گوجری

گوجری (انگریزی: Gujjari) زبان پاکستان، بھارت اور افغانستان میں زیادہ بولی جاتی ہے اور اٹلی، فرانس، برطانیہ اور چین میں بھی بولی جاتی ہے۔ بھارت کی ریاست ہریانہ میں اس زبان کو مرکزی حیثیت حاصل ہے اور اس کو ہریانوی کہتے ہے۔ پاکستان میں جو لوگ انڈیا سے ہجرت کر کے پاکستان آئے وہ گوجری زبان بولتے ہیں ان میں گجر،ارائیں اور راجپوت قابل ذکر ہیں۔ہندوستان میں جو ہریانوی، راجستھانی، گجراتی، میواتی وغیرہ زبانیں بولی جاتیں ہیں وہ دراصل اسی کا روپ ہیں ۔

گوجری
Gojri, Gurjari
مقامی  افغانستان، پاکستان، بھارت
علاقہ کشمیر، جنوب مشرقی افغانستان
مقامی متکلمین
(1 ملین cited 1992–2000)e21
زبان رموز
آیزو 639-3 gju
گلوٹولاگ guja1253[1]

بھارت کی ریاستوں میں گوجری زبان جموں و کشمیر، ہماچل پردیش، ہریانہ، اتراکھنڈ، راجستھان، گجرات (بھارت)، پنجاب، بھارت، دہلی بڑے پیمانے پر بولی جاتی ہے۔ پاکستان کے گوجر بھی گوجری زبان بولتے ہیں اور یہ پاکستان کے علاوہ آزاد کشمیر اور ہزارہ میں بھی پائے جاتے ہیں۔ جموں و کشمیر نے گوجری زبان کو آئین ریاست کی 6 فہرست بند زبانوں میں شامل کیا ہے۔[2]

تاریخ

گوجری زبان برصغیر کی قدیم زبانوں میں سے ایک زبان ہے اس خطے میںگوجروں کے تاریخی شواہد پانچویں صدی عیسوی کے بعد ہی ملتے ہیں اور پھر تیرہویں صدی عیسوی تک ہندوستان میں گجر حکومتوں کے واضح ثبوت دیکھنے میں آتے ہیں یقیناً اُس دور میں گوجری زبان کو سرکاری سرپرستی حاصل رہی ہو گی۔ سرکاری سرپرستی کے زمانے میں ادیبوں اور شاعروں نے کافی مقدار میں گوجری اَدب تخلیق کیا البتہ اس میں شعری اَدب زیادہ ہے اور وہ بھی اکثر صوفیانہ کلام ہے۔ ان شعرا میں سید نور الدین ست گرو، حضرت امیر خسرو، شاہ میراں جی، شاہ باجن ،شاہ علی جیوگامی، برہان الدین جانم، خوب محمد چشتی، جگت گرو اور امین گجراتی کے نام قابل ذکر ہیں۔

پندرہویں صدی عیسوی کے بعد ہندوستان میں گوجری حکومتوں کا زوال شروع ہو گیا اس کے ساتھ ہی گوجری زبان کی سرکاری سرپرستی ختم ہو گئی اور یہ زبان مرکزیت سے دور ہوتی چلی گئی جس کے نتیجے میں گوجری زبان مقامی لہجوں میں تقسیم ہو کر رہ گئی گوجری زبان کی ادبی بنیادوں پر دوسری زبانوں کے ڈھانچے تعمیر ہونا شروع ہو گئے کہیں گجرات کہیں راجھستانی کہیں سندھی پنجابی اور کہیں ہندوستانی کا نام دے کر ہندوی اور اردو زبانوں نے اپنی ترقیاتی سرگرمیوں کا آغاز کیا۔

مرکزیت کھونے کے بعد گوجری زبان کا کوئی مخصوص علاقہ نہ رہا۔ ریاست جموں وکشمیر میں بولی جانے والی گوجری پر عربی اور فارسی کے واضح اثرات دیکھنے میں آتے ہیں کیونکہ ریاست کے تمام گوجر مذہب اسلام کو ماننے والے ہیں اور ان کا مذہبی لٹریچر عربی اور فارسی زبانوں میں دستیاب تھا مذہبی اور عالم فاضل لوگ درسگاہوں میں عربی فارسی کی تعلیم دیتے تھے اس لیے عام لوگوں کی زبان پر بھی یہ اثرات مرتب ہونے لگے البتہ تاریخ سے یہ بات ثابت ہے کہ آریائی ہندوستان میں داخل ہوئے تو وہ انڈک زبان بولتے تھے باقی زبانیں آریائی اور قدیم ہندوستانی تہذیبوں اور بولیوں کے میل میلاپ سے وجود میں آئیں جنہیں پراکرت کے نام سے جانا جاتا ہے اور اس کی ایک شاخ آپ بھرنس ہے۔

سرکاری سرپرستی کے دور میں گوجری زبان کو گجرات میں مرکزی حیثیت حاصل رہی اردو زبان کے ایک مورخ ڈاکٹر جمیل جالبی اپنی ” تاریخ اردو ادب “ میں لکھتے ہیں ’ ’ جب دکن میں اردو کے نئے مراکز ابھرے تو وہاں کے اہل علم و ادب نے قدرتی طور پر گوجری ادب کی روایت کو اپنایا۔ دکن میں جب اردو کا چرچا ہوا اور اسے سرکاری دربار کی سرپرستی حاصل ہوئی تو وہاں کے ادیبوں اور شاعروں کی نظر گوجری ادب پر ہی گئی اس ادب کو معیار تسلیم کر کے انہوں نے اس ادب کے تمام عناصر کو اپنے ادب میں جذب کر لیا“۔

ڈاکٹر جمیل جالبی سترہویں صدی تک گوجری زبان کی ادبی حیثیت کو تسلیم کرتے ہیں اردو بولنے والوں کو گوجری سمجھنے میں کوئی دقت نہیں ہوتی یقیناً گوجری زبان اور اردو کا لسانی رشتہ بہت قریبی ہے کیونکہ اردو زبان کی بنیادیں ہی گوجری ادب پر ہیں۔

ریاست جموں وکشمیر میں تخلیق ہونے والا گوجری ادب مقامی لہجوں کا مرکزی روپ ہے گوجری زبان کا اپنا ایک حلقہ ہے ،اپنا ایک ادب ہے، اپنے خالص الفاظ کا ذخیرہ ہے اور اپنی ایک الگ پہچان ہے یہ کہہ دینا کہ گوجری پنجاب یا کسی دوسری زبان کی ذیلی بولی ہے قطعاً درست نہیں بلکہ گوجری زبان کی اپنی ذیلی شاخیں ہیں۔گوجری زبان میں محاورے، ضرب المثل، پہلیاں، لوک گیت، لوک کہانیاں اور لوک بار غیر ہ وہ سب مواد موجود ہے جس کے بل بوتے پر اس کو زبان کا درجہ دیا جا سکتا ہے گوجری اپنی قدامت اور وسعت کے لحاظ سے برصغیر کی اہم زبان ہے شروع شروع میں گجرات (بھارت) اور دکن میں اس کو اردو کا نام دیا گیا کیونکہ دراصل اس زبان کے خدوخال سے ہی بعد میں اردو نے نشو و نما پائی چوہدری اشرف گوجر ایڈووکیٹ نے اپنی کتاب” اردو کی خالق، گوجری زبان“ میں بڑے خوبصورت طریقے سے یہ بات ثابت کی ہے۔

گوجری زبان برصغیر کے میدانوں اور کوہساروں میں بڑی توانائی کے ساتھ زندہ رہی یہ زبان راجستھان، ہماچل پردیش، جموں وکشمیر، صوبہ خیبر پختونخوا، شمالی علاقہ جات یہاں تک کہ افغانستان، روس اور چین کے کچھ علاقوں میں بھی بولی اور سمجھی جاتی ہے۔

افغانستان سے آج بھی گوجری زبان میں ہفت روزہ مجلّہ شائع ہو رہا ہے گوجری زبان بولنے والوں کی تعداد تقریباً پانچ کروڑ سے زائد بتائی جاتی ہے جغرافیائی وسعت کے اعتبار سے برصغیر کی دوسری کوئی زبان گوجری کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔ پنجاب، مارواڑی اور خاص طور پر سندھی پر اس کا اثرنمایاں ہے۔

ادب

گوجری فولک میں نغمے، بلاڈ اور فولک کہانیاں جنہیں داستان کہا جاتا ہے بہت دستیاب ہیں۔ گوجری زبان کے سیکڑوں گانے نشر ہوئے ہیں جن میں “نوروو‘‘، “تاجو“، “نئرا“، “بیگوما“، “شوپیا“، “کونجھڑی“ اور “ماریاں“ شامل ہیں۔ گوجری زبان میں اب لکحنے کا رواج بھی عام ہوچلا ہے۔ مشہور لکھاریوں میں سین قادر بخش، نون پونچی اور دیگر شامل ہیں۔ دوسرے لکھاریوں میں میاں نطام الدین، خدا بخش، زابائی راجوری، شمس الدین مہجور پونچی، میاں بشیر احمد، جاوید راہی، رفیق انجم، ملکی رام کوشن، سروری کاسانا، نسیم پونچی جیسے لوگوں نے نام کمایا ہے اور اپنی شاعری، نثر اور تنقیدوں کے ذریعے گوجتی زبان کی خدمت کی ہے۔

حوالہ جات

  1. ہرالڈ ہیمر اسٹورم؛ رابرٹ فورکل؛ مارٹن ہاسپلمتھ (ویکی نویس.)۔ "Gujari"۔ گلوٹولاگ 3.0۔ یئنا، جرمنی: میکس پلانک انسٹی ٹیوٹ فار دی سائنس آف ہیومین ہسٹری۔
  2. In Jammu and Kashmir, Gujari is written right-to-left in an extension of the Persian alphabet, which is itself an extension of the Arabic alphabet. Gujari is associated with the Nastaʿlīq style of Persian calligraphy – http://jktribals.page.tl/Gojri-Language.htm, http://www.merinews.com/article/writers-in-jk-seek-constitutional-safeguards-for-gojri/129813.shtml
This article is issued from Wikipedia. The text is licensed under Creative Commons - Attribution - Sharealike. Additional terms may apply for the media files.