ہند آریائی زبانیں

ہند آریائی زبانیں ہند-یورپی خاندانِ السنہ کی ہند-ایرانی شاخ کی ایک ذیلی شاخ ہے۔ یہ اِنڈک کے نام سے بھی معروف ہے۔ SIL Institute کی 2005ء کی تحقیق کے مطابق ہند آریائی زبانوں میں 209 زبانیں شامل ہیں۔ ہندوستانی (ہندی اور اردو) سب سے بڑی زبان ہے جس کے 64 کروڑ بولنے والے ہیں۔ اس خاندان میں دوسرے نمبر پر آنے والی زبان بنگالی ہے جس کے بولنے والے 26 کروڑ ہیں۔ پنجابی تیسرے نمبر پر، مراٹھی چوتھے نمبر پر آتی ہے۔

ہند-آریائی
انڈک
جغرافیائی
تقسیم:
جنوبی ایشیاء
لسانی درجہ بندی: ہند۔یورپی
سابقہ اصل-زبان: ویدک سنسکرت
ذیلی تقسیمات:
آیزو 639-2 / 5: inc
Geographical distribution of the major Indo-Aryan languages (Urdu is not shown because it is mainly a lingua franca with no prevalence as a first language. Outside of the scope of the map are the traditionally migratory Romani, Domari, and Lomavren language languages).

اس خاندان میں یہ زبانیں آتی ہیں: سنسکرت، ہندی، اردو، بنگالی، کشمیری، سندھی، پنجابی، سرائیکی، رومانی، آسامی، گجراتی، مراٹھی، وغیرہ ۔

ہند آریائی کی خصوصیتیں

ہند آریائی میں ہند یورپی مصیت شدہ دم کشیدہ بندشی حروف ’گھ، بھ، دھ‘ اب تک برقرار ہیں۔ اس نقطہ نظر سے یہ ایک ہی زبان ہے جس میں یہ حروف اب تک محفوظ ہیں۔ قدیم ہند آریائی اور خاص کر ٹکسالی سنسکرت میں مرکب الفاظ کا ہجوم بہت بڑھ گیا تھا۔ ٹکسٹالی سنسکرت میں تو یہ الفاظ میں اتنے بے ہنگام ہو گئے تھے کہ ایک مرکب الفاظ کبھی کبھی ایک صفحہ جگہ لے لیتا تھا۔ ایرانی کے مقابلے میں ہند آریائی کی مندرجہ ذیل قابل ذکر خصوصیتیں ہیں۔ (1) کوزی حروف صیح کا مظہر (2) آریائی ’ز‘ کی ’ج‘ میں تبدیلی۔ یہ ’ز‘ ایرانی میں برقرار رہے۔ مثلاً

اوستاعہد حاضر کی فارسیہندآریائیمعنی
زاتزادجاتپیداشدہ

ہند آریائی زبان کا ارتقا

ہند آریائی زبان کے ارتقا کے مختلف مراحل ہیں۔

  1. قدیم آریائی
  2. قدیم ہند آریائی
  3. وسطی ہند آریائی
  4. عہد حاضر کی ہند آریائی زبانیں

ہند آریائی کے ارتقا کی پانچ منزلیں ہیں (1) ویدک منزل (2) زمانہ پانی منزل (3) زرمیہ منزل(4) دنیاوی منزل (5) ٹکسٹالی منزل

ویدک منزل

ویدک منزل کی زبان ویدوں میں ملتی ہے۔ یہ عام لوگوں کی بولی نہیں تھی بلکہ ایک خاص جماعت (پُروہت) کی بولی تھی۔ ویدوں میں ایسے بہت کم الفاظ ملتے ہیں جن سے عام لوگوں کی صوتی خصوصیتوں کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔

زمانہ پانی منزل

اس منزل میں سنسکرت زبان ہندوستان کے عالموں کی مشترکہ زبان بن گئی۔

زرمیہ منزل

اس منزل میں خاص کر مہابھارت تصنف ہوئی۔ عام لوگوں کی زبان سے بھی پراکرت کے الفاط کثیر تعداد میں سنسکرت میں شامل کیے گئے۔

دنیاوی منزل

اس منزل میں سنسکرت زبان ہندوستان کی سرکاری زبان بن گئی اور اس کا پروہت جماعت سے مخصوص تعلق ٹوٹ گیا۔ سنسکرت کی صرف و نحو سادہ ہو گئی اور کا خزانہ الفاظ عام لوگوں کی بولیوں کی ممونیت کی وجہ سے بہت بڑھ گیا۔

ٹکسالی منزل

اس منزل میں سنسکرت کا عام لوگوں سے پھر ٹوٹ گیا اور سنسکرت ایک بناوتی زبان بن گئی۔

وسطی ہند آریائی

اس منزل میں اشوک کے کتبے لکھے گئے تھے۔ اس دور کی اہم زبانیں مگدھی، پالی، پراکرات اور اپ بھرنش ہیں۔

مگدھی

اس دور کی سب سے اہم بولی مگدھی کہلاتی تھی، جس میں سنسکرت کی ’ر‘ کی جگہ ’ل‘ اور سنسکرت کے فاعلی لاحقے ’اح‘ کی جگہ ’اے‘ بولا جاتا تھا۔

پالی

پالی زبان میں بدھوں کی مقدس کتابیں قلمبند کی گئیں۔ پالی کی معنی کتاب کی اصلی عبارت کے ہیں اور مابعد یہ لفظ کتاب کی اصل زبان کے لیے مستعمل ہونے لگا۔ یہ زبان براست ٹکسٹالی سنسکرت مشتق نہیں ہے۔ کیوں کہ اس میں متعدد ایسی تشکیلیں بھی ملتی ہیں جو کے ویدک ہند آریائی میں بھی پائی جاتی ہیں۔ مثلاً حالت کا لاحقہ ’ہ‘ ویدک میں ’بھس‘ لیکن ٹکسالی سنسکرت میں ’ائی س‘ ہے۔

اردھ مگدھی

جین مت کے مقدس کتابوں کی زبان تھی۔ اس میں سنسرت کی ’ر‘ کی جگہ ’ل‘ اور سنسکرت کے فاعلی لاحقہ ’اح‘ کی ’اے‘ ہو گئی تھی۔ ہاں مگدھی پراکرت کی طرح ’س‘ کی ’ش‘ نہیں ہوئی تھی۔ لہذا اسے نصف مگدھی کہتے ہیں، کیوں کہ مگدھی میں یہ تینوں تبدیلیاں ہو گئی تھیں۔

پراکرات

یہ عام لوگوں کی زبانیں تھیں۔ (1) شورشینی (2) مگدھی (3) مہاراشٹری

شورسینی

یہ دوآبہ گنگ و جمن و پنجاب کے علاقوں میں بولی جاتی تھی۔ اس میں سنسکرت کی ’ش‘ کی ’س ہو گئی تھی۔ مثلاً سنسکرت میں ’دیش‘ (ملک) شورسینی میں ’دیس‘۔ لیکن مگدھی میں الٹی ’س‘ کی ش ہو گئی تھی۔ مثلاً سنسکرت ’سُندرَ‘ مگدھی میں ’شُندرَ‘ (خوبصورت)

مہاراشٹری

مہاراشٹری میں لفظوں کے اندرونی حروف صیح تقریباً سب مفقود ہو گئے تھے۔ مثلاً صرف ایک مہاراشٹری لفظ ’ام‘ سنسکرت کے ’مت‘ (سوچاہوا) ’ند‘ (بھرا ہوا) ’برت‘ (مردہ) ’مرگ‘ (ہرن) کی جگہ مستعل ہوتا ہے۔

اپ بھرنش

اپ بھرنش جس کے معنی دور افتادہ کے ہیں، یہ پراکرت کا مابعد ارتقا ہیں۔ ان بولیوں کا آغاز چھٹی صدی عیسویں سے ہوا تھا اور یہی زبانیں عہد حاضر کی زبانوں کا پیش خیمہ ہیں۔ ان بولیوں میں دیسی بولیوں کے بے شمار الفاظ شامل ہو گئے اور صرف و نحو سادہ ہو گئی۔ ان کی عام خصوصیات یہ تھی کہ ان میں سنسکرت واحد فاعلی و مفعولی حالت کے لاحقہ ’ح اور اَ‘ ہو گئی تھی۔ مثلاً

سنسکرتاپ بھرنشمعنی
پھلمپھلپھل
ویدہویدوید
شاشترمستھشاستر

عہد حاضر کی ہند آریائی زبانیں

عہد حاضر کی ہندآریائی زبانوں کا آغاز ساتویں اور آٹھویں صدی عیسوی سے ہوتا ہے۔ جب ساتویں صدی عیسوی میں بنگالی گیت چریا کی تصنیف ہوئی تھی اور اسی زمانے میں پرانی ہندوی (اردو) کی تصانیف بھی نیپال میں راہل سانکر انتیائن کی تحقیقات سے برآمد ہوئیں۔ مراٹھی اور گجراتی زبان میں سنسکرت کی ایک صرف و نحو لکھی گئی۔

عہد حاضر کی ہند آریائی زبانوں کی خصوصیتیں

عہد حاضر کی ہندآریائی کی نمایاں خصوصیت اس کا تسلسل ہے۔ ہنگری اور رومانی زبانوں کی طرح ہند آریائی میں کبھی عدم تسلسل نہیں ہوا۔ عموماً حروف علت اور وہی حروف صیح جو قدیم زمانے میں بولے جاتے تھے اب بھی بولے جاتے ہیں۔ اسی تسلسل کی وجہ سے عہد حاضر کی ہندی زبانوں کی حد بندی نہایت مشکل ہو گئی ہے۔ مثلاً یہ پتہ لگانا مشکل ہے کہ پنجابی کہاں ختم ہوتی ہے اور لہندی کہاں شروع ہوتی ہے۔ یہ گروہ بندی آگے واضح ہوگی۔

گروہ بندی

جنوب و مغرب اور دوآبہ گنگ جمن کی زبانیں

ان میں ہندوی (اردو اور ہندی)، راجستھانی، گجراتی اور مراٹھی شامل ہیں۔ ان زبانوں کی عام خصوصیت یہ ہے کہ ان میں قدیم ہند آریائی کے حروف صیح مفرد ہو گئے ہیں اور ان حروف صیح سے پہلے جو حروف علت تھے وہ لمبے ہو گئے ہیں۔ مثلاً سنسکرت میں ’دنت‘ ہندوی ’دانت‘ گجرتی اور مراٹھی میں ’وانت‘

ہندوی (اردو اور ہندی)

ہندوی کی دو بڑی شاخیں ہیں۔ ایک مشرقی اور دوسری مغربی۔ ان کی بڑی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں فاعلی حروف جار ’نے‘ لاحقہ کے بعد لگادیا جاتا ہے مشرقی ہندوی میں اس کی عدم موجودگی ہے۔

راجستھانی

راجستھانی زبان گجراتی سے ملتی جلتی ہے۔ اس کی خصوصیت یہ ہے کہ اس کی غیر فاعلی جمع کا لاحقہ ’آں‘ ہے لیکن گجراتی میں ’آ‘ ہے اور راجستھانی میں حالت ایجنٹ (عامل) کے معنی میں حروف جار ’نے‘ کی بجائے خاص لاحقہ ’ائی‘ لگایا جاتا ہے۔

گجراتی

گجراتی زبان کی نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ اس میں قدیم ہند آریائی ’و‘ اب تک برقرار رہے۔ دیگر کثیر التعداد ہند آریائی زبانوں میں اس کی ’ب‘ ہو گئی ہے مثلاً ہندوی ’بنیا‘ لیکن گجراتی ’وان یو‘ (دکان دار)۔ لہذا گجراتی زبان کا مطالعہ قدیم ہند آریائی ’و‘ کی تحقیقات کے لیے لازمی ہے کہ اس زبان کے ذریعہ پتہ لگ سکتا ہے کہ سنسکرت کے کن الفاظ کن الفاظ میں ’و‘ اور کن الفاظ میں ’ب‘ بولی جاتی ہے۔

مراٹھی

مراٹھی کی نمایاں قابل ذکر خصوصیت یہ ہے کہ اس میں لفظ کا ماقبل آخر کا رکن لمبا ہو تو چھوٹا ہو جاتا ہے۔ مثلاً ’کُم رو‘ (لڑکا)، پرفیسر ٹرنر کی رائے میں یہ قدیم ہند یورپی لہجہ کا اثر ہے جو لفظ کے پہلے رکن پر پڑتا ہے۔

مشرقی ہندآریائی زبانیں

ان میں بہاری، بنگالی، آسامی اور اڑیا زبانیں شامل ہیں۔ ان زبانوں میں قدیم ہند آریائی حروف علت ’ا‘ کی جگہ ’او‘ ہوتا ہے اور مستبل کا لاحقہ ’ب‘ سے بنتا ہے جو سنسکرت کے احتمال مجہورجزو فعل سے بنا ہے۔

بہاری

بہاری زبان کی خاص نوعیت یہ ہے کہ لفظ سے ماقبل آخر رکن سے بہشتر کوئی رکن لمبا ہو تو چھوٹا ہوجاتا ہے۔ مثلاً ’نَ اُ آ‘ (ھجام)، یہاں ’نااُ آ‘ کا ’نِ اُ آ‘ ہو گیا ہے،

بنگالی

بنگالی کی خصوصیات یہ ہے کہ اس میں مگدھی پراکرات کی طرح سنسکرت کی ’س‘ کی ’ش‘ ہو گئی ہے۔ مثلاً سنسکرت کے ’سُندَرَ‘ کی بجائے ’شندر‘ بولا جاتا ہے۔

اڑیا

اڑیا زبان کی خاص نوعیت یہ ہے اس میں ہند آریائی کی ابتدائی ’س‘ کی ’خ‘ ہو گئی ہے۔ مثلاً ’خات‘ (سات) سنسکرت ’سپَتَ‘۔ اس کی دوسری خصوصیت اس میں ہند آیائی کا ’اَ‘ اب تک برقرار ہے۔ مثلاً ’گھرَ‘، بنگالی ’گھور‘ ہندوی ’گھر۔

شمال مغربی ہند آریائی زبانیں

ان میں پنجابی، سندھی اور لہندی شامل ہیں اور ان کی خصوصیت یہ ہے ان زبانوں میں پرارات کے حروف صیح برقرار ہیں۔ مثلاً پراکرت ’ستَ‘، پنجابی، لہندی اور سندھی میں ’ست‘ (سات)

پنجابی

پنجابی کی خاص نوعیت یہ ہے کہ اس میں اب تک ہندآریائی مرکب حروف صیح کا ’ر‘ اب تک برقرار ہے۔ مثلاً پنجابی ’ترے‘ سنسکرت ’تریخ‘ (تین)۔

سندھی

سندھی کی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں ایک قسم کے ڈبے ہوئے حروف صیح ہیں، جن کے تلفظ میں فم حلق کی بالکل بندش ہوجاتی ہے اور پھر یک دم اس کے کھل جانے ایک کھوکھلی سے آواز نکلتی ہے، جیسے ایک سخت کاک کو کھو کو بوتل سے کھولنے سے آواز نکلتی ہے۔ مثلاً سندھی ’ڈیرا‘ سنسکرت ’دیپکَ ح‘ (چراغ)۔ اس سندھی لفظ میں ’د‘ دباہوا حروف صیح ہے۔

لہندی

لہندی کی خصوصیت اس کا لہجہ ہے جو مرکب الفاظ کے دوسرے حصے یا آخری رکن پر بڑتا ہے۔ لہذا یہ حروف لہجے ہو جاتے ہیں اور دوہرے سنائی دیتے ہیں۔ مثلاً ’غلام نبی اور رادحاکشن‘ ان الفاظ میں ’ب اور ش‘ پر دباؤ پڑتا ہے۔

درد گروہ

درد گروہ میں، کشمیری اور شنا، شامل ہیں۔ صوتیات کے نکتہ نظر سے یہ زبانیں ابھی پراکرت کی منزل میں ہی ہیں۔ ان میں دوہرے حروف صیح اور اندرونی ’ی‘ ابھی تک برقرار ہیں۔ کشمیری زبان کی خصوصیت اس کا پیچیدہ اور نظام حروف علت ہے۔ اس میں ایسے باریک حروف علت موجود ہیں جن کے وجود کو صرف بولنے ولاہی محسوس کر سکتا ہے اور سنے والے کو سنائی نہیں دیتا ہیں۔ اگر سنائی دیتے ہیں تو سخت کوشش اور توجہ کے بعد۔ اس کے علاوہ یہ صورتی شکلیں ایسی پرسرار ہیں کہ ان کو صوتی علامات میں قلمبند کرنا اور ان کی حقیقت کو سمجھنا ایک ماہر صوتیات کے لیے بھی نہایت مشکل ہے۔ مثلاً ’أاِسِ اس‘ (ہم تھے)۔ اس میں تین حروف علت ہیں اور تینوں کو علامات میں ظاہر کرنا نہایت ہی مشکل ہے۔ مثلاً ’س‘ میں ایسا باریک زیر بولا جاتا ہے جس کو عام طور پر بولنے والا ہی محسوس کر سکتا ہے۔

کافری زبانیں

یہ چترال کے گرد نواح میں بولی جاتی ہیں۔ ان میں کھوار کلاشاوغیرہ کی بولیاں شامل ہیں، ان کی خصوصیت یہ ہے کہ ان میں آریائی ’ز‘ جو قدیم ہند آریائی میں ’ج‘ ہو گئی تھی اب تک برقرار ہے۔ مثلاً کتی میں ’زوست‘(دوست)، اوستا میں ’زوش‘، سنسکرت میں ’جوش ٹر‘ خوش کرنے والا۔

کھوار

کھوار کا خزانہ الفاظ دیگر کافری زبانوں سے مختلف ہے۔ مثلاً

کھوارکلامتابش گلیمعنی
یشُگگگاؤگائے
کلاشا

کلاشا میں تذکیر و تاثنیت زیادہ تر مفقود ہوچکی ہے۔ ہاں بے جان قسم کی موجود ہے۔

برصغیر کے باہر کی ہند آریائی زبانیں

برصغیر کے باہر کی ہند آریائی زبانوں میں سنگھلی اور جپسی شامل ہیں۔

سنگھلی

یہ جزیرہ لنکا میں بولی جاتی ہے، اس کی خصوصیت ہے کے ان میں دم کشیدہ حروف صیح اور حنکی حروف صیح بالکل مفقود ہوچکے ہیں۔

جیپسی

جیپسی ہند آریائی زبانوں کا نہایت ہی حیرت انگیز اور بے نطیر مثال ہے۔ جپسی چودویں صدی ہجری میں یورپ کے مختلف ملکوں جاپہنچے تھے۔ یہ لوگ خانہ بدوش ہیں اور جو چوری اور پیشن گوئی وغیرہ سے گزارہ کرتے رہے

رسم الخط

بر صغیر میں 800 ق م کے قریب لکھنے کا رواج شروع ہوا۔ ابتدائی تحریروں کے جو نمونے ملتے ہیں وہ اشوک کے کتبات کے نمونے ہیں۔ اشوک کے کتبات یا تو خروشتی رسم الخط میں ہیں، جو مشرقی افغانستان اور پنجاب میں رائج تھا یا برہمی رسم الخط کے ہیں۔

خروشتی ایک قدیمی آرامی رسم الخط سے اخذ کیا گیا ہے، جو 500 ق م میں رائج تھا اور یہ دائیں سے بائیں لکھا جاتا تھا۔ براہمی رسم الخط کو آریوں نے خروشتی رسم الخط میں ترمیم کرکے مقای زبان اور اصوات میں و حروف میں تبدیل کر لیا تھا۔ براہمی رسم الخط میں 64 حروف کی شکلیں معین کی گئیں اور اسے بائیں سے دائیں لکھنے کا قائدہ بنا لیا۔ 500 ق م میں براہمی رسم الخط مکمل ہو گیا تھا۔ قواعد صرف و نحو کے مشہور عالم پانی جس کا زمانہ چوتھی صدی قبل عیسوی مانا گیا ہے۔ اس کے زمانے میں یا کچھ عرصہ بعد براہمی رسم الخط کی دوشاخیں ہوگیں۔ ایک شمالی اور دوسری ناگری۔ ناگری شمالی رسم الخط کی ترمیم شدہ شکل ہے۔ جنوبی ہند کے مختلف رسم الخط جنوبی براہمی سے اخذ کیے گئے ہیں۔[1] پاننی نے قواعد کے ساتھ زبان کو ایک معیاری شکل دے دی۔ یہیں سے ویدی زبان کا سلسلہ ختم ہوکر سنسکرت کا شروع ہوتا ہے۔ بول چال کی زبانیں اس کے بعد بھی وہی رہیں اور ان میں کچھ نہ کچھ ترقی ہوتی رہی، لیکن پڑھے لکھے لوگوں کی زبان سنسکرت ہی رہی۔[2] سنسکرت کے معنی سنواری ہوئی زبان کے ہیں اور اس کے مدِ مقابل عام بولیاں پراکرت یعنی خورد رو کہلاتی تھیں۔[3] اس کے علاوہ یہاں عربی رسم الخط بھی مروج ہے جو زیادہ تر مسلمان استعمال کرتے ہیں ۔

مزید دیکھیے

حوالہ جات

  1. پروفیسر محمد مجیب، تمدن ہند 57
  2. پروفیسر محمد مجیب، تمدن ہند۔ 57
  3. حمید اللہ ہاشمی: پنجابی زبان و ادب
This article is issued from Wikipedia. The text is licensed under Creative Commons - Attribution - Sharealike. Additional terms may apply for the media files.