علی بن ابی طالب
ابو الحسن علی بن ابی طالب ہاشمی قُرشی (15 ستمبر 601ء – 29 جنوری 661ء)[4][5] پیغمبر اسلام محمد کے چچا زاد اور داماد تھے۔ عثمان بن عفان کے بعد چوتھے خلیفہ راشد کے طور پر سنہ 656ء سے 661ء تک حکمرانی کی، لیکن انہیں شیعہ مسلمانوں کے ہاں خلیفہ بلا فصل، پہلا امام اور وصی رسول اللہ سمجھا جاتا ہے۔

علی بن ابی طالب | |
---|---|
![]() | |
ابو الحسن، ابو تراب، حیدر و حیدرہ، اسد اللہ/شیر خدا، المرتضی، باب مدینہ العلم اور عام طور پر عرب میں: سیِّدُنا علی، اور عرب و عجم میں امام علی، ہند و پاک میں مولا علی، اضافی دعائیہ الفاظ (كرَّم اللہ وجہہ) اور (علیہ السلام) اور (رضی اللہ عنہ) | |
ولادت | 13 رجب 23 ق ھ بمطابق 17 مارچ 599ء مکہ مکرمہ تہامہ، شبہ جزيرہ عرب (جائے پیدائش) |
وفات | 21 رمضان 40ھ، بمطابق 27 جنوری ء كوفہ، عراق، ![]() |
محترم در | اسلام: اہل سنت و جماعت، تمام شیعہ مکاتب فکر، اباضیہ، دروزیہ |
مزار | * قصر الاِمارہ، کوفہ، ![]() |
نسب | * والد: ابو طالب بن عبد المطلب
|
بسلسلہ مضامین |
علی بن ابی طالب (امیر المؤمنین) |
---|
![]() |
نظریات
|
حیات
|
علمی میراث
|
زاویہ نظر
|
متعلقہ مضامین
|
|
ابو طالب[6] اور فاطمہ بنت اسد[7] کے ہاں پیدا ہوئے۔ روایات کے مطابق علی، مقدس ترین اسلامی شہر مکہ میں کعبہ کے اندر جائے حرمت میں پیدا ہوئے تھے۔[7][8][9] علی بچوں میں پہلے اسلام قبول کرنے والے تھے،[10][11] اور کچھ مصنفین کے مطابق پہلے مسلم تھے۔[12] ابتدائی دور میں علی نے محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی حفاظت کی[13] اور ابتدائی مسلم برادری کی جانب سے لڑی گئی تقریباً تمام جنگوں میں حصہ لیا۔ مدینہ ہجرت کرنے کے بعد انہوں نے پیغمبر اسلام کی بیٹی فاطمہ زہرا سے شادی کی۔[7] خلیفہ عثمان بن عفان کے قتل کے بعد سنہ 656ء میں صحابہ نے انہیں خلیفہ منتخب کیا تھا۔[14][15] علی نے اپنے دور خلافت میں خانہ جنگیاں دیکھیں اور سنہ 661ء میں جب وہ جامع مسجد کوفہ میں نماز پڑھ رہے تھے عبد الرحمن بن ملجم نامی ایک خارجی نے ان پر حملہ کر دیا اور وہ دو دنوں بعد شہید ہو گئے۔[16][17][18]
علی شیعوں اور سنیوں، دونوں کے ہاں سیاسی طور پر اور روحانی طور پر اہم ہیں۔[19] فرقوں کے نزدیک علی کے متعلق متعدد سوانح عمریاں، ایک دوسرے کے نزدیک نادرست ہیں، لیکن وہ اس بات پر تمام متفق ہیں کہ وہ پارسا مسلم اور قرآن و سنت پر سختی سے کاربند تھے۔[4] سنی علی کو چوتھا اور آخری خلیفہ راشد سمجھتے ہیں جبکہ شیعہ واقعہ غدیر خم کی تاویل کر کے انہیں محمد کے بعد پہلا اِمام مانتے ہیں۔ شیعوں کا یہ بھی ماننا ہے کہ علی اور دیگر شیعہ ائمہ (اہل بیت سے تمام) بھی محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے حقیقی جانشین ہیں۔ اسی اختلاف پر امت مسلمہ کو شیعہ اور سنی فرقوں میں تقسیم کیا تھا۔[7][19][20][21] علی نے مختلف غیر مسلم تنظیموں کی جانب سے پذیرائی حاصل کی ہے جیسے کہ اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کے لیے عالمی تنظیم نے ان کے طرز حکمرانی اور سماجی انصاف کی تعریف کی ہے۔[22][23][24][25]
جہاد
مدینہ میں آکر پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو مخالف گروہ نے آرام سے بیٹھنے نہ دیا۔ آپ کے وہ پیرو جو مکہ میں تھے انھیں طرح طرح کی تکلیفیں دی جانے لگیں بعض کو قتل کیا۔ بعض کو قید کیا اور بعض کو زد وکوب کیااور تکلیفیں پہنچائیں۔ پہلے ابو جہل اور غزوہ بدر کے بعد ابوسفیان کی قیادت میں مشرکینِ مکہ نے جنگی تیاریاں کیں، یہی نہیں بلکہ اسلحہ اور فوج جمع کر کے خود رسول کے خلاف مدینہ پر چڑھائی کردی، اس موقع پر رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا اخلاقی فرض تھا کہ وہ مدینہ والوں کے گھروں کی حفاظت کرتے جنھوں نے کہ آپ کوانتہائی ناگوار حالات میں پنا ہ دی تھی اور آپ کی نصرت وامداد کاوعدہ کیا تھا، آپ نے یہ کسی طرح پسند نہ کیا آپ شہر کے اندرر کر مقابلہ کریں اور دشمن کو یہ موقع دیں کہ وہ مدینہ کی پر امن ابادی اور عورتوں اور بچوں کو بھی پریشان کرسکے۔ گو آپ کے ساتھ تعدادبہت کم تھی لیکن صرف تین سو تیرہ آدمی تھے، ہتھیار بھی نہ تھے مگر آپ نے یہ طے کر لیا کہ آپ باہر نکل کر دشمن سے مقابلہ کریں گے چنانچہ پہلی لڑائی اسلام کی ہوئی۔ جو غزوہ بدر کے نام سے مشہور ہے۔ اس لڑائی میں زیادہ رسول نے اپنے عزیزوں کو خطرے میں ڈالا چنانچہ آپ کے چچا زاد بھائی عبید ہ ابن حارث ابن عبد المطلب اس جنگ میں شہید ہوئے۔ علی ابن ابو طالب علیہ السلام کو جنگ کا یہ پہلا تجربہ تھا۔ 25 برس کی عمر تھی مگر جنگ کی فتح کا سہرا علی بن ابی طالب کے سر رہا۔ جتنے مشرکین قتل ہوئے تھے ان میں سے آدھے مجاہدین کے ہاتھوں قتل ہوئے تھے اس کے بعد غزوہ احد، غزوہ خندق، غزوہ خیبر اور غزوہ حنین یہ وہ بڑی لڑائیاں ہیں جن میں علی بن ابی طالب نے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ساتھ رہ کر اپنی بے نظیر بہادری کے جوہر دکھلائے۔ تقریباًان تمام لڑائیوں میں علی بن ابی طالب کو علمداری کا عہدہ بھی حاصل رہا۔ اس کے علاوہ بہت سی لڑائیاں ایسی تھیں جن میں رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے علی بن ابی طالب کو تنہا بھیجا اورانھوں نے اکیلے ان تمام لڑائیوں میں علی بن ابی طالب نے بڑی بہادری اور ثابت قدمی دکھائی اور انتہائی استقلال، تحمّل اور شرافت نفس سے کام لیاجس کا اقرار خود ان کے دشمن بھی کرتے تھے۔ غزوہ خندق میں دشمن کے سب سے بڑے سورما عمر وبن عبد ود کو جب آپ نے مغلوب کر لیااور اس کاسر کاٹنے کے لیے اس کے سینے پر بیٹھے تو اس نے آپ کے چہرے پر لعاب دہن پھینک دیا۔ آپ کو غصہ آگیااور آپ اس کے سینے پر سے اتر ائے۔ صرف اس خیال سے کہ اگر غصّے میں اس کو قتل کیا تو یہ عمل محض خدا کی راہ میں نہ ہوگا بلکہ خواہش نفس کے مطابق ہوگا۔ کچھ دیر کے بعد آپ نے اس کو قتل کیا، اس زمانے میں دشمن کو ذلیل کرنے کے لیے اس کی لاش برہنہ کردیتے تھے مگر علی بن ابی طالب نے اس کی زرہ نہیں اُتاری اگرچہ وہ بہت قیمتی تھی۔ چنانچہ اس کی بہن جب اپنے بھائی کی لاش پر آئی تو اس نے کہا کہ کسی اور نے میرے بھائی کوقتل کیا ہوتا تو میں عمر بھر روتی مگر مجھ یہ دیکھ کر صبر آگیا کہ اس کا قاتل علی بن ابی طالب سا شریف انسان ہے جس نے اپنے دشمن کی لاش کی توہین گوارا نہیں کی۔ آپ نے کبھی دشمن کی عورتوں یا بچّوں پر ہاتھ نہیں اٹھا یا کبھی مالِ غنیمت کی طرف رخ نہیں کیا۔
![]() |
![]() بسلسلہ مضامین: |
اسلامی شریعت کے ذرائع
|
اہم شخصیات
|
تعطیلات ومناسبات
|
متعلقہ مضامین
|
علی کی زندگی کا خط وقت | |
---|---|
علی بن ابی طالب کی زندگی کے واقعات | |
مكَّہ میں | |
599ء | ولادت 13 رجب 23 ھ بمُطابق 17 مارچ |
610ء | پہلی وحی کا نزول |
613ء | دعوت ذو العشیرہ میں رسول اکرم کی دعوت اسلام کو قبول کیا (شیعہ نظریہ) |
617- 619ء | شُعب ابی طالب |
622ء | رسول اکرم کی ہجرت کی رات بستر نبی پر سوئے |
مدينہ مُنوَّرہ میں | |
622ء | نبی اکرم کی ہجرت مکہ سے یثرب اور نبی اکرم کے بھائی بنے (اخوت) |
623ء | فاطمہ زہراء سے شادی |
624ء | غزوہ كُبرى بدر مُشركین قُریش کے بڑوں کو ہلاک کیا |
625ء | ولادت حسن وفات والدہ فاطمہ بنت اسد غزوہ احد مسلمانوں کے بھاگنے پر رسول اکرم کی حفاظت کی |
626ء | ولادت حُسین |
627ء | غزوہ خندق: عمرو بن عبد ود کو ہلاک کیا |
628ء | صلح حُدیبیہ |
628ء | غزوہ خيبر ولادت زينب |
629ء | غزوہ مؤتہ |
630ء | فتح مكَّہ اور غزوہ حُنين |
631ء | مُباہلہ نجران کے نصاری |
632ء | جانشینی کا اعلان/غدير خُم (شیعہ نظریہ) |
632ء | نبی اکرم کا وصال، ان کے غسل، کفن اور دفن کا انتظام (شیعہ نظریہ) |
رسول اکرم کی وفات کے بعد | |
632ء | ابو بكر صدِّيق کی خلافت اور سقیفہ بنی ساعدہ وفات فاطمہ |
644ء | مجوسی ابو لؤلؤہ کے ہاتھوں عُمر بن خطَّاب کا قتل اور شورائے خلافت میں علی کی شمولیت |
648ء | ولادت غازی عبَّاس |
علی کی خلافت | |
656ء | علی کی خِلافت فتنوں کا آغاز واقعہ جمل |
657ء | دار الحکومت كوفہ منتقل کیا واقعہ صفين |
658-59ء | واقعہ حکمیت خوارج کا قتل |
660ء | مُعاويہ بن ابی سُفيان نے اپنی خلافت کا اعلان کیا |
661ء | مسجد كوفہ میں نماز کے دوران ایک خارجی عبد الرحمٰن بن ملجم کے حملے میں شہادت |
خدمات
جہاد سمیت اسلام اور پیغمبر اسلام کے لیے کسی کام کے کرنے میں آپ کو انکار نہ تھا۔ یہ کام مختلف طرح کے تھے رسول اکرم کی طرف سے عہد ناموں کا لکھنا، خطوط تحریر کرنا آپ کے ذمہ تھا اور لکھے ہوئے اجزائے قرآن کے امانتدار بھی آپ تھے- اس کے علاوہ یمن کی جانب تبلیغ اسلام کے لیے پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے آپ کو روانہ کیا جس میں آپ کی کامیاب تبلیغ کا اثر یہ تھا کہ سارا یمن مسلمان ہو گیا۔
شب ہجرت آپ رسول اللہ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بستر پر اپنی جان کی پروا کیے بغیر سو گئے تھے ۔ اس رات کولیلۃ المبیت کہا جاتا ہے
جب سورہ برائت نازل ہوئی تو اس کی تبلیغ کے لیے بحکم خدا آپ ہی مقرر ہوئے اور آپ نے جا کر مشرکین کو سورئہ برائت کی آیتیں سنائیں- اس کے علاوہ رسالت مآب کی ہر خدمت انجام دینے پر تیار رہتے تھے- یہاں تک کہ یہ بھی دیکھا گیا کہ رسول کی جوتیاں اپنے ہاتھ سے سی رہے ہیں علی بن ابی طالب اسے اپنے لیے باعثِ فخر سمجھتے تھے۔
اعزاز
علی بن ابی طالب کی امتیازی صفات اور خدمات کی بنا پر رسول کریم ان کی بہت عزت کرتے تھے او اپنے قول اور فعل سے ان کی خوبیوں کو ظاہر کرتے رہتے تھے۔ جتنے مناقب علی بن ابی طالب کے بارے میں احادیث نبوی میں موجود ہیں، کسی اور صحابی رسول کے بارے میں نہیں ملتے۔ مثلا آنحضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے یہ الفاظ »علی مجھ سے ہیں اور میں علی سے ہوں«۔ کبھی یہ کہا کہ »میں علم کا شہر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہے۔,, کبھی یہ کہا »تم سب میں بہترین فیصلہ کرنے والا علی ہے۔ کبھی یہ کہا»علی کو مجھ سے وہ نسبت ہے جو ہارون کو موسیٰ سے تھی۔ کبھی یہ کہا»علی مجھ سے وہ تعلق رکھتے ہیں جو روح کو جسم سے یا سر کو بدن سے ہوتا ہے۔
کبھی یہ کہ» وہ خدا اور رسول کے سب سے زیادہ محبوب ہیں،, یہاں تک کہ مباہلہ کے واقعہ میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو نفسِ رسول کا خطاب ملا۔ عملی اعزاز یہ تھا کہ مسجد میں سب کے دروازے بند ہوئے تو علی کرم اللہ وجہہ کا دروازہ کھلا رکھا گیا۔ جب مہاجرین و انصار میں بھائی چارہ کیا گیا تو حضرت علی کو پیغمبر نے اپنا دنیا واخرت میں بھائی قرار دیا اور سب سے آخر میں غدیر خم کے میدان میں ہزاروں مسلمانوں کے مجمع میں حضرت علی کو اپنے ہاتھوں پر بلند کر کے یہ اعلان فرما دیا جس کا میں مولا (مددگار، سرپرست) ہوں اس کا علی بھی مولا ہیں۔
بعدِ رسول
جس نے زندگی بھر پیغمبر کا ساتھ دیا وہ بعد رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم آپ کے جسد اطہر مبارک کو کس طرح چھوڑتا، چنانچہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی تجہیز وتکفین اور غسل وکفن کاتمام کام علی بن ابی طالب ہی کے ہاتھوں ہوا اورقبر میں آپ ہی نے رسول کو اتارا۔ اس کے علاوہ بطور خود خاموشی کے ساتھ اسلام کی روحانی اور علمی خدمت میں مصروف رہے۔ قرآن کو ترتیب ُ نزول کے مطابق ناسخ و منسوخ اور محکم اور متشابہ کی تشریح کے ساتھ مرتب کیا۔ مسلمانوں کے علمی طبقے میں تصنیف وتالیف کااور علمی تحقیق کاذوق پیدا کیااور خود بھی تفسیر اور کلام اور فقہ واحکام کے بارے میں ایک مفید علمی ذخیرہ فراہم کیا۔ بہت سے ایسے شاگرد تیار کیے جو مسلمانوں کی آئندہ علمی زندگی کے لیے معمار کا کام انجام دے سکیں، زبان عربی کی حفاظت کے لیے علم نحوکی داغ بیل ڈالی اور فن صرف اور معانی بیان کے اصول کو بھی بیان کیا اس طرح یہ سبق دیا کہ اگر ہوائے زمانہ مخالف بھی ہوا اور اقتدار نہ بھی تسلیم کیا جائے تو انسان کو گوشہ نشینی اور کسمپرسی میں بھی اپنے فرائض کو فراموش نہ کرنا چاہیے۔ ذاتی اعزاز اور منصب کی خاطر مفاد ملّی کو نقصان نہ پہنچایا جائے اور جہاں تک ممکن ہو انسان اپنی ملّت، قوم اور مذہب کی خدمت ہر حال میں کرتا رہے۔
خلافت

پچیس برس تک رسول کے بعد علی بن ابی طالب نے خانہ نشینی میں بسر کی 35ھ میں مسلمانوں نے خلافت ُ اسلامی کامنصب علی بن ابی طالب کے سامنے پیش کیا۔ آپ نے پہلے انکار کیا، لیکن جب مسلمانوں کااصرار بہت بڑھ گیا تو آپ نے اس شرط سے منظو رکیا کہ میں بالکل قران اور سنت پیغمبر کے مطابق حکومت کروں گا اور کسی رورعایت سے کام نہ لوں گا۔ مسلمانوں نے اس شرط کو منظور کیا اور آپ نے خلافت کی ذمہ داری قبول کی- مگر زمانہ آپ کی خالص مذہبی سلطنت کو برداشت نہ کرسکا، آپ کے خلاف بنی امیہ اور بہت سے وہ لوگ کھڑے ہو گئے جنھیں آپ کی مذہبی حکومت میں اپنے اقتدار کے زائل ہونے کا خطرہ تھا، آپ نے ان سب سے مقابلہ کرنااپنا فرض سمجھا اور جمل، صفین اور نہروان کی خون ریز لڑائیاں ہوئیں۔ جن میں حضرت علی بن ابی طالب نے اسی شجاعت اور بہادری سے جنگ کی جو بدر واحد و خندق وخیبر میں کسی وقت دیکھی جاچکی تھی اور زمانہ کو یاد تھی۔ ان لڑائی جھگڑوں کی وجہ سے آپ کو موقع نہ مل سکا کہ آپ جیسا دل چاہتا تھا اس طرح اصلاح فرمائیں۔ پھر بھی آپ نے اس مختصر مدّت میں اسلام کی سادہ زندگی، مساوات اور نیک کمائی کے لیے محنت ومزدوری کی تعلیم کے نقش تازہ کردئے آپ شہنشاہ ُ اسلام ہونے کے باوجود کجھوروں کی دکان پر بیٹھنا اور اپنے ہاتھ سے کھجوریں بیچنا بُرا نہیں سمجھتے تھے، پیوند لگے ہوئے کپڑے پہنتے تھے، غریبوں کے ساتھ زمین پر بیٹھ کر کھاناکھالیتے تھے۔ جو روپیہ بیت المال میں آتا تھا اسے تمام مستحقین پر برابر سے تقسیم کرتے تھے، یہاں تک کہ آپ کے سگے بھائی عقیل نے یہ چاہا کہ کچھ انہیں دوسرے مسلمانوں سے زیادہ مل جائے مگر آپ نے انکار کر دیا اور کہا کہ اگر میرا ذاتی مال ہوتا تو خیر یہ بھی ہو سکتا تھا مگر یہ تمام مسلمانوں کا مال ہے۔ مجھے حق نہیں ہے کہ میں اس میں سے کسی اپنے عزیز کو دوسروں سے زیادہ دوں، انتہا ہے کہ اگر کبھی بیت المال میں شب کے وقت حساب وکتاب میں مصروف ہوئے اور کوئی ملاقات کے لیے اکر غیر متعلق باتیں کرنے لگا تو آپ نے چراغ بھجادیا کہ بیت المال کے چراغ کو میرے ذاتی کام میں صرف نہ ہونا چاہیے۔ آپ کی کوشش یہ رہتی تھی کہ جو کچھ بیت المال میں آئے وہ جلد حق داروں تک پہنچ جائے۔ آپ اسلامی خزانے میں مال کاجمع رکھنا پسند نہیں فرماتے تھے۔
تالیفات اور احادیث
1۔ کتاب جامعہ کہ بنا بر روایت ابوبصیر،علی بن ابی طالب نے اس میں اسلامی احکام رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زبان مبارک سے لکھے اور اس میں متعدد موضوعات کے حلال اور حرام کے مسائل جمع فرمائے۔ یہ ایک ضخیم کتاب تھی اسے کتاب علی بھی کہا جاتا ہے۔
2۔ صحیفہ امام علی جس میں جامعہ مذکورہ کے علاوہ خاص احکام رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جو سے سنے تھے لکھے گئے ہیں۔
3۔ الملاحم یا صحیفةالدولة ایک اور کتاب ہے جوعلی بن ابی طالب نے زبان مبارک رسول اکرم سے سن کر ان کے لکھوانے پر تحریر فرمایا جو آنحضرت کی وفات کے بعد کے واقعات کی پیشگوئی نیز ان کی وصیتوں اور نصیحتوں پر مشتمل ہے۔
4۔ مصحف امام علی،علی بن ابی طالب نے قرآن مجید کو شأن نزول کی ترتیب سے آیات کی جمع آوری فرمائی و علما اہل سنت بھی اعتراف کرتے ہیں کہ یہ بہت قابل قدر کام ہے۔
5۔ کتاب جفر واشعار کا دیوان شعر بھی حضرت علی سے منسوب ہے۔
6۔ آثار امام علی علیه السلام میں سے ایک بہت بڑا ذخیرہ ان کی بارگاہ ربوبیت میں کی گئی دعائیں ہیں جو معارف الہی کا بہت قیمتی خزانہ ہے۔
7۔ اہم ترین اور مشہور دعائیں جیسے: دعای کمیل، دعای توسّل، دعای ابوحمزه ثمالی، صباح، جوشن وغیرہ
8۔ ان کے خطبوں کا ایک وسیع سلسلہ تھا جو اسلامی، ادبی، علمی، تاریخی، اخلاقی، سیاسی، الہی مضامین پر مشتمل ہے ایسا کلام کسی دیگر بشر سے نہیں سنا گیا۔ ان میں سے کچھ خطبے نہج البلاغۃ نامی کتاب میں چوتھی صدی کے ایک عظیم شیعہ عالم دین سید رضی (395ھ وفات 406ھ) میں جمع کیے ہیں۔
9۔ ان کے نجی یا سرکاری خطوط جو تاریخی، ادبی اور اسلامی معارف اور اقدار کے لحاظ سے بے نظیر اور نمونہ عمل ہیں۔ کچھ خطوط نہج البلاغۃ میں نقل ہوئے ہیں۔
10۔ ان کے حکیمانہ جملے اور کلمات قصار جو سمندر کو کوزے میں سموئے ہوئے ہیں۔ ان ہزاروں جملوں میں سے چند سو نہج البلاغۃ میں موجود ہیں۔
نہج البلاغۃ کی بہت سی شرحیں سنی اور شیعہ علما نے لکھی ہیں جن میں سے مشہور یہ ہیں۔ شرح محمد عبده، شرح ابن ابی الحدید، شرح قطب راوندی، شرح محمدتقی جعفری، شرح محمد دشتی وغیره۔
احادیث
بے شمار نبوی احادیث علی بن ابی طالب نے نقل فرمائی ہیں چونکہ آپ سب سے زیادہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے قریب اور ساتھ ہوتے تھے تو سب سے زیادہ ان کے فرامین سنتے تھے۔ علامہ ابن حزم اندلسی نے اپنی کتاب أسماء الصحابه و ما لكل واحد منهم من العدد میں آپ کی مرویات کی تعداد پانچ سو سینتیس لکھی ہے اہل سنّت کے علما کے بقول ان احادیث کی تعداد مختلف ہے لیکن مختلف وجوہات کی بنیاد پر صرف پچاس حدیثیں ہی اہل سنت کی کتب حدیث میں نظر آتی ہیں۔ حال ہی میں ڈاکٹر طاہرالقادری نے دعویٰ کیا ہے کہ ان کی تحقیق کے مطابق حضرت علی کی مرویات کی تعداد بارہ ہزار ہے
1۔ مسند الامام علی دو جلدوں میں جو احادیث آج کل جمع کی گئی ہیں وہ 1450 احادیث ہیں۔
امام علی علیهالسلام نے بہت سے راویوں کی تربیت فرمائی اور اسلامی معاشرے کی بہبود کے لیے ان شاگرد ہمیشہ احادیث بیان کرتے رہے جن میں سے اہم ترین حسن بن علی، حسین بن علی، محمد بن حنفیہ، عمرو بن علی، فاطمہ بنت علی، جعفر بن ہبیرہ مخزومی، عبدالله بن عباس، جابر بن عبدالله انصاری، ابورافع، و اسامہ بن زید کے نام ہیں۔ کتب رجال، میں علی بن ابی طالب کے شاگرد راویوں میں اصحاب میں سے 66 راوی اور تابعین میں سے 180 کا تذکرہ ملتا ہے۔
ان کے شاگردوں نے جو آپ کی زبان سے جاری کلمات کو لکھا ہے ان میں سے چند کتب یہ ہیں۔
1۔ القضایا و الاحکام، تألیف بریربن خضیر همدانی شرقی (شهید عاشورہ)؛
2۔ السنن و الاحکام والقضایا، تألیف ابورافع ابراہیم بن مالک انصاری (م 40)؛
3۔ قضایا امیرالمؤمنین، تألیف عبد الله بن ابی رافع؛ (امام علی کے فیصلے)
4۔ کتاب فقه، تألیف علی بن ابی رافع؛
5۔ جانوروں کے بارے کتاب، تألیف ربیعه بن سمیع؛
6۔ کتاب میثم بن یحیی تمّار کوفی (م 60)؛
7۔ کتاب الدیات، تألیف ظریف بن ناصح وغیرہ
حدیث میں ذکر
ان 10 صحابہ کرام م اجمعین کا ذکر عبدالرحمن بن عوف رضي اللہ تعالٰی عنہ کی روایت کردہ حدیث میں ہے کہ:
عبدالرحمن بن عوف رضي اللہ تعالٰی عنہ بیان کرتے ہيں کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا :
ابوبکر رضی اللہ تعالٰی عنہ جنتی ہیں، عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ جنتی ہیں، عثمان رضي اللہ تعالٰی عنہ جنتی ہيں، علی رضي اللہ تعالٰی عنہ جنتی ہیں، طلحہ رضي اللہ تعالٰی عنہ جنتی ہیں، زبیر رضي اللہ تعالٰی عنہ جنتی ہیں، عبدالرحمن رضی اللہ تعالٰی عنہ جنتی ہیں، سعد رضي اللہ تعالٰی عنہ جنتی ہيں، سعید رضی اللہ تعالٰی عنہ جنتی ہیں، ابوعبیدہ رضي اللہ تعالٰی عنہ جنتی ہیں۔[26]
شہادت
علی بن ابی طالب کو 19 رمضان40ھ ( 660ء ) کو صبح کے وقت مسجد میں عین حالتِ نماز میں ایک زہر میں بجھی ہوئی تلوار سے زخمی کیا گیا۔ جب آپ کے قاتل کو گرفتار کرکے آپ کے سامنے لائے اور آپ نے دیکھا کہ اس کا چہرہ زرد ہے اور آنکھوں سے آنسو جاری ہیں تو آپ کو اس پر بھی رحم آ گیا اور اپنے دونوں فرزندوں حضرت حسن علیہ السلام اور حضرت حسین علیہ السلام کو ہدایت فرمائی کہ یہ تمہارا قیدی ہے اس کے ساتھ کوئی سختی نہ کرنا جو کچھ خود کھانا وہ اسے کھلانا۔ اگر میں اچھا ہو گیا تو مجھے اختیار ہے میں چاہوں گا تو سزا دوں گا اور چاہوں گا تو معاف کردوں گا اور اگر میں دنیا میں نہ رہا اور تم نے اس سے انتقام لینا چاہا تو اسے ایک ہی ضرب لگانا، کیونکہ اس نے مجھے ایک ہی ضرب لگائی ہے اور ہر گز اس کے ہاتھ پاؤں وغیرہ قطع نہ کیے جائیں، اس لیے کہ یہ تعلیم اسلام کے خلاف ہے، دو روز تک علی بن ابی طالب بستر بیماری پر انتہائی کرب اور تکلیف کے ساتھ رہے آخر کار زہر کا اثر جسم میں پھیل گیا اور 21 رمضان کو نمازِ صبح کے وقت آپ کی شہادت ہوئی۔ حضرت حسن علیہ السلام و حضرت حسین علیہ السلام نے تجہیزو تکفین کی اور پشتِ کوفہ پر نجف کی سرزمین میں دفن کیے گئے۔
اولاد
آپ کے بچوں کی تعداد 27 تھی۔ حضرت سیدہ فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا سے آپ کو تین فرزند ہوئے۔ حضرت محسن، امام حسن اور امام حسین، جبکہ دو صاحبزادیاں حضرت زینب و حضرت ام کلثوم علیہما السّلام بھی حضرت سیدہ فاطمہ سلام اللہ علیہا سے تھیں۔ باقی ازواج سے آپ کو جو اولاد ہوئی، ان میں حضرت حنفیہ، حضرت عباس بن علی شامل ہیں۔ علی ابن طالب علیہ السلام کی اولاد یہ ہیں :
بیٹے
- ۔ سیدنا حسن بن علی
- ۔ سیدنا حسین بن علی
- ۔ سیدتنا زینب بنت علی
- ۔ سیدتنا ام کلثوم بنت علی
- ۔ حضرت عباس بن علی
- ۔ عمر ابن علی
- ۔ جعفر ابن علی
- ۔ عثمان ابن علی
- ۔ محمد الاکبر ( محمد بن حنفیہ)
- ۔ عبد اللہ ابن علی
- ۔ ابوبکر ابن علی
- عبید اللہ ابن علی
- یحییٰ ابن علی
- محمد اصغر ابن علی
- محمد اوسط ابن علی
بیٹیاں
- رقیہ بنت علی
- رملہ بنت علی
- نفیسہ بنت علی
- خدیجہ بنت علی
- ام ہانی بنت علی
- جمانہ بنت علی
- امامہ بنت علی
- مونا بنت علی
- سلمیٰ بنت علی[27]
حوالہ جات
- مجموع الفتاوى، ابن تيمية، (27 / 446)
- وفيات الأعيان، ابن خلكان، (4 / 55)
- تاريخ بغداد، الخطيب البغدادي، (1 / 136)
- "Alī ibn Abu Talib"۔ Encyclopædia Iranica۔ مورخہ اپریل 29, 2011 کو اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ دسمبر 16, 2010۔
- Al-Islam۔ "The Life of the Commander of the Faithful Ali Ibn Abu Talib (as)"۔ اخذ شدہ بتاریخ 6 دسمبر 2015۔
- Biographies of the Prophet's companions and their successors, Ṭabarī, translated by Ella Landau-Tasseron, pp. 37–40, Vol:XXXIX.
- Seyyed Hossein Nasr۔ "Ali"۔ Encyclopædia Britannica Online۔ Encyclopædia Britannica, Inc.۔ مورخہ 18 اکتوبر 2007 کو اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 12 اکتوبر 2007۔
- Dr Ali M Sallabi (2011)۔ Ali ibn Abi Talib (volume 1)۔ صفحات 52–53۔
- Sahih Muslim, Book 21, Hadith 57.
- Kelen 2001، صفحہ۔ 29.
- Watt 1953، صفحہ۔ xii.
- The First Muslims www.al-islam.org Retrieved 23 November 2017
- Sayed Ali Asgher Razwy۔ A Restatement of the History of Islam & Muslims۔ صفحہ 72۔
- Ashraf 2005، صفحہ۔ 119 and 120
- Madelung 1997، صفحات۔ 141–145
- Lapidus 2002، صفحہ۔ 47.
- Holt, Lambton & Lewis 1970، صفحات۔ 70–72.
- Tabatabaei 1979، صفحات۔ 50–75 and 192.
- Robert M. Gleave۔ "Ali ibn Abi Talib"۔ Encyclopaedia of Islam, THREE۔ Brill Online۔ مورخہ 2 اپریل 2013 کو اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 29 مارچ 2013۔
- Dakake 2008، صفحات۔ 34–39.
- Laura Veccia Vaglieri۔ "G̲h̲adīr K̲h̲umm"۔ Encyclopædia of Islam, Second Edition۔ Brill Online۔ مورخہ مارچ 31, 2013 کو اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ مارچ 28, 2013۔
- "'ONLY AS RIGHTS EQUALLY APPLIED CAN THEY BE RIGHTS UNIVERSALLY ACCEPTED', SECRETARY-GENERAL SAYS IN STATEMENT AT UNIVERSITY OF TEHRAN"۔ United Nations۔ United Nations۔
- "World Philosophy Day 2014 – Contribution of Ali ibn Abi Talib's thought to a culture of peace and intercultural dialogue"۔ UNESCO۔
- "Kofi Annan, former Secretary-General of the United Nations, says the caliph Ali ibn Abi Talib is the fairest governor appeared in human history after the Prophet Muhammad"۔ International Council Supporting Fair Trial and Human Rights۔ ICSFT۔ Archived at the Wayback Machine
- Rizwan Rizvi۔ "Faith Matters: Ali ibn Abi Talib: A Leader and a Noble Example for Humanity!"۔ Franklin Reporter & Advocate۔ The Franklin Reporter & Advocate, L.L.C.۔ اخذ شدہ بتاریخ 20 مارچ 2019۔
- جامع ترمذی:جلد دوم:حدیث نمبر1713
- اولادِ امجاد
بیرونی روابط
![]() |
ویکی کومنز پر علی بن ابی طالب سے متعلق سمعی و بصری مواد ملاحظہ کریں۔ |
- علی، انسائیکلو پیڈیا برٹانیکا میں مقالہ
- حضرت علی کے کچھ خصوصی خطوط
- علی بن ابی طالب نہج البلاغہ
- شیعہ مکتب فکر
- علی بن ابی طالب کی زندگی بقلم شیخ مفید در "کتاب الارشاد"
- حضرت علی کی زندگی کی معلومات کے لیے وقف موقع
- سیرت امیر المؤمنین حضرت علی ()
- اہلسنت مکتب فکر
علی بن ابی طالب چھوٹی شاخ بنو قریش پیدائش: 23 اکتوبر 598ء وفات: 28 فروری 661ء | ||
مناصب اہل تشیع | ||
---|---|---|
ماقبل محمد مہر نبوت — آخری نبی |
شیعہ مکتبہ فکر کے پہلے امام 632ء– 661ء |
مابعد حسن بن علی |
مناصب سنت | ||
ماقبل عثمان بن عفان |
اہلسنت مکتبہ فکر کے چوتھے خلیفہ راشد 565ء – 661ء |
مابعد حسن بن علی |