عالمی بنک

عالمی بنک یا عالمی بنک گروپ کل پانچ عالمی تنظیموں پر مشتمل ہے۔ جو رکن ممالک کو معاشی ترقی اور غربت کے خاتمے کے لیے قرضہ فراہم کرتے ہیں یا اس کے لیے مشورے دیتے ہیں۔ اس کا قیام بریٹن وڈز کے معاہدے کے تحت 27 دسمبر 1945 عمل میں آیا تھا۔ اس نے 25 جون 1946 کو کام شروع کیا۔ اس کی پانچ ذیلی تنظیمیں یہ ہیں:

عالمی بنک
قیام جولائی 1944
قسم بین الاقوامی تنظیم
قانونی حیثیت معاہدہ
مقصد قرضہ
مقام
ارکان

188 ممالک [1](IBRD)

170 countries (IDA)
صدر
جم یونگ کم
Main organ
Board of Directors[2]
Parent organization
عالمی بنک گروپ
ویب سائٹ عالمی بنک

ان میں سے پہلا ادارہ 1945 میں بنا تھا مگر باقی بعد میں آہستہ آہستہ بنے ہیں۔ عالمی بنک کے کام کا زیادہ تعلق ترقی پزیر ممالک کی ترقی خصوصاً انسانی زندگی کو بہتر بنانے، تعلیم، زراعت کو ترقی دینے اور ذرائع رسل و رسائل کو ترقی دینے کے ساتھ ہے اگرچہ کچھ لوگوں کے نزدیک عالمی بنک اس سلسلے میں بڑی طاقتوں کے مفاد کے مطابق کام کرتا ہے اور اس کے قرضے کی فراہمی کچھ ایسی شرائط پر مبنی ہوتی ہے جو ترقی پزیر ممالک کے مفاد میں نہیں ہوتیں۔ آخری دونوں ادارے حکومتوں کے علاوہ شخصی اداروں کو قرضے اور ضمانتیں بھی مہیا کرتے ہیں۔

انتظامی ڈھانچہ

عالمی بنک گروپ کا سب سے بڑا ادارہ بین الاقوامی بنک برائے تعمیر و ترقی ہے،جسے لوگ عموماً عالمی بنک کہتے۔ عالمی بنک کا صدر دفتر امریکہ کے دار الحکومت واشنگٹن (ضلع کولمبیا) میں ہے۔ اس کے مالک اس کے ارکان ممالک ہیں۔ عالمی بنک کا منافع اس کی اور اس کے ارکان ممالک کی ترقی اور غربت کے خاتمے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ ارکان ممالک کے شروع میں برابر ووٹ ہوتے ہیں مگر مختلف ممالک کے زائد ووٹ اس بنیاد پر ہوتے ہیں کہ اس کی عالمی بنک میں سرمایہ کاری کا حصہ کتنا مقرر ہوا ہے۔ چاہے وہ یہ حصہ دے یا نہ دے اور وقت پر دے یا نہ دے مثلاً امریکا اکثر عالمی بنک میں اپنا حصہ کم ادا کرتا ہے اور وقت پر مہیا نہیں کرتا اور یہ شکائت اقوام متحدہ کو بھی ہے۔ عالمی بنک کے فیصلے ووٹوں کی طاقت کے مطابق ہوتے ہیں۔ اس بنیاد پر عالمی بنک میں فیصلے ترقی یافتہ ممالک کی مرضی سے ہوتے ہیں۔ نومبر 2006 میں امریکہ کے ووٹ %16.4، جاپان کے %7.9، جرمنی کے %4.5، فرانس کے %4.3 اور برطانیہ کے %4.3 ووٹ تھے۔ اس حساب سے صرف اوپر دے گئے پانچ ممالک کے ووٹ %37.4 بنتے ہیں یعنی وہ جو چاہے کر سکتے ہیں۔ عالمی بنک میں بڑے فیصلوں کے لیے %85 ووٹ درکار ہوتے ہیں اور ان فیصلوں کو امریکا اکیلا کسی ملک کی مدد کے بغیرمسدود (بلاک) کر سکتا ہے۔ عالمی بنک کو ایک بورڈ آف گورنرز کے ذریعے چلایا جاتا ہے جس کا اجلاس سالانہ بنیادوں پر ہوتا ہے۔ ہر ملک کی طرف سے اس ملک کا وزیرِ مالیات گورنر ہوتا ہے۔ گورنروں نے اپنا اختیار 24 ایگزیکٹو ڈائریکٹرز کو سونپا ہوا ہے جن کا باقاعدہ انتخاب ہوتا ہے (عالمی بنک کے ووٹوں کی تعداد ذہن میں رکھئیے)

ارکان

کوئی بھی ملک ان کا رکن بننے کی درخواست دے سکتا ہے۔ ضروری نہیں کہ آپ عالمی بنک گروپ کی ساری تنظیموں کی رکنیت حاصل کریں۔ ان کے لیے علاحدہ درخواست دی جاتی ہے۔ بین الاقوامی بنک برائے تعمیر و ترقی اور بین الاقوامی انجمن برائے ترقی کو مجموعی طور پر عالمی بنک کہا جاتا ہے اور بیشتر ممالک ان دو تنظیموں کے رکن ہیں۔ بین الاقوامی بنک برائے تعمیر و ترقی کے 185 ارکان ہیں اور باقیوں کے ارکان کی تعداد 140 اور 176 کے درمیان ہے۔ پاکستان ان تمام تنظیموں کا رکن ہے۔

صدارت

اگرچہ عالمی بنک کے صدر کا باقاعدہ انتخاب ہوتا ہے مگر آج تک تمام صدر امریکی تھے۔ یہ ایک غیر تحریر کردہ معاہدہ ہے کہ عالمی بنک کا صدر امریکی اور بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کا صدر ھمیشہ یورپی ہوگا۔ آج کل پال وولفووٹز اس کے صدر ہیں۔ ان کا تعلق امریکہ سے ہے۔ ان کا انتخاب جون 2005 میں ہوا تھا۔ آج تک کے صدور کی فہرست کچھ یوں ہے:

  • اوجین مئی۔ جون 1946۔ دسمبر 1946
  • جان میکلائے۔ 1947 مارچ۔ جون 1949
  • اوجین بلیک۔ 1949۔ 1963
  • جارج ووڈز۔ جنوری 1963۔ مارچ 1968
  • رابرٹ میکنامارا۔ اپریل 1968۔ جون 1981
  • ایلڈن کلوسن۔ جولائی 1981۔ جون 1986
  • باربر کونابیل۔ جولائی 1986۔ اگست 1991
  • لوئیس پریسٹن۔ ستمبر 1991۔ 1995مئی
  • جیمز وولفنسن۔ مئی 1995۔ جون 2005
  • پال وولفووٹز۔ جون 2005۔ جون 2007
  • رابرٹ بی زوئلک۔ جولائی 2007 تاحال

عالمی بنک کی کارکردگی کا تنقیدی جائزہ

عالمی بنک ایک بڑا اور بین الاقوامی ادارہ ہے جس کا مقصد ترقی پزیر ممالک کی ترقی ہے۔ مگر عالمی بنک کے ووٹوں کی غیر منصفانہ تقسیم کی وجہ سے اسے تمام ایسے اقدامات کرنے پڑتے ہیں جو سرمایہ دار ممالک کے مفاد میں ہو چاہے وہ عالمی بنک کے اپنے منشور سے ھٹ کے ہو۔ بعض ناقدین کے خیال میں عالمی بنک کی اساسی تبدیلی کی پالیسی ( Structural Adjustment Policy ) کے ساتھ ملحقہ شرائط ترقی پزیر ممالک کو ترقی نہیں بلکہ زیادہ غربت عطا کرتے ہیں۔ اس کا ثبوت افریقا کے بہت سے ممالک کی موجودہ حالت ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ موجودہ ترقی یافتہ ممالک چاہتے ہیں کہ ان کی اشیاء ترقی پزیر ممالک کی منڈیوں میں بغیر کسی مشکل اور رکاوٹ کے فروخت ہوں اور ترقی پزیر ممالک صرف ان منصوبوں میں سرمایہ کاری کریں جن سے ترقی یافتہ ممالک کے مفادات پر ضرب نہ پڑتی ہو۔ ہوتا یہ ہے کہ ترقی پزیر ممالک کے کرپٹ اور بدمعاش عہدادارانِ حکومت قرضے لے کر لٹا دیتے ہیں اور وہ ٹھیک جگہ پر خرچ نہیں ہوتے۔ ان قرضوں کے ساتھ جومبنی بر نا انصافی شرائط وہ قرض لینے کے لیے قبول کر لیتے ہیں جن کا خمیازہ اس ملک کے عوام کو بھگتنا پڑتا ہے۔ ناقدین کے مطابق اس ادارہ کو امریکا خصوصاً اور یورپی ممالک عموماً اپنے مفادات کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ ان وجوہات کی بنا پر کئی ممالک میں عالمی بنک کے خلاف مظاہرے ہوتے ہیں اور اس کے چنگل سے آزادی کے لیے اپنی حکومتوں سے درخواست کی جاتی ہے مگر عالمی بنک ایک بہت بڑا قرض حاصل کرنے کا ذریعہ ہے اس لیے غریب ممالک کی حکومتوں کو اس سے رجوع کرنا پڑتا ہے اور قرض کے ساتھ ملحقہ شرمناک شرائط بھی ماننا پڑتی ہیں۔ اس میں ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ عالمی بنک غیر ملکی زرِمبادلہ میں قرض دیتا ہے جو اسی زرِمبادلہ میں واپس کرنا پڑتا ہے۔ دوسری طرف بین الاقوامی مالیاتی فنڈ ترقی پزیر ممالک پر اثر ڈال کر ان کے روپے کی قیمت میں کمی کرواتی ہے۔ اس سے قرضوں کی مقدار قرض لیے بغیر ہی بڑھ جاتی ہے۔ اس کے علاوہ جب عالمی بنک کوئی قرض دیتا ہے تو اس کی پہلی قسط دینے سے پہلے وہ پچھلے قرضوں کا سود اور قسط کاٹتا ہے۔ کچھ ممالک کو تو نئے قرض کا صرف دس فی صد سے بھی کم اصل میں ملتا ہے۔ پاکستان بھی ان ممالک میں شامل ہے۔

بیرونی روابط

مزید دیکھیے

حوالے

  1. http://web.worldbank.org/WBSITE/EXTERNAL/EXTABOUTUS/ORGANIZATION/BODEXT/0,,contentMDK:22427666~pagePK:64020054~piPK:64020408~theSitePK:278036,00.html
  2. "Board of Directors"۔ World Bank۔ مورخہ 25 دسمبر 2018 کو اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 14 اگست 2011۔
This article is issued from Wikipedia. The text is licensed under Creative Commons - Attribution - Sharealike. Additional terms may apply for the media files.