آسٹریلیا

دولت مشترکہ آسٹریلیا (Commonwealth of Australia) جنوبی نصف کُرے کا ایک ملک ہے جو دنیا کے سب سے چھوٹے براعظم پر مشتمل ہے۔ اس میں تسمانیہ کا بڑا جزیرہ اور بحر جنوبی، بحر ہند اور بحر الکاہل کے کئی چھوٹے بڑے جزائر شامل ہیں۔ اس کے ہمسایہ ممالک میں انڈونیشیا، مشرقی تیمور اور پاپوا نیو گنی شمال کی طرف، سولومن جزائر، وانواتو اور نیو سیلیڈونیا شمال مشرق کی طرف اور نیوزی لینڈ جنوب مشرق کی طرف موجود ہے۔

  

آسٹریلیا
آسٹریلیا
پرچم
آسٹریلیا
نشان

،  

شعار
ترانہ:
زمین و آبادی
متناسقات 28°S 137°E / -28; 137   [1]
رقبہ 7692024 مربع کلومیٹر [2][3] 
دارالحکومت کینبرا [4] 
سرکاری زبان انگریزی [5][6] 
آبادی 23401892 (9 اگست 2016)[7] 
حکمران
طرز حکمرانی پارلیمانی بادشاہت ، آئینی بادشاہت [8][9]، وفاق [10] 
اعلی ترین منصب ایلزبتھ دوم (6 فروری 1952–)[11][12][13] 
مقننہ پارلیمان آسٹریلیا [14] 
قیام اور اقتدار
تاریخ
یوم تاسیس 1 جنوری 1901[15] 
عمر کی حدبندیاں
شادی کی کم از کم عمر 18 سال [16][17]، 16 سال  
لازمی تعلیم (کم از کم عمر) 5 سال  
شرح بے روزگاری 6 فیصد (2014)[18] 
دیگر اعداد و شمار
کرنسی آسٹریلوی ڈالر [19][20][21] 
ٹریفک سمت بائیں [22] 
ڈومین نیم au.  
سرکاری ویب سائٹ {{#اگرخطا:باضابطہ ویب سائٹ،باضابطہ ویب سائٹ  |}}
آیزو 3166-1 الفا-2 AU[23] 
بین الاقوامی فون کوڈ +61[24] 

آسٹریلیا کا مرکزی حصہ 42000 سال سے قدیمی آسٹریلین لوگوں سے آباد رہا ہے۔ شمال سے آنے والے اکا دکا ماہی گیروں اور یورپی مہم جوؤں اور تاجروں نے 17ویں صدی میں ادھر آنا شروع کر دیا تھا۔ 1770ءمیں آسٹریلیا کے مشرقی نصف حصہ پر برطانیہ نے دعویٰ کیا۔ اسے پھر 26 جنوری 1788ء میں نیو ساؤتھ ویلز کی کالونی کا حصہ بنا دیا گیا۔ جونہی آبادی بڑھتی گئی اور نئے علاقے دریافت ہوتے گئے، 19ویں صدی تک ادھر مزید پانچ کالونیاں بھی بنا دی گئیں۔

یکم جنوری1901ء کو ان 6 کالونیوں نے مل کر ایک فیڈریشن بنائی اور اس طرح دولت مشترکہ آسٹریلیا وجود میں آئی۔ فیڈریشن سے لے کر اب تک، آسٹریلیا میں معتدل جمہوری سیاسی نظام موجود ہے اور یہ ابھی تک دولت مشترکہ ہے۔ اس کا دار الحکومت کینبرا ہے۔ اس کی آبادی 2 کروڑ 10 لاکھ ہے اور یہ مین لینڈ کے دارلحکومتوں سڈنی، میلبورن، برسبن، پرتھ اور ایڈیلیڈ میں پھیلا ہوا ہے۔

وجہ تسمیہ

لاطینی میں آسٹریلیس کا مطلب "جو جنوب میں ہو" ہے۔ جنوب کی نامعلوم زمین کے بارے کہانیاں قدیم رومن دور میں ملتی ہیں لیکن ان میں اصل براعظم کے بارے کوئی حقیقی معلومات نہیں تھیں۔ آسٹریلیا کا لفظ انگریزی میں پہلی بار 1625ء میں استعمال کیا گیا۔ 1793ء میں جارج شا اور سر جیمز سمتھ نے زوالوجی اور باٹنی برائے نیو ہالینڈ کے نام سے تحریر شائع کی جس میں انہوں نے وسیع و عریض جزیرے کا ذکر کیا تھا نہ کہ بطور براعظم کے۔ 1814ء میں آسٹریلیا کا نام مشہور ہوا جو ایک برطانوی نیویگیٹر نے اپنے سفر کے بعد کتاب کی شکل میں لکھا۔ اس کا نام میتھیو فلنڈرز تھا اور اس نے پہلی بار آسٹریلیا کے گرد چکر لگایا۔ اس کتاب کی نوعیت اگرچہ فوجی تھی، لیکن لفظ "آسٹریلیا" کو عام مقبولیت حاصل ہوئی کیونکہ یہ کتاب وسیع پیمانے پر پڑھی گئی۔ بعد ازاں نیو ساوتھ ویلز کے گورنر نے اپنے سرکاری مراسلات میں لفظ "آسٹریلیا" کو استعمال کیا اور 1817ء میں اس نام کو سرکاری درجہ دینے کی سفارش کی گئی جو منظور ہوئی۔

تاریخ

ابتدائی انسانی آبادکاری کا اندازہ 42000 سے 48000 سال قبل کا لگایا گیا ہے۔ یہ لوگ موجودہ دور کے قدیمی آسٹریلیائی باشندوں کے اجداد تھے جو جنوب مشرقی ایشیا سے زمینی راستے سے ادھر پہنچے تھے۔ ان کی اکثریت شکاری اور گلہ بانوں کی تھی۔

آسٹریلیا کا مشاہدہ کرنے والا پہلا غیر متنازع یورپی ہالینڈ کا جہاز راں ولیم جانسزون تھا جس نے کیپ یارک کے جزیرہ نما کے ساحل کا منظر 1606ء میں دیکھا۔ 17ویں صدی کے دوران ہالینڈ کے باشندوں نے مکمل مغربی اورشمالی ساحلی علاقوں کے نقشے بنائے اور اسے نیو ہالینڈ کا نام دیا لیکن آبادکاری کی کوئی کوشش نہیں کی۔ 1770ء میں جیمز کُک ادھر پہنچا اور مشرقی ساحل کا نقشہ بنایا اور اسے نیو ساؤتھ ویلز کا نام دیا اور اسے برطانیہ نے نام کیا۔

آسٹریلیا کی مقامی آبادی جس کا اندازہ یورپی لوگوں کی آمد کے وقت 350000 کے قریب لگایا جاتا ہے، 150 سال کے بعد ڈرامائی حد تک کم ہو گئی۔ اس کی وجوہات میں بیماریاں، یورپی لوگوں کی زبردستی آمد اور ثقافتی تفریق تھیں۔ اس کے علاوہ مقامی لوگوں سے ان کے بچے چھیننا بھی ان کی نسل کشی کے مترادف سمجھاجاتا ہے۔ اس کے علاوہ ان قدیمی باشندوں کی تاریخ میں سیاسی اور نظریاتی مقاصد کے لیے تحاریف بھی کی گئی تھیں۔ آسٹریلوی اسے تاریخی جنگ کا نام دیتے ہیں۔ 1967ء کے ریفرنڈم کے بعد حکومت نے مقامی لوگوں ان کے حقوق دینے شروع کیے جن میں زمین کا حق ملکیت، آبائی اعزازات وغیرہ کو 1992ء میں جا کر تسلیم کیا گیا۔ اب بھی جو اراضی مقامی لوگوں کے پاس ہے اسے آسٹریلیا کی حکومت ہتھیانے کی کوشش میں رہتی ہے۔[25] آسٹریلیا ان سات ممالک میں شامل ہے جو بیس سال سے اقوام متحدہ کی اس قرارداد کی مخالفت کرتے رہے ہیں جس میں اصلی مقامی آبادیوں کے حقوق کا اعلان کیا گیا ہے۔[26]

سونے کی تلاش کے لیے آسٹریلیا میں 1850ء کے اوائل میں دوڑ شروع ہوئی۔ اس کے نتیجے میں چھوٹے پیمانے پر بغاوتیں بھی ہوئیں۔ ویسٹ منسٹر کے 1931ء کے قانون نے آسٹریلیا اور برطانیہ کے آئینی تعلقات کو زیادہ تر ختم کر دیا جب آسٹریلیا نے اس کو 1942ء میں قبول کیا۔ 1942ء میں ایشیا میں برطانیہ کی شکست اور پھر جاپان کے حملے کے اندیشے کے باعث آسٹریلیا نے امریکا کو اپنا نیا حامی و مددگار بنایا۔ 1951ء سے اب تک آسٹریلیا امریکا کا باقاعدہ فوجی حلیف شمار ہوتا ہے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد آسٹریلیا نے یورپ سے تارکین وطن کی حوصلہ افزائی کی۔ 1970ء میں سفید آسٹریلیا کی پالیسی کے اختتام پر ایشیا اور دیگر غیر یورپی علاقوں سے افراد نے آسٹریلیا کی طرف جانا شروع کر دیا۔ اس سے آسٹریلیا کی اپنی آبادی، ثقافت اور تشخص پر بہت گہرا اثر پڑا۔

سیاست

دولت مشترکہ آسٹریلیا ایک آئینی بادشاہت ہے جس میں پارلیمانی نظام حکومت ہے۔ ملکہ الزبتھ دوم آسٹریلیا کی ملکہ ہیں اور ان کا یہ کردار دولت مشترکہ کے دیگر ممالک کی نسبت مختلف ہے۔ وفاقی سطح پر ملکہ کی نمائندگی کرنے کے لیے گورنر جنرل ہوتا ہے۔ اگرچہ آئینی طور پر گورنر جنرل کو وسیع اختیارات ملے ہوتے ہیں عموماً ان کا استعمال وزیر اعظم کے مشورے سے کیا جاتا ہے۔ حکومت تین مختلف شاخوں میں اس طرح تقسیم ہے :

  • پارلیمان
  • اشرافیہ
  • عدلیہ

دو ایوانوں پر مشتمل دولت مشترکہ کی پارلیمان ملکہ، سینٹ جس میں 76 اراکین ہوتے ہیں اور ایک ایوان نمائندگان جس کے 150 اراکان ہوتے ہیں۔ یہاں تین بڑی سیاسی جماعتیں ہیں : آسٹریلین لیبر پارٹی، لبرل پارٹی اور نیشنل پارٹی۔ آزاد اراکین اور کئی چھوٹی پارٹیاں بھی موجود ہوتی ہیں۔ آسٹریلیا میں افغان بستیاں : آسٹریلیا کے ایک محقق اسٹیوینس (Christin Stevens )نے 1989ء میں ایک کتاب بڑی عرق ریزی سے مرتب کی ہے۔ کتاب کانام ”Tin Mosques and Afghan towns “یعنی ”ٹین کی مسجدیں اور افغان بستیاں “372 صفحات کی اس ضخیم کتاب میں اس نے ان اونٹ والوں کی تاریخ بڑی محنت سے جمع کی ہے۔ کتاب کے مقدمے میں انہوں نے لکھا ہے۔ ”یہ افغان اور ان کے جانور وں نے آسٹریلیا کے قلب تک رسائی اس زمانے میں ممکن بنائی جب دوسرے لوگ اس کام میں اکثر ناکام رہے۔ اس کے باوجود ان کے خلاف خوف اور نفرت کا مظاہرہ کیا گیا اور ان کے منفرد معاشرے کو الگ تھلگ کر دیا گیا۔ ان کے مزاج اور طبیعت اوران کی ثقافت کو بہت کم سمجھنے کی کوشش کی گئی، بلکہ ان کے خلاف غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں۔

ریاستیں اور مملکتیں

آسٹریلیا میں چھ ریاستیں اور دو بڑی اور کئی چھوٹی مملکتیں ہیں۔ ریاستوں میں نیو ساؤتھ ویلز، کوئینز لینڈ، ساوتھ آسٹریلیا، تسمانیہ، وکٹوریا اور ویسٹرن آسٹریلیا شامل ہیں۔ بڑی مملکتیں شمالی مملکت اور آسٹریلوی دار الحکومت کی مملکت ہیں۔ عموماً ریاستیں اور مملکتیں ایک ہی کام کرتی ہیں لیکن ان کے قوانین کچھ فرق ہوتے ہیں۔

خارجہ تعلقات اور فوج

موجودہ دہائیوں میں آسٹریلیا کے خارجہ تعلقات امریکا سے گہرے تعلقات کے مظہر ہیں۔ آسٹریلیا کی خواہش ہے کہ ایشیا اور بحر اوقیانوس کے ممالک کے ساتھ گہرے تعلقات قائم کیے جائیں۔

آسٹریلیا کی مسلح افواج جنہیں آسٹریلین ڈیفنس فورسز کہا جاتا ہے، شاہی آسٹریلوی بحری فوج، آسٹریلین بری فوج اور شاہی آسٹریلوی ہوائی فوج پر مشتمل ہیں۔ ان کی تعداد 51000 ہے۔ یہ تمام افواج اقوام متحدہ اور علاقائی امن مشنوں، قدرتی آفات کا مقابلہ کرنے، فوجی لڑائیوں میں بھی شامل ہوتی ہیں۔ حکومت کسی بھی فوج سے سربراہ کا تقرر کرتی ہے۔ سال 2006-2007ء کے لیے آسٹریلیا کا دفاعی بجٹ 22 ارب امریکی ڈالر ہے۔

جغرافیہ

آسٹریلیا کا کل رقبہ 7617930 مربع کلومیٹر ہے۔ یہ سارے کا سارا انڈو آسٹریلین پلیٹ پر واقع ہے۔ اس کے گرد انڈین، جنوبی اور اوقیانوس کے سمندر ہیں۔ آسٹریلیا اور ایشیا کے درمیان تیمور اور ارافورا کے سمندر واقع ہیں۔ آسٹریلیا کے پاس کل 34218 کلومیٹر کا ساحل موجود ہے۔

گریٹ بیرئر ریفک جسے دنیا کی سب سے بڑی مونگے کی چٹان ہونے کا درجہ ملا ہوا ہے، آسٹریلیا کے شمال مشرقی ساحل کے بالکل ساتھ ہے اور 2000 کلومیٹر پر پھیلی ہوئی ہے۔ ماؤنٹ اگسٹس کو دنیا کی سب سے بڑی چٹان مانا جاتا ہے۔ آسٹریلیا میں ماؤنٹ کوسکیوسزکو کو سب سے بلند پہاڑ ہونے کا درجہ ملا ہوا ہے جو 2228 میٹر بلند ہے۔ اگرچہ مین لینڈ سے ہٹ کر سب سے بلند پہاڑ ماوسن پیک ہے جو 2745 میٹر بلند ہے۔

اب تک آسٹریلیا کا بڑا حصہ بنجر اور صحرا پر مشتمل ہے۔ آسٹریلیا کو چپٹا ترین براعظم کہتے ہیں۔ اس کی مٹی سب سے پرانی اور سب سے کم ذرخیز ہے۔ اس کے علاوہ یہ خشک ترین براعظم ہے جہاں انسان رہتے ہیں۔ صرف جنوب مشرق اور جنوب مغرب کی طرف کے حصے معتدل درجہ حرارت رکھتے ہیں۔ آبادی کی اکثریت جنوب مشرقی ساحل پر رہتی ہے۔ ملک کے شمالی علاقے استوائی موسم رکھتے ہیں اور یہاں رین فارسٹ، عام جنگلات، گھاس کے میدان، مینگروو دلدلیں اور صحرا ہیں۔ موسم پر سمندری روؤں کا گہرا اثر ہے۔ اسی طرح شمالی آسٹریلیا میں موسمی استوائی ہوا کا کم دباؤ سائیکلون پیدا کرتا ہے۔

نباتات و حیوانات

اگرچہ زیادہ تر آسٹریلیا نیم بنجر یا صحرائی ہے، اس میں بہت سی اقسام کے ماحول پائے جاتے ہیں۔ ان میں الپائن سے لے کر استوائی رین فارسٹ شامل ہیں۔ اس لیے اسے میگا ڈائورسٹی ملک کہا جاتا ہے۔ اپنی طویل عمر اور زرخیزی میں کمی کی وجہ سے پورے براعظم کا موسم کافی مختلف ہے اور جغرافیائی اعتبار سے بقیہ دنیا سے بہت عرصہ کٹے ہونے کی وجہ سے یہاں کی حیاتیاتی زندگی بہت مختلف اور بہت متنوع نوعیت کی ہے۔ تمام پھولدار پودوں کا 85 فیصد، ممالیہ کا 84 فیصد، پرندوں کا 45 فیصد، ساحل سمندر کی مچھلیوں کا 89 فیصد حصہ عام نوعیت کا ہے اور ہر جگہ پایا جاتا ہے۔ ان قدرتی ماحولوں کی اکثریت کو انسانی مداخلت اور باہر سے لائی گئی مختلف نسلوں کی وجہ سے مٹ جانے کا اندیشہ لاحق ہے۔ وفاقی ماحول کے بچاؤ اور بائیو ڈائورسٹی کے تحفظ کے ایکٹ کو 1999ء میں منظور کیا گیا جو معدومیت کے خطرے سے دوچار انواع کے بچاؤ کا کام کرتا ہے۔

آسٹریلوی لکڑی دار درختوں کی اکثریت سدا بہار ہے اور یہ آگ اور خشک سالی کے عادی ہیں۔ ان میں سفیدہ اور آکاکیاس شامل ہیں۔

معیشت

آسٹریلیا ایک خوشحال اور مغربی انداز کی معیشت رکھنے والا ملک ہے۔ اس کی فی کس جی ڈی پی آمدنی برطانیہ، جرمنی اور فرانس سے ذرا سا زیادہ ہے۔ انسانی ترقی کے انڈیکس میں اسے تیسرا نمبر دیا گیا ہے۔ اکانومسٹ نے 2005ء میں انسانی معیار زندگی کے ھوالے سے چھٹا نمبر دیا ہے۔ آسٹریلیا کی معیشت میں برآمدی نوعیت کی اشیا کی تیاری نہ ہونا ایک بہت بڑی کمزوری سمجھی جاتی ہے۔ حال ہی میں بڑھتی ہوئی سیاحت اور آسٹریلیا کی برآمدات کی قیمتوں میں اضافے نے اس پر کچھ صورت حال تبدیل کی ہے۔ تاہم کرنٹ اکاؤنٹ کے خسارے کے حوالے سے آسٹریلیا دنیا میں چوتھے نمبر پر آتا ہے۔

ہاک کی حکومت کے دوران معاشی اصلاحات کا عمل شروع کیا گیا جس میں آسٹریلیا کے ڈالر کو 1983ء میں آزاد کر دیا گیا اور جزوی طور پر فنانشل سسٹم کو ڈی ریگولیٹ کیا گیا۔ ہاورڈ کی حکومت نے مائیکرواکنامک اصلاحات کے اس عمل کو جاری رکھا جس میں لیبر مارکیٹ کی جزوی ڈی ریگولیشن اور سرکاری اداروں کی نجکاری، جس میں ٹیلی کمیونیکیشن بہت اہم ہے، شامل ہیں۔ جولائی 2000ء میں ٹیکسوں کے بالواسطہ نظام کی اصلاح کی گئی اوراشیا اور خدمات پر 10 فیصد ٹیکس عائد کیا گیا۔ اس سے ذاتی اور کمپنیوں کے انکم ٹیکس پر انحصار میں کچھ کمی ہوئی۔

جنوری 2007 میں کل 10033480 افراد برسر روزگار ہیں اور اس وقت شرح بے روزگاری 4٫6 فیصدی ہے۔ گزشتہ دہائی سے افراط زر کی شرح 2 سے 3 فیصد تک رہی ہے۔ خدمات کا شعبہ بشمول سیاحت، تعلیم اور معاشی خدمات کل جی ڈی پی کا 69 فیصد حصہ ہیں۔ زراعت اور قدرتی ذرائع کل 3 سے 5 فیصد ہیں۔ آسٹریلیا کی برآمدی منڈیوں میں جاپان، چین، امریکا، جنوبی کوریا اور نیوزی لینڈ شامل ہیں۔

آبادی

دو کروڑ دس لاکھ آسٹریلوی 19ویں اور 20ویں صدی کے آبادکاروں کی اولاد ہیں جن کی اکثریت برطانیہ اور آئرلینڈ سے آئی تھی۔ پہلی جنگ عظیم کے خاتمے سے اب تک آسٹریلیا کی آبادی چار گنا بڑھ چکی ہے۔ اس کی ایک وجہ پرکشش پروگرام برائے تارکین وطن بھی شامل ہے۔ دوسری جنگ عظیم سے لے کر 2000 ء تک تقریباً 69 لاکھ افراد بطور نئے تارکین وطن کے طور پر آئے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ آسٹریلوی آبادی کے ہر سات میں سے دو افراد آسٹریلیا سے باہر پیدا ہوئے ہیں۔ زیادہ تر تارکین وطن ہنرمند ہیں لیکن کچھ تعداد پناہ گزین مہاجرین کی بھی ہے۔

آسٹریلیا کے قدیمی باشندوں کی تعداد اب 410003 ہے جو 1976ء میں 115953 کی تعداد سے بہت زیادہ ہے۔ ان لوگوں کی جیل جانے کی اور بے روزگاری کی شرح بہت زیادہ اور تعلیم کی کمی اور اوسط عمر دیگر آسٹریلیوں سے سترہ سال کم ہونا بھی شامل ہے۔ دیگر ترقی یافتہ ممالک کی طرح آسٹریلیا میں بھی آبادی میں بوڑھے لوگوں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ اس سے مراد کم لوگوں کا کام پر جانا اور زیادہ لوگوں کا ریٹائر ہونا ہے۔ اس کے علاوہ بڑی تعداد میں آسٹریلوی ملک سے باہر ہیں۔

سرکاری زبان انگریزی ہے اور اس کا لہجہ مخصوص آسٹریلوی ہوتا ہے۔ 2001ء کے سروے میں یہ سامنے آیا کہ 80 فیصد گھروں میں انگریزی بولی جاتی ہے۔ اس کے بعد چینی، اٹالین اور یونانی بولی جاتی ہیں۔ نئے تارکین وطن کی اکثریت عموماً دو زبانیں بولتی ہے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ آسٹریلیا میں 200 سے 300 تک قدیم زبانیں تھیں جب یورپی یہاں آئے۔ اب ان میں سے کل 70 باقی بچی ہیں اور ان میں سے 20 اب مٹ جانے کے خطرے سے دوچار ہیں۔

سرکاری طور پر آسٹریلیا کا کوئی مذہب نہیں ہے۔ 2006ء کے سروے سے ظاہر ہوتا ہے کہ کل آبادی کا 60 فیصد حصہ مسیحی ہے۔ 19 فیصد لادین ہیں۔ 12 فیصد کی طرف سے دیا جانا والا جواب غیر اخلاقی ہونے کی وجہ سے نہیں لکھا جا رہا۔

6 سے 15 سال تک کے بچوں کے لیے سکول جانا لازمی ہے، کچھ حصوں میں یہ عمر 16 اور کچھ میں 17 سال بھی ہے۔ اس وقت آسٹریلیا کی شرح خواندگی 99 فیصد ہے۔ حکومتی سرمائے سے تعمیر ہونے والی یونیورسٹیوں کی تعداد 38 ہے اور اس کے علاوہ بہت ساری پرائیوٹ یونیورسٹیاں بھی موجود ہیں۔ اکثر یونیورسٹیاں حکومتی امداد سے چلتی ہیں۔ یہاں حکومت کی طرف سے ووکیشنل ٹریننگ کے سکول بھی قائم ہیں جو TAFE ادارے کہلاتے ہیں۔ یہاں نئے ہنرمند تیار کیے جاتے ہیں۔ اندازہً آسٹریلیا کی 25 سے 64 سال تک کی 58 فیصد آبادی کے پاس ووکیشنل یا اس طرح کی دوسری تعلیم موجود ہے۔

ثقافت

1788ء سے لے کر 20ویں صدی تک اینگلو سیلٹک انداز کی ثقافت آسڑیلیا میں موجود رہی۔ گزشتہ پچاس سالوں میں آسٹریلوی ثقافت پر امریکی ثقافت اور انگریزی زبان نہ بولنے والے ممالک کے تارکین وطن لوگوں اور آسٹریلیا کے ایشیائی ہمسائیوں کا گہرا اثر پڑا ہے۔ آسٹریلیا کے اپنے ادب، سینما، اوپرا، موسیقی، پینٹنگ، تھیٹر، ڈانس وغیرہ نے بین الاقوامی طور پر اپنی شناخت بنائی ہے۔ آسٹریلیا میں بصری فنون کی پرانی تاریخ موجود ہے جو غاروں میں اور درختوں کی چھال پر قدیم لوگوں کی طرف سے بنائی گئی تصاویر پر مشتمل ہے۔

آسٹریلوی ادب پر بھی مناظر کا گہرا اثر ہوا ہے۔ بینجو پیٹرسن اور ہنری لاسن جیسے لکھاریوں نے آسٹریلوی جھاڑیوں سے اثر قبول کیا ہے۔ 1973ء میں پیٹرک وائٹ کو ادب کا نوبل انعام دیا گیا۔ آسٹریلوی انگریزی کی اصل برطانوی انگریزی سے ہوئی ہے۔

آسٹریلیا میں دو نشری ادارے، تین کاروباری ٹیلی ویژن نیٹ ورک، کئی پے ٹی وی اور بہت سارے عوامی، غیر منافعتی ٹیلی ویژن اور ریڈیو سٹیشن موجود ہیں۔ آسٹریلوی فلم انڈسٹری نے بہت زیادہ کامیابی حاصل کی ہے۔ ہر بڑے شہر کا اپنا اخبار ہے اور دو قومی اخبارات بھی ہیں۔ پریس فریڈم کے حوالے سے آسٹریلیا کو 2006ء میں 35واں نمبر دیا گیا تھا جو نیوزی لینڈ سے پیچھے اور امریکا سے آگے تھا۔

کھیل کا آسٹریلوی ثقافت پر بہت گہرا اثر ہے۔ اس کے علاوہ موسم بھی ایسا ہے جو بیرونی کھیلوں وغیرہ کے لیے بہت مناسب ہے۔ بین الاقوامی سطح پر آسٹریلیا میں بہت سے کھیلوں کے مقابلے منعقد کیے جاتے ہیں۔ آسٹریلیا کی کرکٹ، ہاکی، نیٹ بال، رگبی لیگ، رگبی یونین، سائیکلنگ، کشتی رانی اور تیراکی میں بہت عمدہ ٹیمیں ہیں۔ قومی سطح پر آسٹریلوی فٹ بال، گھڑ دوڑ، فٹ بال اور موٹر ریسنگ اہم ہیں۔ موجودہ دور میں ہونے والے ہر سمر اولمپک اور ہر دولت مشترکہ کی کھیلوں میں آسٹریلیا نے شرکت کی ہے۔ 1956ء کے اولمپک میلبورن، آسٹریلیا میں منعقد ہوئے تھے۔ 2000ء سے لے کر اب تک آسٹریلیا پہلے پانچ سب سے زیادہ تمغا لینے والے ممالک میں شامل ہے۔ اس کے علاوہ آسٹریلین اوپن جو چار گرینڈ سلیم ٹینس مقابلوں میں سے ایک ہے، بھی ہوتا ہے۔ کھیلوں کے لیے اور مشہور کھلاڑیوں کے لیے حکومتی اور اداراتی مدد عام سی بات ہے۔ ٹی وی پر فٹ بال اور اولمپک کو دیکھنا بھی کافی مقبول ہے۔

فہرست متعلقہ مضامین آسٹریلیا

حوالہ جات

  1.   "صفحہ آسٹریلیا في خريطة الشارع المفتوحة"۔ OpenStreetMap۔ اخذ شدہ بتاریخ 24 دسمبر 2019۔
  2. http://www.ga.gov.au/scientific-topics/national-location-information/dimensions/australias-size-compared — اخذ شدہ بتاریخ: 27 جولا‎ئی 2016 — ناشر: Geoscience Australia
  3. http://www.ga.gov.au/scientific-topics/national-location-information/dimensions/area-of-australia-states-and-territories — اخذ شدہ بتاریخ: 27 جولا‎ئی 2016 — ناشر: Geoscience Australia
  4. http://www.australia.gov.au/about-government/states-territories-and-local-government/capital-cities — اخذ شدہ بتاریخ: 27 جولا‎ئی 2016
  5. https://dfat.gov.au/about-australia/Pages/about-australia.aspx
  6. http://www.abs.gov.au/AUSSTATS/abs@.nsf/2f762f95845417aeca25706c00834efa/d67b7c95e0e8a733ca2570ec001117a2!OpenDocument
  7. http://www.censusdata.abs.gov.au/census_services/getproduct/census/2016/quickstat/036 — ناشر: Australian Bureau of Statistics
  8. http://www.aph.gov.au/About_Parliament/House_of_Representatives/Powers_practice_and_procedure/00_-_Infosheets/Infosheet_20_-_The_Australian_system_of_government
  9. http://australia.gov.au/about-australia/our-government
  10. http://australia.gov.au/about-australia/our-government/australias-federation
  11. https://www.dfat.gov.au/protocol/Protocol_Guidelines/15.html
  12. http://www.australia.gov.au/about-australia/australian-story/governors-general
  13. http://www.royal.gov.uk/MonarchAndCommonwealth/Australia/AusGovGen.aspx
  14. Infosheet 20 - The Australian system of government — اخذ شدہ بتاریخ: 27 جولا‎ئی 2016 — ناشر: پارلیمان آسٹریلیا
  15. http://www.australia.gov.au/about-government/how-government-works/federation — اخذ شدہ بتاریخ: 3 جنوری 2018
  16. مکمل کام یہاں دستیاب ہے: https://www.legislation.gov.au/Latest/C1961A00012 — عنوان : Marriage Act 1961
  17. https://www.ag.gov.au/FamiliesAndMarriage/Marriage/Pages/Getting-married.aspx — اخذ شدہ بتاریخ: 26 جولا‎ئی 2016 — ناشر: Attorney-General's Department
  18. http://data.worldbank.org/indicator/SL.UEM.TOTL.ZS
  19. http://www.rba.gov.au/Museum/Timeline/1946_1970.html — اخذ شدہ بتاریخ: 13 اکتوبر 2015 — ناشر: Reserve Bank of Australia
  20. http://www.rba.gov.au/Museum/Displays/1960_1988_rba_and_reform_of_the_currency/australias_first_decimal_currency_notes.html — اخذ شدہ بتاریخ: 13 اکتوبر 2015 — ناشر: Reserve Bank of Australia
  21. https://dfat.gov.au/about-australia/Pages/about-australia.aspx — اخذ شدہ بتاریخ: 13 اکتوبر 2015 — ناشر: Department of Foreign Affairs and Trade
  22. مکمل کام یہاں دستیاب ہے: https://www.pcc.gov.au/uniform/Australian-Road-Rules-19March2018.pdf — عنوان : Australian Road Rules — باب: 129
  23. عنوان : Codes for the representation of names of countries and their subdivisions—Part 1: Country codes — ناشر: بین الاقوامی تنظیم برائے معیاریت
  24. http://australia.gov.au/about-australia/our-country/telephone-country-and-area-codes
  25. WSWS، 21 اگست 2007ء، "Australian government wages two-year vilification campaign to justify takeover of Mutitjulu"
  26. ٹورانٹو سٹار، 22 اگست 2007ء، کیرول گور کا کالم، "Backpedalling on native rights"

بیرونی روابط

{{Navboxes |title =  جغرافیائی مقام |list = جغرافیائی متناسق نظام 35°18′S 149°8′E (کینبرا)

This article is issued from Wikipedia. The text is licensed under Creative Commons - Attribution - Sharealike. Additional terms may apply for the media files.