جعفر صادق

جعفر الصادق یا جعفر ابن محمد الباقر (پیدائش: 20 اپریل 702ء — وفات: 3 دسمبر 765ء) اہل بیت اطہار کے بزرگ اور شیعہ اثنا عشریہ کے چھٹے امام ہیں۔فقہ جعفریہکی نسبت اِنہی کی طرف منسوب ہے۔

جعفر صادق
(عربی میں: جعفر الصادق) 
 

معلومات شخصیت
پیدائش 20 اپریل 702 [1] 
مدینہ منورہ  
وفات 3 دسمبر 765 (63 سال)[2][1] 
مدینہ منورہ  
وجۂ وفات زہر  
مدفن جنت البقیع  
شہریت سلطنت امویہ
دولت عباسیہ  
اولاد موسی کاظم ، امام اسماعیل ، محمد ابن جعفر الصادق  
والد محمد باقر  
والدہ ام فروہ  
عملی زندگی
استاذ قاسم بن محمد بن ابی بکر  
تلمیذ خاص ابو حنیفہ ، مالک بن انس ، واصل ابن عطا ، موسی کاظم  
پیشہ الٰہیات دان ، فقیہ  
شعبۂ عمل فقہ ، علم حدیث  
باب اسلام

ان کا نام جعفر، کنیت ابو عبد اللہ اور لقب صادق تھا۔ آپ امام محمد باقر کے بیٹے امام زین العابدین کے پوتے اور شہید کربلا امام حسین کے پڑپوتے تھے۔ آپ کی والدہ ام فروہ محمد بن ابوبکر کی پوتی تھیں جن کے والد قاسم بن محمد بن ابوبکر مدینہ کے سات فقہا میں سے تھے۔ آپ خود فرمایا کرتے ولدنی ابوبکر مرتین یعنی میں ابوبکر صدیق سے دو مرتبہ پیدا ہوا۔ مجدد الف ثانی فرماتے ہیں کہ آپ کا نسب صوری اور نسب معنوی صدیق اکبر سے اس واسطے آپ نے فرمایا ہے کہ علم باطن میں آپ کا انتساب اپنے نانا قاسم بن محمد بن ابوبکر سے ہے۔[3]

امام علی زین العابدین آپ کے دادا ہیں۔ نیز آپ کو تبع تابعین میں سے ہونے کا شرف بھی حاصل ہے۔ اکابرین امت امام مالک و امام ابوحنیفہ نے آپ سے احادیث روایت کی ہیں۔ آپ کی والدہ محترمہ سیدہ ام فروہ ابوبکر صدیق کی پڑپوتی بھی تھیں اور پڑنواسی بھی۔ اس لیے آپ فرمایا کرتے تھے ”ولدنی ابوبکر مرتین“ کہ مجھے ابوبکر سے دوہری ولادت ہونے کا شرف حاصل ہے۔ آپ نے فرمایا ہے کہ نیکی تین اوصاف کے بغیر کامل نہیں ہوسکتی:
تو اپنی ہر نیکی کو معمولی سمجھے۔
اس کو چھپائے۔
اس میں جلدی کرے۔[4]

ولادت

17 ربیع الاول 80ھ بمطابق 20 اپریل 702ء کو آپ کی ولادت مدینہ منورہ میں ہوئی اور وفات 25 شوال 148ھ بمطابق 765ء مدینہ منورہ میں ہوئی۔[5] اس وقت آپ کے دادا امام زین العابدین بھی زندہ تھے۔ آپ کے والد امام محمد باقر کی عمر اس وقت چھبیس برس تھی۔

نشو و نما اور تربیت

بارہ برس آپ نے اپنے جدِ بزرگوار امام زین العابدین کے زیر سایہ تربیت پائی۔ شہادت امام حسین کے بعد سے پینتیس برس امام زین العابدین کا مشغلہ عبادتِ الٰہی اور اپنے مظلوم باپ سید الشہداء کو رونے کے سوا اور کچھ نہ تھا۔ واقعہ کربلا کو ابھی صرف بائیس برس گزرے تھے۔ اس مدت میں کربلا کا عظیم الشان واقعہ اپنے تاثرات کے لحاظ سے ابھی کل ہی کی بات معلوم ہوتا تھا امام جعفر صادق نے آنکھ کھولی تو اسی غم واندوہ کی فضا میں شب و روز شہادتِ حسین کا تذکرہ اور اس غم میں نوحہ و ماتم اور گریہ و بکا کی آوازوں نے ان کے دل و دماغ پر وہ اثر قائم کیا کہ جیسے وہ خود واقعہ کربلا میں موجود تھے۔ پھر جب وہ یہ سنتے تھے کہ ان کے والد بزرگوار امام محمد باقر بھی کمسنی ہی کے دور میں ہی اس جہاد میں شریک تھے تو ان کے دل کو یہ احساس بہت صدمہ پہنچاتا ہو گا کہ خاندان عصمت کے موجودہ افراد میں ایک میں ہی ہوں جو اس قابلِ فخر یاد گار معرکہ ابتلا میں موجود نہ تھا۔ چنانچہ اس کے بعد ہمیشہ اور عمر بھر امام جعفر صادق نے جس جس طرح اپنے جدِ مظلوم امام حسین کی یاد کو قائم رکھنے کی کوشش کی ہے وہ اپنی مثال ہے۔ [حوالہ درکار]

95ھ میں بارہ برس کی عمر میں امام زین العابدین کا سایہ سر سے اٹھا۔ اس کے بعد انیس برس آپ نے اپنے والد امام محمد باقر کے دامنِ تربیت میں گزارے، یہ وہ وقت تھا جب سیاست بنی امیہ کی بنیادیں ہل چکی تھیں اور امام محمد باقر کی طرف فیوضِ علمی حاصل کرنے کے لیے خلائق رجوع کر رہی تھی۔ اس وقت اپنے پدرِ بزرگوار کی مجلسِ درس میں امام جعفر صادق ہی ایک وہ طالب علم تھے جو قدرت کی طرف سے علم کے سانچے میں ڈھال کر پیدا کیے گئے تھے۔ آپ سفر اور حضر دونوں میں اپنے والد بزرگوار کے ساتھ رہتے تھے چنانچہ ہشام بن عبدالملک کی طلب پر امام محمد باقر کے ساتھ تھے۔ دورِ امامت 114ھ میں امام محمد باقر کی وفات ہوئی۔ اب امامت کی ذمہ داریاں امام جعفر صادق پر عائد ہوئیں۔ اس وقت دمشق میں ہشام بن عبدالملک کی سلطنت تھی۔ اس زمانہ سلطنت میں ملک میں سیاسی خلفشار بہت زیادہ ہو چکا تھا۔ مظالمِ بنی امیہ کے انتقام کا جذبہ تیز ہو رہا تھا اور بنی فاطمہ میں سے متعدد افراد حکومت کے مقابلے کے لیے تیار ہو گئے تھے، ان میں نمایاں ہستی زید کی تھی جو امام زین العابدین کے بزرگ مرتبہ فرزند تھے۔ ان کی عبادت زہد و تقویٰ کا بھی ملک عرب میں شہرہ تھا۔ مستند اور مسلّم حافظِ قران تھے۔ بنی امیہ کے مظالم سے تنگ آ کر انھوں نے میدانِ جہاد میں قدم رکھا۔

امام جعفر صادق کے لیے یہ موقع نہایت نازک تھا مظالمِ بنی امیہ سے نفرت میں ظاہر ہے کہ آپ زید کے ساتھ متفق تھے پھر جناب زید آپ کے چچا بھی تھے جن کا احترام آپ پر لازم تھا مگر آپ کی دور رس نگاہ دیکھ رہی تھی کہ یہ اقدام کسی مفید نتیجہ تک نہیں پہنچ سکتا۔ اس لیے عملی طور سے آپ ان کا ساتھ دینا مناسب نہ سمجھتے تھے مگر یہ واقعہ ہوتے ہوئے بھی خود ان کی ذات سے آپ کو انتہائی ہمدردی تھی۔ آپ نے مناسب طریقہ پر انھیں مصلحت بینی کی دعوت دی مگر اہل عراق کی ایک بڑی جماعت کے اقرارِ اطاعت و وفاداری نے جناب زید کو کامیابی کی توقعات پیدا کر دیں اور آخر 120ھ میں ہشام کی فوج سے تین روز تک بہادری کے ساتھ جنگ کرنے کے بعد شہید ہوئے۔ دشمن کا جذبۂ انتقام اتنے ہی پر ختم نہیں ہوا بلکہ دفن ہو چکنے کے بعد ان کی لاش کو قبر سے نکالا گیا اور سر کو جدا کر کے ہشام کے پاس بطور تحفہ بھیجا گیا اور لاش کو دروازۂِ کوفہ پر سولی دے دی گئی اور کئی برس تک اسی طرح آویزاں رکھا گیا۔ جناب زید کے ایک سال بعد ان کے بیٹے یحیٰی ابن زید علیہ السّلام بھی شہید ہوئے۔ یقیناً ان حالات کا امام جعفر صادق علیہ السّلام کے دل پر گہرا اثر پڑ رہا تھا۔ مگر وہ جذبات سے بلند فرائض کی پابندی تھی کہ اس کے باوجود آپ نے ان فرائض کو جو اشاعت علوم اہلبیت او رنشرشریعت کے قدرت کی جانب سے آپ کے سپرد تھے برابر جاری رکھا تھا۔[حوالہ درکار]

انقلابِ سلطنت

بنی امیہ کا آخری دور ہنگاموں اور سیاسی کشمکشوں کا مرکز بن گیا تھا۔ اس کا نتیجہ یہ تھا کہ بہت جلدی جلدی حکومتوں میں تبدیلیاں ہو رہی تھی اور اسی لیے امام جعفر صادق کو بہت سی دنیوی سلطنتوں کے دور سے گزرنا پڑا۔ ہشام بن عبد الملک کے بعد ولید بن عبد الملک پھر یزید بن ولید بن عبد الملک اس کے بعد ابراہیم بن ولید بن عبد الملک اور اخر میں مروان حمار جس پر بنی امیہ کی حکومت کا خاتمہ ہو گیا۔
جب سلطنت کی داخلی کمزوریاں قہر وغلبہ کی چولیں ہلا چکی ہوں تو قدرتی بات ہے کہ وہ لوگ جو اس حکومت کے مظالم کا مدتوں نشانہ رہ چکے ہوں اور جنہیں ان کے حقوق سے محروم کرکے صرف تشدد کی طاقت سے پنپنے کا موقع نہ دیا گیا ہو، قفس کی تتلیوں کو کمزور پا کر پھڑ پھڑانے کی کوشش کریں گے اور حکومت کے شکنجے کو ایک دم توڑ دینا چاہیں گے، سوائے ایسے بلند افراد کے جو جذبات کی پیروی سے بلند ہوں۔ عام طور پر اس طرح کی انتقامی کوششوں میں مصلحت اندیشی کا دامن بھی ہاتھ سے چھوٹنے کا امکان ہے مگر وہ انسانی فطرت کا ایک کمزور پہلو ہے جس سے خاص خاص افراد ہی مستثنیٰ ہوسکتے ہیں۔

بنی ہاشم میں عام طور پر سلطنت بنی امیہ کے اس آخری دور میں اسی لیے ایک حرکت اور غیر معمولی اضطراب پایا جا رہا تھا۔ اس اضطراب سے بنی عباس نے فائدہ اٹھایا۔ انھوں نے آخری دور امویت میں پوشیدہ طریقے سے ممالکِ اسلامیہ میں ایک ایسی جماعت بنائی جس نے قسم کھائی تھی کہ ہم سلطنت کو بنی امیہ سے لے کر بنی ہاشم تک پہنچائیں گے جن کا یہ واقعی حق ہے۔ حالانکہ حق تو ان میں سے مخصوص ہستیوں ہی میں منحصر تھا جو خدا کی طرف سے نوع انسانی کی رہبری اور سرداری کے حقدار دیے گئے تھے مگر یہ وہی جذبات سے بلند انسان تھے جو موقع کی سیاسی رفتار سے ہنگامی فوائد حاصل کرنا اپنا نصب العین نہ رکھتے تھے۔ سلسلہ بنی ہاشم میں سے ان حضرات کی خاموشی قائم رہنے کے ساتھ اس ہمدردی کو جو عوام میں خاندان ہاشم کے ساتھ پائی جاتی تھی، بنی عباس نے اپنے لیے حصول سلطنت کا ذریعہ قرار دیا۔ حالانکہ انہوں نے سلطنت پانے کے ساتھ بنی ہاشم کے اصل حقداروں سے ویسا ہی یا اس سے زیادہ سخت سلوک کیا جو بنی امیہ ان کے ساتھ کرچکے تھے۔ یہ واقعات مختلف اماموں کے حالات کے مطالعہ سے آپ کے سامنے آئیں گے۔

بنی عباس میں سے سب سے پہلے محمد بن علی بن عبد اللہ بن عباس نے بنی امیہ کے خلاف تحریک شروع کی اور ایران میں مبلغین بھیجے جو مخفی طریقہ پر لوگوں سے بنی ہاشم کی وفاداری کاعہد و پیمان حاصل کریں۔ محمد بن علی کے بعد ان کے بیٹے ابراہیم قائم مقام ہوئے۔ جناب زید اور ان کے صاحبزادے جناب یحییٰ کے دردناک واقعات شہادت سے بنی امیہ کے خلاف غم وغصہ میں اضافہ ہو گیا۔ اس سے بھی بنی عباس نے فائدہ اٹھایا اور ابو سلمہ خلال کے ذریعہ سے عراق میں بھی اپنے تاثرات قائم کرنے کا موقع ملا۔ رفتہ رفتہ اس جماعت کے حلقہ اثر میں اضافہ ہوتا گیا اور ابو مسلم خراسانی کی مدد سے عراق عجم کا پورا علاقہ قبضہ میں آگیا اوربنی امیہ کی طرف سے حاکم کو وہاں سے فرار اختیار کرنا پڑا۔ 129ھ سے عراق اورخراسان وغیرہ میں سلاطین بنی امیہ کے نام خطبہ سے خارج کرکے ابراہیم بن محمد کانام داخل کر دیا گیا۔

ابھی تک سلطنت بنی امیہ یہ سمجھتی تھی کہ یہ حکومت سے ایک مقامی مخالفت ہے۔ جو ایران میں محدود ہے مگر اب جاسوسوں نے اطلاع دی کہ اس کا تعلق ابراہیم ابن محمد بن عباس کے ساتھ ہے جو مقام جابلقا میں رہتے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ تھا کہ ابراہیم کو قید کر دیا گیا اور قید خانہ ہی میں پھر ان کو قتل کرا دیا گیا۔ ان کے پس ماندگان دوسرے افراد بنی عباس کے ساتھ بھاگ کر عراق میں ابو سلمہ کے پاس چلے گئے۔ ابو مسلم خراسانی کو جو ان حالات کی اطلاع ہوئی تو ایک فوج کو عراق کی طرف روانہ کیا جس نے حکومتی طاقت کو شکست دے کر عراق کو آزاد کرا لیا۔

ابوسلمہ خلال جو وزیر آل محمد کے نام سے مشہور تھے بنی فاطمہ کے ساتھ عقیدت رکھتے تھے، انھوں نے چند خطوط اولاد رسول میں سے چند بزرگوں کے نام لکھے اور ان کو قبول خلافت کی دعوت دی۔ ان میں سے ایک خط امام جعفر صادق کے نام بھی تھا۔ سیاست کی دنیا میں ایسے مواقع اپنے اقتدار کے قائم کرنے کے لیے غنیمت سمجھے جاتے ہیں مگر وہ انسانی خود داری واستغنا کا مثالی مجمسہ تھا جس نے اپنے فرائض منصبی کے لحاظ سے اس موقع کو ٹھکرا دیا ور بجائے جواب دینے کے حقارت آمیز طریقہ پرا س خط کو آگ کی نذر کر دیا۔

ادھر کوفہ میں ابو مسلم خراسانی کے تابعین اوربنی عباس کے ہوا خواہوں نے ابوعبداللہ سفاح کے ہاتھ پر 14 ربیع الثانی 132ھ کو بیعت کرلی اور اس کو امت اسلامیہ کا خلیفہ اور فرمانروا تسلیم کر لیا۔ عراق میں اقتدار قائم کرنے کے بعد انہوں نے دمشق پر چڑھائی کردی۔ مروان حمارنے بھی بڑے لشکر کے ساتھ مقابلہ کیا مگر بہت جلد اس کی فوج کو شکست ہوئی۔ مروان نے راہ فرار اختیار کیا اور آخر میں افریقہ کی سر زمین پر پہنچ کر قتل ہوا۔ اس کے بعد سفاح نے بنی امیہ کا قتل عام کرایا۔ سلاطین بنی امیہ کی قبریں کھدوائیں اور ان لاشوں کے ساتھ عبرتناک سلوک کیے گئے۔ اس طرح قدرت کا انتقام جو ان ظالموں سے لیا جانا ضروری تھا بنی عباس کے ہاتھوں دنیا کی نگاہ کے سامنے آیا۔ 136ھ میں ابو عبد اللہ سفاح بنی عباس کے پہلے خلیفہ کا انتقال ہو گیا۔ جس کے بعداس کا بھائی ابو جعفر منصور تخت خلافت پر بیٹھا جو منصور دوانقی کے نام سے مشہور ہے۔[حوالہ درکار]

سادات پر مظالم

یہ پہلے لکھا جاچکا ہے کہ بنی عباس نے ان ہمدردیوں سے جو عوام کو بنی فاطمہ کے ساتھ تھیں ناجائز فائدہ اٹھایا تھا اور انہوں نے دنیا کو یہ دھوکا دیا تھا کہ ہم اہل بیتِ رسول کی حفاظت کے لیے کھڑے ہوئے ہیں چنانچہ انہوں نے رضائے آلِ محمد ہی کے نام پر لوگوں کو اپنی نصرت وحمایت پر آمادہ کیا تھا اور اسی کو اپنانعرہ جنگ قرار دیا تھا۔ اس لیے انھیں بر سر اقتدار آنے کے بعد اور بنی امیہ کو تباہ کرنے کے بعد سب سے بڑا اندیشہ یہ تھا کہ کہیں ہمارا یہ فریب دنیا پر کھل نہ جائے اور تحریک پیدا نہ ہو جائے کہ خلافت بنی عباس کی بجائے بنی فاطمہ کے سپرد ہونا چاہیے، جو حقیقت میں آلِ رسول ہیں۔ ابو سلمہ خلال بنی فاطمہ کے ہمدردوں میں سے تھے اس لیے یہ خطرہ تھا کہ وہ اس تحریک کی حمایت نہ کرے، لہذا سب سے پہلے ابو سلمہ کو راستے سے ہٹا یا گیا وہ باوجود ان احسانات کے جو بنی عباس سے کرچکا تھا سفاح ہی کے زمانے میں تشدد بنا اور تلوار کے گھاٹ اتارا گیا۔ ایران میں ابو مسلم خراسانی کا اثر تھا، منصور نے انتہائی مکاری اور غداری کے ساتھ اس کی زندگی کا بھی خاتمہ کر دیا۔

اب اسے اپنی من مانی کارروائیوں میں کسی بااثر اور صاحبِ اقتدار شخصیت کی مزاحمت کا اندیشہ نہ تھا لٰہذا اس کا ظلم وستم کا رخ سادات بنی فاطمہ کی طرف مڑ گیا۔ مولانا شبلی سیرت نعمان میں لکھتے ہیں۔»صرف بد گمانی پر منصور نے سادات علویین کی بیخ کنی شروع کردی۔ جو لوگ ان میں ممتاز تھے ان کے ساتھ بے رحمیاں کی گئیں۔ محمد ابن ابراہیم کہ حسن وجمال میں یگانہ روز گار تھے اور اسی وجہ سے دیباج کہلاتے تھے زندہ دیواروں میں چنوا دیے گئے۔ ان بے رحمیوں کی ایک داستان ہے جس کے بیان کرنے کو بڑا سخت دل چاہیے۔

حضرت امام جعفر صادق علیہ السّلام کے دل پر ان حالات کا بہت اثر ہوتا تھا۔ چنانچہ جب سادات بنی حسین طوق و زنجیر میں قید کرکے مدینہ سے لے جائے جا رہے تھے تو حضرت ایک مکان کی آڑ میں کھڑے ہوئے ان کی حالت کو دیکھ دیکھ کر رو رہے تھے اور فرما رہے تھے کہ افسوس مکہ و مدینہ بھی دار الامن نہ رہا۔ پھر آپ نے اولادِ انصار کی حالت پر افسوس کیا کہ انصار نے رسالت ماب کی اس عہد و پیمان پر مدینہ تشریف لانے کی دعوت دی تھی کہ ہم آپ اور آپ کی اولاد کی اس طرح حفاظت کریں کے جس طرح اپنے اہل و عیال اور جان و مال کی حفاظت کرتے ہیں مگر آج انصار کی اولاد باقی ہے اورکوئی ان سادات کی امداد نہیں کرتا، یہ فرما کر آپ بیت الشرف کی طرف واپس ہوئے اوربیس دن تک شدت سے بیمار رہے۔

ان قیدیوں میں امام حسین علیہ السّلام کے صاحبزادے عبد اللہ محض بھی تھے۔ جنہوں نے کبرسنی کے عالم میں عرصہ تک قید کی مصیبتیں اٹھائیں۔ ان کے بیٹے محمد نفسِ زکیہ نے حکومت کا مقابلہ کیا اور 145ھ میں دشمن کے ہاتھ سے مدینہ منورہ کے قریب شہید ہوئے۔ جوان بیٹے کا سر بوڑھے باپ کے پاس قید خانہ میں بھیجا گیا اور یہ صدمہ ایسا تھا جس سے عبد اللہ محض پھر زندہ نہ رہ سکے اور ان کی روح نے جسم سے مفارقت کی۔ اس کے بعد عبد اللہ کے دوسرے صاحبزادے ابراہیم بھی منصور کی فوج کے مقابلہ میں جنگ کرکے کوفہ میں شہید ہوئے۔ اسی طرح عباس ابن حسن، عمر ابنِ حسن مثنیٰ، علی و عبد اللہ فرزندانِ نفسِ زکیہ، موسیٰ اور یحییٰ برادران نفس زکیہ وغیرہ بھی بے دردی اور بے رحمی سے قتل کیے گئے۔ بہت سے سادات عمارتوں میں زندہ چنوا دیے گئے۔[حوالہ درکار]

امام کے ساتھ بدسلوکیاں

ان تمام ناگوار حالات کے باوجود جن کاتذکرہ انتہائی اختصار کے ساتھ اوپر لکھا گیا ہے امام جعفر صادق خاموشی کے ساتھ علوم اہلبیت کی اشاعت میں مصروف رہے اور اس کانتیجہ یہ تھا کہ وہ لوگ بھی بحیثیت امامت حقہ آپ کی معرفت نہ رکھتے تھے یا اسے تسلیم کرنا نہیں چاہتے تھے وہ بھی آپ کی علمی عظمت کو مانتے ہوئے آپ کے حلقہ درس میں داخل ہونے کو فخر سمجھتے تھے۔

منصور نے پہلے حضرت کی علمی عظمت کا اثر عوام کے دل سے کم کرنے کے لیے ایک تدبیر یہ کی کہ آپ کے مقابلے میں ایسے اشخاص کو بحیثیت فقیہہ اور عالم کے کھڑا کر دیا جو آپ کے شاگردوں کے سامنے بھی زبان کھولنے کی قدرت نہ رکھتے تھے اور پھر وہ خود اس کا اقرار رکھتے تھے کہ ہمیں جو کچھ ملا وہ حضرت امام جعفر صادق کی محبت کا دم بھرتا ہے اسے گرفتار کیا جائے۔

چنانچہ معلیٰ ابن خنیس ان ہی شیعوں میں سے تھے جو گرفتار کیے گئے اور ظلم وستم کے ساتھ شہید کیے گئے۔ خود حضرت امام جعفر صادق علیہ السّلامکو تقریباً پانچ مرتبہ مدینہ سے دربار شاہی میں طلب کیا گیا جو آپ کے لیے سخت روحانی تکلیف کاباعث تھا۔ یہ اور بات ہے کہ کسی بار بھی آپ کے خلاف کوئی بہانہ اسے ایسا نہ مل سکا کہ آپ کے قید یا قتل کیے جانے کا حکم دیتا۔ بلکہ اس سلسلہ میں عراق کے اندر ایک مدت کے قیام سے علوم اہلبیت علیہ السّلام کی اشاعت کا حلقہ وسیع ہوا اور اس کو محسوس کرکے منصور نے پھر آپ کو مدینہ بھجوا دیا۔ اس کے بعد بھی آپ ایذارسانی سے محفوظ نہیں رہے۔ یہاں تک کہ ایک مرتبہ آپ کے گھر میں آگ لگا دی گئی۔ قدرت خدا تھی کہ وہ آگ جلد فرو ہو گئی اور آپ کے متعلقین اور اصحاب کو کوئی صدمہ نہیں پہنچا۔[حوالہ درکار]

اخلاق واوصاف

آپ اسی عصمت کی ایک کڑی تھے جسے خداوندِ عالم نے نوعِ انسانی کے لیے نمونہ کامل بناکر ہی پیدا کیا تھا۔ ان کے اخلاق واوصاف زندگی کے ہر شعبہ میں معیاری حیثیت رکھتے تھے۔ خاص خاص جن کے متعلق مورخین نے مخصوص طور پر واقعات نقل کیے ہیں مہمان نوازی، خیروخیرات، مخفی طریقہ یاغربا کی خبر گیری، عزیزوں کے ساتھ حسن سلوک۔ عفو جرائم، صبر وتحمل وغیرہ ہیں۔

ایک مرتبہ ایک حاجی مدینہ میں وارد ہوا اور مسجد رسول میں سو گیا۔ آنکھ کھلی تو اسے شبہ ہوا کہ اس کی ایک ہزار کی تھیلی موجود نہیں۔ اس نے ادھر ادھر دیکھا، کسی کو نہ پایا۔ ایک گوشئہ مسجد میں امام جعفر صادق علیہ السّلام نماز پڑھ رہے تھے۔ وہ آپ کو بالکل نہ پہچانتا تھا۔ آپ کے پاس آکر کہنے لگا کہ میری تھیلی تم نے لی ہے۔ آپ نے فرمایا، »اس میں کیا تھا ?«اس نے کہا»ایک ہزار دینار «۔ آپنے فرمایا۔,, میرے ساتھ میرے مکان تک آؤ وہ آپ کے ساتھ ہو گیا۔ بیت الشرف پر تشریف لاکر ایک ہزار دینار اس کے حوالے کر دیے۔ وہ مسجد میں واپس آیا اور اپنا اسباب اٹھانے لگا تو خود اس کے دیناروں کی تھیلی اسباب میں نظرآئی۔ یہ دیکھ کر وہ بہت شرمندہ ہوا اور دوڑتا ہوا پھر امام کی خدمت میں ایا اور غلط خواہی کرتے ہوئے وہ ہزار دینار واپس کرنا چاہے » مگر آپ نے فرمایا ہم جو کچھ دے دیتے ہیں وہ پھرواپس نہیں لیتے۔

موجودہ زمانے میں یہ حالات سب ہی کی آنکھوں کے دیکھے ہوئے ہیں کہ جب یہ اندیشہ پیدا ہوتا ہے کہ اناج مشکل سے ملے گا تو جس کو جتنا ممکن ہو وہ اناج خرید کر رکھ لیتا ہے مگر امام جعفرصادق کے کردار کا ایک واقعہ ہے کہ ایک مرتبہ آپ نے اپنے وکیل معتب سے ارشاد فرمایا کہ غلہ روز بروز مدینہ میں گراں ہوتا جا رہا ہے۔ ہمارے ہاں کس قدر غلہ ہوگا ? معتب نے کہا کہ »ہمیں ا س گرانی اور قحط کی تکلیف کا کوئی اندیشہ نہیں ہے، ہمارے پاس غلہ کا اتنا ذخیرہ ہے کہ جو بہت عرصہ تک کافی ہوگا۔,, آپنے فرمایا۔» تمام غلہ فروخت کر ڈالو۔ اس کے بعد جو حال سب کا ہو وہ ہمارا بھی ہو۔,, جب غلہ فروخت کر دیا گیا تو فرمایا۔»اب خالص گیہوں کی روٹی نہ پکا کرو بلکہ آدھے گیہوں اور آدھے جو، جہاں تک ممکن ہو ہمیں غریبوں کا ساتھ دینا چاہیے۔

آپ کا قاعدہ تھا کہ آپ مالداروں سے زیادہ غریبوں کی عزت کرے تھے۔ مزدوروں کی بڑی قدر فرماتے تھے۔ خود بھی تجارت فرماتے تھے اور اکثر اپنے باغوں میں بہ نفس نفیس محنت بھی کرتے تھے۔ ایک مرتبہ آپ بیلچہ ہاتھ میں لیے باغ میں کام کر رہے تھے اور پسینہ سے تمام جسم تر ہو گیا۔ کسی نے کہا »یہ بیلچہ مجھے عنایت فرمائیے کہ میں یہ خدمت انجام دوں۔,, آپ نے فرمایا طلبِ معاش میں دھوپ اور گرمی کی تکلیف سہنا عیب کی بات نہیں۔,, غلاموں اورکنیزوں پر وہی مہربانی فرماتے رہتے تھے جو ا س گھرانے کی امتیازی صفت تھی۔ ا س کا ایک حیرت انگیز نمونہ یہ ہے جسے سفیان ثوری نے بیان کیا ہے کہ میں ایک مرتبہ امام جعفرصادق کی خدمت میں حاضر ہوا۔ دیکھا کہ چہرہ مبارک کارنگ متغیر ہے۔ میں نے سبب دریافت کی۔ فرمایا میں نے منع کیا تھا کہ کوئی مکان کے کوٹھے پر نہ چڑھے۔ اس وقت جو گھر میں گیا تو دیکھا کہ ایک کنیز جو ایک بچہ کی پرورش پر معیّن تھی اسے گود میں لیے زینہ سے اوپر جا رہی تھی۔ مجھے دیکھا تو ایسا خوف طاری ہوا کہ بدحواسی میں بچہ اس کے ہاتھ سے چھوٹ گیا اور صدمے سے جان بحق ہوا۔ مجھے بچے کے مرنے کااتنا صدمہ نہیں ہوا جتنا اس کا رنج ہے کہ اس کنیز پر اتنا رعب و ہراس کیوں طاری ہوا۔ پھر آپ نے اس کنیز کو پکا ر کر فرمایا۔»ڈرو نہیں، میں نے تمھیں راہ خدا میں آزاد کر دیا۔,, اس کے بعد آپ بچے کی تجہیز وتکفین کی طرف متوجہ ہوئے۔[حوالہ درکار]

اشاعت علوم



بسلسلہ شرعی علوم
علم فقہ

تمام عالم اسلامی میں آپ کی علمی جلالت کا شہرہ تھا۔ دور دور سے لوگ تحصیل علم کے لیے آپ کی خدمت میں حاضر ہوتے تھے، یہاں تک کہ آپ کے شاگردوں کی تعداد چار ہزار تک پہنچ گئی ان میں فقہ کے علمائ بھی تھے، تفیسر کے متکلمین بھی تھے اور مناظرین بھی، آپ کے دربار میں مخالفین مذہب آکر سوالات پیش کرتے تھے اور آپ کے اصحاب سے اور ان سے مناظرے ہوتے رہتے تھے جن پر کبھی کبھی نقد وت بصرہ بھی فرماتے تھے اوراصحاب کو ان کی بحث کے کمزور پہلو بتلا بھی دیتے تھے تاکہ آئندہ وہ ان باتوں کا خیال رکھیں۔ کبھی آپ خود بھی مخالفین مذہب اور بالخصوص دہریوں سے مناظرہ فرماتے تھے۔ علاوہ علوم و فقہ و کلام وغیرہ کے علوم عربیہ جیسے ریاضی اور کیمیا وغیرہ کی بھی بعض شاگردوں کوتعلیم دی تھی۔ چنانچہ آپ کے اصحاب میں سے جابر بن حیان طرسوسی سائنس اور ریاضی کے مشہور امام فن ہیں جنھوں نے چار سو رسالے امام جعفرصادق کے افادات کو حاصل کرکے تصنیف کیے۔ آپ کے اصحاب میں سے بہت سے بڑے فقہا تھے جنہوں نے کتابیں تصنیف کیں جن کی تعداد سینکڑوں تک پہنچتی ہے۔[حوالہ درکار]

شہادت

ایسی مصروف زندگی رکھنے والے انسان کو جاہ سلطنت حاصل کرنے کی فکروں سے کیا مطلب؟ مگر آپ علمی مرجعیّت اور کمالات کی شہرت سلطنت وقت کے لیے ایک مستقل خطرہ محسوس ہوتی تھی۔ جب کہ یہ معلوم تھا کہ اصلی خلافت کے حقدار یہی ہیں جب حکومت کی تمام کوششوں کے باوجود کوئی بہانہ اسے آپ کے خلاف کسی کھلے ہوئے اقدام اور خونریزی کا نہ مل سکا تو آخر خاموش حربہ زہر کا اختیار کیا گیا اور زہر آلود انگور حاکم مدینہ کے ذریعہ سے آپ کی خدمت میں پیش کیے گئے، جن کے کھاتے ہی زہر کا اثر جسم میں سرایت کر گیا اور 15 شوال 148ھ میں 56 سال کی عمر میں شہادت پائی۔ آپ کے فرزند اکبر اور جانشین امام موسیٰ کاظم علیہ السّلام نے تجہیز وتکفین کی اور نماز جنازہ پڑھائی او جنت البقیع کے اس احاطہ میں جہاں اس سے پہلے امام حسن، امام زین العابدین اورامام محمد باقر دفن ہوچکے تھے آپ کو بھی دفن کیا گیا [حوالہ درکار] آپ اہل السنۃ والجماعت کے پیشوا بالخصوص طریقہ عالیہ نقشبندیہ کے سالار پیر طریقت ہیں۔ آپکی ولادت8 رمضان المبارک 80 ہجری کو مدینہ طیبہ میں ہوئی اور 15 رجب المرجب 145ہجری کو مدینہ طیبہ ہی میں انتقال فرمایا[4][6]

مزید دیکھیے

حوالہ جات

  1. ایس این اے سی آرک آئی ڈی: https://snaccooperative.org/ark:/99166/w6736qj5 — بنام: Ja'far al-Sadiq — اخذ شدہ بتاریخ: 9 اکتوبر 2017
  2. جی این ڈی- آئی ڈی: https://d-nb.info/gnd/118680900 — اخذ شدہ بتاریخ: 15 اکتوبر 2015 — اجازت نامہ: CC0
  3. تذکرہ مشائخ نقشبندیہ نور بخش توکلی صفحہ 57، مطبوعہ: مشتاق بک کارنر لاہور
  4. جلوہ گاہِ دوست
  5. جعفر الصادق - ويكيبيديا، الموسوعة الحرة
  6. جہان امام ربانی،اقلیم ہشتم،صفحہ 377،امام ربانی فاؤنڈیشن کراچی
فقہی ائمہ کرام بلحاظ ترتیب زمانی ولادت
ترتیبنام اماممکتبہ فکرسال و جائے پیدائشسال و جائے وفاتتبصرہ
1 ابو حنیفہ اہل سنت 80ھ ( 699ء ) کوفہ 150ھ ( 767ء ) بغداد فقہ حنفی
2 جعفر صادق اہل تشیع 83ھ ( 702ء ) مدینہ 148ھ ( 765ء ) مدینہ فقہ جعفریہ، کتب اربعہ
3 مالک بن انس اہل سنت 93ھ ( 712ء ) مدینہ 179ھ ( 795ء ) مدینہ فقہ مالکی، موطا امام مالک
4 محمد بن ادریس شافعی اہل سنت 150ھ ( 767ء ) غزہ 204ھ ( 819ء ) فسطاط فقہ شافعی، کتاب الام
5 احمد بن حنبل اہل سنت 164ھ ( 781ء ) مرو 241ھ ( 855ء ) بغداد فقہ حنبلی، مسند احمد بن حنبل
6 داود ظاہری اہل سنت 201ھ ( 817ء ) کوفہ 270ھ ( 883ء ) بغداد فقہ ظاہری،
This article is issued from Wikipedia. The text is licensed under Creative Commons - Attribution - Sharealike. Additional terms may apply for the media files.