ام سلمہ
ام المومنین ہند بنت ابی امیہ (عربی: هند بنت أبي أمية) (پیدائش: 602ء — وفات: 683ء)، ام سلمہ ان کی کنیت اور اسی سے مشہور ہیں، آپحضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زوجہ تھیں۔
ام سلمہ | |
---|---|
![]() | |
معلومات شخصیت | |
پیدائش | سنہ 596 مکہ |
وفات | سنہ 683 (86–87 سال) مدینہ منورہ |
مدفن | جنت البقیع |
شہریت | ![]() |
شوہر | ابو سلمہ عبد اللہ ابن عبد الاسد محمد بن عبداللہ (629–632) |
اولاد | زینب بنت ابی سلمہ |
نام و نسب
ہند نام، ام سلمہ کنیت، قریش کے خاندان مخزوم سے ہیں، سلسلہ نسب یہ ہے ہند بنت ابی امیہ سہیل بن مغیرہ بن عبد اللہ بن عمر بن مخزوم، والدہ بنو فراص سے تھیں اور ان کا سلسلہ نسب یہ ہے، عاتکہ بنت عامر بن ربیعہ بن مالک بن جذیمہ بن علقمہ بن جذل الطعان ابن فراس بن غنم بن مالک بن کنانہ، ابو امیہ (ام سلمہ کے والد) مکہ کے مشہور مخیر اور فیاض تھے، سفر میں جاتے تو تمام قافلہ والوں کی کفالت خود کرتے تھے اسی لیے زاد الراکب کے لقب سے مشہور تھے۔[1] ام سلمہ نے انہی کی آغوش تربیت میں نہایت ناز و نعمت سے پرورش پائی۔
حلیہ
اصابہ میں ہے، "ام سلمہ نہایت حسین تھیں۔" ابن سعد[2] نے روایت کی ہے کہ جب عائشہ کو ان کے حسن کا حال معلوم ہوا تو سخت پریشان ہوئیں۔[ح 1] ام سلمہ کے بال نہایت گھنے تھے۔[3]
نکاح
عبد اللہ بن عبد الاسد سے جو زیادہ تر ابو سلمہ کے نام سے مشہور ہیں اور جو ام سلمہ کے چچا زاد بھائی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے رضاعی بھائی تھے، نکاح ہوا۔
اسلام
آغاز نبوت میں اپنے شوہر کے ساتھ ایمان لائیں۔
ہجرت حبشہ
اور ان ہی کے ساتھ حبشہ کی طرف ہجرت کی، حبشہ میں کچھ زمانہ تک قیام کر کے مکہ واپس آئیں اور یہاں سے مدینہ ہجرت کی، ہجرت میں ان کو یہ فضیلت حاصل ہے کہ اہل سیر کے نزدیک وہ پہلی عورت ہیں جو ہجرت کر کے مدینہ آئیں۔
ہجرت مدینہ
ہجرت کا واقعہ نہایت عبرت انگیز ہے، ام سلمہ اپنے شوہر کے ہمراہ ہجرت کرنا چاہتی تھیں (ان کا بچہ سلمہ بھی ساتھ تھا) لیکن (ام سلمہ کے) قبیلہ نے مزاحمت کی تھی، اس لیے ابو سلمہ ان کو چھوڑ کر مدینہ چلے گئے تھے اور یہ اپنے گھر واپس آ گئیں تھیں (ادھر سلمہ کو ابو سلمہ کے خاندان والے ام سلمہ سے چھین لے گئے) اس لیے ام سلمہ کو اور بھی تکلیف تھی، چنانچہ روزانہ گھبرا کر گھر سے نکل جاتیں اور ابطح میں بیٹھ کر رویا کرتیں۔ سات آٹھ دن تک یہی حالت رہی اور خاندان کے لوگوں کو احساس تک نہ ہوا۔ ایک دن ابطح سے ان کے خاندان کا ایک شخص نکلا اور ام شلمہ کو روتے دیکھا تو اس کا دل بھر آیا گھر آکر لوگوں سے کہا کہ" اس غریب پر ظلم کیوں کرتے ہو، اس کو جانے دو اور اس کا بچہ اس کے حوالے کردو،" روانگی کی اجازت ملی تو بچے کو گود میں لیکر اونٹ پر سوار ہو گئیں اور مدینہ کا راستہ لیا، چونکہ وہ بالکل تنہا تھیں، یعنی کوئی مرد ساتھ نہ تھا، تنعیم میں عثمان بن طلحہ (کلید بردار کعبہ) کی نظر پڑی، بولا "کدھر کا قصد ہے؟" کہا "مدینے کا" پوچھا کوئی ساتھ بھی ہے، کہا "خدا اور یہ بچہ،" عثمان نے کہا "یہ نہیں ہو سکتا تم تنہا کبھی نہیں جا سکتیں" یہ کہ کر اونٹ کی مہار پکڑی اور مدینہ کی طرف روانہ ہوا، راستہ میں جب کہیں ٹھہرتا تو اونٹ کو بٹھا کر کسی درخت کے نیچے چلا جاتا اور ام سلمہ اتر پڑتیں، روانگی کا وقت آتا تو اونٹ پر کجادہ رکھ کر پرے ہٹ جاتا اور ام سلمہ سے کہتا کہ "سوار ہو جاؤ" ام سلمہ فرماتی ہیں کہ میں نے ایسا شریف آدمی کبھی نہیں دیکھا، غرض مختلف منزلوں پر قیام کرتا ہوا۔ مدینہ لایا، قبا کی آبادی پر نظر پڑی تو بولا "اب تم اپنے شوہر کے پاس چلی جاؤ، وہ یہیں مقیم ہیں" یہ ادھر روانہ ہوئیں اور عثمان نے مکہ کا راستہ لیا۔[4] قبا پہنچیں تو لوگ ان کا حال پوچھتے تھے اور جب یہ اپنے باپ کا نام بتاتیں تو ان کو یقین نہیں آتا تھا[ح 2] اور ام سلمہ مجبوراً خاموش ہوتی تھیں، لیکن جب کچھ لوگ حج کے ارادہ سے مکہ روانہ ہوئے اور انہوں نے اپنے گھر رقعہ بھجوایا تو اس وقت لوگوں کو یقین ہوا کہ وہ واقعی ابو امیہ کی بیٹی ہیں، ابو امیہ قریش کے چونکہ نہایت مشہور اور معزز شخص تھے، اس لیے ام سلمہ بڑی وقعت کی نگاہ سے دیکھی گئیں۔[5]
نکاح ثانی اور خانگی حالات
کچھ زمانہ تک شوہر کا ساتھ رہا، ابو سلمہ بڑے شہ سوار تھے، بدر اور احد میں شریک ہوئے، غزوہ احد میں چند زخم کھائے، جن کے صدمہ سے جانبر نہ ہو سکے، جمادی الثانی سنہ 4 ہجری میں ان کا زخم پھٹا اور اسی صدمہ سے وفات پائی۔[6] ام سلمہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پہنچیں اور وفات کی خبر سنائی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود ان کے مکان پر تشریف لائے، گھر میں کہرام مچا تھا، ام سلمہ کہتی تھیں، "ہائے غربت میں یہ کیسی موت ہوئی" آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا "صبر کرو، ان کی مغفرت کی دعا مانگو اور یہ کہو کہ خداوندا! ان سے بہتر ان کا جانشین عطا کر" اس کے بعد ابو سلمہ کی لاش پر تشریف لائے اور جنازہ کی نماز نہایت اہتمام کے ساتھ پڑھائی گئی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نو تکبیریں کہیں، لوگوں نے نماز کے بعد پوچھا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ کو سہو تو نہیں ہوا؟ فرمایا یہ ہزار تکبیروں کے مستحق تھے، وفات کے وقت ابو سلمہ کی آنکھیں کھلی رہ گئی تھیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود دست مبارک سے آنکھیں بند کیں اور ان کی مغفرت کی دعا مانگی ابو سلمہ کی وفات کے بعد ام سلمہ حاملہ تھیں، وضع حمل کے بعد عدت گزر گئی تو ابوبکر صدیق نے نکاح کا پیغام دیا، لیکن ام سلمہ نے انکار کر دیا، ان کے بعد عمر فاروق آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام لے کر پہنچے، ام سلمہ نے کہا مجھے چند عذر ہیں، میں سخت غیور ہوں، صاحب عیال ہوں، میرا سن زیادہ ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان زخمتوں کو گوارا فرمایا، ام سلمہ کو اب عذر کیا ہو سکتا تھا؟ اپنے لڑکے سے (جن کا نام عمر تھا) کہا اٹھو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے میرا نکاح کراؤ۔[7] شوال سنہ 4 ہجری کی اخیر تاریخوں میں یہ تقریب انجام پائی، ام سلمہ کو ابو سلمہ کی موت سے جو شدید صدمہ ہوا تھا، خداوند تعالی نے اس کو ابدی مسرت میں تبدیل کر دیا، سنن ابن ماجہ میں ہے، "جب ابو سلمہ نے وفات پائی تو میں نے وہ حدیث یاد کی جس کو وہ مجھ سے بیان کیا کرتے تھے تو میں نے دعا شروع کی اور جب میں یہ کہنا چاہتی کہ خداوندا! مجھے ابو سلمہ سے بہتر کون مل سکتا ہے لیکن میں نے دعا کو پڑھنا شروع کیا تو ابو سلمہ کے جانشین آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہوئے۔" آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو دو چکیاں، گھڑا اور چمڑے کا تکیہ جس میں خرمے کی چھال بھری تھی، عنایت فرمایا، یہی سامان اور بیبیوں کو بھی عنایت ہوا تھا۔[8] بہت حیادار تھیں، ابتدا جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم مکان پر تشریف لاتے تو ام سلمہ فرط غیرت سے لڑکی (زینب) کو گود میں بٹھا لیتیں، آپ یہ دیکھ کر واپس جاتے، عمار بن یاسر کو جو ام سلمہ کے رضاعی بھائی تھے، معلوم ہوا تو بہت ناراض ہوئے اور لڑکی کو چھین لے گئے۔[9] لیکن بعد میں یہ بات ختم ہو گئی اور جس طرح دوسری بیبیاں رہتی تھیں وہ بھی رہنے لگیں، نکاح سے قبل آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عائشہ سے ان کا ذکر کیا تو عائشہ کو بڑا رشک ہوا، طبقات ابن سعد میں ان سے جو روایت منقول ہے اس میں یہ فقرہ بھی ہے "یعنی مجھ کو سخت غم ہوا۔"[10] آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان سے بے حد محبت تھی، یہی وجہ ہے کہ ایک موقع پر جب تمام ازواج مطہرات کو (سوا عائشہ کے) حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں کچھ عرض کرنا تھا، تو انہوں نے ام سلمہ کو ہی اپنا سفیر بنا کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بھیجا، صحیح بخاری میں ہے کہ ازواج مطہرات کے دو گروہ تھے، ایک میں عائشہ، حفصہ، صفیہ، سودہ شامل تھیں، دوسرے میں ام سلمہ اور باقی ازواج مطہرات تھیں۔ چونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم عائشہ کو زیادہ محبوب رکھتے تھے۔ اس لیے لوگ ان ہی کی باری میں ہدیہ بھیجتے تھے، ام سلمہ کی جماعت نے ان سے کہا، عائشہ کی طرح ہم بھی سب کی بھلائی کی خواہاں ہیں، اس بنا پر رسول صلی اللہ علیہ وسلم جس کے بھی مکان میں ہوں۔ لوگوں کو ہدیہ بھیجنا چاہیے، ام سلمہ نے آپ سے یہ شکایت کی تو آپ نے دو مرتبہ اعراض فرمایا، تیسری مرتبہ کہا "ام سلمہ! عائشہ کے معاملے میں مجھے اذیت نہ پہنچاؤ، کیونکہ ان کے سوا تم میں کوئی بیوی ایسی نہیں ہے، جس کے لحاف میں میرے پاس وحی آئی ہو۔"[11] ام سلمہ نے کہا "میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اذیت پہنچانے سے پناہ مانگتی ہوں۔" ام سلمہ کے گھر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم شب باش ہوتے تو ان کا بچھونا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی جا نماز کے سامنے بچھتا تھا (آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھا کرتے تھے اور یہ سامنے ہوتی تھیں)۔[12] آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خیال کا بہت خیال رکھتی تھیں، سفینہ جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مشہور غلام ہیں، دراصل ام سلمہ کے غلام تھے، ان کو آزاد کیا تو اس شرط پر کہ جب تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم زندہ ہیں تم پر ان کی خدمت لازمی ہوگی۔[13]
عام حالات
ام سلمہ کے مشہور واقعات زندگی یہ ہیں، غزوہ خندق میں اگرچہ وہ شریک نہ تھیں، تاہم اس قدر قریب تھیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی گفتگو اس طرح سنتی تھیں فرماتی ہیں کہ مجھے وہ وقت خود یاد ہے کہ جب سینۂ مبارک غبار سے اٹا ہوا تھا اور آپ لوگوں کو اینٹیں اٹھا اٹھا کر دیتے اور اشعار پڑھ رہے تھے کہ دفعۃً عمار بن یاسر پر نظر پڑی فرمایا "(افسوس) ابن سمیہ! تجھ کو ایک باغی گروہ قتل کرے گا۔ تو ان کو جنت کی طرف بلائے گا وہ گروہ جہنم کی طرف بلانے والا ہوگا"[14] محاصرہ بنو قریظہ سنہ 5 ہجری میں یہود سے گفتگو کرنے کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو لبابہ کو بھیجا تھا، اثنائے مشورہ میں ابو لبابہ نے ہاتھ کے اشارے سے بتلایا کہ تم لوگ قتل ہو جاؤ گے، لیکن بعد میں اس کو افشائے راز سمجھ کر اس قدر نادم ہوئےکہ مسجد کے ستون سے اپنے آپکو باندھ لیا، چند دنوں تک یہی حالت رہی پھر توبہ قبول ہوئی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ام سلمہ کے مکان میں تشریف فرما تھے کہ صبح کو مسکراتے ہوئے اٹھے تو بولیں "خدا آپ کو ہمیشہ ہنسائے، اس وقت ہنسنے کا کیا سبب ہے؟" فرمایا "ابو لبابہ کی توبہ قبول ہو گئی" عرض کی "تو کیا میں ان کو یہ مژدہ سنا دوں" فرمایا "ہاں اگر چاہو" ام سلمہ اپنے حجرہ کے دروازہ پر کھڑی ہوئیں اور پکار کر کہا "ابو لبابہ مبارک ہو تمہاری توبہ قبول ہو گئی" اس آواز کا کانوں میں پڑنا تھا کہ تمام مدینہ امنڈ آیا۔ [15] اسی سنہ میں آیت حجاب نازل ہوئی اس سے پیشتر ازواج مطہرات بعض دور کے اعزہ و اقارب کے سامنے آیا کرتی تھیں، اب خاص خاص اعزہ کے سوا سب سے پردہ کرنے کا حکم ہوا۔ عبد اللہ بن ام مکتوم قبیلہ قریش کے ایک معزز صحابی اور بارگاہ نبوی کے مؤذن تھے اور چونکہ نابینا تھے، اس لیے ازواج مطہرات کے حجروں میں آیا کرتے تھے، ایک دن آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ام سلمہ اور میمونہ سے فرمایا، ان سے فرمایا، "ان سے پردہ کرو" بولیں "وہ تو نابینا ہیں" فرمایا "تم تو نابینا نہیں ہو، تم تو انہیں دیکھتی ہو۔"[16] صلح حدیبیہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھیں، صلح کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ لوگ حدیبیہ میں قربانی کریں، لیکن لوگ اس قدر دل شکستہ تھے کہ ایک شخص بھی نہ اٹھا یہاں تک کہ جیسا کہ صحیح بخاری میں ہے، تین دفعہ بار بار کہنے پر بھی ایک شخص بھی آمادہ نہ ہوا،[ح 3] آپ صلی اللہ علیہ وسلم گھر میں تشریف لے گئے اور ام سلمہ سے شکایت کی، انہوں نے عرض کی "آپ کسی سے کچھ نہ فرمائیں بلکہ باہر نکل کر خود قربانی کریں اور احرام اتارنے کے لیے بال منڈوائیں" آپ نے باہر آکر قربانی کی اور بال منڈوائے اب جب لوگوں کو یقین ہو گیا کہ اس فیصلہ میں تبدیلی نہیں ہو سکتی تو سب نے قربانیاں کیں اور احرام اتارا، ہجوم کا یہ حال تھا کہ ایک دوسرے پر ٹوٹ پڑتا تھا اور عجلت اس قدر تھی کہ ہر شخص حجامت بنانے کی خدمت انجام دے رہا تھا۔[17] ام سلمہ کا یہ خیال علم النفس کے ایک بڑے مسئلہ کو حل کرتا ہے اور اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جمہور کی فطرت شناسی میں ان کو کس درجہ کمال حاصل تھا، جوینی فرمایا کرتے تھے کہ صنف نازک کی پوری تاریخ اصابت رائے کی ایسی عظیم الشان مثال نہیں پیش کر سکتی۔[18] غزوہ خیبر میں شریک تھیں، مرحب کے دانتوں پر جب تلوار پڑی تو کرکراہٹ کی آواز ان کے کانوں میں آئی تھی۔[19] سنہ 9 ہجری میں ایلاء کا واقعہ پیش آیا، عمر نے حفصہ کو تنبیہ کی تو ام سلمہ کے پاس بھی آئے وہ ان کی عزیز ہوتی تھیں، ان سے بھی گفتگو کی، ام سلمہ نے جواب دیا:[20] "عمر تم ہر معاملہ میں دخل دینے لگے یہاں تک کہ اب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کی ازواج کے معاملات میں بھی دخل دیتے ہو۔" چونکہ جواب نہایت خشک تھا، اس لیے عمر چپ ہو گئے اور اٹھ کر چلے آئے، رات کو یہ خبر مشہور ہوئی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ازواج کو طلاق دے دی صبح کو جب عمر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئے اور تمام واقعہ بیان کیا جب ام سلمہ کا قول نقل کیا تو آپ مسکرائے، حجۃ الوداع میں جو سنہ 10 ہجری میں ہوا۔ اگرچہ ام سلمہ علیل تھیں، تاہم ساتھ آئیں، نبہا (غلام) اونٹ کی مہار تھامے تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب غلام کے پاس اس قدر مال موجود ہو کہ وہ اس کو ادا کر کے آزاد ہو سکتا ہو تو اس سے پردہ ضروری ہو جاتا ہے۔[21] طواف کے متعلق فرمایا کہ جب نماز فجر ہو، تم اونٹ پر سوار ہو کر طواف کرو چنانچہ ام سلمہ نے ایسا ہی کیا۔[22] سنہ 11 ہجری میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم علیل ہوئے، مرض نے طول کھینچا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم عائشہ کے مکان میں منتقل ہو گئے، ام سلمہ اکثر آپ کو دیکھنے کے لیے جایا کرتی تھیں، ایک دن طبیعت زیادہ علیل ہوئی تو ام سلمہ چیخ اٹھیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع کیا کہ مسلمانوں کا شیوہ نہیں۔[23] ایک دن مرض میں اشتداد ہوا تو ازواج نے دوا پلانی چاہی، چونکہ گوارا نہ تھی، آپ نے انکار فرمایا، لیکن جب غشی طاری ہو گئی تو ام سلمہ اور اسماء بنت عمیس نے دوا پلا دی۔[24][ح 4] اسی زمانہ میں ایک روز ام سلمہ اور ام حبیبہ نے جو حبشہ ہو آئی تھیں، وہاں کے مسیحی عبادت گاہو کا (جو غالباً کاتھولک گرجے ہوں گے) اور ان کے مجسموں اور تصویروں کا تذکرہ کیا، آپ نے فرمایا۔ ان لوگوں میں جب کوئی نیک مرتا ہے تو اس کے مقبرہ کو عبادت گاہ بنا لیتے ہیں اور اس کا بت بنا کر اس میں کھڑا کرتے ہیں، قیامت کے روز خدائے عزوجل کی نگاہ میں یہ لوگ بدترین مخلوق ہوں گے[25] وفات سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فاطمہ سے باتیں کی تھیں، عائشہ اسی وقت بے تابانہ پوچھنے لگیں، لیکن ام سلمہ نے توقف کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد پوچھا۔[26] سنہ 61 ہجری میں حسین بن علی نے شہادت پائی، ام سلمہ نے خواب میں دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے ہیں، سر اور ریش مبارک غبار آلود ہے پوچھا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کیا حال ہے، ارشاد ہوا، "حسین کے مقتل سے واپس آ رہا ہوں" ام سلمہ بیدار ہوئیں تو آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔[27] اسی حالت میں زبان سے نکلا اہل عراق نے حسین کو قتل کیا، خدا ان کو قتل کرے اور حسین کو ذلیل کیا خدا ان لوگوں پر لعنت کرے۔[28] سن 63 ہجری میں واقعہ حرہ کے بعد شامی لشکر مکہ گیا، جہاں ابن زبیر پناہ گزیں تھے، چونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک حدیث میں ایسے لشکر کا تذکرہ فرمایا تھا، بعض کو شبہ ہوا اور ام سلمہ سے دریافت کیا بولیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا ہے کہ ایک شخص مکہ میں پناہ لے گا، اس کے مقابلہ میں جو لشکر آئے گا بیاباں میں وہیں دھنس جائے گا۔ ام سلمہ سے پوچھا جو لوگ جبراً شریک کیے گئے ہوں گے وہ بھی؟ فرمایا ہاں وہ بھی لیکن قیامت میں ان کی نیتوں کے مطابق اٹھیں گے (ابو جعفر) فرماتے تھے کہ یہ واقعہ مدینہ کے میدان میں پیش آئے گا۔[29]
فضل و کمال
علمی حیثیت اگرچہ تمام ازواج بلند مرتبہ تھیں، تاہم عائشہ اور ام سلمہ کا ان میں کوئی جواب نہیں تھا، چنانچہ محمود بن لبید کہتے ہیں،[30] "آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج احادیث کا مخزن تھیں، تاہم عائشہ اور ام سلمہ کا ان میں کوئی حریف مقابل نہ تھا۔" مروان بن حکم ان سے مسائل دریافت کرتا اور علانیہ کہتا تھا، "آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج کے ہوتے ہوئے ہم دوسروں سے کیوں پوچھیں۔"[31]
ابو ہریرہ اور ابن عباس دریائے علم ہونے کے باوجود ان کے دریائے فیض سے مستغنی نہ تھے۔[32] تابعین کرام کا ایک بڑا گروہ ان کے آستانہ فضل پر سربر تھا۔ قرآن اچھا پڑھتیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے طرز پر پڑھ سکتی تھیں، ایک مرتبہ کسی نے پوچھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کیونکر قرأت کرتے تھے؟ بولیں ایک ایک آیت الگ الگ کر کے پڑھتے تھے اس کے بعد خود پڑھ کر بتلا دیا۔[33]
حدیث میں عائشہ کے سوا ان کا کوئی حریف نہ تھا، ان سے 378 روایتیں مروی ہیں۔ اس بنا پر وہ محدثین صحابہ کے تیسرے طبقہ میں شامل ہیں۔ حدیث سننے کا بڑا شوق تھا۔ ایک دن بال گوندوا رہی تھیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ دینے کے لیے کھڑے ہوئے زبان مبارک سے ایھا الناس (لوگو!) کا لفظ نکلا تو فوراً بال باندھ کر اٹھ کھڑی ہوئیں اور کھڑے ہو کر پورا خطبہ سنا،[34]
مجتہد تھیں، صاحبِ اصابہ نے ان کے تذکرہ میں لکھا ہے، "یعنی وہ کامل العقل اور صاحب الرائے تھیں۔"[35] ابن قیم نے لکھا ہے کہ "ان کے فتاویٰ اگر جمع کیے جائیں تو ایک چھوٹا سا رسالہ تیار ہو سکتا ہے۔"[36] ان کے فتاوی کی ایک خاص خصوصیت یہ ہے کہ وہ عموماً متفق علیہ ہیں اور یہ ان کی دقیقہ رسی اور نقطہ سنجی کا کرشمہ ہے، ان کی نکتہ سنجی پر ذیل کے واقعات شاہد ہیں۔
عبد اللہ بن زبیر عصر کے بعد دو رکعت نماز پڑھا کرتے تھے، مروان نے پوچھا آپ یہ نماز کیوں پڑھتے ہیں؟ بولے آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی پڑھتے تھے، چونکہ انہوں نے یہ حدیث عائشہ کے سلسلہ سے سنی تھی، مروان نے ان کے پاس تصدیق کے لیے آدمی بھیجا، انہوں نے کہا مجھ کو ام سلمہ سے یہ حدیث پہنچی ہے۔ ام سلمہ کے پاس آدمی گیا اور ان کو یہ قول نقل کیا تو بولیں، "خدا عائشہ کی مغفرت کرے انہوں نے بات نہیں سمجھی،"[37][ح 5] "کیا میں نے ان سے یہ نہیں کہا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے پڑھنے کی ممانعت فرمائی ہے۔"[39]
ابو ہریرہ کا خیال تھا کہ رمضان میں جنابت کا غسل فوراً صبح اٹھ کر کرنا چاہیے، ورنہ روزہ ٹوٹ جاتا ہے، ایک شخص نے جا کر ام سلمہ و عائشہ سے جا کر پوچھا دونوں نے کہا کہ خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم جنابت کی حالت میں صائم ہوتے تھے، ابو ہریرہ نے سنا تو رنگ فق ہو گیا، اسی خیال سے رجوع کیا اور کہا کہ میں کیا کروں فضل بن عباس نے مجھ سے اسی طرح بیان کیا تھا، لیکن ظاہر ہے کہ ام سلمہ اور عائشہ کو زیادہ علم ہے۔ [40] اس کے بعد ابوہریرہ نے اپنا فتوی واپس لے لیا۔[41]
ایک مرتبہ چند صحابہ نے دریافت کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اندرونی زندگی کے متعلق کچھ ارشاد کیجیے، فرمایا "آپ کا ظاہر و باطن یکساں تھا۔" آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو آپ سے واقعہ بیان کیا، فرمایا تم نے بہت اچھا کیا،[42]
ام سلمہ جواب صاف دیتی تھیں اور کوشش کرتی تھیں کہ سائل کی تشفی ہو جائے، ایک دفعہ کسی شخص کو مسئلہ بتایا، وہ ان کے پاس سے اٹھ کر دوسری ازواج کے پاس گیا۔ سب نے ایک ہی جواب دیا، واپس آ کے ام سلمہ کو یہ خبر سنائی تو بولیں، نعم واشفیک! ذرا ٹھہرو میں تملاری تشفی کرنا چاہتی ہوں، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے متعلق یہ حدیث سنی ہے۔[43]
ام سلمہ کو حدیث و فقہ کے علاوہ اسرار کا بھی علم تھا اور یہ وہ فن تھا جس کے حذیفہ بن یمان عالم خصوصی تھے۔ ایک مرتبہ عبد الرحمن بن عوف ان کے پاس آئے تو بولیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ بعض صحابی ایسے ہیں جنکو نہ میں اپنے انتقال کے بعد دیکھوں گا نہ وہ مجھ کو دیکھیں گے، عبد الرحمن گھبرا کر عمر کے پاس پہنچے اور ان سے یہ حدیث بیان کی، عمر، ام سلمہ کے پاس تشریف لائے اور کہا، "خدا کی قسم! سچ سچ کہنا کیا میں انہی میں ہوں۔" ام سلمہ نے کہا نہیں، لیکن تمہارے علاوہ میں کسی کو مستثنیٰ نہیں کروں گی،[44]
ام سلمہ سے جن لوگوں نے علم حدیث حاصل کیا ان کی ایک بڑی جماعت ہے ہم صرف چند ناموں پر اکتفا کرتے ہیں۔ عبد الرحمن بن ابی بکر، اسامہ بن زید، ہندبنت الحارث الفراسیہ، صفیہ بنت شیبہ، عمر، زینب (اولاد ام سلمہ)، مصعب بن عبد اللہ (برادر زادہ)، نبہان (غلام مکاتب)، عبد اللہ بن رافع، نافع، شعبہ، پسر شعبہ، ابو بکر، خیرة والدۂ حسن بصری، سلیمان بن یسار، ابو عثمان الہندی، حمید، ابو سلمہ، سعید بن مسیب، ابو وائل، صفیہ بنت محصی، شعبی، عبد الرحمان، ابن حارث بن ہشام، عکرمہ، ابو بکر بن عبد الرحمان، عثمان بن عبد اللہ ابن موہب، عروہ بن زبیر، کریب مولیٰ ابن عباس، قبیصہ بن زویب، نافع مولیٰ ابن عمر یعلیٰ بن مالک۔
اخلاق و عادات
ام سلمہ نہایت زاہدانہ زندگی بسر کرتی تھیں۔ ایک مرتبہ ایک ہار پہنا جس میں سونے کا کچھ حصہ شامل تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اعراض کیا تو اس کو توڑ ڈالا۔[45] ہر مہینے میں تین دن (دو شنبہ، جمعرات اور جمعہ) روزہ رکھتی تھیں،[46] ثواب کی متلاشی رہتیں، ان کے پہلے شوہر کی اولاد ان کے ساتھ تھی اور وہ نہایت عمدگی سے ان کی پرورش کرتی تھیں، اس بنا پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پوچھا کہ مجھ کو اس کا کچھ ثواب بھی ملے گا۔ اپ نے فرمایا "ہاں۔"[47]
اچھے کاموں میں شریک ہوتی تھیں، آیت تطہیر انہی کے گھر میں نازل ہوئی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فاطمہ زہرا اور علی کو بلا کر کمبل اڑھایا اور کہا "خدایا! یہ میرے اہل بیت ہیں، ان سے ناپاکی کو دور کر اور انہیں پاک کر" ام سلمہ نے یہ دعا سنی تو بولیں یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) میں بھی ان کے ساتھ شریک ہوں ارشاد ہوا۔ تم اپنی جگہ پر ہو اور اچھی ہوں۔[48]
امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی پابند تھیں، نماز کے اوقات میں بعض امرا نے تغیر و تبدل کیا یعنی مستحب اوقات چھوڑ دیے تو ام سلمہ نے ان کو تنبیہ کی اور فرمایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ظہر جلد پڑھا کرتے تھے اور تم عصر جلد پڑھتے ہو۔[49]
ایک دن ان کے بھتیجے نے دو رکعت نماز پڑھی، چونکہ سجدہ گاہ غبار آلود تھی، وہ سجدہ کرتے عقت مٹی جھاڑتے تھے، ام سلمہ نے روکا کہ یہ فعل آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی روش کے خلاف ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک غلام نے ایک دفعہ ایسا کیا تھا تو آپ نے فرمایا تھا، ترب وجھک اللہ! یعنی تیرا چہرہ خدا کی راہ میں غبار آلود ہو۔[50]
فیاض تھیں اور دوسروں کو بھی فیاضی کی طرف مائل کرتی تھیں۔ ایک دفعہ عبد الرحمن بن عوف نے آ کر کہا "اماں! میرے پاس اس قدر مال جمع ہو گیا ہے کہ اب بربادی کا خوف ہے، فرمایا بیٹا! اس کو خرچ کرو، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ بہت سے صحابہ ایسے ہیں کہ جو مجھ کو میری موت کے بعد پھر نہ دیکھیں گے!"[51]
ایک مرتبہ چند فقراء جن میں عورتیں بھی تھیں، ان کے گھر آئے اور نہایت الحاح سے سوال کیا، ام الحسن بیٹھی تھیں، انہوں نے ڈانٹا لیکن ام سلمہ نے کہا ہم کو اس کا حکم نہیں ہے۔ اس کے بعد لونڈی کو کہا کہ ان کو کچھ دے کر رخصت کرو۔ کچھ نہ ہو تو ایک ایک چھوہارا ان کے ہاتھ پر رکھ دو۔[52]
آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کو جو محبت تھی اس کا یہ اثر تھا کہ آپ کے موئے مبارک تبرکاً رکھ چھوڑے تھے۔ جن کی وہ لوگوں کو زیارت کراتی تھیں۔[53] آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان سے اس قدر محبت تھی کہ ایک مرتبہ انہوں نے کہا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) اس کا کیا سبب ہے کہ ہمارا قرآن میں ذکر نہیں۔ تو آپ منبر پر تشریف لے گئے اور یہ آیت پڑھی "ان المسلمین والمسلمات والمومنین والمومنات۔"[54]
ایک مرتبہ ام سلمہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھی تھیں، جبریل آئے اور باتیں کرتے رہے، ان کے جانے کے بعد آپ نے پوچھا۔ "ان کو جانتی ہو؟" بولیں وحیہ تھے، لیکن جب آپ نے اس واقعہ کو اور لوگوں سے بیان کیا تو اس وقت معلوم ہوا کہ وہ جبریل تھے۔[55][ح 6]
وفات
جس سال حرہ کا واقعہ ہوا (یعنی سنہ 63 ہجری) اسی سال ام سلمہ نے انتقال فرمایا اس وقت 84 برس عمر تھی، ابو ہریرہ نے نماز جنازہ پڑھی اور بقیع میں دفن کیا[56] اس زمانہ میں ولید بن عتبہ (ابو سفیان کا پوتا) مدینہ کا گورنر تھا، چونکہ ام سلمہ نے وصیت کی تھی کہ وہ میرے جنازہ کی نماز نہ پڑھائے، اس لیے وہ جنگل کی طرف نکل گیا اور اپنے بجائے ابو ہریرہ کو بھیج دیا۔[57]
اولاد
ام سلمہ کے پہلے شوہر سے جو اولاد ہوئی اس کے نام یہ ہیں، سلمہ، حبشہ میں پیدا ہوئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا نکاح حمزہ کی لڑکی امامہ بنت حمزہ سے کیا تھا۔ عمر، آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ام سلمہ کا نکاح انہوں نے ہی کیا تھا، علی المرتضیٰ کے زمانہ خلافت میں فارس و بحرین کے حاکم تھے، دُرّہ، ان کا ذکر صحیح بخاری میں آیا ہے، ام حبیبہ نے جو ازواج مطہرات میں داخل تھیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ ہم نے سنا ہے کہ آپ درہ سے نکاح کرنا چاہتے ہیں؟ فرمایا یہ کیسے ہو سکتا ہے، اگر میں نے اس کو پرورش نہ بھی کیا ہوتا تو بھی وہ کسی طرح میرے لیے حلال نہ تھی، کیونکہ وہ میرے رضاعی بھائی کی لڑکی ہے۔[58] زینب پہلے برہ نام تھا، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے زینب رکھا۔[59]
حواشی
- مگر یہ واقدی کی روایت ہے جو چنداں قابل اعتبار نہیں
- یہ حیرت ان کے تنہا سفر کرنے پر تھی، شرفا کی عورتیں اس طرح باہر نکلنے کی جرأت نہیں کرتی تھیں
- چونکہ معاہدہ کی تمام شرطیں بظاہر مسلمانوں کے سخت خلاف تھیں اس لیے تمام لوگ رنجیدہ اور غصہ سے بیتاب تھے
- بعض روایتوں میں ہے کہ ان دونوں نے اس کا مشورہ دیا تھا
- یہ واقعہ صحیح بخاری میں بھی ہے۔[38]
- غالبا یہ نزول حجاب سے قبل کا واقعہ ہے۔
حوالہ جات
- اصابہ ج8 ص240
- طبقات ابن سعد ج8 ص66
- مسند احمد ج 6ص389
- زرقانی ج3 ص272،273
- مسند احمد ج6 ص307
- زرقانی ج3 ص273
- سنن نسائی ص511
- مسند احمد ج6 ص295
- مسند احمد ج6 ص295
- طبقات ابن سعد ج8 ص24
- صحیح بخاری ج1 ص532
- مسند احمد ج6 ص322
- مسند احمد ج6 ص316
- مسند احمد ج6 ص289
- زرقانی ج2 ص153، ابن سعد ج2 ق1 ص54
- مسند احمد ج6 ص296
- صحیح بخاری ج6 ص380
- زرقانی ج3 ص272
- استیعاب ج2 ص803
- صحیح بخاری ج2ص730
- مسند احمد ج6 ص308، ص289
- صحیح بخاری ج1 ص219، 220
- طبقات ج2 ق2 ص13
- صیح بخاری ج2 ص641 وطبقات ج2 ق2 ص32
- صحیح بخاری وصحیح مسلم
- طبقات ج2 ق2 ص40
- صحیح ترمذی ص 224
- مسند احمد ج6 ص98
- صحیح بخاری ج2 ص493، 494
- طبقات ابن سعد ج6 ص317
- مسند احمد ج6 ص317
- مسند احمد ج6 ص312
- مسند احمد ج6 ص300، 301
- مسند احمد ج6 ص301
- اصابہ ج8 ص241
- اعلام الموقین ج1 ص13
- مسند احمد ج6 ص299
- صحیح بخاری ج2 ص239
- مسند احمد ج6 ص303
- مسند احمد ج6 ص306، 307
- مسند احمد ج6 ص306
- مسند احمد ج6 ص309
- مسند احمد ج6 ص297
- مسند احمد ج6 ص307
- مسند احمد ج6 ص319، 323
- مسند احمد ج6 ص389
- صحیح بخاری ج1 ص1198
- صحیح ترمذی ص530
- مسند احمد ج6 ص289
- مسند احمد ج6 ص301
- مسند احمد ج6 ص290
- استیعاب ج2 ص803
- مسند احمد ج6 ص296
- مسند احمد ج6 ص 301
- صحیح مسلم ج2 ص241 مطبوعہ مصر
- زرقانی ج3 ص276
- طبری کبیر ج3 ص2443
- صحیح بخاری ج2 ص764
- زرقانی ج3 ص272