اوپیک

اوپیک (Organization of the Petroleum Exporting Countries ۔OPEC) پٹرول برامد کرنے والے ملکوں کی ایک عالمی تنظیم ہے۔ اس میں الجیریا (الجزائر) ، انگولا ، انڈونیشیا ، ایران ، عراق ، کویت ، لیبیا ، نائجیریا ، قطر ، سعودی عرب ، متحدہ عرب امارات اور وینیزویلا شامل ہیں۔ اوپیک کا بنیادی مقصد تیل کی عالمی منڈی میں قیمت کو متوازن کرنا اور مناسب مقدار تک بڑھانا شامل ہے۔ ستر کی دہائی میں تیل کی عالمی منڈی میں اوپیک نے بڑی طاقت حاصل کر لی مگر اسی کی دہائی میں یہ طاقت کم ہو گئی اور اوپیک ایک کمزور ادارہ رہ گیا۔ اس کا مرکزی دفتر آسٹریا کے شہر ویانا میں ہے اگرچہ آسٹریا اس کا رکن نہیں ہے۔

اوپیک
{{{2}}}
Suit
صدر دفتر ویانا ، آسٹریا
دفتری زبانیں انگریزی[1]
قسم تجارتی گروہ
رکن ممالک
رہنما
 سیکرٹری جنرل
عبداللہ سلیم البدری
(از جنوری 1، 2007)
قیام
 قانون
ستمبر 10–14 ، 1960
اطلاق جنوری 1961
رقبہ
 کل
11,854,977 کلومیٹر2 (4,577,232 مربع میل)
آبادی
 تخمینہ
372,368,429
 کثافت
31.16/کلو میٹر2 (80.7/مربع میل)
کرنسی اندراج بطور امریکی ڈالر فی بیرل
ویب سائٹ
http://www.opec.org/

اوپیک کی تاریخ

قیام

اوپیک کا صدر دفتر، ویانا، آسٹریا

وینیزویلا جنوبی امریکا کا ایک تیل پیدا کرنے والا ملک ہے۔ ترقی یافتہ دنیا تیل کو بڑے سستے داموں حاصل کر کے اسی سے بنائی ہوئی چیزیں تیسری دنیا کے ممالک کو مہنگے داموں بیچتی ہے۔ تیل کی عالمی منڈی میں اصل طاقت امیر ملکوں کے پاس ہے جن کی حکومتیں اور تیل کمپنیاں مختلف حیلے بہانوں سے تیل کی رسد بڑھا کر تیل کی قیمت کو ایک سطح سے کم رکھتی ہیں۔ اس بات کو بنیاد بنا کر سب سے پہلے 1949 میں وینیزویلا کے صدر نے ایران ، عراق ، کویت اور سعودی عرب کی حکومتوں سے رابطہ کیا جس کا مقصد ایک مشترکہ ادارہ قائم کرنا تھا جس میں تیل سے متعلق مسائل کے بارے میں تبادلۂ خیال کرنا تھا۔ اس وقت بات نہیں بنی کیونکہ ان ملکوں میں امریکہ ، برطانیہ اور فرانس کا اثرورسوخ بہت زیادہ تھا بلکہ تیل کی کمپنیاں ان کی ملکیت تھیں۔ 1960 میں انہی ممالک کا اجلاس عراق کے شہر بغداد میں ہوا۔ جہاں اوپیک کا قیام عمل میں لایا گیا۔ اس کا صدر دفتر ویانا، آسٹریا میں ہے۔ خیال تھا کہ اوپیک تیل کی عالمی رسد کو محدود کر کے اس کی قیمت کو ایک مناسب درجے تک لے آئیں گے۔ ابتدائی ارکان یہی ممالک تھے مگر 1975 تک قطر ، الجیریا (الجزائر) ، انڈونیشیا ، لیبیا ، نائجیریا ، متحدہ عرب امارات ، ایکواڈور اور گیبون شامل ہو گئے۔ ایکواڈور اور گیبون نے بعد میں اوپیک چھوڑ دی۔ جنوری 2007 میں انگولا نے اوپیک میں شمولیت حاصل کر لی۔ سوڈان کی شمولیت کی توقع بھی ہے۔ آج کل اوپیک کے ارکان تیل کے ذخائرکے پینسٹھ فی صد کے مالک ہیں اور کل پیداوار میں ان کا حصہ چالیس فی صد سے زیادہ ہے۔

جنگ یوم کپور

1967 کی آٹھ روزہ عرب۔ اسرائیل جنگ کے بعد اوپیک کے عرب ارکان نے ایک ذیلی اجلاس کیا تاکہ ان ممالک پر دباؤ ڈالا جائے جو ان کے تیل کے گاہک ہیں اور اسرائیل کی حمائت کرتے ہیں۔ مصر اور شام جو اوپیک کے ارکان نہیں تھے، ان ممالک کے ساتھ تھے۔ اس دوران عرب ممالک ایک فیصلہ کن جنگ کی تیاری کرتے رہے۔ 1973 میں یوم کپور کو جو یہودیوں کا ایک مذہبی دن تھا عرب اسرائیل کی ایک نئی جنگ چھڑ گئی۔ چونکہ جدیدطریقہ جنگ پٹرول کا بہت زیادہ استعمال مانگتی ہے اس لیے عربوں نے امریکہ، برطانیہ وغیرہ کو تیل کی رسد منقطع کر دی۔ اس کا عربوں کو بہت فائدہ ہوا اور انہوں نے اسرائیل کے قبضہ سے اپنے کئی علاقے چھڑا لیے۔

1973 کا تیل کا بحران

جنگ یوم کپور کے دوران عربوں کے تیل کی رسد منقطع کرنے کے اقدام کے بعد جو صورت حال پیدا ہوئی اسے معیشت دان 1973 کے تیل کے بحران کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ اس دوران تیل کی قیمت عالمی منڈی میں پانچ گنا بڑھ گئی( 12 سے 60 امریکی ڈالر فی بیرل)۔ یہ مغربی ممالک کے لیے ایک ڈراؤنے خواب سے کم نہ تھا۔ اس سے ترقی یافتہ ممالک کی معیشت کو ایک کاری دھچکا لگا۔ امریکہ اور مغربی یورپ میں افراط زر کی شرح ریکارڈ حد تک ہو گئی۔ ان کے تمام معاشی اشاریہ منفی رحجانات دکھا رہے تھے۔ اس کے اثرات کئی سال تک ان ممالک کی معیشت پر ہوتے رہے۔ یہ صورتحال17 اکتوبر 1973 سے شروع ہوئی جب اوپیک کے عرب ارکان نے تیل کی رسد پر پابندی کا اعلان کیا۔ امریکہ نے ایک قانون بنایا جس کے مطابق ایسی گاڑیاں جن کے رجسٹریشن نمبر طاق ہیں وہ صرف طاق تواریخ میں پٹرول لے سکتے ہیں اور ایسی گاڑیاں جن کے رجسٹریشن نمبر جفت ہیں وہ صرف جفت تواریخ میں تیل ڈلوا سکتے ہیں۔ برطانیہ اور امریکہ کو اپنے پٹرول کی راشن بندی کرنا پڑی۔ فرانس کی شرح پیداوار جو پچھلے تیس سال سے مسلسل بڑھ رہی تھی اور باقی یورپ کے لیے ایک مثال تھی منفی رحجان دکھانے لگی۔ ھالینڈ کو بہت نقصان ہوا کیونکہ اس کا تیل بالکل بند ہو گیا تھا۔ (ھالینڈ نے جنگ یوم کپور کے دوران اپنے فضائی اڈے امریکہ کو استعمال کرنے دیے تھے اور اسرائیل کو ہر قسم کی امداد دی تھی)۔ سب سے پہلے امریکی دباؤ پر مارچ 1974میں سعودی حکومت نے تیل کی رسد بڑھا دی جس کے بعد عرب ملکوں کا زور ٹوٹ گیا۔ اس بحران سے عرب ملکوں نے بہت دولت حاصل کی مگر اوّل تو وہ ایسے لوگوں کے ہاتھوں میں آئی جنہوں نے اس کو مغربی ممالک میں عیاشیوں پر خرچ کر ڈالا یا پھر امریکہ اور اسرائیل کا اسلحہ خریدنے پر۔ دوسری طرف ترقی یافتہ ممالک نے اوپیک ممالک کو ھدف بنا کر ان میں پھوٹ ڈلوائی جس سے اوپیک اپنا ایسا کردار جاری نہ رکھ سکی۔ جنوری 2004 میں برطانوی حکومت نے کچھ رپوٹوں کا اجراء کیا جن کے مطابق 1973 کے تیل کے بحران کے دوران امریکہ نے سعودی عرب، عراق اور ایران پر حملہ کی منصوبہ بندی کی تاکہ تیل کے ذخائر پر قبضہ کیا جا سکے۔ [4] ( برطانوی حکومت خفیہ رپورٹوں کو تیس سال کے بعد عوامی سطح پر شائع کرتی ہے)۔ اسی سال امریکہ نے اپنی فوج میں ایک صحرائی ڈویژن کا اضافہ کیا جس کا مقصد مستقبل میں صحرائی ممالک میں جنگ کی تیاری تھا۔

اوپیک کا کردار

اوپیک کے اندر ارکان کا پیداواری حصہ

اوپیک کا قیام 1960 میں عمل میں آیا۔ اس کی سب سے زیادہ طاقت میں دیکھی گئی۔ 1974 کے بعد اوپیک نے اپنی طاقت کھو دی۔ دو ارکان نے اسے چھوڑ دیا۔ 1970 کی دہائی میں اوپیک سے متعلق سربراہان مملکت کے کردار نے اوپیک کو ایک طرح سے برباد کر دیا۔ جب بھی اوپیک تیل کے رسد کو کم کرنے کی وجہ سے تیل کی قیمت کچھ متوازن ہونے لگتی ہے۔ سعودی عرب کی طرف سے اعلان ہو جاتا ہے کہ وہ اضافی تیل منڈی میں رسد بہم پہنچائے گا۔ اس کے علاوہ عراق نے اپنے مشکلات کے اور پابندیوں کے دور میں اوپیک سے چوری چھپے منڈی میں تیل بیچا۔ ان باتوں کی وجہ سے اوپیک کا کردار بہت محدود ہو گیا ہے۔ مگر ابھی بھی مغربی مفکر اسے ایک سویا ہوا شیر سمجھتے ہیں اور اپنی حکومتوں کواس پر دباؤ برقرار رکھنے کا مشورہ دیتے ہیں۔ حال ہی میں کچھ ممالک نے تیل کی ادائیگیاں ڈالر کی جگہ یورو میں لینے کا عندیہ دیا ہے مگر فی الحال اس بات کو دبا دیا گیا ہے۔ اب تک ساری دنیا میں تیل کی ادائیگی کی شرط ہے کہ وہ صرف امریکی ڈالر میں کی جائے۔ ان سب باتوں کے باوجود اوپیک ممالک کا تیل کی تجارت میں حصہ اور ان کے تیل کے ذخائرابھی بھی اتنے ہیں کہ وہ منڈی میں قیمت کو متعین کر سکیں۔ موجودہ دور میں ایران اور وینیزویلا کے سربراہ اس کوشش میں ہیں کہ امریکہ سے آزادانہ فیصلے کیے جائیں جو ابھی تک کسی خاص کامیابی سے ھمکنار نہیں ہو سکی۔ اس کی وجوہات اوپیک ممالک میں اتفاق کا نہ ہونا ،عراقی تیل پر امریکی قبضہ اور سعودی عرب پر زبردست امریکی اثر ہیں۔

تیل کی پیداوار کی حد بندی

اوپیک۔ پیداوار اور کوٹہ (ہزار بیرل روزانہ)
ملککوٹہ(7/1/05)پیداوار (9/06)
الجیریا8941,400
انڈونیشیا1,451890
ایران4,1103,750
سعودی عرب9,0999,200
عراقاطلاق نہیں2,000
کویت2,2472,600
لیبیا1,5001,700
متحدہ عرب امارات2,4442,600
نائیجیریا2,3062,200
وینیزویلا3,2232,450
مجموعہ28,00029,484
بحوالہ ای۔ آئی۔ اے۔
[5]

اوپیک کا مستقبل

اوپیک ممالک کے پاس دنیا کے ستر فی صد تیل کے ذخائر ہیں۔ مستقبل میں اوپیک تیل کی قیمت کو متوازن رکھنے کے لیے اپنا کردار ادا کرتا رہے گا اور تیل کی عالمی منڈی کو تیل کمپنیوں کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑے گا۔ مگر اس کے ساتھ اوپیک کا بنیادی مقصد تیل کی قیمت کو بڑھانا نہیں بلکہ اسے متوازن رکھنا ہوگا۔ ماضی میں تیل کی قیمت کا ایک خاص سطح سے بڑھنے کا نتیجہ یہ نکلا کہ مغربی ممالک نے دوسرے تیل کے ذخائر تلاش کرنا شروع کر دیے اور ان اشیا میں سرمایہ کاری کی جو نسبتاً کم تیل استعمال کرتی ہیں۔ اس کے علاوہ صارفین نے توانائی کی بچت کی کوششیں کیں جس سے تیل کی طلب اور نتیجتاً تیل کی آمدنی میں کچھ کمی واقع ہوئی۔ تیل کے دوسرے متبادل بھی تلاش کیے جا رہے ہیں۔ اپنی نسبتاً بدلی ہوئی پالیسی کے ساتھ اوپیک تیل کی منڈی میں بہتر کردار ادا کر سکتی ہے۔ اوپیک کے بعض ارکان کا ارادہ یہ بھی ہے کہ خام تیل کی بجائے تیل کی ریفائنریوں اور تیل سے متعلقہ دیگر اشیا میں سرمایہ کاری کو فروغ دیا جائے۔ اس سے تیل پیدا کرنے والے ممالک کی آمدنی میں اضافہ ہوگا اور تیل سے متعلق اشیا سے پیدا ہونے والی آمدنی میں ان کا اصل حصہ بڑھے گا۔

حوالے

  1. Chapter I, Article 6 of The Statute of the organization of the Petroleum Exporting Countries (as amended)
  2. "Member Countries"۔ OPEC۔ مورخہ 25 دسمبر 2018 کو اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 29 جنوری 2017۔
  3. "OPEC 172nd Meeting concludes"۔ اوپیک (Press release)۔ 25 مئی 2017۔ مورخہ 25 دسمبر 2018 کو اصل سے آرکائیو شدہ۔
  4. بی۔بی۔سی ، جنوری 2 ، 2004 یہاں دیکھیے.
  5. بحوالہ EIA

بیرونی روابط

This article is issued from Wikipedia. The text is licensed under Creative Commons - Attribution - Sharealike. Additional terms may apply for the media files.