مسلمانان اندلس

مسلمانان اندلس یا مور (انگریزی زبان میں: Moors) ان مسلمانوں کو کہتے ہیں جو مغربی افریقا اور مراکش سے آئبیریا (موجودہ ہسپانیہ اور پرتگال) میں آ کر آباد ہو گئے۔ ان مسلمانوں کے رسم و رواج اور طرز رہن سہن کو مورش یا اصطباغی کہتے ہیں۔

تاریخ

ملکہ برطانہ کی طرف مورش سفیر

مسیحی ہسپانیہ میں مورو کا داخلہ 711ء میں بربر سپہ سالار طارق بن زیاد کی قیادت میں ہوا جس نے آٹھ سال کے عرصہ میں آئبیریا ( ہسپانیہ اور پرتگال کے جزیرہ نما کا قدیم نام) کے زیادہ تر حصہ پر اسلامی حکومت قائم کر دی۔ انھوں نے شمال میں پائرین کی پہاڑیاں میں آگے بڑھنے کی کوشش کی جس میں انہیں 732ء میں ٹورز کی لڑائی میں فرانک، چارلس مارٹل کے ہاتھوں سکست کا سامنا کرنا پڑا۔ مورو نے ماسوائے شمال مغربی پائرین کی پہاڑیوں میں باسکو کے علاقہ کے باقی تمام آئبیریا اور شمالی افریقا پر کئی دہائیوں تک حکومت کی۔ اگرچہ مورو تعداد میں کم تھے، لیکن وہ کافی زیادہ تعداد میں مقامی لوگوں کو تبدیل کرنے میں کامیاب رہے۔ "اسلامز بلیک سلیو" (اسلام کے سیاہ غلام) کے مصنف رونالڈ سہگل کے مطابق ستر لاکھ آئبیریائی باشندوں میں سے 1200ء تک چھپن لاکھ مسلمان تھے جو اصل میں مقامی ہی تھے۔ مؤرش حکومت کو 750ء کی دہائی میں اندرونی خلفشار کا سامنا کرنا پڑا۔

ملک جاگیروں میں بٹ چکا تھا جو زیادہ تر مسلمان تھیں اور پھر قرتبہ کے خلیفہ کے زیر اثر متحد ہوئیں۔ لیکن شمال اور مغرب میں موجود مسیحی ریاستیں آہستہ آہستہ مضبوط ہوتی گئیں اور ریکنکواستہ (فوجی آزادی) کے جھنڈے تلے آسٹوریس، نوارے، گالیسیا، لےاون، پرتگال، آراگون، کتالونیہ اور کستلے کی حکومتیں پھیلاؤ اور اندرونی مضبوطی حاصل کرنے میں کامیاب رہیں۔ قرتبہ کے ابتدائی دور خلافت میں عیسائي، مسلمان اور یہودی مل جل کر رہے، لیکن بعد میں یہودیوں کو دھکیلا جانے لگا اور مسیحی مسلمانوں کے تحت دوسرے درجے کے شہری قرار پائے۔ قرتبہ کی خلافت 1031ء میں گر گئی اور آئبیریا کی مسلمان حکومت شمالی افریقا کے مورو المراد دیناستی کے ہاتھ آئی۔

مورو آئبیریا نے شہری منصوبہ بندی میں بڑی ترقی کی اور عظیم شہر تعمیر کیے۔ ایک مورخ کے مطابق قرتبہ میں 471 مساجد، 300 عوامی غسل خانے، 63,000 امرا کے مکانات اور 200,077 عام لوگوں کے مکانات تھے۔ کاروباری مراکز میں 80,000 دکانیں ان کے علاوہ تھیں۔ پہاڑوں سے پانی شہر کے ہر کونے میں پہنچایا گیا تھا، جس کے لیے خالص سونا، چاندی، تانبا اور جست کے مختلف شکلوں کے پائپ بنائے گئے تھے۔ ان کے ذریعے پانی بڑی جھیلوں، تالابوں ٹینکون اور سنگ مرمری فواروں تک پہنچایا جاتا تھا۔ مکانات میں گرمیوں میں باغات کی تازہ معطر ہوا کے گزر کا اہتمام تھا اور سردیوں میں دیواروں میں نصب گرم ہوا نلوں کی مدد سے گھروں کو گرم رکھا جاتا تھا۔ مزید اہم کاموں میں بڑے راستوں پر جو محلات کی طرف جاتے تھے، روشنی کا اہتمام تھا۔ ان بڑے محلات میں سے ایک ازہارہ کا محل تھا جس کے 15,000 دروازے تھے۔ بلاشبہ خلافت کے دور عروج میں قرتبہ یورپ کا اہم دار الخلافہ اور دنیا کے عظیم شہروں میں سے ایک تھا۔

1212ء میں کاستلے کے الفانسو ہشتم کی قیادت میں مسیحی حکمرانوں کا گروہ مسلمانوں کو مرکزی آئبیریا سے نکالنے میں کامیاب ہو گیا لیکن غرناطہ کی مورو حکومت جزیرہ نما آئبیریا کے جنوبی حصہ میں قائم رہی۔ یہ حکومت جدید زمانہ میں اپنے شاہکار الحمرا کے نام سے جانی جاتی ہے۔ 2 جنوری، 1492ء کو آخری مسلمان حکمران نے آرگان کے فردینانڈ دوم اور کاستلے کی ازابل کے درمیان شادی سے بننے والے اتحاد کے سامنے ہتھیار ڈالے۔ باقی ماندہ مسلمانوں کو آئبیریا چھوڑنے پر مجبور کر دیا گیا یا ان کو مسیحیت قبول کرنی پڑی۔ اور ان کی اولاد موریکوس قرار پائی جو کئی ریاستوں مثلاً آراگان، ویلنسیا، اندلس وغیرہ میں بطور کسان رہے، یہاں تک کہ 1609ء سے 1614ء کے دوران ان سب کو بے دخل کر دیا گیا۔ ہنری لاپیئر کے مطابق اس بے دخلی سے جزیرہ نما کے کل 80 لاکھ رہائشیوں میں سے تین لاکھ متاثر ہوئے۔

اسلامی حکومت کے اس عروج میں مسملمانوں نے مغرب میں صرف آئیبیریا میں ہی حکومت نہیں کی بلکہ مشرک میں ہندوستان، جزیرہ نما ملائیشیا، انڈونیشیا میں منڈاناؤ تک بھی حکومت کی۔

ماخذ

رومی لفظ مور(Maur ) شمالی افریقا نسل کے باشندوں کے لیے استعمال کیا جاتا تھا جو جدید تیونس کے مغرب میں ہے۔ قدیم اور جدید مورخوں اور مصوروں نے ان کی ایسی کئی خصوصیات کو ابھارا ہے جو آج کے جدید معاشروں میں بھی ہیں۔ اس کے مقابلہ میں مزید جنوب میں رہنے والے ایتھوپیائی باشندوں کو 'ایتھیوپس' (Aethiopes ) اور مصریوں کو 'آئجپتس' (Aegyptus) کہا جاتا تھا۔ ان میں کئی رنگ و نسل کے لوگ شامل تھے۔ ڈاکٹر کےئتا (Dr. Keita) کے مطابق یہ سب مقامی ہی تھے، چاہے انکا رنگ سفید تھا یا ان کے بال سفید تھے۔ یہ خصوصیات اس علاقہ کی اپنی تھیں نہ کہ یہاں آ کر آباد ہونے والے یورپی (یونانی، رومی وغیرہ) یا عربوں کی وجہ سے ۔

بحث و تحقیق

مور (اردو میں مورو)'Moor ' کا ماخذ یونانی لفظ 'ماؤروز' (Mavros) ہے جس کا مطلب سیاہ یا گہرا ہے اور جو لاطینی رومی زبان میں تبدیل ہو کر مورو (Mauro) کہلایا۔ رومی زبان میں سیاہ یا گہرے کے لیے 'نیگر' (Niger) یا 'فسکس' (Fuscus) کا لفظ استعمال کیا جاتا تھا، نہ کہ مورو۔ مورو شمالی افریقہ کے ان باشندوں کے لیے استعمال کیا جانے لگا جو 'مغرب' کے رہنے والے تھے جو موجودہ تیونس کے مغرب میں ہے۔ مورخ ہیروڈوٹس لکھتا ہے کہ شمالی افریقی دو طرح کے تھے، شمالی لیبیا کے سفید رنگت والے اور گہری رنگت والے۔

مزید پڑھیے

خارجی ربط

This article is issued from Wikipedia. The text is licensed under Creative Commons - Attribution - Sharealike. Additional terms may apply for the media files.