استنبول

یہ جدید شہر استنبول کے بارے میں مضمون ہے، شہر کی قدیم تاریخ کے لیے دیکھیے مضمون قسطنطنیہ

قدیم شہر کے بارے میں مضمون کے لیے دیکھیے قسطنطنیہ

استنبول
(ترکی میں: İstanbul) 
 

تاریخ تاسیس 667 ق م 
  نقشہ

انتظامی تقسیم
ملک ترکی (29 اکتوبر 1923–)[1]
سلطنت عثمانیہ (29 مئی 1453–29 اکتوبر 1923)
بازنطینی سلطنت (1260–29 مئی 1453)
بازنطینی سلطنت (395–1204)
رومی سلطنت (330–395)  [2][3]
دارالحکومت برائے
تقسیم اعلیٰ استنبول صوبہ  
جغرافیائی خصوصیات
متناسقات 41.01°N 28.960277777778°E / 41.01; 28.960277777778   [4]
رقبہ 5343 مربع کلومیٹر  
بلندی 100 میٹر  
آبادی
کل آبادی 14657434 (2015)[5] 
مزید معلومات
جڑواں شہر
برلن (17 نومبر 1989–)
قاہرہ
اسکوپیہ
ولنیس
اصفہان
جدہ
الماتی
بیروت
کونستانتسا
دراج
ہوسٹن
جکارتا
جوھر بھرو
قازان
خرطوم
کلن (علاقہ) (1997–)
لاہور
رباط
گوانگژو
شنگھائی (1989–)
سمرقند
تاشقند
ماری، ترکمانستان
کابل
سکرے
سورابایا
تبریز
موغادیشو
قسنطینہ
ایتھنز
فلورنس
پراگ
راٹرڈیم
سینٹ پیٹرز برگ
سرائیوو
اسٹاک ہوم
ستراسبورگ
وینس
وارسا
ہوانا
بیونس آئرس
میکسیکو شہر
ریو دے جینیرو
ٹورانٹو
عمان (1997–)
دمشق
امارت دبئی
شیمونوسیکی، یاماگوچی
پارینتینس
ملحییم این دیر روحر
لندن
پلوودیف [6]
ایمسٹرڈیم
تبلیسی
نورسلطان
ویانا
بوداپست
شیان
دار البیضاء
کراچی
لاگوس
باکو
بوسان
بخارسٹ
تیرانا
سمولیان
دبئی (1997–) 
اوقات متناسق عالمی وقت+03:00  
گاڑی نمبر پلیٹ
34 
رمزِ ڈاک
34000–34990 
فون کوڈ 212، 216 
باضابطہ ویب سائٹ باضابطہ ویب سائٹ 
جیو رمز {{#اگرخطا:745044،745042  |}}
[[file:|16x16px|link=|alt=]] 
نحوی غلطی
[مکمل اسکرین پر]

تاریخ میں قسطنطنیہ کے نام سے مشہور ترکی کا شہر استنبول (ترک: İstanbul، یونانی: Κωνσταντινούπολις Konstantinoúpolis، انگریزی: Istanbul، انگریزی: تاریخی طور پر Constantinople کے نام سے جانا جاتا ہے ) ملک کا سب سے بڑا شہر اور اس کا ثقافتی و اقتصادی مرکز ہے۔ شہر صوبہ استنبول کا صدر مقام بھی ہے ۔

آبنائے باسفورس اور اس کی قدرتی بندرگاہ شاخ زریں (انگریزی: Golden Horn، ترک: Haliç) کے کنارے واقع ترکی کا یہ شمال مغربی شہر باسفورس کے ایک جانب یورپ کے علاقے تھریس اور دوسری جانب ایشیا کے علاقے اناطولیہ تک پھیلا ہوا ہے اس طرح وہ دنیا کا واحد شہر ہے جو دو براعظموں میں واقع ہے۔ استنبول تاریخ عالم کا واحد شہر جو تین عظیم سلطنتوں کا دار الحکومت رہا ہے جن میں 330ء سے 395ء تک رومی سلطنت، 395ء سے 1453ء تک بازنطینی سلطنت اور 1453ء سے 1923ء تک سلطنت عثمانیہ شامل ہیں۔ 1923ء میں ترک جمہوریہ کے قیام کے بعد دار الحکومت انقرہ منتقل کر دیا گیا۔

2000ء کی مردم شماری کے مطابق شہر کی آبادی 88 لاکھ 3 ہزار 468 اور کل شہری حدود کی آبادی ایک کروڑ 18ہزار 735ہے اس طرح استنبول یورپ کا دوسرا سب سے بڑا شہر ہے۔ شہر کو 2010ء کے لیے پیکس، ہنگری اور آسن، جرمنی کے ساتھ یورپ کا ثقافتی دار الحکومت قرار دیا گیا ہے۔ تاریخ میں شہر نے مکینوں کی ثقافت، زبان اور مذہب کے اعتبار سے کئی نام بدلے جن میں سے بازنطیم، قسطنطنیہ اور استنبول اب بھی جانے جاتے ہیں۔ شہر کو ”سات پہاڑیوں کا شہر “ بھی کہا جاتا ہے کیونکہ شہر کا سب سے قدیم علاقہ سات پہاڑیوں پر بنا ہوا ہے جہاں ہر پہاڑی کی چوٹی پر ایک مسجد قائم ہے ۔

تاریخ

بازنطیم

قسطنطنیہ، ایک مصور کی نظر میں۔

بازنطیم دراصل میگارا کے یونانیوں نے 667 قبل مسیح میں آباد کیا تھا اور اسے اپنے بادشاہ بائزاس کے نام پر بازنطیم کا نام دیا۔ 196ء میں سیپٹیمیس سیویرس اور پیسکینیس نائیجر کے درمیان میں جنگ میں شہر کا محاصرہ کیا گیا اور اسے زبردست نقصان پہنچا۔ فتح حاصل کرنے کے بعد رومی حکمران سیپٹیمیس نے بازنطیم کو دوبارہ تعمیر کیا اور شہر نے ایک مرتبہ پھر کھوئی ہوئی عظمت حاصل کرلی۔

بازنطینی سلطنت کی حکمرانی

جامعہ ایاصوفیہ، جسے اب عجائب گھر کی شکل دے دی گئی ہے

بازنطیم کے پرکشش محل وقوع کے باعث 330ء میں قسطنطین اعظم نے مبینہ طور پر ایک خواب کے ذریعے مقام کی درست نشان دہی کے بعد اس شہر کو نووا روما (روم جدید) یا قسطنطنیہ (اپنے نام کی نسبت سے ) کے نام سے دوبارہ آباد کیا۔ نووا روما تو کبھی بھی عام استعمال میں نہیں آسکا لیکن قسطنطنیہ نے عالمی شہرت حاصل کی۔ یہ شہر 1453ء میں سلطنت عثمانیہ کے ہاتھوں فتح ہونے تک مشرقی رومی سلطنت کا دار الحکومت رہا۔ بازنطینی دور حکومت کے دوران میں چوتھی صلیبی جنگ میں صلیبیوں نے شہر کو برباد کر دیااور 1261ء میں مائیکل ہشتم پیلیولوگس کی زیر کمان نیسیائی افواج نے شہر کو دوبارہ حاصل کر لیا۔

روم اور مغربی رومی سلطنت کے خاتمے کے بعد شہر کا نام قسطنطنیہ رکھ دیا گیا اور یہ بازنطینی سلطنت کا واحد دار الحکومت قرار پایا۔ یہ سلطنت یونانی ثقافت کی علمبردار اور روم سے علیحدگی کے بعد یونانی آرتھوڈوکس مسیحیت کا مرکز بن گئی۔ بعد ازاں یہاں کئی عظیم گرجے اور کلیسے تعمیر ہوئے جن میں دنیا کا سب سے بڑا گرجا ایاصوفیہ بھی شامل تھا جسے سلطان محمد فاتح نے فتح قسطنطنیہ کے بعد مسجد میں تبدیل کر دیا۔

اس شہر کے زبردست محل وقوع کی وجہ ہی سے یہ کئی زبردست محاصروں کے باوجود فتح نہ ہو سکا جن میں خلافت امویہ کے دور کے دو محاصرے اور پھر سلطنت عثمانیہ کے ابتدائی دور کے متعدد ناکام محاصرے شامل ہیں۔

سلطنت عثمانیہ کا دور

قسطنطنیہ 1805ء

29 مئی 1453ء کو سلطان محمد فاتح نے 53 روزہ محاصرے کے بعد قسطنطنیہ کو فتح کر لیا۔ محاصرے کے دوران میں عثمانی افواج کی توپوں سے تھیوڈوسس ثانی کی قائم کردہ دیواروں کو زبردست نقصان پہنچا۔ اس طرح استنبول بروصہ اور ادرنہ کے بعد سلطنت عثمانیہ کا تیسرا دار الحکومت بن گیا۔

ترک فتح کے بعد اگلے سالوں میں توپ قاپی محل اور بازار کی شاندار تعمیرات عمل میں آئیں۔ مذہبی تعمیرات میں فاتح مسجد اور اس سے ملحقہ مدارس اور حمام شامل تھے۔ عثمانی دور میں شہر مختلف مذاہب اور ثقافتوں کا مرکز رہا اور مسلمان، مسیحی اور یہودی سمیت مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والوں کی کثیر تعداد یہاں رہائش پزیر رہی۔

سلیمان اعظم قانونی کا دور تعمیرات اور فن کا عمیق دور تھا جس کے دوران میں اس کے ماہر تعمیران سنان پاشا نے شہر میں کئی عظیم الشان مساجد اور عمارات تعمیر کیں۔

جمہوریہ ترکی

برج غلطہ سے شاخ زریں کا ایک دلکش منظر

1923ء میں ترک جمہوریہ کے قیام کے بعد دار الحکومت استنبول سے انقرہ منتقل کر دیا گیا۔ عثمانی دور میں شہر کا نام قسطنطنیہ موجود رہا جبکہ سلطنت سے باہر اسے استامبول کے نام سے جانا جاتا تھا تاہم 1930ء میں جمہوریہ ترکی نے اس کا نام تبدیل کرکے استنبول کر دیا۔

جمہوریہ کے ابتدائی دور میں انقرہ کے مقابلے میں استنبول پر زیادہ توجہ نہیں دی گئی لیکن 1950ء اور 1960ء کی دہائی میں استنبول میں زبردست تبدیلیاں واقع ہوئیں۔ شہر کی یونانی برادری 1955ء کے معاہدے کے تحت ترکی چھوڑ کر یونان چلی گئی۔

1950ء کی دہائی میں عدنان میندریس کی حکومت کے دوران ملکی ترقی کے لیے کئی کام کیے گئے اور ملک بھر میں نئی سڑکیں اور کارخانے تعمیر ہوئے۔ استنبول میں بھی جدید کشادہ شاہراہیں قائم ہیں لیکن بدقسمتی سے یہ سودا شہر کی قدیم عمارات کے بدلے میں کیا گیا اور استنبول کئی قدیم عمارات سے محروم ہو گیا۔

1970ء کی دہائی میں شہر کے مضافات میں قائم نئے کارخانوں میں ملازمت کی غرض سے ملک بھر سے عوام کی کثیر تعداد استنبول پہنچی جس نے شہر کی آبادی میں تیزی سے اضافہ ہوا۔ آبادی میں تیزی سے اضافے کے بعد تعمیراتی شعبے میں بھی انقلاب آیا اور کئی مضافاتی دیہات توسیع پاتے ہوئے شہر میں شامل ہو گئے ۔

محل وقوع

باسفورس پل اور یورپی علاقے میں بلند عمارات

استنبول آبنائے باسفورس کے جنوبی علاقے میں دونوں جانب واقع ہے اس طرح وہ دو براعظموں میں واقع دنیا کا واحد شہر ہے۔ شہر کا مغربی حصہ یورپ جبکہ مشرقی حصہ ایشیا میں ہے۔ شہری حدود ایک ہزار 539 مربع کلومیٹر تک ہیں جبکہ صوبہ استنبول 5 ہزار 220مربع کلومیٹر پرمحیط ہے ۔

ارضیات

استنبول شمالی اناطولیہ کی زلزلے کی پٹی کے قریب واقع ہے جو شمالی اناطولیہ سے بحیرہ مرمرہ تک جاتی ہے۔ افریقی اور یوریشین پلیٹ یہی پر ملتی ہیں۔ اس زلزلے کی پٹی کے باعث خطہ زلزلوں کا مرکز ہے۔ 1509ء میں ایک زلزلے کے نتیجے میں سونامی پیدا ہوا جس میں 10ہزار لوگ ہلاک اور 100 سے زائد مساجد تباہ ہوئیں۔ 1766ء میں ایوب مسجد مکمل طور پر شہید ہو گئی۔ 1894ء کے زلزلے میں استنبول کے ڈھکے ہوئے بازار کا بیشتر حصہ تباہ ہو گیا۔ اگست 1999ء کے تباہ کن زلزلے کے نتے جد میں 18 ہزار اور 2001ء کے موسم سرما میں 41 افراد ہلاک ہوئے۔ شہر میں موسم گرما گرم اور پرنم جبکہ سردیوں میں بارش اور کبھی کبھار برف باری کے ساتھ شدید سردی پڑتی ہے۔ شہر میں سالانہ اوسطاً 870 ملی میٹر بارش پڑتی ہے۔ موسم سرما کے دوران میں اوسطاً درجہ حرارت 7 سے 9 ڈگری سینٹی گریڈ تک رہتا ہے جس کے دوران میں برف باری بھی عموماً ہوتی رہتی ہے۔ جون سے ستمبر تک موسم گرما کے دوران میں دن میں اوسطاً درجہ حرارت 28ڈگری سینٹی گریڈ رہتا ہے۔ سال کاگرم ترین مہینہ جون ہے جس میں اوسط درجہ حرارت 23.2ڈگری سینٹی گریڈ ہے جبکہ سال کا سرد ترین مہینہ جنوری ہے جس کا اوسط درجہ حرارت 5.4 ڈگری سینٹی گریڈ ہے۔ شہر میں سب سے زیادہ حرارت اگست 2000ء میں 40.5ڈگری سینٹی گریڈ ریکارڈ کیا گیا۔

شہر کی تنظیم

استنبول کی بلند عمارات کا ایک دلکش نظارہ

استنبول کے اضلاع کو تین اہم علاقوں میں تقسیم کیا گیا ہے :

قدیم قسطنطنیہ کا تاریخی جزیرہ نما امینونو اور فاتح کے اضلاع پرمشتمل ہے۔ عثمانی دور کے اواخر میں استنبول کہلایا جانے والا یہ علاقہ شاخ زریں کے جنوبی ساحلوں پرقائم ہے جو قدیم شہر کے مرکز کو یورپی علاقے کے شمالی علاقوں سے جدا کرتی ہے۔ اس جزیرہ نما کے جنوب کی جانب سے بحیرہ مرمرہ اور مشرق میں باسفورس نے گھیرا ہوا ہے۔ شاخ زریں کے شمال میں تاریخی بے اوغلو اور بشکطاش کے اضلاع واقع ہیں جہاں آخری سلطان کا محل واقع ہے۔ ان کے بعد باسفورس کے ساحلوں کے ساتھ ساتھ اورتاکوئے اور بیبک کے سابق دیہات واقع ہیں۔ باسفورس کے یورپی اور ایشیائی دونوں جانب استنبول کے امرا نے پرتعیش رہائشی مکانات تعمیر کررکھے ہیں جنہیں یالی کہا جاتا ہے۔ ان مکانات کو موسم گرما کی رہائش کے طور پراستعمال کیا جاتا ہے۔ اسکودار اور قاضی کوئے شہر کے ایشیائی حصے ہیں جو دراصل آزاد شہر تھے۔ آج یہ جدید رہائشی اور کاروباری علاقوں پر مشتمل ہے اور استنبول کی تقریباً ایک تہائی آبادی یہاں رہائش پذی رہے۔ دفاتر اور رہائش کی حامل بلند عمارات یورپی حصے کے شمال علاقوں میں واقع ہیں جن میں خصوصاً لیونت، مسلاک اور اتیلر کا علاقہ شامل ہیں جو باسفورس اور فاتح سلطان محمد پلوں کے درمیان میں واقع ہے ۔

آبادی میں اضافہ

اورتاکوئے مسجد اور باسفورس پل، رات کے وقت

استنبول کی آبادی 1980ء سے 2005ء کے 25سالہ عرصے کے دوران میں تین گنا سے بھی زیادہ ہو گئی ہے۔ اندازہً 70فیصد سے زائد شہری استنبول کے یورپی حصے میں جبکہ 30 فیصد ایشیائی حصے میں رہتے ہیں۔ جنوب مشرقی ترکی میں بے روزگاری میں اضافے کے باعث خطے کے لوگوں کی اکثریت استنبول ہجرت کرگئی جہاں وہ شہر کے نواحی علاقوں غازی عثمان پاشا، ضیا گوک الپ و دیگر میں قیام پزیر ہو گئی۔

سال آبادی
330ء40،000
440ء400،000
530ء550,000
545ء350,000
715ء300,000
950ء400,000
1200ء150,000
1453ء36,000
1477ء75,000
1566ء600,000
1817ء500,000
1860ء715,000
1885ء873,570
1890ء874,000
1897ء1,059,000
1901ء942,900
1914ء909,978
اکتوبر 1927ء680,857
اکتوبر 1935ء741,148
اکتوبر 1940ء793,949
اکتوبر 1945ء860,558
اکتوبر 1950ء983,041
اکتوبر 1955ء1,268,771
اکتوبر 1960ء1,466,535
اکتوبر 1965ء1,742,978
اکتوبر 1970ء2,132,407
اکتوبر 1975ء2,547,364
اکتوبر 1980ء2,772,708
اکتوبر 1985ء5,475,982
اکتوبر 1990ء6,620,241
نومبر 1997ء8,260,438
اکتوبر 2000ء8,803,468
جنوری 2005ء9,797,536
جنوری 2006ء10,034,830

تعلیم

ترکی میں اعلیٰ تعلیم کے بہترین اداروں میں سے چند استنبول میں واقع ہیں جن میں سرکاری و نجی جامعات بھی شامل ہیں۔ اکثر معروف جامعات سرکاری ہیں لیکن حالیہ چند سالوں میں نجی جامعات کی تعداد میں بھی اضافہ ہواہے۔ معروف سرکاری جامعات میں استنبول تکنیکی جامعہ، باسفورس جامعہ، غلطہ سرائے جامعہ، استنبول جامعہ، مارمرہ جامعہ، یلدیز تکنیکی جامعہ اور معمار سنان فنون لطیفہ جامعہ شامل ہیں۔

لائبریریاں

  • سلیمانیہ کتب خانہ
  • استنبول چلک گولرسوئے کتب خانہ
  • توپ قاپی محل کتب خانہ
  • آرکیولوجیکل میوزیم کتب خانہ
  • اتاترک کتب خانہ
  • گوئٹے انسٹی ٹیوٹ کتب خانہ
  • امریکن کتب خانہ

اقتصادیات

لیونت میں قائم بلند عمارات

استنبول اپنے بہترین محل وقوع اور زمینی و بحری راستوں کے بین الاقوامی پر موجودہ ہونے کے باعث ہمیشہ ہی سے ترکی کی اقتصادیات کا مرکز رہا ہے۔ ترکی کے صنعتی مزدوروں کا 20 فیصد استنبول میں روزگار سے وابستہ ہے جبکہ شہر ترکی کے صنعتی شعبے کا 38 فیصد حصہ ادا کرتا ہے۔ علاوہ ازیں شہر ترکی کی تجارت کا 55 فیصد اور تھوک تجارت کا 45 فیصد اور مجموعی قومی پیداوار کا 21.2 فیصد پیدا کرتا ہے۔ ملک بھر میں محصولات کا 40 فیصد حصہ استنبول ادا کرتا ہے اور ترکی میں قومی مصنوعات کا 27.5 فیصد تیار کرتا ہے ۔

مسلک میں قائم بلند عمارات

1990ء کی دہائی میں ایشیائی مالی بحران اور روس میں بحران کے باعث ترکی خصوصاً استنبول کی معیشت کو شدید دھچکے پہنچے۔ جولائی 1997ء سے 1998ء کے اوائل تک ایشیائی بحران اور اگست 1998ء سے 1999ء کے وسط تک روسی بحران کے باعث ترکی کی معیشت خصوصاً برآمدات پر منفی اثرات مرتب ہوئے۔ شہر کی اقتصادیات کو دوسرا دھچکا 17اگست 1999ء کو زلزلے سے لگا جس کے نتے ج میں اس کے جی ڈی پی میں دو فیصد کمی واقع ہوئی۔

اس کے باوجود استنبول کی معیشت حالیہ چند سالوں سے دوبارہ بہتری کی جانب گامزن ہے۔ استنبول ترکی کا صنعتی مرکز ہے۔ ترکی کے کئی بڑے کارخانے یہیں واقع ہیں۔ استنبول اور اس کے نواحی صوبہ جات کپاس، پھل، زیتون کا تیل، ریشم اور تمباکو پیدا کرتے ہیں۔ شہر کی اہم مصنوعات میں غذائی مصنوعات، کپڑا، تیل، ربڑ، دھاتی اشیاء، چمڑے کی اشیائ، کیمیکل، برقی مصنوعات، شیشہ، مشینری، کاغذ اور الکوحل کے مشروبات شامل ہیں۔ شہر میں گاڑیاں اور ٹرک بھی اسنبل کیے جاتے ہیں۔

استنبول کی معیشت کا ایک اہم شعبہ سیاحت بھی ہے۔ شہر میں ہزاروں ہوٹل اور سیاحت متعلقہ صنعتیں موجود ہیں۔

ذرائع نقل و حمل

شہر قومی و بین الاقوامی طویل الفاصلاتی ذرائع نقل و حمل کا مرکز ہے۔ شہر میں دو بین الاقوامی ہوائی اڈے قائم ہیں۔ بڑا ہوائی اڈا اتاترک بین الاقوامی ہوائی اڈا مرکز شہر سے 24 کلومیٹر دور واقع ہے۔ تعمیر کے وقت یہ شہر کے یورپی حصے کے ایک کونے میں تھا لیکن اب شہر کے اندر قائم ہے۔ جدید ہوائی اڈا صبیحہ گوکچن ہوائی اڈا ایشیائی علاقے سے 20 کلومیٹر مشرق جبکہ یورپی علاقے سے 45 کلومیٹر دور مشرق میں واقع ہے۔ سرکیجی اسٹیشن یورپی جانب تمام ٹرینوں کا آخری اسٹاپ ہے۔ شہر سے صرف ایک طویل الفاصلاتی ٹرین روزانہ چلتی ہے جو رومانیہ کے دار الحکومت بخارسٹ تک جاتی ہے۔ باسفورس کے پار حیدر پاشا اسٹیشن سے روزانہ انقرہ سمیت اناطولیہ کے دیگر شہروں کے لیے کئی ٹرینیں روانہ ہوتی ہیں۔ اب ان دونوں اسٹیشنوں کو فیری سروس کے ذریعے آپس میں جوڑدیا گیا ہے ۔

کانیون شاپنگ مال

ای 5، ای 90 اور ٹرانس یورپین موٹر وے یورپی سرحد سے ترکی اور مشرقی علاقوں کو جانے والے اہم ترین راستے ہیں۔ استنبول کے گرد موٹر وے کا جال انتہائی جدید ہے اور اسے مزید توسیع دی جا رہی ہے۔ موٹر ویز دار الحکومت انقرہ کے علاوہ ادرنہ کی جانب بھی جاتی ہے۔ شہر کے گرد دو ایکسپریس ویز ہیں۔ پرانے ایکسپریس وے کو ای 5 کہا جاتا ہے کو زیادہ تر شہر کا اندرونی ٹریفک استعمال کرتا ہے جبکہ جدید ٹرانس یورپین موٹر وے بین البراعظمی یا بین البلادی ٹریفک استعمال کرتا ہے۔ باسفورس پل اور فاتح سلطان محمد پل آبنائے باسفورس پر انہی دو ہائی ویز پر بنے ہوئے ہیں۔

استنبول کی بندرگاہ ملک میں سب سے زیادہ اہم ہے۔ شاخ زریں میں واقع قدیم بندرگاہ ذاتی جہاز رانی کے لیے استعمال ہوتی ہے۔ یہاں سے بحیرہ روم میں یونانی جزائر اور کرویئشا، وینس اور ناپولی،اٹلی، مارسے، فرانس اور حیفہ، اسرائیل اور بحیرہ اسود میں یوکرین تک کے لیے بحری جہاز روانہ ہوتے ہیں۔

شہر کے معروف پل

باسفورس پل، پس منظر میں فاتح سلطان محمد پل بھی واضح ہے

کھیل

اتاترک اولمپک اسٹیڈیم

اتاترک اولمپک اسٹیڈیم ترکی کا سب سے بڑا اسٹیڈیم ہے جس میں 82 ہزار 300 تماشائیوں کی گنجائش ہے۔ اسٹیڈیم نے 2005ء کی یورپین چیمپیئنز لیگ فائنل کی میزبانی کی تھی۔

شکرو سرج اوغلو اسٹیڈیم 52 ہزار 500 تماشائیوں کی گنجائش رکھتا ہے اور 2009ء میں UEFA کپ کے فائنل کی میزبانی کرے گا۔

استنبول کئی فٹ بال ٹیموں کا شہر ہے جن میں ترکی کی سب سے قدیم کھیلوں کی تنظیم بیشکطاش بھی شامل ہے۔ علاوہ ازیں غلطہ سرائے اور فنر باغچہ مشہور ترین ٹیمیں ہیں۔

شکرو سرج اوغلو اسٹیڈیم

استنبول فارمولا ون ترکش گراں پری، موٹر جی پی گراں پری، ایف آئی اے ورلڈ ٹورنگ کار چیمپیئن شپ،جی پی 2 اور لی مینز سیریز 1000 کلومیٹر ریس کی میزبانی کرتا رہتا ہے۔ یہ تمام کھیلوں کے مقابلے استنبول پارک میں منعقد ہوتے ہیں۔

دیگر کھیلوں میں باسکٹ بال، والی بال، گالف، شوٹنگ، گھڑ سواری اور ٹینس بے حد معروف ہیں۔

جڑواں شہر

استنبول کے 45 جڑواں شہر ہیں :

مزید دیکھیے

قسطنطنیہ

ترکی

بیرونی روابط

استنبول ٹریول گائیڈ از ویکی ٹریول

استنبول کے بارے میں مضمون،انگریزی زبان میں

استنبول کا نقشہ

استنبول کی تاریخی تصاویر

استنبول کی تاریخ

  1. archINFORM location ID: https://www.archinform.net/ort/1767.htm — اخذ شدہ بتاریخ: 6 اگست 2018
  2.  "صفحہ استنبول في GeoNames ID"۔ GeoNames ID۔ اخذ شدہ بتاریخ 29 نومبر 2019۔
  3.   "صفحہ استنبول في ميوزك برينز."۔ MusicBrainz area ID۔ اخذ شدہ بتاریخ 29 نومبر 2019۔
  4.   "صفحہ استنبول في خريطة الشارع المفتوحة"۔ OpenStreetMap۔ اخذ شدہ بتاریخ 29 نومبر 2019۔
  5. http://istanbul.yerelnet.org.tr/
  6. https://www.plovdiv.bg/en/about-plovdiv/побратимени-градове/
This article is issued from Wikipedia. The text is licensed under Creative Commons - Attribution - Sharealike. Additional terms may apply for the media files.