اصبغ بن نباتہ
اصبع بن نباتہ تمیمی حنظلی مجاشعی علی بن ابی طالب کے کوفی اصحاب میں سے تھا۔[1][2]
اصبع بن نباتہ تمیمی حنظلی مجاشعی | |
---|---|
نام | اصبع بن نباتہ |
کنیت | ابو القاسم |
مقام پیدائش | کوفہ |
وفات | دوسری صدی |
دور | گیارہویں صدی ہجری |
مذہب | اسلام |
والد | نباتہ |
پیشہ | عالم |
وجہ شہرت | علی بن ابی طالب کے مشہور صحابی |
مؤثر شخصیات | علی بن ابی طالب اور امام حسین |
نام و نسب
اصبغ بن نباتہ کا نام اصبع تھا جبکہ ان کے والد کا نام نباتہ تھا۔ ان کی کنیت ابو القاسم تھی۔ ان کا بنو حنظلہ کی شاخ مجاشع بن دارم سے تعلق تھا۔[3]
سوانح
اصبغ بن نباتہ کوفہ کا تعلق کوفہ سے تھا۔ اور یہ علی بن ابی طالب کے صحابی تھے۔[4] اصبغ کا شمار جنگ صفین کے واقعات نقل کرنے والے راویوں ہوتا ہے۔[5] جنگ جمل کے واقعات بھی ان سے منقول ہیں۔[6] بعض روایات کے مطابق یہ علی بن ابی طالب کے معتبر تابعی تھے۔[7] نصر بن المزاحم کی روایت کے مطابق اصبغ عراق کے جنگجو تھے اور ان کا علی بن ابی طالب کے سرداروں میں شمار ہوتا تھا۔[8] اصبغ کو جنگ صفین میں شرطۃ الخمیس[lower-alpha 1] کا ایک رکن تصور کیا جاتا ہے۔[9][10] علم اسماء الرجال میں بیشتر اہل سنت کے اکثر رجالی غیر موثق و ضعیف سمجھتے ہیں[11][12][13][14][15][16][17][18] انہوں نے علی بن ابی طالب کی شہادت کے واقعہ کو نقل بھی کیا تھا۔[19] مختلف علماء بشمول شیخ طوسی نے انہیں علی بن ابی طالب کے صحابی کی بجائے حسین بن علی کا صحابی بتایا ہے۔[20]
روایت حدیث
استاد
اصبغ نے ابو ایوب انصاری، عمار بن یاسر اور عمر بن خطاب سے روایت کی ہے۔[21][22]
شاگرد
مندرجہ ذیل اصبغ سے روایت کرتے ہیں :
- سعد بن طریف
- ابو حمزہ الثمالی۔
- ابو الصبّاح الکنانی۔
- خالد النوفلی
- ابو مریم
- ابو یحیىٰ
- سعد الاسکاف
- عبد اللہ بن جریر العبدی
- علی الحزوّر الغنوی
- محمد بن داود الغنوی
- محمد بن الفرات
- الحارث بن مغیرہ
- عبد الحمید الطائی[23]
وفات
مختلف راویات کے مطابق اصبغ علی بن ابی طالب کی وفات کے بعد کچھ عرصہ حیات رہے۔[24] ان کی تاریخ وفات کا کہیں کوئی ذکر موجود نہیں ہے۔
حواشی
- جو ہمیشہ علی کے تابع اور گوش بہ فرمان تھے اس گروہ کو شرطۃ الخمیس کہا جاتا ہے
حوالہ جات
- آقا بزرگ، الذریعہ۔چاپ : الثالثہ، سال چاپ : 1403–1983 م، ناشر : دار الاضواء۔بیروت، لبنان(سافٹ وئر مکتبہ اہل البیت)
- ابن حبان، محمد، المجروحین من المحدثین و الضعفاء و المتروکین، محمود ابراہیم زاید، بیروت، 1396ق۔
- انصاری تلمسانی، الجوہرہ، ج1، ص186؛ ابن حزم، جمہرہ انساب العرب، ص231.
- ابن سعد، الطبقات الکبری، ج6، ص225
- نصر بن مزاحم، وقعہ صفین، ص 322، 442.
- ابن ابیالحدید، شرح نہج البلاغہ، ج1، ص248، 263.
- طوسی، امالی، ج1، ص176.
- نصر بن مزاحم، وقعۃ صفین، ص442-443
- خلیفہ، تاریخ، ج 1، ص 231.
- کشی، معرفۃ الرجال، ص 103؛ خوئی، معجم الرجال الحدیث، ج3، ص222.
- یحییٰ بن معین، التاریخ، ج 2، ص 42
- ابن سعد، الطبقات الکبری، ج 6، ص 225
- ابن حبان، المجروحین، ج 1، ص 174
- ابن عدی، الکامل فی الضعفاء، ج 1، ص298
- جوزجانی، احوال الرجال، ص 47
- نسایی، الضعاء و المتروکین، ص 156
- دارقطنی، الضعفاء المتروکین، ص 67
- ابن حجر عسقلانی، تقریب التہذیب، ج 1، ص 81
- مفید، امالی، ص351
- طوسی، رجال، ص66.
- ذہبی، میزان الاعتدال، ج1، ص271
- مزی، تہذیب الکمال، ج3، ص308.
- الخوئی، ابو القاسم، معجم رجال الحدیث، ج4، ص135
- نجاشی، رجال، ص8