امیر تیمور

امیر تیمور جو (تمر لین)تیمور لنگ کے نام سے بھی مشہور تھا (پیدائش: 1336ء، وفات: 1405ء) تیموری سلطنت کا بانی اور ایک تاریخ عالم کا ایک عظیم جنگجو حکمران تھا۔ تیمور کے استاد کا نام علی بیگ تھا کہا جاتا ہے کہ استاد علی بیگ اپنے طالب علموں کوسبق یاد کرانے کے لیے ڈنڈے کا استعمال کرتے تھے لیکن انہوں نے کبھی بھی تیمور کو نہیں مارا کیونکہ تیمور ہمیشہ اپنا سبق یاد کرلیتا تھا۔ ایک دن علی بیگ نے تیمور کے والد کو بلا کر کہا کہ اس بچے کی قدر جان یہ نا صرف ذہین اور دوسرے بچوں سے بہت آگے ہے بلکہ اس میں ناقابل یقنین صلاحیتیں ہیں۔ تیمور نے تین سال میں قرآن حفظ کر لیا تھا گویا صرف دس سال کی عمر میں وہ قرآن کا حافظ بن چکا تھا۔

تیمور خان سے مغالطہ نہ کھائیں۔
امیر تیمور
 

معلومات شخصیت
پیدائش 9 اپریل 1336 [1][2][3] 
شہر سبز  
وفات 19 فروری 1405 (69 سال)[2] 
شیمکنت  
مدفن گور امیر  
شہریت شہر سبز [4] 
اولاد شاہ رخ تیموری ، میران شاہ ، جہانگیر مرزا بن تیمور ، معزالدین عمر شیخ مرزا اول  
خاندان تیموری خاندان  
دیگر معلومات
پیشہ جنگجو  
پیشہ ورانہ زبان فارسی ، وسطی منگولیائی زبان  
عسکری خدمات
عہدہ اردو
خاقان  
ازبکستان میں تیمور کا مجسمہ

تیمور ایک ترک منگول قبیلے برلاس سے تعلق رکھتا تھا چنگیز خان اور امیر تیمور دونوں کا جد امجد تومنہ خان تھا۔ تیمورلنگ کا تعلق سمرقند سے تھا۔ وہ سمرقند کے قریب ایک گاؤں ’’کیش‘‘ میں پیدا ہوا۔ اس کے والدین معمولی درجے کے زمیندار تھے۔۔ تیمور دریائے جیحوں کے شمالی کنارے پر واقع شہر سبز (جس کو کش بھی کہتے ہیں) 1336ء میں پیدا ہوا۔ یہ علاقہ اس وقت چغتائی سلطنت میں شامل تھا جو زوال کی منازل طے کر رہی تھی۔ چغتائی حکمران بے بس ہوچکے تھے اور ہر جگہ منگول اور ترک سردار اقتدار حاصل کرنے کے لیے ایک دوسرے سے لڑ رہے تھے۔

تخت نشین ہونے کے بعد اس نے صاحب قران کا لقب اختیار کیا۔ (علوم نجوم کی رو سے صاحب قران وہ شخص کہلاتا ہے جس کی پیدائش کے وقت زہرہ اور مشتری یا زحل اور مشتری ایک ہی برج میں ہوں۔ ایسا شخص اقبال مند، بہادر اور جری سمجھا جاتا ہے مجازا اپنے دور کا عظیم ترین حکمران)۔

تیمور نے اپنی زندگی میں بیالیس ملک فتح کیے۔ وہ دنیا کے چند نادر لوگوں میں بھی شامل ہوتا ہے۔ تیمور کی ایک خاص بات یہ تھی کہ وہ ایک وقت میں اپنے دونوں ہاتھوں سے کام لے سکتا تھا۔ وہ ایک ہاتھ میں تلوار اُٹھاتا تھا اور دوسرے ہاتھ میں کلہاڑا۔

فتوحات

بلخ میں تخت نشین ہونے کے بعد تیمور نے ان تمام علاقوں اور ملکوں پر قبضہ کرنا اپنا حق اور مقصد قرار دیا جن پر چنگیز خان کی اولاد حکومت کرتی تھی۔ اس غرض سے اس نے فتوحات اور لشکر کشی کے ایسے سلسلے کا آغاز کیا جو اس کی موت تک پورے 37 سال جاری رہا۔ تیمور کے ابتدائی چند سال چغتائی سلطنت کے باقی ماندہ حصوں پر قبضہ کرنے میں صرف ہو گئے۔ وہ 776ھ میں کاشغر اور 781ھ میں خوارزم پر قابض ہو گیا۔ اس کے بعد اس نے خراسان کا رخ کیا۔ 1381ء بمطابق 783ھ میں ہرات کے خاندان کرت کو اطاعت پر مجبور کیا۔ اگلے سال نیشاپور اور اس کے نواح پر اور 785ھ میں قندھار اور سیستان پر قبضہ کیا۔ 1386ء میں اس نے ایران کی مہم کا آغاز کیا جو "یورش سہ سالہ" کہلاتی ہے اور اس مہم کے دوران میں ماژندران اور آذربائجان تک پورے شمالی ایران پر قابض ہو گیا۔ اس مہم کے دوران میں اس نے گرجستان پر بھی قبضہ کیا۔

روس کی مہم

1391ء میں تیمور نے سیر اوردہ یعنی خاندان سرائے کے خان توقتمش کے خلاف لشکر کشی کی جو فوجی نقطہ نظر سے فن حرب کا ایک عظیم کارنامہ سمجھی جاتی ہے۔ سرائے کے خان توقتمش کو سائبیریا کے آق اوردہ خاندان کے حکمران ارس خان نے تخت سے بے دخل کر دیا تھا۔ تیمور نے توقتمش کی مدد کی اور اس کو دوبارہ تخت دلادیا لیکن توقتمش خوارزم کو اپنی سلطنت کا ایک حصہ سمجھتا تھا اس لیے اس نے تیمور کا احسان ماننے کی بجائے تیمور سے خوارزم کی واپسی کا مطالبہ کر دیا۔ خوارزم دونوں حکمرانوں کے درمیان میں ایک مستقل نزاع بن گیا اور اس کو حاصل کرنے کے لیے توقتمش بار بار تیموری مملکت پر حملہ آور ہوا۔ کبھی سیر دریا اور خوارزم کے راستے اور کبھی قفقاز اور آذربائجان کے راستے۔ تیمور نے توقتمش کی سرکوبی کے لیے دومرتبہ روس پر لشکر کشی کی۔ ان میں پہلی لشکر کشی 1391ء میں سیر دریا یعنی دریائے سیحوں کے راستے کی گئی۔ تیمور اپنے عظیم لشکر کو قازقستان کے راستے جنوبی ارتش اور یورال تک بے آب و گیاہ میدانوں اور برف زاروں سے کامیابی سے گزار کر لے گیا اور دریائے قندزجہ کے کنارے موجودہ سمارہ کے قریب 18 اپریل 1391ء کو توقتمش کو ایک خونریز جنگ میں شکست دی۔

ایران پر لشکرکشی

تیموری سلطنت 1405ء میں، گلابی حلقہ منگول سلطنت کو ظاہر کرتا ہے

روس کی مہم سے واپسی کے بعد تیمور نے 1392ء میں ایران میں نئی لشکر کشی کا آغاز کیا جو "یورش پنج سالہ" کہلاتی ہے۔ اس مہم کے دوران میں اس نے ہمدان، اصفہان اور شیراز فتح کیا۔ آل مظفر کی حکومت کا خاتمہ کیا اور بغداد اور عراق سے احمد جلائر کو بے دخل کیا۔ اس طرح وہ پورے ایران اور عراق پر قابض ہو گیا۔ تیمور ایران کی مہم سے فارغ ہوکر ابھی تبریز واپس ہی آیا تھا کہ اس کو اطلاع ملی کہ توقتمش نے دربند کے راستے پر حملہ کر دیا ہے۔ تیمور نے دریائے تیرک کے کنارے 18 اپریل 1395ء کو توقتمش کو ایک اورشکست فاش دی۔ اس کے بعد تیمور نے پیش قدمی کرکے سیر اوردہ کے دار الحکومت سرائے کو تباہ و برباد کر دیا اور اس کی اینٹ سے اینٹ بجادی۔ اس مہم کے دوران میں تیمور استراخان، ماسکو، کیف اور کریمیا کے شہروں کو فتح کرتا اور تباہی پھیلاتا ہوا براستہ قفقاز، گرجستان اور تبریز 798ھ میں سمرقند واپس آ گیا۔

ہندوستان پر حملہ

1398ء میں تیمور ہندوستان کو فتح کرنے کے ارادے سے روانہ ہوا۔ ملتان اور دیپالپور سے ہوتا ہوا دسمبر 1398ء میں دہلی پہنچا۔ دہلی کو فتح کرنے اور وہاں قتل عام کرنے کے بعد وہ میرٹھ گیا اور وہاں دریائے جمنا کی بالائی وادی میں ہندوؤں کے مقدس مقام ہردوار میں لوگوں کا یہ سمجھ کر قتل عام کیا کہ کافروں کو مار کر ثواب کمایا جا رہا ہے۔ اس جگہ تیمور کو اپنی سلطنت کی مغربی سرحدوں سے تشویشناک خبریں ملیں۔ احمد جلائر سلطان مصر کی مدد سے پھر بغداد واپس آ گیا تھا اور اس کے اور قرہ یوسف ترکمان کے ورغلانے سے عثمانی سلطان بایزید یلدرم ان سب کے ساتھ مل کر تیمور کے خلاف محاذ بنا رہا تھا چنانچہ تیمور فورا سمرقند واپس ہوا۔

فتح شام

1399ء میں تیمور سمرقند سے اپنی آخری اور طویل ترین مہم پر روانہ ہوا۔ تبریز پہنچ کر اس نے سلطان مصر کے پاس سفیر بھیجے جن کو قتل کر دیا گیا چنانچہ تیمور سلطان مصر کی سرکوبی کے لیے روانہ ہوا جو احمد جلائر کی مدد اور حوصلہ افزائی کرتا تھا۔ حلب، حماہ، حمص اور بعلبک فتح کرتا ہوا دمشق پہنچا اور حسب دستور لوگوں کا قتل عام کیا اور شہر میں آگ لگادی۔ اس کے بعد وہ بغداد آیا لیکن احمد جلائر اس کے بغداد پہنچنے سے پہلے ہی فرار ہو ڄکا تھا۔

جنگ انقرہ

اس دوران میں سلطان بایزید یلدرم نے احمد جلائر اور قرہ یوسف کی تحریک پر جو اس کے پاس پناہ گزین تھے، ایشیائے کوچک میں تیموری علاقوں پر حملہ کر دیا۔ تیمور نے اختلافات کو خط کتابت کے ذریعے حل کرنا چاہا لیکن جب اس میں کامیابی نہ ہوئی تو اس نے سلطنت عثمانیہ پر لشکر کشی کردی۔ سیورس کا دفاع کرنے والے 4 ہزار سپاہیوں کو زندہ دفن کر دیا۔ بایزید اس وقت قسطنطنیہ (استنبول) کے محاصرے میں مصروف تھا۔ تیمور کے حملے کی اطلاع ملی تو محاصرہ اٹھاکر فورا اناطولیہ کی طرف روانہ ہوا۔ انقرہ کے قریب 21 جولائی 1402ء کو دونوں کے درمیان میں فیصلہ کن جنگ ہوئی جو جنگ انقرہ کے نام سے مشہور ہے۔ بایزید کو شکست ہوئی اور وہ گرفتار کر لیا گیا لیکن تیمور اس کے ساتھ عزت و احترام سے پیش آیا۔ یہ ر]] اور ازمیر تک سارا ایشیائے کوچک اجاڑ ڈالا۔ مصر کے مملوک سلطان کو جب اطلاع ملی کہ تیمور نے بایزید جیسے طاقتور حکمران کو شکست دے کر گرفتار کر لیا تو سفیر بھیج کو تیمور کی اطاعت کرلی۔ مصر میں تیمور کے نام کا سکہ ڈھالا اور مکہ اور مدینہ میں اس کے نام کا خطبہ پڑھنے کا حکم دیا۔

انتقال

سمرقند واپس آنے کے بعد تیمور نے چین پر حملے کی تیاریاں شروع کر دیں۔ چین میں ایک زمانے میں چنگیز خان کی اولاد کے قبضے میں رہ چکا تھا اس لیے تیمور اس پر بھی اپنا حق سمجھتا تھا۔ اس کے علاوہ تیمور کفاران چین کے خلاف جہاد کرکے اس خونریزی کی تلافی کرنا چاہتا تھا جس کا شکار اب صرف مسلمان ہوئے تھے۔ سردیاں شباب پر تھیں اور تیمور بوڑھا تھا۔ سیر دریا کو پار کرکے جو منجمد ہوچکا تھا جب وہ اترار پہنچا تو اس کی طبیعت خراب ہو گئی اور اسی جگہ 18 فروری 1405ء کو اس کا انتقال ہو گیا۔ اس کی لاش سمرقند لاکر دفنائی گئی۔ لڑائیوں میں زخم کھانے کی وجہ سے تیمور کا دایاں ہاتھ شل ہو گیا تھا اور دائیں پاؤں میں لنگ تھا۔ اس لیے مخالف مورخین اس کو حقارت سے تیمور لنگ لکھتے تھے۔

تیمور بحیثیت فاتح اور حکمران

فتوحات کی وسعت کے لحاظ سے تیمور کا شمار سکندر اعظم اور چنگیز خان کے ساتھ دنیا کے تین سب سے بڑے فاتح سپہ سالاروں میں ہوتا ہے۔ فتوحات کی کثیر میں وہ شاید چنگیز سے بھی بازی لے گیا۔ چنگیز کے مفتوحہ علاقوں کا طول مشرق سے مغرب تک بہت زیادہ تھا لیکن شمالا جنوبا عرض تیمور کے مقابلے میں کم تھا۔ پھر چنگیز کی سلطنت کا ایک بڑا حصہ اس کے سپہ سالاروں نے فتح کیا تھا جبکہ تیمور دہلی سے ازمیر تک اور ماسکو سے دمشق اور شیراز تک ہر جگہ خود گیا اور ہر جنگ میں خود شرکت کی۔ چنگیزجنگ کی منصوبہ بندی اچھی کر سکتا تھا جبکہ تیمور میدان جنگ میں فوجوں کو لڑانے میں استاد تھا۔ 1393ء میں کلات اور تکریت کے ناقابل تسخیر پہاڑی قلعوں کی تسخیر اس کی اس صلاحیت کا بڑا ثبوت سمجھی جاتی ہے۔

(چنگیز اور تیمور کی جنگی صلاحیتوں کے تقابل کے لیے دیکھیے ہیرلڈ لیمب کی کتابیں "چنگیز خان" اور "تیمور"۔ ان دونوں کتابوں کا مولوی عنایت اللہ نے اردو میں ترجمہ کیا ہے)

تیمور کی بحیثیت ایک سپہ سالار حیرت انگیز صلاحیتوں سے انکار نہیں کیا جاسکتا لیکن اس نے اس خداداد صلاحیت سے جو کام لیا وہ اسلامی روح کے خلاف تھا۔ اس کی ساری فتوحات کا مقصد ذاتی شہرت اور ناموری کے علاوہ اور کچھ نہیں تھا۔ اس لحاظ سے وہ خالد بن ولید، محمود غزنوی، طغرل اور صلاح الدین ایوبی کے مقابلے میں پیش نہیں کیا جاسکتا۔ وہ انتقام کے معاملے میں بہت سخت تھا۔ مخالفت برداشت نہیں کر سکتا تھا۔ وہ مسلمان ہونے کے باوجود خونریزی اور سفاکی میں چنگیز خان اور ہلاکو خان سے کم نہیں تھا۔ دہلی، اصفہان، بغداد اور دمشق میں اس نے جو قتل عام کیے ان میں ہزاروں بے گناہ موت کے گھاٹ اتار دیے گئے۔ وہ انتقام کی شدت میں شہر کے شہر ڈھادیتا تھا۔ خوارزم، بغداد اور سرائے کے ساتھ اس نے یہی کیا۔ صرف مسجد، مدرسے اورخانقاہیں غارت گری سے محفوظ رہتی تھیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اس معاملے میں منگولوں کی طرح وہ بھی اللہ کا عذاب تھا۔

تیمور نے اپنی فتوحات سے کوئی فائدہ نہیں اٹھایا اور کوئی تعمیری کام نہیں کیا۔ مفتوحہ ممالک کا بڑا حصہ ایسا تھا جس کواس نے اپنی سلطنت کا انتظامی حصہ نہیں بنایا۔ ان ملکوں کا وہ مقامی حکمرانوں کے سپرد کردیتا تھا اور ان سے صرف اطاعت کا وعدہ لے کر مطمئن ہوجاتا تھا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ایشیائے کوچک، شام، روس اور ہندوستان کے وسیع مفتوحہ علاقے جو بڑی خونریزی کے بعد حاصل ہوئے تھے تیموری سلطنت کا حصہ نہ بن سکے۔ اگر وہ ان ملکوں کو اپنی سلطنت کا انتظامی حصہ بنالیتا تو دنیا کی ایک عظیم الشان سلطنت وجود میں آتی۔ اس معاملے میں چنگیز اور منگول تیمور سے بہتر تھے کہ وہ جس علاقے کو فتح کرتے تھے اس کو براہ راست اپنے زیر انتظام بھی لے آتے تھے۔ اس نے قفقاز کے علاقے میں لوگوں کو زبردستی مسلمان بنانے کی کوشش بھی کی جو اسلام کی روح اور تعلیم کے خلاف ہے۔

تیمور نے توقتمش، بایزید یلدرم اور سلطان مصر کو شکست دے کر عالم اسلام کی دو بڑی طاقتوں کو ختم تو کر دیا لیکن ان کی وجہ سے جو خلا پیدا ہوا اس کوپر نہ کرسکا۔ اگر بایزید کی طاقت ختم نہ ہوتی تو بلقان کا علاقہ ڈیڑھ سو سال پہلے مسلمانوں کے قبضے میں آچکا ہوتا۔ سرائے کی مملکت کی تباہی بھی اسلامی دنیا کے لیے اچھی ثابت نہ ہوئی۔ سرائے کی طاقتور مملکت کے ختم ہونے سے ماسکو کی نئی طاقت ابھرنے کے لیے راستہ صاف ہو گیا۔ تیمور نے روس میں توقتمش کے خلاف اور ایشیائے کوچک اور مصر میں سلطنت عثمانیہ اور مملوکوں کے خلاف جو لشکر کشی کی اگرچہ ہم اس کا الزام تیمور پر نہیں رکھ سکتے کیونکہ اس نے اپنی طرف سے صلح و صفائی سے مسئلہ حل کرنے کی پوری کوشش کی تھی، لیکن ان لشکر کشیوں کے نتیجے میں دنیائے اسلام کو جو نقصان پہنچا اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔

اسلامی تاریخ میں تیمور کا دور ایک بدنما دھبہ ہے۔ اس دور میں دنیا کو فائدہ کم اور نقصان زیادہ پہنچا۔ شاید اس کی وجہ یہ تھی کہ تیمور کو مناسب اسلامی تربیت نہيں ملی تھی اور اس کی نشو و نما تورہ چنگیزی کی حدود میں اور نیم وحشی منگول ماحول میں ہوئی تھی۔

بہرحال اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا جس علاقے میں تیمور نے اپنی مستقل حکومت قائم کی وہاں اس نے قیام امن اور عدل و انصاف، خوشحالی اور ترقی کے سلسلے میں قابل قدر کوششیں کی۔ برباد شدہ شہروں کو دوبارہ تعمیر کیا اور تجارت کو فروغ دیا۔

سمرقند

تفصیلی مضمون کے لیے سمرقند دار السلطنت سمرقند پر اس نے خاص توجہ دی۔ ہیرلڈ لیمب لکھتا ہے جس وقت سمرقند پر تیمور کا تسلط ہوا وہاں سوائے کچھ کچی اینٹوں اور لکڑی مکانوں کے کچھ اور نہ تھا مگر یہی کچی اینٹوں اور لکڑی کا شہر تیمور کے ہاتھوں میں آکر ایشیا کا روم بن گیا۔ وہ ہر مفتوحہ علاقے سے صناعوں، دستکاروں، فنکاروں، عالموں اور ادیبوں کو پکڑ پکڑ کر سمرقند لے آیا اور اپنے دار الحکومت کو نہ صرف شاندار عمارتوں کا شہر بنادیا بلکہ علم وادب کا مرکز بھی بنادیا۔ اچھی بات یہ ہوئی کہ اس کی اولاد نے اس ہی کی آخری الذکر روایات کو اپنایا جس کی بدولت وسط ایشیا کے تیموری دور کو تاریخ میں ایک ممتاز مقام مل گیا۔

تیمور نے سمرقند کی شہر پناہ درست کی۔ شہر کے دروازوں سے وسط شہر کے بازار راس الطاق اور شہر سے دریا تک چوڑی چوڑی سڑکیں تعمیر کرائیں۔ جنوب کے پہاڑوں پر قائم مکانات کو گرا کر قلعہ تعمیر کرایا۔ باغوں کے گرد دیواریں اور جابجا پانی کے تالاب بنوائے۔ سمرقند کی عمارتیں اس وقت تک خاکی رنگ کی ہوتی تھیں لیکن اب در و دیوار، برج اور گنبد فیروزی رنگ کے ہو گئے اور اس لاجوردیرنگ کی وجہ سے سمرقند کو گوک کند یعنی نیلاشہر کہا جانے لگا۔ تیمور کے زمانے میں صرف ارک کے علاقے کی آبادی ڈیڑھ لاکھ تھی۔ یہ علاقہ قلعہ اور اس سے متصل تھا۔ مغل حکمران بابر جو تیمور کے انتقال کے ایک سو سال بعد اس وقت سمرقند پہنچا جب وہ اپنی ماضی کی دلکشی بھی کھوچکا تھا لیکن اس نے اپنی کتاب تزک بابری میں شہر کا حال کچھ اس طرح لکھا ہے :

"سمرقند کی مشہور ترین عمارات میں امیر تیمور کا محل ہے جو ارک سرائے کے نام سے مشہور ہے۔ محل کے بعد یہاں کی جامع مسجد اول درجے کی ہے۔ اس کے پیش طاق پر لکھی ہوئی آیت کریمہ "اذ یرفع ابراھیم القواعد" اس قدر جلی حروف میژں ہے کہ ایک کوس سے پڑھی جاتی ہے۔ امیر تیمور کے بنائے ہوئے دو باغ بھی سمرقند کے عجائبات میں سے ہیں۔

امیر تیمور کے وارثوں میں سے محمد سلطان مرزا، الغ بیگ مرزا اور دوسروں نے بھی کئی عمارات بنواغیں جن میں خانقاہ بڑی اہمیت رکھتی ہے۔ اس کا گنبد اتنا بڑا ہے کہ دنیا میں اس کی کوئی مثال نہیں۔ خانقاہ سے ملحقہ مدرسے میں گو بہت سی خوبیاں ہیں لیکن اس کا حمام تو پورے خراساں اور ماوراء النہر میں اپنی مثال آپ ہے۔ مدرسے کے جنوب میں مسجد منقطع بھی اپنی خصوصیت کے لحاظ سے قابل ذکر ہے۔ پہاڑ کے دامن میں ایک بڑی رصد گاہ ہے جہاں الغ بیگ نے زیرچ گورگافی مرتب کی۔ سمرقند کی قابل ذکر عمارتوں میں چہل ستون کی عمارت بھی ہے۔ اس عمارت سے متصل ایک وسیع باغیچہ ہے جس میں ایک عجیب و غریب بارہ دری بنی ہے جس کا نام چینی خانہ ہے۔ سمرقند کی خصوصیات میں سے ایک خصوصیت یہ ہے کہ یہاں پر پیشے اور صنعت کے بازار الگ الگ ہیں۔ سمر قند میں بہت نفیس کاغذ تیار ہوتا ہے جس کی ساری دنیا میں مانگ ہے "۔

حوالہ جات

  1. جی این ڈی- آئی ڈی: https://d-nb.info/gnd/118622803 — اخذ شدہ بتاریخ: 13 اگست 2015 — اجازت نامہ: CC0
  2. ایس این اے سی آرک آئی ڈی: https://snaccooperative.org/ark:/99166/w6418r4b — بنام: Timur — اخذ شدہ بتاریخ: 9 اکتوبر 2017
  3. فائنڈ اے گریو میموریل شناخت کنندہ: https://www.findagrave.com/cgi-bin/fg.cgi?page=gr&GRid=4440 — بنام: Tamerlane — اخذ شدہ بتاریخ: 9 اکتوبر 2017
  4. https://libris.kb.se/katalogisering/xv8bf2kg2m0d860 — اخذ شدہ بتاریخ: 24 اگست 2018 — شائع شدہ از: 29 اکتوبر 2012

بیرونی روابط

This article is issued from Wikipedia. The text is licensed under Creative Commons - Attribution - Sharealike. Additional terms may apply for the media files.