عمار بن یاسر
عمار بن یاسر، (کنیت ابو یقظان ) یاسر بن عامرکے بیٹے تھے اور صحابی بھی تھے عمار بن یاسر نے دوراسلام کے شروع میں اسلام قبول کیا۔ ان کے والد یاسر اور والدہ سمیہ اسلام کے پہلے شہیدوں میں سے تھے۔ عمار بن یاسر حبشہ کو ہجرت کرنے والوں کے سربراہ تھے۔ جنگ بدر اور دیگر جنگوں میں شریک تھے اور صلح حدیبیہ میں بھی شامل تھے۔ ان کے بارے میں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا کہ انہیں ایک باغی گروہ شہید کرے گا۔[1] آپ کی شہادت علی کے دورِ خلافت میں 37ھ میں جنگ صفین میں ہوئی جس میں آپ علی بن ابی طالب کی طرف سے لڑے اور معاویہ بن ابو سفیان کی فوج مد مقابل تھی۔
عمار ابن یاسر | |
---|---|
(عربی میں: عمار بن ياسر) | |
![]() عمار بن یاسر | |
معلومات شخصیت | |
پیدائش | سنہ 570 مکہ المعظمہ |
وفات | سنہ 657 (86–87 سال) صفین |
وجۂ وفات | لڑائی میں مقتول |
شہریت | ![]() |
والد | یاسر بن عامر |
والدہ | سمیہ بنت ابی حذیفہ |
عملی زندگی | |
نسب | یاسر بن عامر (والد) ، سمیہ بنت خیاط (والدہ) |
پیشہ | فوجی ، والی |
عسکری خدمات | |
لڑائیاں اور جنگیں | جنگ صفین ، غزوۂ بدر ، غزوہ تبوک |
حلیہ
قد بلند و بالا، آنکھیں نرگسی، سینہ چوڑا اور بدن خوب بھرا ہوا تھا شہادت کے وقت گو ان کی عمر 91 برس تھی لیکن بڑھاپے کے آثار بہت کم طاری ہوئے تھے۔[2]
ابتدائی زندگی
عمار بن یاسر کے والدین کو ابوجہل اور دیگر مشرکین کے حکم پر شہید کر دیا گیا تھا۔ ان کے والد کو تازیانے مار مار کر شہید کیا گیا۔ ان کی والدہ کے دونوں پیروں کو دو اونٹوں سے باندھ کر مختلف سمتوں میں دوڑایا گیا یہاں تک کہ ان کے جسم کے دو ٹکرے ہو گئے۔ یعنی ان کے والدین اسلام کے اولین شہداء میں سے تھے۔
شخصیت
آپ بڑے مشہور صحابی ہیں اور آپ کی حضور صل اللہ علیہ والہ وسلم سے محبت مشہور تھی۔ والدین کی شہادت کے بعد روتے ہوئے خدمت رسول میں آئے تو انہوں نے دعائے خیر کی کہ خدا آلِ یاسر میں سے کسی کو آگ کا عذاب نہ دے۔ مدینہ میں پہلی مسجد کی تعمیر کے دوران سب لوگ قریبی پہاڑیوں سے پتھر لا رہے تھے۔ اس دوران حضور صل اللہ علیہ والہ وسلم پتھر لا رہے تھے اور ان کی پیشانی مبارک سے پسینہ بہہ رہا تھا۔ یہ دیکھ کر عمار بن یاسر نے ان سے کہا کہ آپ پتھر نہ لائیں میں آپ کے حصے کا پتھر بھی لاتا رہوں گا۔ اس وقت رسولِ خدا صل اللہ علیہ والہ وسلم نے ان کے حق میں دعا فرمائی۔
جنگیں
آپ نے تمام غزوات اور بعد میں جنگ جمل اور جنگ صفین میں شرکت کی اور جنگ صفین میں شہید ہوئے۔
جنگ جمل

یہ جنگ مسلمانوں کے درمیان لڑی جانے والی پہلی جنگ تھی۔ جس میں بھائی نے بھائی کا خون بہایا۔ اس جنگ کی اصل وجہ علی بن ابی طالب کا خلیفہ ہونا تھا کیونکہ عثمان بن عفان کے قتل کے بعد علی بن ابی طالب کو خلیفہ مقرر کیا گیا اورعلی بن ابی طالب بنتے ہی شام کے گورنر معاویہ بن ابی سفیان کو معزول کر دیا، معزولی کی وجہ یہ تھی کہ معاویہ بن ابو سفیان نے عثمان بن عفان کے قصاص لینے تک علی بن ابی طالب کے ہاتھ پر بعت سے انکار کر دیا تھا، کچھ ناگزیر وجوہات کی بنا پر علی عثمان کا قصاص لینے میں کامیاب نہ ہو سکے اور بات پھر مسلمانوں کے درمیان لڑائی تک پہنچ گئی، یہ لڑائی کوفے کے باہر خریبہ کے مقام پر ہوئی اس میں طلحہ و زبیر شہید ہوئے اور کوئی دس ہزار مسلمان کام آئے۔
جنگ صفین

علی بن ابی طالب کرم اللہ وجہہ کی خالص مذہبی سلطنت کوزمانہ برداشت نہ کرسکا , آپ کے خلاف بنی امیہ اور بہت سے وہ لوگ کھڑے ہو گئے جنھیں آپ کی مذہبی حکومت میں اپنے اقتدار کے زائل ہونے کا خطرہ تھا آپ نے ان سب سے مقابلہ کرنااپنا فرض سمجھا، جمل، صفین اور نہروان کی خون ریز لڑائی ہوئی جنگ صفین جولائی 657 عیسوی میں مسلمانوں کے خلیفہ علی بن ابی طالب اور شام کے گورنر معاویہ بن ابو سفیان کے درمیان ہوئی۔ یہ جنگ دریائے فرات کے کنارے اس علاقے میں ہوئی جو اب ملک شام میں شامل ہے۔ اس جنگ میں شامی افوج کے 45000 اور خلیفہ کی افواج کے 25000 افراد مارے گئے۔ جن میں سے بیشتر اصحاب رسول تھے۔ اس جنگ کی پیشینگوئی محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کی تھی اور عمار بن یاسر کو بتایا تھا کہ اے عمار تجھ کو ایک باغی گروہ شہید کرے گا۔ خزیمہ بن ثابت انصاری بھی اسی جنگ میں شہید ہوئے۔ یہ دونوں اصحاب علی بن ابی طالب کی فوج میں شامل تھے۔
شہادت
آپ کی شہادت جنگِ صفین میں ہوئی جس میں آپ علی ابن ابی طالب کی طرف سے شریک تھے۔ یہ 9 صفر 37ھ تھی اور ان کی عمر اس وقت 93 برس تھی۔ بعض نے 91 اور بعض نے 92 سال ذکر کیا ہے۔۔[3]عمار بن یاسر بن عامر کی شہادت کے بعد علی بن ابی طالب نے آپ کی نماز جنازہ پڑھائی۔[4]
مزار پر حملہ
21 رمضان 1434ھ شب قدر کے ایام میں شدت پسند گرو نے شام میں صوبہ رقہ پر قبضہ کیا اور عمار بن یاسر اور اویس قرنی کے مزار پر بذریعہ راکٹ حملہ کیا جو مزار کے صحن میں جا لگا جس کے نتیجے مزار کی دیواریں منہدم ہوئیں۔[5]
24 جمادی الاول 1435ھ کو ایک بار پھر شدت پسند گروہ داعش نے عمار بن یاسر اور اویس القرنی کے حرم کے میناروں کو بم سے اڑا دیا۔ داعش نے دوسرے مرحلے میں 15 رجب 1438ھ کو اس مزار کو خراب کر دیا۔[6]
حوالہ جات
- صحیح مسلم، حدیث 6966 سے لیکر 6970
- سیر الصحابہ ج 3، ص 360
- ابن عبد البر، الاستعیاب فی معرفۃ الاصحاب، 1415، جلد 3، صفحہ 231۔
- ابن سعد، الطبقات الکبری، بیروت، جلد 3، صفحہ 262.
- داعش نے عمار بن یاسر اور اویس القرنی کے مزارات کو منہدم کر دیا۔ خبرگزاری مشرق۔
- شام میں عمار یاسر کا مزار خراب کر دیا گیا خبرگزاری حج و زیارت۔