انڈونیشیا

انڈونیشیا جنوب مشرقی ایشیا میں واقع ایک اسلامی ملک کا نام ہے، آبادی کے اعتبار سے یہ دنیا کا سب سے بڑا اسلامی ملک ہے۔ انڈونیشیا کئی جزائر پر مشتمل ہے۔ ان میں سے بعض کافی بڑے ہیں اور بعض بہت چھوٹے۔ اس لیے ان میں کئی زبانیں بولی جاتی ہیں لیکن ان میں سے اکثر کا تعلق آسٹرونیشین زبانوں سے ہے جو ملایائی اور پالونیشی زبانوں کا مجموعہ ہیں۔ انڈونیشیا کے بڑے جزیروں مثلا جاوا میں تین بڑی زبانیں رائج ہیں اور سماترا میں تقریباً گیارہ زبانیں بولی جاتی ہیں۔ ہر جزیرہ میں کم از کم ایک اپنی زبان ضرور ہے۔

  

انڈونیشیا
انڈونیشیا
پرچم
انڈونیشیا
نشان

،  

شعار
(سنسکرت میں: Bhinneka Tunggal Ika)[1] 
ترانہ:عظیم انڈونیشیا [1] 
زمین و آبادی
متناسقات 2°S 118°E / -2; 118   [2]
بلند مقام پنچاک جایا  
پست مقام بحر ہند (0 میٹر ) 
رقبہ 1904570.0 مربع کلومیٹر  
دارالحکومت جکارتا  
سرکاری زبان انڈونیشیائی زبان [1][3] 
آبادی 263991379 (2017)[4] 
حکمران
طرز حکمرانی جمہوریہ  
اعلی ترین منصب جوکو ویدودو (20 اکتوبر 2014–)[5] 
سربراہ حکومت جوکو ویدودو  
قیام اور اقتدار
تاریخ
یوم تاسیس 17 اگست 1945 
عمر کی حدبندیاں
شادی کی کم از کم عمر 18 سال ، 16 سال  
لازمی تعلیم (کم از کم عمر) 6 سال  
لازمی تعلیم (زیادہ سے زیادہ عمر) 15 سال  
شرح بے روزگاری 6 فیصد (2014)[6] 
دیگر اعداد و شمار
کرنسی آئیسو4217  
ٹریفک سمت بائیں [7] 
ڈومین نیم id.  
سرکاری ویب سائٹ {{#اگرخطا:باضابطہ ویب سائٹ  |}}
آیزو 3166-1 الفا-2 ID 
بین الاقوامی فون کوڈ +62 

انڈونیشیا کی قومی زبان بھاشا انڈونیشیا ہے جس کی بنیاد مشرقی سماترا کی ایک بول چال کی ملایائی زبان پر ہے۔ یہ ملیشیا کے اکثر حصوں میں بھی سمجھی جاتی ہے۔ اس پر عربی اور سنسکرت کی گہری چھاپ ہے۔ سنسکرت کے بے شمار الفاظ اس میں ملتے ہیں۔ یہ زبان کافی مقبول ہے اور ملک کو متحد کرنے میں اس سے خاصا کام لیا جارہا ہے۔ اب یہ زبان پورے انڈونیشیا میں سکھلائی جا رہی ہے۔ ابتدائی دو برسوں میں بچوں کو ان کی ماردری زبان میں تعلیم دی جاتی ہے اور اس کے بعد ہر جگہ بھاشا انڈونیشیا میں تعلیم ہوتی ہے۔ 1972 میں انڈونیشیا اور ملائیشیا میں ایک معاہدہ ہو گیا ہے جس کی رو سے الفاظ کا متفقہ تلفظ متعین کر لیا گیا ہے۔ اس کی وجہ سے دونوں ملکوں رسل و رسائل میں سہولت پیدا ہو گئی ہے۔ اسی کے ساتھ دونوں ملکوں کی ادبی و تہذیبی زندگی میں قریبی تعلق بھی پیدا ہو گیا ہے۔

انڈونیشیا اور ملیشیا کی تہذیب اور ادب پر ہندوستان و سنسکرت، اسلامی و عربی اور ڈچ (ولندیزی) تہذیب اور ادب کا گہرا اثر ہے۔ ایک زمانہ میں ملایا اور موجودہ انڈونیشیا ایک وسیع سلطنت کا حصہ تھے۔ گیارہویں صدی میں یہ مہاراجا ایرلنگا (Airlanga) کے تحت تھے۔ اس زمانہ میں یہ علاقہ کافی ترقی یافتہ تھا۔ ایک قومی ادب ترقی پا چکا تھا۔ جاوائی زبان میں شاعری ہوتی تھی جس میں سنسکرت الفاظ کافی استعمال کیے جاتے تھے ساتھ ہی سنسکرت کی بحریں بھی استعمال ہوتی تھیں۔ جودہویں صدی عیسوی میں قبلائی خان کو مکمل شکست دینے کے بعد کیرتی راجس جے وردھن کی سرگردگی میں جاوا کی ایک مستحکم سلطنت، "مجاپہت" قائم ہوئی تو زندگی کے اور شعبوں کی طرح ادب نے بھی ترقی کرنی شروع کی[8] اس کی بنیاد مقامی بول چال کی زبان پر تھی اس عہد کی سب سے مشہور کتاب ناگراکرتاگاما (Nagarakretagama) ہے۔ یہ ایک طویل قصیدہ ہے جو راجا کی تعریف میں لکھا گیا تھا۔ اس میں اس دور کی جاوا کی زندگی کی جھلک بھی ملتی ہے۔ اس کا اسلوب اور بحریں جاوا کی ہیں لیکن سنسکرت الفاظ خاصی بڑی تعداد میں استعمال ہوئے ہیں۔

انڈونیشیا اور ملایا میں ہندو اثر کے تحت راماین اور مہابھارت کی منظوم نظمیں کافی مشہور ہو چکی ہیں اور ان پر مبنی ڈرامے اور غنائی کھیل اور تماشے کافی مقبول ہو رہے ہیں۔ چودہویں صدی میں راماین اور مہابھارت کو جاوی زبان میں منتقل کیا گیا۔ اسی زمانہ میں رومانی کہانیوں، حکایتوں کو بھی بہت فروغ ہوا۔ ساتھ ہی ملایائی، بالی اور سندانی بولیوں میں بھی ادب ترقی پانے لگا۔ اسلامی دور میں میں ملایا کا عروج ہوا اور پرانی کہانیوں نے نیا اسلامی روپ اختیار کر لیا۔ نئی کہانیاں ان زبانوں میں منتقل ہونے لگیں۔ امیر حمزہ کی داستانیں اور سکندر اعظم کی کارنامے نئے روپ میں پیش ہونے لگے۔ فارسی اور عربی سے فقہ، اخلاقیات اور تصوف وغیرہ کتابیں ملائی زبان میں منتقل ہونے لگیں۔ اس دور کے ملائی ادب کی سب سے اعلیٰ پایہ کی کتاب وقائع ملایا سجارہ ملایو (Malay Annals) ہے۔ اس میں سلطنت ملایا کی تاریخ بیان کی گئی ہے۔ جگہ جگہ اس دور کی عام زندگی کے کچھ نایاب مرقعے ملتے ہیں جن میں حقیقت پسندی، مزاح اور مبالغہ آرائی سب ہی کے نمونے موجود ہیں۔[9]

اٹھارہویں صدی میں ملایا کی آزادی ختم ہوئی اور برطانیہ کے تحت ملایائی سلطنتوں کا ایک وفاق قائم ہوا توا حکمراں سلطان باقی رہے اور کافی عرصہ تک سماج اور ادبی زندگی میں پرانی روایات بھی باقی رہیں۔ لیکن جزائر انڈونیشیا پر جب ڈچ حکمرانوں کا قبضہ ہو گیا تو ان کی سرکردگی میں مقامی زبان و ادب کو دبایا گیا اور ڈچ زبان وادب کو مسلط کر دیا گیا۔ بیسویں صدی کے شروع تک جب قومی احساس بڑھتا، قوم پرست تحریکیں ابھرنے لگیں تو مقامی زبان اور ادب میں نئی روح پھونکنے کی کوشش شروع ہوئی اور ملائی (انڈونیشی) زبان میں کہانیاں، ناول اور نظمیں وغیرہ لکھی جانے لگیں۔

1933ء تک مقامی ادب نے کافی ترقی کر لی۔ آزادی کے بعد انڈونیشی ادب نے تیزی کے ساتھ ترقی کی ہے۔ اس دور کے شاعروں میں الانور ستار سیتو مورانگ قابل ذکر ہیں اور ناول نگاروں میں اننت توئر اور تقدیر علی سجا بھانا مشہور ہیں۔

حوالہ جات

بیرونی روابط

حکومتی
عمومی
This article is issued from Wikipedia. The text is licensed under Creative Commons - Attribution - Sharealike. Additional terms may apply for the media files.