البانیا

البانیا جس کا پورا نام 'جمہوریہ البانیا' (البانوی میں 'Republika e Shqipërisë') ہے۔ جنوب مشرقی یورپ کا ایک ملک ہے جس کے شمال مغرب میں مونٹی نیگرو، مشرق میں مقدونیہ، شمال مشرق میں کوسووہ اور جنوب میں یونان واقع ہیں۔ اس کے مغرب میں بحیرہ ایڈریاٹک اور جنوب مغرب میں بحر الایونی (البانوی میں Deti Jon) واقع ہیں۔ اس کے ستر فی صد سے زیادہ لوگ مسلمان ہیں مگر یہ یورپ کا واحد ملک ہے جہاں اشتراکیت ( کمیونزم) قائم ہے، نام کی جمہوریت ہے اور یورپی اقوام کو یہاں سے اشتراکیت کو ختم کرنے میں بھی کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ البانیا یورپی اتحاد کا رکن بننے کا امیدوار ہے مگر ترکی کی طرح ابھی تک اسے کوئی کامیابی نہیں ہوئی۔
البانیا یورپ کا واحد ملک ہے جس میں دوسری جنگِ عظیم کے دوران نازیوں (جرمنی کے ساتھی اطالیہ) کے قبضے کے باوجود یہودیوں کو قتل نہیں کیا گیا۔ البانوی مسلمانوں نے یہودیوں کا نہ صرف تحفظ کیا بلکہ بیرونی یہودیوں کو بھی پناہ دی۔ البانیہ واحد یورپی ملک ہے جس میں دوسری جنگِ عظیم کے بعد یہودیوں کی تعداد کم ہونے کی بجائے بڑھ گئی۔ البانیہ کی نوے فی صد آبادی البانوی نسل سے تعلق رکھتی ہے۔ آخری مردم شماری (1930ء) کے مطابق آبادی کا ستر فی صد سے زیادہ مسلمان ہیں جس کے بعد سے مردم شماری نہیں ہونے دی گئی۔

  

البانیا
البانیا
پرچم
البانیا
نشان

، ،  

ترانہ:
زمین و آبادی
متناسقات 41°N 20°E / 41; 20   [1]
پست مقام بحیرہ ایڈریاٹک (0 میٹر ) 
رقبہ 28748 مربع کلومیٹر [2] 
دارالحکومت تیرانا  
سرکاری زبان البانوی زبان [3] 
آبادی 3020209 (جولا‎ئی 2014)[4] 
حکمران
طرز حکمرانی پارلیمانی نظام  
قیام اور اقتدار
تاریخ
یوم تاسیس 28 نومبر 1912 
عمر کی حدبندیاں
شادی کی کم از کم عمر 18 سال  
شرح بے روزگاری 16 فیصد (2014)[5] 
دیگر اعداد و شمار
منطقۂ وقت مرکزی یورپی وقت
متناسق عالمی وقت+01:00 (معیاری وقت )
00 (روشنیروز بچتی وقت ) 
ٹریفک سمت دائیں [6] 
ڈومین نیم al.  
سرکاری ویب سائٹ {{#اگرخطا:باضابطہ ویب سائٹ  |}}
آیزو 3166-1 الفا-2 AL 
بین الاقوامی فون کوڈ +355 

تاریخ

بترینت جو یونیسکو کی طرف سے عالمی ورثہ قرار دیا گیا ہے

البانیا میں زمانہ قبل از تاریخ میں بھی آبادیاں موجود تھیں۔ قدیم آبادی زیادہ تر ایلیریان قبائل پر مشتمل تھی۔ بعد میں یونانی تہذیب کے اثرورسوخ کے زیادہ ہونے کے وقت یونانی قبائل بھی شامل ہو گئے۔ چوتھی صدی قبل مسیح میں البانیا کے بادشاہ نے مقدونیہ سے ایک بڑی جنگ کی مگر مقدونیہ پر قبضہ کرنے میں ناکام رہا۔ اس کے بعد ایلیریان قبائل کے کئی بادشاہ گزرے جن میں آخری کو سکندر نے شکست دے دی۔ 229 قبل مسیح میں البانیا کی ملکہ تیوتا نے رومی افواج سے جنگ شروع کی جو کئی جنگوں کا نقطۂ آغاز ثابت ہوئی جس کے نتیجے میں 168 قبل مسیح میں رومی افواج نے انہیں مکمل شکست دے کر ایلیریان قبائل کے اقتدار کا خاتمہ کر دیا۔ 395ء تک یہ روم کے زیرِ نگیں تھا۔ 395ء میں روم دو ٹکروں میں مغرب و مشرق کی صورت بٹا تو البانیا بازنطینی سلطنت کا حصہ بن گیا اور 461ء تک ایسے ہی رہا۔ اس کے بعد یکے بعد دیگرے مختلف اقوام مثلاً ہن، سلاو وغیرہ اس کو تاراج کرتے رہے اور انہیں 1460ء میں اس وقت امن نصیب ہوا جب وہ سلطنت عثمانیہ کا حصہ بنا۔

سلطنت عثمانیہ

البانیا کا علاقہ دراج 1753ء میں

سلطنت عثمانیہ جب اناطولیہ سے بلقان تک پھیلی تو البانیا بھی اس کا حصہ تھا۔ سلطنت عثمانیہ کی توسیع میں سب سے زیادہ رد عمل البانیا کے لوگوں کی طرف سے تھا جنہوں نے سب سے بڑھ کر ان کا مقابلہ کیا اور بازنطینی سلطنت کے تمام علاقوں کے آخر میں سلطنت عثمانیہ کا حصہ بنا مگر دلچسپ بات یہ ہے کہ یہی وہ خطہ ہے جس نے اسلام کا سب سے زیادہ اثر قبول کیا اور آج یہ بوسنیا کی طرح یورپ کا مسلم اکثریتی ملک ہے۔ یورپ کے متعصب تاریخ دانوں کو سب سے بڑا مسئلہ یہی درپیش آتا ہے کہ البانیا کی نوے فی صد آبادی کے اسلام قبول کرنے کی وجوہات کی تشریح کس طرح کی جائے۔ ان کے خیال میں البانیا کی آبادی سلطنت عثمانیہ میں اقتدار میں حصہ اور فوائد کے لیے اسلام لے آئی۔ مگر یہی عقیدہ ان کے تعصب کی نشان دہی کرتا ہے کیونکہ یہی فوائد باقی اقوام کو بھی حاصل ہو سکتے تھے جو اسلام نہ لائے۔ دوسری طرف کسی بھی آبادی کی بڑی قلیل تعداد کو اقتدار میں فوائد حاصل ہوتے ہیں مگر البانیا کی کثیر تعداد اسلام لے آئی جن میں سے بیشتر کا تعلق دیہات سے تھا جہاں ان کو کسی قسم کا مالی فائدہ پیش نظر نہ تھا۔ البانیہ کے لوگوں کو ترکوں نے بھی بڑی خوشدلی سے اپنے بھائیوں کے طور پر قبول کیا اور ترکی کے اہم ترین عہدوں پر البانوی فائز رہے یہاں تک کہ سلطنت عثمانیہ کی طرف سے مصر کے پہلے پاشا محمد علی پاشا بھی نسلاً البانوی تھے۔

جدید البانیا

1912ء میں استعماری سازشوں کے نتیجے میں سلطنت عثمانیہ کے ٹکرے ہو گئے تو پانچ سو سال کے بعد 28 نومبر 1912ء کو البانیا ایک آزاد ملک بن گیا۔ استعمار نے 1912ء میں البانیا کی حدود کو اس طرح سے قائم کیا کہ بہت بڑی تعداد میں البانوی لوگ البانیا کے پڑوسی ممالک بشمول مونٹینیگرو اور سربیا و بوسنیا کا حصہ بنے۔ 1914ء میں بعض طاقتور مغربی اقوام کی مدد سے البانیا کے یونانی نسل کے مسیحی لوگوں نے البانیا کے ایک چھوٹے علاقے میں ایک خود مختار حکومت بھی قائم کی مگر یہ سازش پہلی جنگ عظیم کی تباہ کاریوں کی وجہ سے پنپ نہ سکی اور 1920ء میں البانیا نے خود کو ایک جمہوریہ قرار دے دیا۔ یہ ملک زیادہ دیر تک مغربی ممالک سے برداشت نہ ہوا اور اطالیہ نے اپنا اثر و رسوخ البانیا میں البانیا کے بادشاہ زوگ کی مدد سے قائم کرنا شروع کیا اور یہ سلسلہ 1939ء میں اطالیہ کے البانیا پر قبضہ کی صورت میں منتج ہوا۔ اطالیہ کے فاشسٹ رہنماء مسولینی نے البانیا میں نہایت غیر انسانی سلوک کا مظاہر کیا جس میں ایسے قوانین بھی تھے جن کے مطابق البانیا کی زبان کو مدرسوں اور دانشگاہوں سے ختم کر دیا گیا اور تمام آبادی کو اطالیایا (اٹالیانائیز) گیا۔ 1940ء میں مسولینی نے البانیا کی سرزمین سے یونان پر حملہ کیا جو ناکام ہوا اور البانیا کے ایک حصہ پر یونان نے قبضہ کر لیا اور اسے اپنا حصہ قرار دے دیا۔ روس بھی پیچھے نہ رہا اور اپنا اثر قائم کرنے کی کوشش کی۔ مسولینی کے اقتدار کے کمزور پڑنے پر جرمنی نے 1943ء البانیا پر قبضہ کر لیا اور پیش کش کی کہ وہ البانیا کو ایک آزاد مگر غیر جانبدار ملک قرار دینے پر تیار ہے۔ 28 نومبر 1944ء تک البانوی گوریلا افواج نے البانیا کے بیشتر حصوں کو جرمنی کے آزاد کروا لیا اور یہ اس واحد مشرقی یورپی قوم کا قصہ ہے جس نے روس کی افواج کی مدد کے بغیر آزادی حاصل کی تھی۔ اس کے علاوہ یہ یورپ کا واحد ملک تھا جس میں یہودیوں کی آبادی دوسری جنگِ عظیم کے بعد کم ہونے کی بجائے بڑھ گئی تھی۔

اشتراکیت کا غلبہ

روس کے بڑھتے ہوئے اثر کی وجہ سے البانیا ایک اشتراکی ملک بن گیا اور اس کا بڑا جھکاؤ روس کی طرف رہا مگر 1960ء سے البانیا نے چین کے ساتھ بھی تعلقات بڑھانا شروع کیے۔ 1990ء کی دہائی تک مشرقی یورپ اشتراکی رہا۔ جب تقریباً تمام مشرقی یورپی اقوام اشتراکیت کے غلبہ سے آزاد ہوئے تب بھی مغربی ممالک کو البانیا کو اشتراکیت کے اثر سے آزاد کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں تھی کیونکہ وہاں کے بیشتر لوگ مسلمان تھے اور اشتراکیت سے آزاد ہونے کے بعد مذہب کی ترویج کا خطرہ موجود تھا۔ مگر البانیا کے لوگوں نے اشتراکیوں کو 1992ء کے انتخابات میں شکست دے دی لیکن اس کے نتیجے میں جو خون خرابا ہوا اس میں ہزاروں البانوی لوگ ہلاک ہو گئے۔ اس خون خرابا کا بہانہ بنا کر یورپی اتحاد نے اپنی افواج البانیا میں داخل کی تو اطالیہ کو ہی زیادہ موقع دیا کیونکہ البانیا اطالیہ کی سابق نو آبادی تھی اور وہ اب بھی اس پر اپنا حق جتاتا تھا۔ اب بھی یورپی اتحاد کے نام پر اطالوی افواج البانیا میں موجود ہیں اور اشتراکی حکومت قائم ہے تاکہ مذہب کا غلبہ نہ ہو سکے۔ اس کے علاوہ 2009ء سے البانیا نیٹو کا رکن ملک بھی بن چکا ہے۔

نظام حکومت

1998ء کے آئین کے تحت البانیا ایک پالیمینٹری جمهوری ملک ہے۔ اس میں الیکشن هر چار سال کے بعد هوتے هیں .ملک کا سربراه صدر هوتا ہے جو که پانچ سال کی مدت تک اسمبلی کی جانب سے چنا جاتا ہے۔

انتظامی تقسیم

تفصیل کے لیے دیکھیں : البانیا کی انتظامی تقسیم

البانیا کو 12 مختلف پریفیکچور ( prefektura) میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ ہر پریفیکچور میں دو سے چار تک اضلاع (البانوی میں rrethe) ہیں۔ کل 36 اضلاع ہیں۔ ایک ضلع میں کئی شہر اور بے شمار قصبات ہو سکتے ہیں۔ اضلاع کی کل تعداد 36 ہے۔

البانیا کے صوبے یا پریفیکچور
نقشے میں رنگ صوبہ صدر مقام آبادی
2006ء[7]
رقبہ
(مربع کلومیٹر)[8]
اوسط آبادی
فی مربع کلومیٹر
اضلاع
بیراتبیرات172,4781,802159بیرات, کوچووہ, سکراپر
دیبرپشکوپی144,2032,50758بولچیزہ, دیبر, مات
دراجدراج303,742827367دراج, کرویہ
الباسانالباسان343,9593,278105الباسان, گرامش, لیبراژد, پچین
فیرفیر373,9131,887198فیر, لوشنیہ, مالاکاستر
ارجیرارجیر103,4062,88336ارجیر, پرمت, تپلنہ
کورچہکورچہ257,3873,71169دوول, کولونیہ, کورچہ, پوگرادتس
کوکسکوکس78,0312,37333ہاس, کوکس, تروپویہ
لژہلژہ157,9401,581100کوربین, لژہ, میردیتہ
شکودرشکودر246,7123,56269مالسی ایمادہ, پوکہ, شکودر
تیراناتیرانا778,9031,586491کاوایہ, تیرانا
ولورہولورہ181,5652,70667دلوینہ, ساراندہ, ولورہ
 

البانیا کی بشری شماریات

مسجد ادھم بے، تیرانہ، البانیا

مذہب

البانیا کی بیشتر آبادی مسلم ہے۔ اندازہً 90 فی صد سے زیادہ آبادی مسلمان ہے مگر 1930ء کے بعد مردم شماری نہیں ہونے دی گئی کیونکہ اس سے مسلمانوں کی تعداد زیادہ ہونے کا پتہ چلے گا۔ یہ وہی صورت حال ہے جو لبنان میں ہے جہاں 1924ء کے بعد مردم شماری نہیں ہوئی۔ جب آبادی کی شماریات کی بات ہوتی ہے، البانیا کے بارے میں یہی کہا جاتا ہے کہ اکثریت کسی مذہب کو عملی طور پر نہیں اپناتی۔ مگر یورپ کے دیگر ممالک میں جہاں ایک بڑی تعداد عملی طور پر کسی مذہب پر عمل پیرا نہیں،[9] انہیں مسیحی ہی گردانا جاتا ہے کیونکہ وہ پیدائشی مسیحی ہیں۔ باقاعدہ مردم شماری نہ ہونے دینے کا مقصد یہی ہے کہ اس بات سے بچا جائے کہ بیشتر لوگ خود کو مسلمان کہلوائیں۔ یورپ کے بیشتر ممالک کے برعکس البانیا سے اشتراکیت کو ختم کر کے درست جمہوریت نافذ کرنے میں کسی کو کوئی دلچسپی نہیں ہے۔

اگرچہ مردم شماری نہیں ہوئی مگر کچھ شماریاتی جائزے موجود ہیں جن کے مطابق البانیا کی 79 فی صد آبادی مسلمان ہے۔[10]

فہرست متعلقہ مضامین البانیا

حوالہ جات

This article is issued from Wikipedia. The text is licensed under Creative Commons - Attribution - Sharealike. Additional terms may apply for the media files.