوع کی وجہ سے یہ علاقے بہت جلد آباد ہو گئے اور چین و یورپ کے درمیان میں آمد و رفت کا سب سے اہم راستہ بن گئے جسے بعد میں شاہراہ ریشم کے نام سے جانا گیا۔ چین و یورپ کے تجارتی راستہ ہونے کی وجہ سے یہ علاقہ کافی مالدار ہو گیا۔ اس تجارت سے سب سے زیادہ فائدہ سوغدائی ایرانی قبیلہ کو ہوا۔ ساتویں صدی عیسوی میں ماوراء النہر کہلائے جانے والے اس علاقے میں سب سے بڑا انقلاب اس وقت آیا جب عرب قوم نے یہاں اسلام کا پرچم لہرا دیا اور یوں یہ علاقہ اسلام کے زیر آغوش آگیا۔ 8ویں اور نویں صدی عیسوی میں یہ علاقہ خلافت عباسیہ کے زیر حکومت تھا اور یہی زمانہ تعلیم اور ثقافت کا سنہری دور مانا جاتا ہے۔ اس کے بعد ترکوں نے شمال کی جانب سے علاقہ میں دخل اندازی شروع کی اور نئے صوبے آباد کیے، ان میں بہت سے ایرانی نسل کے لوگ بھی تھے۔ 12ویں صدی تک کئی صوبے آباد کیے جا چکے تھے، اب باری تھی ماوراء النہر کو متحد کرنے کی، لہٰذا انہوں نے ایران اور خوارزم کے علاقے کو ملا کر ماوراء النہر کو ایک بڑے صوبے میں منتقل کر دیا جو بحیرہ ارال کے جنوب تک پھیلا ہوا تھا۔ 13ویں صدی کے اوائل میں منگول کے چنگیز خان کی چنگاری یہاں بھی پہنچی اور پورے علاقہ کو تہس نہس کر دیا اور ایرانی بولنے والوں کو وسط ایشیا کے دوسرے علاقوں کی طرف دھکیل دیا۔ امیر تیمور کے زمانے میں ماوراء النہر نے پھر سے پھلنا پھولنا شروع کیا اور اس بار ا س کا مرکز سمرقند تھا۔ تیمور کے بعد یہ صوبہ کئی حصوں میں بٹ گیا اور 1510ء میں ازبیک کے قبائل نے وسط ایشیا پر قبضہ کر لیا۔ [6]

سولہویں صدی میں ازبیک میں دو مد مقابل خانیت آمنے سامنے ہوئے: خانیت بخارا اور خانان خیوہ۔ اس زمانہ میں چونکہ سمندی سفر کامیاب ہو رہا تھا لہٰذا شاہراہ ریشم زوال پزیر ہو گیا۔ خانیت کو ایرانیوں سے جنگ لڑنی پڑی اور ان کا کوئی ساتھی بھی نہیں تھا۔ شمالی گھمککڑوں نے بھی ان پر حملے کر کے ان کو کمزور کر دیا تھا اور وہ الگ تھلگ ہو گئے۔ 1729ء تا 1741ء کے درمیان میں ایران کے نادر شاہ نے خانیت کو ایک علاقہ تک محدود کر دیا۔ 19ویں صدی کے اوائل میں تین ازبیک قبائل- خانیت بخارا، خانیت خیوہ اور خانیت خوقند نے اپنی پسپائی سے ابھرنے کا ہلکا سا دور دیکھا۔ لیکن صدی کے نصف آتے آتے اس کی زرخیزی اور تجارتی مالداری کو روس کی نظر لگ گئی۔ خصوصا اس کی کپاس کی کھیتی ایک اہم ذریعہ تھی جس سے یہاں خوب تجارت ہوتی تھی۔ روس نے اسی لالچ میں وسط ایشیا میں اپنی پوری فوج لگادی۔ 1876ء میں روس نے تینوں خانیت پر قبضہ کر لیا اور موجودہ دور کا ازبکستان اس کی زیر حکومت آگیا اور خانیت کے اختیارات کافی حد تک محدود کر دئے گئے۔ 19ویں صدی کے دوسرے نصف میں روس نے ازبکستان کی روسی آبادی نے ترقی کی اور یہاں انڈسٹری کا آغاز ہوا۔ [6]

بیسویں صدی کا آغاز جدت پسند تحریک کا بیج لے کر نمودار ہوا۔ موجودہ ازبکستان میں شروع ہوئی یہ تحریک نے روس کو یہاں سے بھگا دینے کی مانگ شروع کر دی۔ 1916ء میں وسط ایشیائی لوگوں کے پہلی جنگ عظیم میں حصہ لینے کے جواب میں ازبکستان اور دیگر علاقوں میں ایک پرتشدد حزب مخالف کا آغاز ہوا۔ 1917ء میں زار کے خاتمے کے بعد جدت پسندوں نے خانیت خوقند میں ایک مختصر مدتی آزاد ریاست قائم کی۔ بولسویک جماعت کے ماسکو میں اقتدار حاصل کرنے کے بعد جدت پسند دو حصوں میں بٹ گئے، ایک نے روسم کمیونزم کو اپنایا تو دوسرے نے عام ترقی پسندی کو اختیار کیا اور اسی سے بسماچی تحریک تحریک کی ابتدا ہوئی۔ چونکہ یہ تحریک 1920ء کے اوائل میں کچل دی گئی تھی لہذا فیض اللہ خوجائے جیسے علاقائی لیڈروں نے ازبکستان میں طاقت حاصل کر لی۔ 1924ء میں سویت اتحاد نے ازبک سویت سوشلسٹ ریپبلک قائم کیا جس میں موجودہ تاجکستان اور ازبکستان شامل تھے۔ 1929ء میں تاجکستان ایک آزاد ریاست بن گیا جس کا نام تاجک سوویت اشتراکی جمہوریہ رکھا گیا۔ 1920-1930ء میں وسیع پیمانے پر فصل کٹائی کی وجہ سے وسط ایشیا ایک بڑے قحط کا شکار ہو گیا۔ 1930ء میں فیض اللہ خوجائے اور دیگر لیڈروں کو سوویت لیڈر جوژف وی اسٹالن (اقتدار: 1927–1953) نے دھوکے سے قتل کر دیا۔ ازبکستان کی سیاست اور مشیعت کی روسی کاری کا دور 1930 سے 1970 تک چلا۔ اس دوران میں روس نے ہرطرح سے علاقہ کو لوٹا اور برباد کیا۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران میں نے اسٹالن نے قفقاز اور کرائمیا کے تمام قومی گروہوں کو جلا وطن کر دیا اور سب کو ازبکستان بھیج دیا تاکہ وہ لوگ جنگ کے خلاف کوئی متنوع حرکت نہ کرسکیں۔ [6] 1970ء کے آس پاس ازبکستان پر ماسکو کا تسلط کمزور ہوتا گیا کیونکہ ازبک پارٹی کے لیڈر شرف راشدی نے اپنے رشتہ داروں اور دوستوں کو حکومت کے عہدوں پر فائز کیا۔ 1980ء کی دہائی کے وسط میں روس نے پھر سے ازبکستان پر قبضہ کرنے کی کوشش کی اور وہاں کے سیاسی لیڈروں کو جلاوطن کرنے لگا۔ اس حرکت سے ازبک قومیت کو جلا ملی جو اب تک روسی پالیسیوں سے خفا تھے جیسے کپاس کا مکمل نفع روس کو جانا اور اسلامی اقدارات کو ختم کرنا وغیرہ۔ 1980ء کی دہائی میں سوویت اتحاد کے رہنما میخائیل ایس (اقتدار: 1985-91ء) کی لبرل پر مبنی پالیسیوں اور ماحول نے سیاسی مخالف طاقتوں کو جنم دیا اور ازبکستان کی سماجی پالیسی کی مخالفت شروع ہوئی۔ 1989ء میں نسلی پرتشدد واقعات کا ایک سلسلہ شروع ہوا جس کے بعد ازبیک نسل کے اسلام کریمو کو کمیونسٹ پارٹی کا صدر بنایا گیا۔ 1991ء میں ازبکستان کی سوویت نے سوویت اتحاد سے آزادی کا اعلان کر دیا اور اسلام کریمو آزاد ازبکستان کے پہلے صدر ہوئے۔ [6]

1992ء میں ازبکستان کو نیا دستور ملا مگر مرکزی حزب اختلاف ، برلیک پر پابندی لگا دی گئی اور میڈیا کو دبانا شروع کیا گیا۔ 1995ء میں نیشنل ریفرینڈم کے ذریعے اسلام کریمو کے دور حکومت کو 1997ء سے 2000ء تک بڑھادیا گیا۔ مشرقی ازبکستان میں 1998ء اور 1999ء میں پرتشدد واقعات ایک سلسلہ شروع ہو گیا جس کی بنا پر اسلام پسندوں کو نشانہ بنایا جانے لگا۔ 2000ء میں کریمو کو بالاجماع صدر منتخب کیا گیا مگر انتخابات کا یہ طریقہ بین القوامی تنقید کا نشانہ بنا۔ اسی سال کے آخر میں ازبکستان نے تاجکستان کی سرحد پر کانوں کی کھدائی شروع کی جس سے دونوں ملکوں کے تعلقات سنگین ہو گئے اور ازبکستان دنیا پھر میں علاقائی غنڈے کے طور پو جانا جانے لگا۔ 2000ء کے آس پاس پڑوسی ریاستوں -کرغیزستان اور ترکمانستان کے ساتھ تعلقات کشیدہ ہو گئے ۔ 2006ء میں کرغیزستان کے ساتھ اس وقت مزید خراب ہو گئے جب ازبکستان نے ان ہزاروں پناہ گزینوں کا معاوضہ مانگ لیا جو فسادات کے دوران میں انڈیجون سے کرغیزستان چلے گئے تھے۔ 2006ء میں کریمو نے خود مختاری جاری رکھی اور حکومتی افسران اور عہدیداروں کو کو برطرف کرنا بند نہیں کیا۔ یہاں تک کہ نائب وزیر اعظم کو بھی نہیں بخشا۔ [6]

ازبکستان کا جغرافیہ

Bukhoro
Jizzakh
Navoiy
Qarshi
Samarkand
Guliston
Termiz
Tashkent
Ferghana
Andijan
Namangan
Urgench
Nukus
ازبکستان کا نقشہ

ازبکستان وسط ایشیا میں واقع ایک ملک ہے۔ اس کے جنوب میں ترکمانستان اور افغانستان ہیں۔ اس کا رقبہ 447,000 مربع کلو میٹر ہے جو ہسپانیہ یا کیلیفورنیا کے برابر ہے۔ یہ مشرق تا مغرب 1425 کلو میٹر اور شمال تا جنوب 930 کلو میٹر تک پھیلا ہوا ہے۔ اس کی سرحد جنوب مغرب میں ترکمانستان، شمال میں قازقستان، جنوب میں تاجکستان اور مشرق میں کرغیزستان سے ملتی ہیں۔ ازبکستان نہ صرف وسط ایشیا کی سب سے بڑی ریاستوں میں سے ایک ہے بلکہ یہ واحد ریاست ہے جس کی سرحدیں باقی باقی چار ریاستوں سے ملتی ہیں۔ چونکہ بحیرہ قزوین کا تعلق کسی سمندر سے نہیں ہے لہذا ازبکستان ان دو ملکوں میں سے ایک ہے جو مکمل طور سے زمین بند ملک سے گھرا ہوا ہے۔ یعنی یہ مکمل طور سے زمین بند ملک ہے جس کا کھلے سمندر سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ دوسرا ایسا ملک لیختینستائن ہے۔

جغرافیہ اور نکاسی

Dازبکستان کا مفصل نقشہ
ازبکستان کی ٹوپو گرافی

ازبکستان کی آب ہوا کافی مختلف ہے۔ یہاں کی زمین متوسط بھی ہے اور کل رقبہ کا تقریباً 80 فیصد ریگستان پر مشتمل ہے، یہاں کے پہاڑ سطح سمندر سے تقریباً 4500 میٹر بلند ہیں۔ ازبکستان جنوب مغربی حصہ تیان شاہ کی پہاڑیوں پر مشتل ہے اور یہ کرغیزستان اور تاجکستان تک پھیلی ہوئی ہیں اور وسط ایشیا اور چین کے مابین حد ٍفاصل کا کام کرتی ہیں۔ ازبکستان کے انتہائی شمال میں کرزل قوم نامی ریگستان ہے جو قازکستان کے جنوبی حصہ تک پھیلا ہوا ہے۔ ازبکستان کا سب سے زرخیز حصہ وادئ فرغانہ ہے جس کا رقبہ 21440 مربع کلو میٹر ہے اور کرزل قوم کے مشرق میں واقع ہے جو شمال، جنوب اور مشرق کی جانب سے پہاڑ سے گھرا ہوا ہے۔ وادئی فرغانہ کا مغربی کنارہ دریائے سیحوں سے نوازا گیا ہے۔ یہ دریا ازبکستان کے شمال مشرقی علاقہ سے ہو کر گزرتی ہے،اور قازکستان سے شروع کر کرزل قوم میں ختم ہوتی ہے۔

ازبکستان کو سیراب کرنے کے لیے دو بڑی ندیاں امو دریا اور دریائے سیحوں ہے جو بالترتیب تاجکستان اور کرغیزستان سے شروع ہوتی ہیں۔ یہ وسط ایشیا کی دو اہم ندیاں ہیں۔ ان کا پانی عام طور پر سینچائی کے کام آتا ہے اور کئی سارے مصنوعی نالے بھی ان پر بنائے گئے ہیں۔ سوویت کے زمانہ میں ایک قرارداد منظور ہوئی تھی جس کے تحت کرغیزستان اور تاجکستان ان ہی دو ندیوں کا پانی قازقستان، ترکمانستان اور ازبکستان کو مہیا کرتا تھا اور بدلے میں وہ تین ممالک ان دو ممالک کو تیل اور گیس دیتے تھے۔ لیکن سوویت اتحاد کے زوال کے بعد یہ معاہدہ بھی کالعدم ہو گیا اور ابھی تک کوئی نیا معاہدہ نہیں ہوپایا ہے۔ [7]

آب و ہوا

ازبکستان میں خوب سردی اور خوب گرمی پڑتی ہے۔ گرمی کا درجہ حرارت 40 ڈگری سیلسئس جبکہ سردی میں درجہ حرارت 2- ڈگری سیلسئس تک رہتا ہے۔

رقبہ اور سرحدیں

رقبہ


کل: 447,400 مربع کلو میٹر

خشک: 425,400 مربع کلو میٹر
تر: 22,000 مربع کلو میٹر

رقبہ کا موازنہ

کیلیفورنیا سے تھوڑا بڑا ہے، مراکش کے باکل برا ہے اور سویڈن سے تھوڑا چھوٹا ہے۔

زمینی سرحدیں


سرحد کی کل طوالت: 6221 کلو میٹر
سرحدی ممالک: افغانستان 137 کلو میٹر، قازقستان 2203 کلو میٹر، کرغیزستان 1099 کلو میٹر، تاجکستان 1161 کلو میٹر اور ترکمانستان 1621 کلو میٹر۔


نوٹ ازبکستان کی سرحد بحیرہ ارال سے ملتی ہے جس کی طوالت 420 کلو میٹر ہے۔

اونچائی اور عمق


عمیق تر: سیقرنیش قلی، سطح سمندر سے 12 میٹر گہرائی
بلند تر: حضرت سلطان، 4643 بلند۔

ذخائر

قدرتی گیس، پٹرولیم، کوئلہ، سونا، یورینیئم، چاندی، تانبا، سیسہ اور جست، ٹنگسٹن، مولیبڈینم سے مالا مال ہے۔

ازبکستان کی زبانیں

آئین ازبکستان کے مطابق جمہوری ازبکستان کی زبان ازبک زبان ہے۔ [8]

ترک زبانیں

ازبک زبان ترک زبانیں کی ایک شاخ ہے جو اویغور زبان کے بہت قریب ہے دونوں ترک خاندان کی کال روک زبان کے تعلق رکھتی ہیں۔ ازبکستان کی سرکاری زبان صرف ازبک زبان ہے اور 1992ء سے یہ لاطینی حروفِ تہجی میں لکھی جا رہی ہے۔ [9]

کراکل پاک بھی ایک ترکی زبان کی شاخ ہے جو قازق زبان سے قریب ہے اور قراقل پاقستان میں بطور سرکاری زبان بولی جاتی ہے ۔ تقریباً نصف ملین اس زبان کو بولتے ہیں۔ تقریباً 800,000 سے زیادہ لوگ کزک زبان بولتے ہیں۔

1920ء کی دہائی سے قبل ازبک زبانوں کی تحریری شکل تورکی کہلاتی تھیں جنہیں اہل مغرب چاغتائی کہتے تھے اور یہ زبانیں خط نستعلیق میں لکھی جاتی تھیں۔ 1926ء میں لاطینی حرعف تہجی متعارف کروایا گیا اور متعدد بار اس کی اصلاح ہوئی۔ 1940ء میں سوویت نے سیریلک حروف تہجی کو متعارف کروایا اور سوویت اتحاد کے سقوط تک وہی زیر استعمال رہا۔ 1993ء میں ازبک زبان نے واپس لاطینی حروف تہجی اپنا لیا۔ 1996ء میں اس میں کچھ ترمیم کی گئی اور 2000ء سے اسکولوں میں پڑھائی جارہی ہے۔ اسکول، کالج اور یونیرسٹیوں میں صرف لاطینی حروف تہجی ہی پڑھائی جاتی ہے تاہم ازبکستان میں منسوخ سیریلیک رسم الخط بھی سرکاری طور پر مستعمل ہے۔ کچھ ٹی وی چینل بھی سیریلیک رسم الخط میں متون کو نشر کرتے ہیں۔ سیریلیک رسم الخط بزرگ نسل کے درمیان میں زیادہ مشہور ہے۔ [10]

ہند یورپی زبانیں

ازبکستان میں فارسی زبان بولنے والوں کو دکھایا گیا ہے۔

حالانکہ روسی زبان کو آئینی طور پر سرکاری زبان کا درجہ حاصل نہیں ہے مگر یہ تمام میدانوں عام استعمال میں ہے، یہاں کہ سرکاری کاغذات میں بھی روسی زبان استعمال کی جاتی ہے۔ ازبک زبان کے ساتھ ساتھ روسی زبان کو بھی نوٹری کے دستاویزات میں زیر استعمال لانے کی اجازت ہے۔ [11] روسی زبان عام بول کی چال کی زبان ہے۔ خصوصا شہروں میں اس کا استعمال عام ہے۔ یہاں تک کہ ملک میں ایک ملین ایسے لوگ ہیں جن کی مادری زبان روسی زبان ہے۔ [12][13][14][15][16][15] تاجک زبان (فارسی زبان کی ایک شکل) بخارا اور سمرقند جیسے شہروں میں عام بولی جاتی ہے۔ یہاں تاجک لوگ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 1,5 ملین ہیں اور غیر سرکاری ڈاٹا کہتا ہے کہ ان کی تعداد 8 سے 11ملین ہے۔ [11] تاجک زبان ان دو شہروں کے علاوہوادئ فرغانہ کے کاسانسای، چوست، ازبکستان، ریشتان، ازبکستان اور ساخ ضلع جیسے علاقوں میں بولی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ آہنگران ضلع، دریائے سیحوں کے باغستان ضلع اور شہر سبز، قرشی اور کتاب ضلع میں بھی بولی جاتی ہے۔ ازبکستان کی تقریباً 10-15 فیصد آبادی تاجک زبان بولتی ہے۔ [17]

قانون

ازبکستان کی شہریت حاصل کرنے کے لیے کسی خاص زبان کا آنا ضروری نہیں ہے۔ [15]

ازبکستان میں مذاہب

Dازبکستان کی سب سے اہم مذہب ہے۔ اندیجان۔ اسلام۔

2004ء کے اعداد و شمار کے مطابق ازبکستان میں 88 فیصد مسلمان، 9 فیصد مشرقی راسخ الاعتقاد کلیسیا اور 3 فیصد دیگر مذاہب کے ماننے والے ہیں۔[18]

مذہبی رائے شماری

2012ء میں WIN-Gallup International' نے ایک سروے کیا جس میں حصہ لینے والوں میں سے 79 فیصد نے کہا کہ وہ مذہبی ہیں، 18 فیصد نے خود کو دہریہ بتایا اور 3 فیصد نے کوئی جواب نہیں دیا۔ [19]

ازبکستان میں مذہبی مراکز N
1 اسلام 2 050
2 کوریائی مسیحی کلیسا 52
3 روسی راسخ الاعتقاد کلیسیا 37
4 اصطباغی کلیسیا 23
5 پینتی کاسٹل 21
6 سیونتھ ڈے ایڈوینٹسٹ چرچ 10
7 یہودیت 8
8 بہائیت 6
9 کاتھولک کلیسیا 5
10 نیو اپاسٹولک چرچ 4
11 لوتھریت 2
12 آرمینیائی رسولی کلیسیا 2
13 یہوواہ کے گواہ 1
14 کرشنا کنشسنیس 1
15 بدھ مت 1
16 چرچ آف وائس آف گاڈ 1
17 بائبل سوسائٹی[20] 1
ازبکستان میں مذاہب، 2004ء[18]
مذاہب فیصد
اسلام
 
88%
مشرقی راسخ الاعتقاد کلیسیا
 
9%
دیگر
 
3%

عہد سوویت

سوویت اتحاد کے تمام ممالک میں مارکس اور لینن سے متاثر دہریت کا بول بالا تھا۔ سوویت نے ایک اصطلاح رائج کی تھی جسے گوساٹیزم (gosateizm) کہتے تھے۔ یہ( gosudarstvo) یعنی ریاست اور (atheism) یعنی دہریت کا مرکب ہے۔ اس کا مقصد ریاست میں دہریت کو فروغ دینا، مذہب کے خلاف تعلیمی مواد چھاپنا اور نشر کرنا، نظام تعلیم میں مذہب کے خلاف تدریسی مواد فراہم کرنا اور مذہبی نشانات کو ختم کرنا تھا۔ 1980ء کی دہائی تک سوویت مذہب کے اثر کو ماند کرنے میں کامیاب رہا بایں طور کہ مساجد اور مدارس مقفل کر دیے گئے، مذہبی متون اور تعلیمات پر پابندی لگادی گئی، مذہبی رہنماؤں کو مقید کر دیا گیا۔ [21]

آزادی کے بعد

ازبکستان ایک سیکیولر ملک ہے اور دستور کی دفعہ 61 کے مطابق مذہبی تنظیمیں ریاست سے الگ رہیں گی اور قانون کی نظر میں سب برابر ہوں گی۔کسی بھی مذہبی تنظیم کے کام کاج میں ریاست کی کوئی دخل اندازی نہیں ہوگی۔ [22] 1990ء کی دہائی میں سقوط سوویت کے وقت سعودی عرب اور ترکی کے متعدد مذہبی گروہ ازبکستان میں آئئے اور صوفیت اور وہابیت کی تبلیغ کی۔ 1992ء میں نامیغان نامی شہر میں سعودی یونیورسٹی سے پڑھکر آئے کچھ طالبعلموں میں ایک سرکاری عمارت پر قبضہ کر لیا اور صدر کریمو سے مانگ کی کہ اسلام کو ریاست کا سرکاری مذہب ہونے کا اعلان کیا جائے اور ملک میں شرعی قانون نافذ کیا جائے۔ حالانکہ ان کا یہ منصوبہ کامیاب نہ ہو سکا اور حکومت نے ان پر غلبہ حاصل کر لیا۔ ان کا سرغنہ افغانستان فرار ہو گیا اور پھر پاکستان چلا گیا۔ اسے بعد میں اتحادی فوج نے شہادت دے دی۔ 1992ء اور 1993ء میں 50 مبلغین کو سعودے عرب سے بھگا دیا گیا۔ صوفی مبلغوں کو بھی تبلیغ سے منع کر دیا گیا۔ [23]

اسلام

اسلام ازبکستان کا سب سے برا مذہب ہے۔ یہاں اہل تشیع کے بالمقابل اہل سنت کی تعداد زیادہ ہے۔ یہاں 8ویں صدی میں عرب قوم نے اسلام کو متعارف کروایا۔ اولا وہ وسط ایشیا میں ترکستان کے جنوبی حصہ میں آئے اور بعد میں شمال کی جانب اپنا اثر بڑھایا۔ [24] 14ویں صدی میں امیر تیمور میں کئی ساری مذہبی عمارتیں، مساجد تعمیر کروائیں جن میں بی بی خانم مسجد بھی شامل ہے۔ اس نے احمد یسوی کے مزار پر اپنی سب سے شاہکار عمارت بنوائی۔ احمد یوسی ایک صوفی بزرگ تھے جنہوں نے خانہ بدوشوں میں اسلام کی تبلیغ کی۔ ازبیگ خان کے تبدیلی مذہب نے ازبک لوگوں کو کافی متاثر کیا اور بہت بڑی تعداد میں لوگ اسلام میں داخل ہوئے۔ ازبیگ خان نے احمد یسوی کے ایک مرید عبد الحمید کی تبلیغ پر اسلام قبول کیا۔ پھر انہوں نے طلانی اردو میں جم کر اسلام کی تبلغ کی اور وسط ایشیا میں مبلغین کے سفیر روانہ کیے۔ سوویت اتحاد کے دور میں ماسکو نے کامیابی سے ازبیک باشندوں کے ذہن میں اسلامی مطلب کو توڑ مروڑ کر پیش کیا اور ان کی نظر میں اسلام کے معنی ہی بدل گئے۔ انہوں نے وسط ایشیا میں ایک مد مقابل اسلامی ذہانت تیار کیا۔ حکومت نے بھی مذہب مخالف تنظیموں کی بھرپور مدد کی اور اسلامی تحریکوں کو کچلنے میں کوئی کسر باقی نہ رکھی۔ یہی نہیں بلکہ مسلمانوں کو جبرا تبدیلی مذہب کروایا گیا۔ جوزف استالن کے عہد میں متعدد مساجد مقفل کر دی گئیں اور مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد کو جلا وطن کر دیا گیا۔ یہ اندازی لگایا جارہا تھا کہ سوویت کے سقوط تک ازبکستان سے اسلام ختم ہوجائےگا اور اسلام بنیادپرستی ماند پڑ جائے گی مگر یہ اندازہ اس وقت غلط ثابت ہوا جب پیو ریسرچ سینٹر کی تحقیق نے ثابت کیا کہ ملک میں 96.3% مسلمان بستے ہیں۔ [25]

عیسائیت

اسلام کی آمد سے قبل موجودہ دورکے ازبکستان میں ،مشرقی عیسائیت کے کچھ قبائل آباد تھے جن میں نسطوریت سے تعلق رکھنے والی آشوری قوم اور سریانی راسخ الاعتقاد کلیسیا شامل ہیں۔ 7 ویں اور 14ویں صدی عیسوی کے درمیان میں نسطوریت قبائل آباد ہوئے۔ بخارا اور سمرقند میں عیسائیت کت بڑے مراکز کھولے گئے۔ عرب قوم کی آمد کے بعد علاقہ میں مسلمانوں کا تسلط بڑھ گیا اور ان کی حکوکت قائم ہوئی۔ اس دوران میں نسطوریت کو خراج دینا پڑتا تھا۔ ان کو مذہبی عمارت بنانے پر پابندی تھی۔ یہاں تک کہ عوام میں صلیب بھی نمایاں نہیں کی جاسکتی تھی۔ ان پابندیوں کے باعث کئی عیسائیوں سے اسلام قبول کر لیا۔ علاقہ عیسائیت کا زور کم ہونے کی دوسری وجہ ییتی سو میں 1338-1339ء میں وبا کا عام ہوجانا ہے جس سے ہزاروں عیسائی قبائل ختم ہو گئے۔ ایک وجہ تجارت بھی ہے کیونکہ شاہراہ ریشم کی تجارت تقریباً مکمل طور پر مسلمانوں کے ہاتھ میں تھی لہذا معاشی بہتری کے لیے عیسائیوں نے اسلام قبول کر لیا۔ تیمور کے پوتے الوغ بیگ (1409–1449) کے زمانے میں عیسائی وہاں سے بالکل ختم ہو گئے۔ [26][27] بہرحال 1867ء میں روس کے حملے کے بعد علاقہ عیسائیت کی گھرواپسی ہوئی اور راسخ الاعتقاد کلیسا کی تعمیر ہوئی تاکہ یورپی اور روسی افسران اور لوگوں کی مدد کی جا سکے۔ موجودہ دور میں ازبکستان کے زیادہ عیسائی روسی نسل کے ہیں جو مشرقی راسخ الاعتقاد کلیسیا کو مانتے ہیں۔ یہاں کچھ قبائل کاتھولک کلیسیا کے بھی آباد ہیں۔ ازبکستان میں کاتھولک کلیسا بین القوامی کاتھولک کلیسا کا حصہ ہیں جن کی روحانی نگہبانی روم کے پاپ کرتے ہیں۔

پروٹسٹنٹ مسیحیت کی تعداد ازبکستان میں بہت کم ہے۔

یہودیت

2007ء میں ازبکستان میں یہودیوں کی تعداد 5000 بتائی گئی ہے جو کل آبادی کا 0.2% ہے۔ [28] ازبکستان میں صرف یہود بخاری ایک چھوٹی سی آبادی باقی رہ گئی ہے۔

بہائیت

ازبکستان میں 6 مندرج کمیون موجود ہیں جو تاشقند، بخارا، سمرقند، ناوئی اور جزاخ جیسے شہروں میں رہتے ہیں۔ [29] سفیر طاہر، ایک ایرانی النسل برطانوی نزاد انگریزی زبان کا معلم تھا، اس کی ولادت 1959ء میں ہوئی تھی ار اس نے ایک ازبک لڑکی سے شادی کر کے وہیں سکونت اختیار کرلی تھی، اس کو غیر قانونی طور پر بہائیت کی تبلیغ کرتے ہوئے پایا گیا تھا لہذا نومبر 2009ء میں اسے ملک بدر کر دیا گیا۔ [30]

ہندو مت

ازبکستان میں ہرے کرشنا نامی ایک گروہ رجسٹرڈ ہے

بدھ مت

موجودہ ازبکستان میں کئی بدھ مت کے رشتہ دار پائے گئے ہیں جو قدیم زمانے میں بدھ مت کو مانتے تھے۔ ان میں زیادہ تر باختر علاقہ سے تعلق رکھتے ہیں۔

زرتشتیت

ازبکستان میں ما قبل اسلام زرتشتیت ابھی بھی باقی ہ اور تقریباً 7,400 لوگ اس کے متبع ہیں۔ [31] ازبک کے کچھ باشندے ابھی بھی آگ کی پرستش کرتے ہیں ایسا وہ مقدس آگ سے مندر کو بچان کے لیے کرتے ہیں۔ شادی کے بعد جب دلہن اپنے شوہر کے گھر جاتی تب اس کو آگ کے ارد گرد تین چکر لگانے پڑتے ہیں تاکہ خود کو ظہارت دے سکیں۔ اس کے بعد ہی شوہر بیوی اپنی بانہوں میں لیتا ہے اور زینت بستر بناتا ہے۔

لامذہبیت

WIN-Gallup International's 2012 کے مطابق ایک سروے میں 2 فیصد لوگوں نے قبول کیا ان کا کوئی مذہب نہیں ہے۔

نگار خانہ

حوالہ جات

  1.   "صفحہ ازبکستان في خريطة الشارع المفتوحة"۔ OpenStreetMap۔ اخذ شدہ بتاریخ 24 دسمبر 2019۔
  2. باب: 115
  3. https://data.worldbank.org/indicator/SP.POP.TOTL — اخذ شدہ بتاریخ: 8 اپریل 2019 — ناشر: عالمی بنک
  4. http://data.worldbank.org/indicator/SL.UEM.TOTL.ZS
  5. http://chartsbin.com/view/edr
  6. "Country Profile: Uzbekistan"۔ کتب خانہ کانگریس Federal Research Division (فروری 2007)۔ This article incorporates text from this source, which is in the دائرہ عام۔
  7. International Crisis Group. "Water Pressures in Central AsiaCrisisGroup.org۔ 11 ستمبر 2014. Retrieved 7 اکتوبر 2014.
  8. "Constitution of the Republic of Uzbekistan"۔ ksu.uz۔ مورخہ 27 جون 2016 کو اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 26 اکتوبر 2018۔
  9. Mansurov, Nasim (8 دسمبر 1992)۔ "Constitution of the Republic of Uzbekistan"۔ Umid.uz۔ مورخہ 17 جنوری 2012 کو اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 2 مئی 2010۔
  10. Marianne Kamp۔ The New Woman in Uzbekistan: Islam, Modernity, and Unveiling Under Communism۔ University of Washington Press۔ آئی ایس بی این 0-295-98819-3۔ مورخہ 5 اپریل 2015 کو اصل سے آرکائیو شدہ۔
  11. "Law of the Republic of Uzbekistan "On Official Language"" (پی‌ڈی‌ایف)۔ Refworld۔ اخذ شدہ بتاریخ 3 اکتوبر 2016۔
  12. Юрий Подпоренко (2001)۔ "Бесправен، но востребован۔ Русский язык в Узбекистане"۔ Дружба Народов۔ مورخہ 13 مئی 2016 کو اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 27 مئی 2016۔
  13. Евгений Абдуллаев (2009)۔ "Русский язык: жизнь после смерти۔ Язык، политика и общество в современном Узбекистане"۔ Неприкосновенный запас۔ مورخہ 23 جون 2016 کو اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 27 مئی 2016۔
  14. А۔ Е۔ Пьянов۔ "СТАТУС РУССКОГО ЯЗЫКА В СТРАНАХ СНГ"۔ 2011۔ مورخہ 28 مئی 2016 کو اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 27 مئی 2016۔
  15. Languages in Uzbekistan نسخہ محفوظہ 11 ستمبر 2016 در وے بیک مشین – Facts and Details
  16. "Uzbekistan's Russian-Language Conundrum"۔ Eurasianet.org۔ 19 ستمبر 2006۔ مورخہ 29 نومبر 2010 کو اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 2 مئی 2010۔
  17. Cordell, Karl (1998) Ethnicity and Democratisation in the New Europe، Routledge, ISBN 0415173124، p. 201: "Consequently, the number of citizens who regard themselves as Tajiks is difficult to determine. Tajikis within and outside of the republic, Samarkand State University (SamGU) academic and international commentators suggest that there may be between six and seven million Tajiks in Uzbekistan, constituting 30% of the republic's 22 million population, rather than the official figure of 4.7% (Foltz 1996;213; Carlisle 1995:88)۔
  18. "Middle East :: UZBEKISTAN"۔ CIA The World Factbook۔ مورخہ 24 دسمبر 2018 کو اصل سے آرکائیو شدہ۔
  19. WIN-Gallup International.GLOBAL INDEX OF RELIGIOSITY AND ATHEISM نسخہ محفوظہ 2013-10-21 در وے بیک مشین
  20. The Bible Society of Uzbekistan (BSU)
  21. Soviet Muslims 23. جون 1980
  22. Constitution of Uzbekistan. Part II. Basic human and civil rights, freedoms and duties.
  23. Islam and Secular State in Uzbekistan: State Control of Religion and its Implications for the Understanding of Secularity.
  24. Atabaki, Touraj. Central Asia and the Caucasus: transnationalism and diaspora، pg. 24
  25. NESTORIAN CHRISTIANITY IN CENTRAL ASIA
  26. SYRIAC GRAVESTONES IN THE TASHKENT HISTORY MUSEUM
  27. AMERICAN JEWISH YEAR BOOK, 2007, Page 592
  28. Bahai Centers in Uzbekistan
  29. Detailed story of Sepehr Taheri
  30. Uzbakistan
This article is issued from Wikipedia. The text is licensed under Creative Commons - Attribution - Sharealike. Additional terms may apply for the media files.