حسین ابن علی

حسین بن علی محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے چھوٹے نواسے اور علی بن ابی طالب و فاطمہ زہرا کے چھوٹے بیٹے تھے۔ 'حسین' نام اور ابو عبد اللہ کنیت ہے۔ ان کے بارے میں محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ارشاد ہے کہ حُسَيْنٌ مِنِّي وَأَنَا مِنْ حُسَيْنٍ أَحَبَّ اللَّهُ مَنْ أَحَبَّ حُسَيْنًا حُسَيْنٌ سِبْطٌ مِنْ الْأَسْبَاطِ یعنی 'حسین مجھ سے ہیں اور میں حسین سے ہوں جو حسین سے محبت کرے اللہ اس سے محبت کرے۔ حسین میری نسلوں میں سے ایک نسل ہے'[1]

حسین بن علی

عربی: الحُسين بن علي

امام، شہید کربلا، سید الشہداء، امام عالیٰ مقام، دعائیہ کلمات:

ولادت 3 شعبان ، بمطابق 8 جنوری 626ء
مدینہ منورہ
وفات 10 محرم 61ھ، بمطابق 10 اكتوبر 680ء
كربلا، عراق
محترم در اسلام
نسب والد : علی ابن ابی طالب
والدہ : فاطمہ الزہراء

بھائی۔ بہن :

حسن بن علی
زینب بنت علی
عمر بن التغلبيہ
ابو بكر بن علی
محمد بن حنفیہ
عثمان بن علی
عباس بن علی

ازواج :

شاه زنان بنت يزدجرد
لیلیٰ بنت عروہ بن مسعود ثقفی
رباب بنت امرؤ القیس بن عدی
ام اسحاق بنت طلحہ

اولاد :

علی اکبر
علی اوسط
علی اصغر
جعفر
فاطمہ بنت حسین بن علی
سکینہ بنت حسین
رقیہ بنت حسین
خولہ بنت حسین
صفیہ بنت حسین
مقالہ بہ سلسلۂ مضامین

اولادِ محمد

حضرت محمد کے بیٹے

قاسم _ عبداللہ _ ابراھیم

حضرت محمد کی بیٹیاں

فاطمہ _ زینب _ ام کلثوم
رقیہ

حضرت فاطمہ کی اولاد
بیٹے

حسن _ حسین

حضرت فاطمہ کی اولاد
بیٹیاں

زینب _ ام کلثوم


ان کی وفات سے قبل اموی حکمران مُعاویہ نے صلح حسن کے برخلاف یزید کو اپنا جانشین مقرر کیا۔[2] جب 680ء میں معاویہ انتقال کر گئے تو یزید نے بیعت کا مطالبہ کیا، حسین نے یزید کی بیعت سے انکار کر دیا، یعنی انہوں نے خود کو قربان کرنے کا فیصلہ کیا۔ نتیجاً انہوں نے 60ھ میں مدینہ چھوڑ دیا اور مکہ آ گئے۔[2][3] یہاں اہل کوفہ نے انہیں خطوط بھیجے اور ان سے مدد مانگی اور حسین کی بیعت کرنے کا کہا۔ سو وہ کوفہ کے لیے روانہ ہوئے،[2] کربلا کے نزدیک ان کے کارواں پر یزیدی فوج نے حملہ کر دیا۔ کربلا کی جنگ میں انہیں اور ان کی آل کو 10 محرم 61ھ (10 اکتوبر 680ء) کو قتل کر کے سر قلم کر دیا گیا، شہدا میں ان کے چھ ماہ کے بیٹے، علی اصغر بھی شامل تھے، اس کے علاوہ اہل بیت کی خواتین اور بچوں کو قیدی بنا دیا گیا۔[2][4] بعد ازاں وفات حسین پر غم اتنا بڑھ گیا کہ لوگ دولت امویہ کے شدید مخالف ہو گئے اور عباسیوں نے امویوں کو عبرت ناک شکست دے کر ان لوگوں کے دل ٹھنڈے کیے۔[5][6]

ولادت

ہجرت کے چوتھے سال تیسری شعبان پنجشنبہ کے دن آپ کی ولادت ہوئی۔ اس خوشخبری کو سن کر جناب رسالت ماب تشریف لائے، بیٹے کو گود میں لیا، داہنے کان میں اذان اور بائیں میں اقامت کہی اور اپنی زبان منہ میں دے دی۔ پیغمبر کا مقدس لعاب دہن حسین علیہ السّلام کی غذا بنا۔ ساتویں دن عقیقہ کیا گیا۔ آپ کی پیدائش سے تمام خاندان میں خوشی اور مسرت محسوس کی جاتی تھی، مگر آنے والے حالات کا علم پیغمبر کو تھا، اس لیے آپ کی آنکھوں میں آنسو برس پڑا۔ اور اسی وقت سے حسین کے مصائب کا چرچا اہلیبت ُ رسول کی زبانوں پر آنے لگا۔ [7]

پرورش

پیغمبرِ اسلام کی گود میں جو اسلام کی تربیت کا گہوارہ تھی اب دن بھر دو بچّوں کی پرورش میں مصروف ہوئی ایک حسن دوسرے حسین اور اس طرح ان دونوں کا اور اسلام کا ایک ہی گہوارہ تھا جس میں دونوں پروان چڑھ رہے تھے۔ ایک طرف پیغمبرِ اسلام جن کی زندگی کا مقصد ہی اخلاق انسانی کی تکمیل تھی اور دوسری طرف امیر المومنین علی ابن ابی طالب جو اپنے عمل سے خدا کی مرضی کے خریدار بن چکے تھے تیسری طرف فاطمہ زہرا جو خواتین کے طبقہ میں پیغمبر کی رسالت کو عملی طور پر پہنچانے کے لیے ہی قدرت کی طرف سے پیدا ہوئی تھیں اس نورانی ماحول میں حسین کی پرورش ہوئی۔

رسول کی محبت

جیسا کہ امام حسن کے حالات میں لکھا جاچکا ہے کہ محمد مصطفےٰ اپنے دونوں نواسوں کے ساتھ انتہائی محبت فرماتے تھے۔ سینہ پر بیٹھاتے تھے۔ کاندھوں پر چڑھاتے تھے اور مسلمانوں کو تاکید فرماتے تھے کہ ان سے محبت رکھو۔ مگر چھوٹے نواسے کے ساتھ آپ کی محبت کے انداز کچھ امتیاز خاص رکھتے تھے۔ ایسا ہو اہے کہ نماز میں سجدہ کی حالت میں حسین پشت ُ مبارک پراگئے تو سجدہ میں طول دیا۔ یہاں تک کہ بچہ خود سے بخوشی پشت پر سے علاحدہ ہو گیا۔ اس وقت سر سجدے سے اٹھایا اور کبھی خطبہ پڑھتے ہوئے حسین مسجد کے دروازے سے داخل ہونے لگے اور زمین پر گر گئے تو رسول نے اپنا خطبہ قطع کر دیا منبر سے اتر کر بچے کوزمین سے اٹھایا اور پھر منبر پر تشریف لے گئے اور مسلمانوں کو متنبہ کیا کہ »دیکھو یہ حسین ہے اسے خوب پہچان لو اور اس کی فضیلت کو یاد رکھو « رسول نے حسین کے لیے یہ الفاظ بھی خاص طور سے فرمائے تھے کہ »حسین مجھ سے اور میں حسین سے ہوں، ، مستقبل نے بتادیا کہ رسول کا مطلب یہ تھا کہ میرا نام اور کام دُنیا میں حسین کی بدولت قائم رہے گا۔

  • انس بن مالک روایت کرتے ہیں کہ رسول اکرم ﷺ سے عرض کی [ أی اھل بیتک أحب الیک؟ فقال :الحسن والحسین ] کہ آپ کی اہل بیت میں سے آپ کو سب سے زیادہ محبوب کو ن ہیں؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا حسن اور حسین اور آپ ﷺ عائشہ صدیقہ سے کہا کرتے تھے میرے بیٹوں کو میرے پاس لے آؤ اور آپ ﷺ حسنین کریمین کو سونگھتے اور اُن کو سینے سے لگا لیتے۔ [8]
  • أنس بن مالک سے روایت ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا :[حسین منی وأنا من حسین ، أحب اللّٰہ من أحب حسینا، حسین سبط من الأسباط ] حسین مجھے سے ہیں اور میں حسین سے ہوں جو شخص حسین سے محبت کرے اللہ تعالی اس کے ساتھ محبت فرمائے، حسین میری اولاد میں سے میرے ایک بیٹے ہیں۔ [8]
  • براء بن عازب سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے حسنین کریمین ما کودیکھا اور فرمایا [ اللّٰہم انی احبھمافأحبھما ] اے اللہ میں ان دونوں سے محبت کرتا ہوں تو بھی ان دونوں سے محبت فرما [9]
  • ابن عباس سے روایت ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے حسن بن علی کو کندھے پر اُٹھایا ہوا تھا۔ ایک شخص نے کہا [نعم المرکب رکبت یا غلام فقال النبی ﷺ:نعم الراکب ہو ]کیا ہی اچھی سواری ہے جس پر اے لڑکے تو سوار ہے پس نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا :یہ سوار کتنا اچھا ہے۔ [9]
  • ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا :[من أحبھما فقد أحبنی ومن أبغضھما فقد أبغضنی الحسن والحسین ] جس نے ان دونوں سے محبت کی پس تحقیق اس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے ان دونوں سے بغض رکھا پس تحقیق اس نے مجھ سے بغض رکھا اور وہ حسن وحسین ( ما ) ہیں۔ [10]
  • عبد اللہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نماز پڑھ رہے تھے جب آپ ﷺ سجدہ کے لیے تشریف لے جاتے تو حسن وحسین ما آپ کے کندھے پر چڑھ جاتے جب صحابہ کرام نے ارادہ کہ ان کو منع کریں تو نبی اکرم ﷺنے ان کی طرف اشارہ کیا کہ ان دونوں کو چھوڑ دو پس جب نبی اکرم ﷺ نماز سے فارغ ہوئے تو آپ ﷺ نے ان دونوں کو گود میں اُٹھا لیا اور فرمایا :[من أحبنی فلیحب ھذین ] جو مجھے سے محبت کرنا چاہتا ہے اسے چاہیے کہ ان دونوں سے محبت کرے۔ [10]

رسول کی وفات کے بعد

قافلہ حسینی کا مدینہ سے شام تک سفر: لحظہ بہ لحظہ، شہر بہ شہر

امام حسین کی عمر ابھی چھ سال کی تھی جب انتہائی محبت کرنے والے کاسایہ سر سے اٹھ گیا۔ اب پچیس برس تک علی ابن ابی طالب کی خانہ نشینی کادور ہے۔ اس زمانہ کے طرح طرح کے ناگوار حالات امام حسین دیکھتے رہے اور اپنے والد بزرگوار کی سیرت کا بھی مطالعہ فرماتے رہے۔ یہ وہی دور تھا جس میں آپ نے جوانی کے حدود میں قدم رکھا اور بھر پور شباب کی منزلوں کو طے کیا۔ 35ھ میں جب حسین کی عمر 31 برس کی تھی عام مسلمانوں نے علی ابن ابی طالب کو بحیثیت خلیفہ اسلام تسلیم کیا۔ یہ امیر المومنین کی زندگی کے اخری پانچ سال تھے جن میں جمل صفین اور نہروان کی لڑائیں ہوئی اور امام حسین ان میں اپنے بزرگ مرتبہ باپ کی نصرت اور حمایت میں شریک ہوئے اور شجاعت کے جوہر بھی دکھلائے۔ 40ھ میں جناب امیر مسجد کوفہ میں شہید ہوئے اور اب امامت وخلافت کی ذمہ داریاں امام حسن کے سپرد ہوئیں جو امام حسین کے بڑے بھائی تھے۔ حسین نے ایک باوفااور اطاعت شعار بھائی کی طرح حسن کاساتھ دیااور جب امام حسن نے اپنے شرائط کے ماتحت جن سے اسلامی مفاد محفوظ رہ سکے امیر معاویہ کے ساتھ صلح کرلی تھی تو امام حسین بھی اس مصلحت پر راضی ہو گئے اور خاموشی اور گوشہ نشینی کے ساتھ عبادت اور شریعت کی تعلیم واشاعت میں مصروف رہے۔

محمد ابن جریر طبری، ابن خلدون، ابن کثیر غرض بہت سے مفسرین اور مورخین نے لکھا ہے کہ ابن زیاد نے خاندان رسالت کوکربلا میں قتل کیااور قیدیوں کو اونٹوں پر شہیدوں کے سروں کے ساتھ دمشق بھیج دیا۔ دمشق میں بھی ان کے ساتھ کچھ اچھا سلوک نہ ہوا۔ یزید نے امام حسین کے سر کو اپنے سامنے طشت پر رکھ کر ان کے دندان مبارک کو چھڑی سے چھیڑتے ہوئے اپنے کچھ اشعار پڑھے جن سے اس کا نقطۂ نظر معلوم ہوتا ہے جن کا ترجمہ کچھ یوں ہے [11]

کاش آج اس مجلس میں بدر میں مرنے والے میرے بزرگ اور قبیلہ خزرج کی مصیبتوں کے شاہد ہوتے تو خوشی سے اچھل پڑتے اور کہتے : شاباش اے یزید تیرا ہاتھ شل نہ ہو، ہم نے ان کے بزرگوں کو قتل کیا اور بدر کاانتقام لے لیا، بنی ہاشم سلطنت سے کھیل رہے تھے اور نہ آسمان سے کوئی وحی نازل ہوئي نہ کوئي فرشتہ آیا ہے۔ [11]

امام حسین عراق میں کربلا کے مقام پر مدفون ہیں۔

اخلاق و اوصاف

امام حسین سلسلہ امامت کے تیسرے فرد تھے-[حوالہ درکار] عصمت و طہارت کا مجسمہ تھے- آپ کی عبادت، زہد، سخاوت اور آپ کے کمالِ اخلاق کے دوست و دشمن سب ہی قائل تھے- پچیس حج آپ نے پاپیادہ کیے- آپ میں سخاوت اور شجاعت کی صفت کو خود رسول اللہ نے بچپن میں ایسا نمایاں پایا کہ فرمایا "حسین میں میری سخاوت اور میری جراَت ہے"- چنانچہ آپ کے دروازے پر مسافروں اور حاجتمندوں کا سلسلہ برابر قائم رہتا تھا اور کوئی سائل محروم واپس نہیں ہوتا تھا- اس وجہ سے آپ کا لقب ابوالمساکین ہو گیا تھا- راتوں کو روٹیوں اور کھجوروں کے پشتارے اپنی پیٹھ پر اٹھا کر لے جاتے تھے اور غریب محتاج بیواؤں اور یتیم بچوں کو پہنچاتے تھے جن کے نشان پشت مبارک پر پڑ گئے تھے- ہمیشہ فرمایا کرتے تھے کہ "جب کسی صاحبِ ضرورت نے تمہارے سامنے سوال کے ليے ہاتھ پھیلا دیا تو گویا اس نے اپنی عزت تمہارے ہاتھ بیچ ڈالی- اب تمہارا فرض یہ ہے کہ تم اسے خالی ہاتھ واپس نہ کرو، کم سے کم اپنی ہی عزتِ نفس کا خیال کرو"-
غلاموں اور کنیزوں کے ساتھ آپ عزیزوں کا سا برتاؤ کرتے تھے- ذرا ذرا سی بات پر آپ انہیں آزاد کر دیتے تھے- آپ کے علمی کمالات کے سامنے دنیا کا سر جھکا ہوا تھا- مذہبی مسائل اور اہم مشکلات میں آپ کی طرف رجوع کی جاتی تھی- آپ کی دعاؤں کا ایک مجموعہ صحیفہ حسینیہ کے نام سے اس وقت بھی موجود ہے آپ رحمدل ایسے تھے کہ دشمنوں پر بھی وقت آنے پر رحم کھاتے تھے اور ایثار ایسا تھا کہ اپنی ضرورت کو نظر انداز کر کے دوسروں کی ضرورت کو پورا کرتے تھے- ان تمام بلند صفات کے ساتھ متواضع اور منکسر ایسے تھے کہ راستے میں چند مساکین بیٹھے ہوئے اپنے بھیک کے ٹکڑے کھا رہے تھے اور آپ کو پکار کر کھانے میں شرکت کی دعوت دی تو فوراً زمین پر بیٹھ گئے- اگرچہ کھانے میں شرکت نہیں فرمائی- اس بنا پر کہ صدقہ آلِ محمد پر حرام ہے مگر ان کے پاس بیٹھنے میں کوئی عذر نہیں ہوا- اس خاکساری کے باوجود آپ کی بلندی مرتبہ کا یہ اثر تھا جس مجمع میں آپ تشریف فرماہوتے تھے لوگ نگاہ اٹھا کر بات نہیں کرتے تھے - جو لوگ آپ کے خاندان کے مخالف تھے وہ بھی آپ کی بلندی مرتبہ کے قائل تھے- چنانچہ ایک مرتبہ امام حسین نے حاکم شام معاویہ کو ایک سخت خط لکھا جس میں اس کے اعمال و افعال اور سیاسی حرکات پر نکتہ چینی کی تھی اس خط کو پڑھ کر معاویہ کو بڑی تکلیف محسوس ہوئی- پاس بیٹھنے والے خوشامدیوں نے کہا کہ آپ بھی اتنا ہی سخت خط لکھیے- امیر معاویہ نے کہا "میں جو کچھ لکھوں گا وہ اگر غلط ہو تو اس سے کوئی نتیجہ نہیں اور اگر صحیح لکھنا چاہوں تو بخدا حسین میں مجھے ڈھونڈنے سے کوئی عیب نہیں ملتا"- آپ کی اخلاقی جراَت، راست بازی اور راست کرداری، قوتِ اقدام، جوش عمل اور ثبات و استقلال، صبر و برداشت کی تصویریں کربلا کے مرقع میں محفوظ ہیں- ان سب کے ساتھ آپ کی امن پسندی یہ تھی کہ آخر وقت تک دشمن سے صلح کرنے کی کوشش جاری رکھی مگر عزم وہ تھا کہ جان دے دی جو صحیح راستہ پہلے دن اختیار کر لیا تھا اس سے ایک اِنچ نہ ہٹے- انہوں نے بحیثیت ایک سردار کے کربلا میں ایک پوری جماعت کی قیادت کی- اس طرح کہ اپنے وقت میں وہ اطاعت بھی بے مثل اور دوسرے وقت میں یہ قیادت بھی لاجواب تھی-

غیر مسلموں کی نظر میں

  • چلی کے مصنف و ناولسٹ رابرٹ بولانو نے کہا ہے کہ امام حسین کو شہید کرنا بنو امیہ کی سب سے بڑی سیاسی غلطی تھی جو ان کی ہر چیز کو نظرانداز کرنے پہ مجبور کرگئی بلکہ ان کے نام و نشان اور ہر چیز پر پانی پھیر گئی(Roberto Bolano Avalos 1953–2003)
  • معروف برطانوی ادیبہ فریا اسٹارک کئی کتابوں کی مصنف ہے، فریا نے 1934 میں عراق کے بارے میں ایک سفر نامہ the valley of assassin بھی لکھا ہے، فریا کہتی ہے کہ امام حسینؑ نے جہاں خیمہ لگائے وہاں دشمنوں نے ان کا محاصرہ کر لیا اور پانی بند کر دیا، یہ کہانی آج بھی اتنی ہی دلگیر ہے جتنی 1275 سال پہلے تھی، میرا کہنا ہے آپ کربلا کی سرزمین کا سفر کرنے سے اس وقت تک کوئی نفع حاصل نہیں کرسکتے جب تک کہ آپ کو اس کہانی کا پتا نہ ہو، یہ ان چند کہانیوں میں سے ایک ہے جسے میں روئے بغیر کبھی نہ پڑھ سکی، فریا سٹارک (Freya Stark 1893–1993)
  • مشہور انگریزی ناولسٹ چارلس ڈکنز نے کہا تھا اگر امام حسینؓ کی جنگ مال ومتاع اور اقتدار کے لیے تھی تو پھر میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ خواتین اور بچے ان کے ساتھ کیوں گئے تھے، بلاشبہ وہ ایک مقصد کے لیے ہی کھرے تھے اور ان کی قربانی خالصتاً اسلام کے لیے تھی، چارلس کا دور تھا( Charles John Huffam Dickens 1812–1870)
  • کیمبرج یونیورسٹی میں عربی کے پروفیسر ایڈورڈ جی براؤن کے حوالے سے “لٹریری ہسٹری آف پرشیا” میں لکھا ہے، کربلا کا خون آلود میدان یاد دلاتا ہے کہ وہاں خدا کے پیغمبر ﷺ کا نواسہ اس حال میں شہید کیا گیا کہ بھوک و پیاس کا عالم تھا اور اس کے ارد گرد لواحقین کی لاشیں بکھری پڑی تھیں، یہ بات گہرے جذبات اور دلدوز صدمے کی باعث ہے جہاں درد، خطرہ اور موت تینوں چیزیں ایک ساتھ رونما ہو رہی ہوں۔ (Literary History of Persia by Edward Granville Brown, 1862–1926)
  • چیسٹر کے ادبی اسکالر رینالڈنکلسن نے تاریخ اسلام، مولانا رومیؒ اور علی ہجویریؒ پر بھی کام کیا ہے، ان کے حوالے سے “لٹریری ہسٹری آف عرب” میں ہے جس طرح امام حسینؑ کے ساتھی ان کے ارد گرد کٹ گئے بلاخر امام حسین بھی شہید ہو گئے، یہ بنو امیہ کا وہ تلخ کردار ہے جس پر مسلمانوں کی تاریخ امام حسینؑ کو شہید اور یزید کو ان کا قاتل گردانتی ہے۔ (Reynold Alleyne Nicholson 1868–1945)
  • لبنان کے مسیحی مصنف انتونی بارا نے اپنی کتاب “حسین ان کرسچئین آئیڈیالوجی” میں لکھا ہے کہ، جدید و قدیم دنیا کی تاریخ میں کوئی جنگ ایسی نہیں جس نے اتنی ہمدردی اور پزیرائی حاصل کی ہو، صرف یہی نہیں بلکہ معرکہ کربلا سے امام حسین کی باوقار شہادت کے علاوہ بھی دیکھنے والے کو بہت سے اہم اسباق ملتے ہیں۔ (Antoine Bara-2008)
  • تھامس کارلائل نے کہا کہ واقعہ کربلا نے حق و باطل کے معاملے میں عددی برتری کی اہمیت کو ختم کر دیا ہے۔ معرکہ کربلا کا اہم ترین درس یہ ہے کہ امام حسینؓ اور ان کے رفقا خدا کے سچے پیروکار تھے، قلیل ہونے کے باوجود حسینؑ کی فتح مجھے متاثر کرتی ہے۔ (Thomas Carlyle 1795–1881)
  • فرانس کے معروف ادیب، ناولسٹ وکٹرھوگو نے لکھا ہے کہ امام حسینؑ کے انقلابی اصول ہر اس باغی کے لیے مشعل راہ ہیں جو کسی غاصب سے حقوق حاصل کرنے کے لیے کوشاں ہے۔ (Victor Marie Hugo 1802–1885)
  • روس کے معروف مفکر اور ادیب ٹالسٹائی نے کہا ہے، امام حسینؑ ان تمام انقلابیوں میں ممتاز ہیں جو گمراہ حاکموں سے گڈگوورنینس کا تقاضا کرتے تھے، اسی راہ میں انہیں شہادت حاصل ہوئی۔ (Leo Tolstoy 1828–1910)
  • عصری جاپان کے مصنف کوئیانہ نے اپنی ایک تحریر میں لکھا ہے کہ امام حسینؑ کا انقلاب پسے ہوئے طبقے کے لیے جدوجہد کا راستہ روشن کرتا ہے، سوچ کو توانائی دیتا ہے، گمراہی سے نکالتا ہے اور حصول انصاف کے سیدھے راستے پر ڈال دیتا ہے، (نومبر 2013)
  • برطانیہ کے اسکاٹش ادبی اسکالر سر ولیم میور کہتے ہیں، سانحہ کربلا نے تاریخ محمد ﷺ میں خلافت کے خاتمے کے بعد بھی اسلام کو انسانی ذہنوں میں زندہ رکھا ہے، واقعہ کربلا نے نہ صرف استبدادی خلافت کی تقدیر کا فیصلہ کر دیا بلکہ محمدی ریاست کا اصول و معیار بھی متعین کر دیا جو ابتدائی خلافتوں کے بعد کہیں کھو گیا تھا۔ (Sir William Muir 1819–1905 Annals of the Early Caliphate, London, 1883)
  • مغربی محقق، تاریخ دان اور نیویارک یونیورسٹی کے پروفیسر پیٹر جے چیلکووسکی کہتے ہیں، امام حسینؓ پر مکہ سے کربلا تک کئی بار چھپ کر حملہ کیا گیا، ان کے خاندان اور اصحاب پر بھوک پیاس کا ظلم اور شہادت کے بعد ان کے جسموں کو پامال کیا گیا لیکن حسینؓ نے صبر سے جام شہادت نوش کیا پر یزید کی بیعت نہ کی۔ (Peter J Chelkowski, phd in 1968)
  • تاریخی محقق اور ممبر برطانوی پارلیمنٹ ایڈورڈ گیبن نے “دی فال آف رومن ایمپائر” میں واقعہ کربلا کو انتہائی دلسوز قرار دیتے ہوئے کہا کہ امام حسینؓ کی مظلومانہ شہادت اور کربلا کے دلخراش واقعات ایک سرد دل انسان کی آنکھوں میں بھی آنسو اور دلوں میں ہمدردی پیدا کردیتے ہیں۔ (Edward Gibbon 1737–1794)
  • ہنگری کے مصنف گیورجی لیوکیکس کہتے ہیں، حسینؑ کا تصور مرکزی طور پر انسان کی فری وِل، شخصی آزادی اور اپنی قوم کی خوشحالی کے لیے استبدادی حاکم کے سامنے کھڑے ہونے پر فوکس کرتا ہے اور حسینؑ نے اپنی پوری قوت اور عزم کے ساتھ اس استبداد کو فیس بھی کیا، لوکیکس مارکسی فلاسفر تھے اور مغربی مارکسزم کے بانیوں میں سے بھی تھے۔ (Gyorgy Lukacs 1885–1971)
  • روسی مفکر اوگیرا کا کہنا ہے کہ حسینؑ ہر اس طبقے کے لیے مثال ہیں جو طبقاتی جبر کا شکار ہے، وہ حکمران جو اپنا تخت مفلوک الحالوں کے سروں سے تعمیر کرتے ہیں پھر ان کے جانشین بھی یہی کچھ کرتے ہیں جب تک کہ ان کا احتساب نہ کر دیا جائے وہ دوسروں کا استحصال کرتے رہتے ہیں۔
  • انگلش رائٹر تھامس لیل نے اپنی کتاب Insights Iraq میں لکھا ہے کہ امام حسین کے عقیدتمند ایسے دیوانے ہیں کہ اگر انہیں صحیح رخ میں گائیڈ کیا جائے تو یہ دنیا ہلا کے رکھ سکتے ہیں، تھامس 1918–1921 میں سرکاری طور پر عراق میں تعینات تھا اور یہ بات اس نے شہدا کربلا کے گرد عزاداری دیکھ کر کہی تھی۔
  • وولف انسٹی ٹیوٹ کیمبرج کے بانی ڈائریکٹر، ڈاکٹر ایڈورڈ کیسلر نے اپنے ایک لیکچر میں کہا ہے کہ موجودہ دنیا کی ملٹی فیس سوسائیٹیز میں سب سے بڑا مسئلہ سوشل جسٹس کا ہے اور سوشل جسٹس حاصل کرنے کے لیے امام حسینؓ بہترین رول ماڈل ہیں۔ [12]
  • سٹی سکھ پروگریسیو آرگنائزیشن لندن کے بانی ممبر جسویر سنگھ نے کہا ہے کہ قطع نظر اس کے کہ ہم کس کمیونٹی سے تعلق رکھتے ہیں ہم امام حسین سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں، خاص طور پہ عزت اور وقار کے ساتھ جینے کا ڈھنگ، امام حسینؑ عدل کے لیے کھڑے تھے انہوں نے جس بات کو حق سمجھا اس کے لیے اپنی جان بھی دے دی۔ [13]
  • انٹرفیتھ گروپ کی ایکٹیوسٹ و ریسرچر ڈائنا ملز نے کہا ہے کہ امام حسینؑ نوع انسان کے لیے رول ماڈل ہیں، میرے لیے امام حسینؑ کئی جہتوں سے مسیح علیہ السلام کے متوازی نظر آتے ہیں، خدا کے حکم پر پورا اترنے کی خاطر انہوں نے بھی ہر چیز کو بالائے طاق رکھ دیا تھا، امام حسینؑ کی یہ بات مجھے بہت بیحد پسند ہے کہ تم میری جان تو لے سکتے ہو لیکن میرا ایمان نہیں لے سکتے( You can take my body but you can’t take my faith)۔ ( یوٹیوب، ایمبیسڈر آف فیتھس، 10 اکتوبر 2016)
  • کرسچئین استاد ڈاکٹر کرس ہیور نے اپنے ایک لیکچر میں کہا ہے کہ دنیا جانتی ہے یزید ایک برا انسان تھا جو خدا کے احکامات کا سرعام مزاق اڑاتا تھا، یہاں میں پیغمبر اسلام ﷺ کی حدیث بیان کروں گا کہ جابر سلطان کے سامنے کلمہء حق کہنا جہاد ہے، یہی بات امام حسینؑ کے پیش نظر تھی، اسی لیے حسینؑ کھڑے ہوئے اور اپنی جان قربان کرکے دراصل انسان کی عظمت کو بحال کیا۔ ( یوٹیوب ویڈیو لیکچر 08 نومبر 2014)
  • ڈاکٹر کرس ہیور نے ایک دوسرے لیکچر میں کہا کہ 72 اور تیس ہزار کا کیا مقابلہ؟ ایک طرف تیس ہزار کی مسلح فوج اپنے اہداف حاصل نہ کرسکی اور دوسری طرف امام حسینؑ نے 72 نہتے لوگوں کیساتھ اپنا مقصد حاصل کر لیا وجہ یہ کہ امام حسینؑ وہ ہیں جن کے اندر خدا بولتا ہے، خدا انسانوں کو سمجھانا چاہتا تھا کہ حق بات پر کیسے کھڑے ہونا ہے، ایک مسیحی ہونے کی حیثیت میں سمجھتا ہوں انسان کو خدا کی رضا پر ایسے ہی پورا اترنا چاہیے جیسے امام حسینؑ نے نیابت خداوندی کا حق ادا کیا۔ (یوٹیوب ویڈیو لیکچر 24 نومبر 2014)
  • مہاتما گاندھی نے کہا تھا، میرا یہ ماننا ہے کہ اسلام کا پھلنا پھولنا تلوار سے نہیں بلکہ ولی خدا امام حسینؓ ابن علیؓ کی قربانی کا نتیجہ ہے، دوسری جگہ کہا، اگر میرے پاس امام حسین کے ساتھیوں جیسے بہتر لوگ موجود ہوں تو میں چوبیس گھنٹے میں ہندوستان آزاد کرالوں، ایک اور جگہ کہا اگر ہندوستان کو آگے بڑھنا ہے تو امام حسین کے نقش قدم پر چلنا ہوگا۔
  • پنڈت جواہر لعل نہرو نے کہا تھا، امام حسین کی قربانی کسی ایک قوم کی نہیں بلکہ سب کے لیے ہے یہ صراط مستقیم کی اعلٰی ترین مثال ہے، (1889–1964)
  • بنگالی مصنف رابندر ناتھ ٹیگور نے کہا، سچ اور انصاف کو زندہ رکھنے کے لیے فوجوں اور ہتھیاروں کی ضرورت نہیں، قربانیاں دے کر بھی فتح حاصل کی جاسکتی ہے جیسے امام حسینؓ نے کربلا میں قربانی دی، بلاشبہ امام حسین انسانیت کے لیڈر ہیں۔ (1861–1941)
  • بھارت کے پہلے صدر ڈاکٹر راجندر پراساد بیدی نے کہا تھا، امام حسینؑ کی قربانی کسی ایک ریاست یا قوم تک محدود نہیں بلکہ یہ بنی نوع انسان کی عظیم میراث ہے، (1884–1963)
  • مسز سروجنی نائیدو نے کہا ہے کہ میں مسلمانوں کو اس لیے مبارکباد پیش کرنا چاہتی ہوں کہ ان میں دنیا کی سب سے عظیم ہستی امام حسینؑ پیدا ہوئے جو دنیا کے تمام مزاہب کے لوگوں کے دلوں پر راج کرتے ہیں اور ہر کمیونیٹی کے لیے باعث فخر ہیں۔
  • سوامی شنکر اچاریہ نے کہا یہ امام حسینؑ کی قربانیوں کا نتیجہ ہے کہ آج اسلام زندہ ہے ورنہ آج دنیا میں اسلام کا نام لینے والا کوئی نہ ہوتا۔
  • ڈاکٹر رادھا کرشن بھارتی صدر نے کہا تھا، گو امام حسینؑ نے تیرہ سو سال پہلے قربانی دی لیکن ان کی لافانی روح آج بھی سب کے دلوں میں زندہ ہے۔
  • نیلسن منڈیلا نے کہا، میں نے بیس سال جیل میں گزارے ہیں، ایک رات میں نے فیصلہ کیا کہ تمام شرائط پر دستخط کرکے رہائی پالینی چاہیے لیکن پھر مجھے امام حسینؑ اور واقعہ کربلا یاد آگیا اور مجھے اپنے اسٹینڈ پر کھڑا رہنے کے لیے پھر سے تقویت مل گئی۔
  • لبنان کے مسیحی مصنف انتونی بارا کی کتاب “حسین ان کرسچئین آئیڈیالوجی” بلاک بسٹر کتاب ہے جس کا مختلف زبانوں میں ترجمہ کرنے کے لیے دیگر ملکوں کے ادیب بھی مصنف سے اجازت لینے کے لیے کوشاں ہیں۔ انتونی بارا کہتا ہے کہ یہ کتاب خالصتاً علمی ادبی اور تحقیقی کام تھا جسے علمی بنیادوں پر ہی کرنا تھا لیکن اس کام کے دوران میرے دل میں یقیناً امام حسینؑ کی عظمت رچ بس گئی ہے، تین گھنٹے کے انٹرویو میں جب بھی بارا نے امام حسینؑ کا نام لیا تو ساتھ میں “ان پر سلامتی ہو” ضرور کہا، بارا کا کہنا ہے کہ میں نہیں مانتا امام حسینؑ صرف شیعہ یا مسلمانوں کے امام ہیں، میرا ماننا ہے کہ وہ تمام عالم کے امام ہیں کیونکہ وہ سب مذاہب کا ضمیر ہیں، ( because he is the “conscience of religions”)۔ [14]

متعلقہ مضامین

حوالہ جات

  1. الترمذي (3775) وابن ماجه (144) وأحمد (17111)
  2. Wilferd Madelung۔ "HOSAYN B. ALI"۔ Iranica۔ اخذ شدہ بتاریخ 12 جنوری 2008۔
  3. Dakake 2008، صفحات۔ 81–82
  4. Gordon, 2005, pp. 144–146.
  5. Vincent J. Cornell؛ Kamran Scot Aghaie (2007)۔ Voices of Islam۔ Westport, Conn.: Praeger Publishers۔ صفحات 117 and 118۔ آئی ایس بی این 9780275987329۔ اخذ شدہ بتاریخ 4 نومبر 2014۔
  6. Chase F Robinson۔ "5 - The rise of Islam, 600–705"۔ بہ Chase F. Robinson۔ The new Cambridge history of Islam, volume 1: Sixth to Eleventh Centuries۔ Cambridge: Cambridge University Press۔ صفحہ 215۔ آئی ایس بی این 9780521838238۔
  7. ولادت با سعادت
  8. سنن الترمذی، أبواب المناقب، باب مناقب أبی محمدالحسن بن علی، ج:6، ص:122 )
  9. سنن الترمذی، أبواب المناقب، باب مناقب أبی محمدالحسن بن علی، ج:6، ص:123 )
  10. سنن النسائی ، کتاب الفضائل ، مناقب الحسن والحسین ، ج:7، ص:317
  11. دمع السجوم ص 252
  12. یوٹیوب، ایمبیسڈر آف فیتھس، 07 اکتوبر 2016
  13. یوٹیوب، ایمبیسڈر آف فیتھس، 08 اکتوبر 2016
  14. کافروں کے امام حسینؑ۔۔۔۔ تحقیق و تحریر، لالہ صحرائی
This article is issued from Wikipedia. The text is licensed under Creative Commons - Attribution - Sharealike. Additional terms may apply for the media files.