عامر بن ربیعہ
عامر بن ربیعہغزوہ بدرسمیت تمام غزوات میں شریک ہونے والے صحابہ میں سے ہیں۔
عامر بن ربیعہ | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
نام،نسب
عامرنام،ابو عبد اللہ کنیت اوروالد کا نام ربیعہ تھا،پورا سلسلہ نسب یہ ہے: عامر ابن ربیعہ بن کعب مالک بن ربیعہ بن عامربن سعد بن عبد اللہ بن الحارث بن رفیدہ بن عنزبن وائل۔ ان کے سلسلہ نسب میں سخت اختلاف ہے تاہم اربابِ سیر عام طور پر ان کو عنزی لکھتے ہیں عنزوائل کے لڑکے اوربکروتغلب کے بھائی تھے جن کی خونریز معرکہ آرائیاں اب تک زبان زد خاص وعام ہیں۔[1] ان کا خاندان عمرفاروق کے والد خطاب کا حلیف تھا جنہوں نے فرطِ محبت سے عامر کو متبنیٰ کر لیا تھا، یہی وجہ ہے کہ وہ پہلے عامر بن الخطاب کے نام سے مشہور تھے؛ لیکن جب قرآن شریف نے ہر ایک کو اپنے اصلی آباء واجداد کی طرف انتساب کا حکم دیا تو اس زمانہ سے عامربھی خطاب کی بجائے اپنی نسبی والد ربیعہ کی نسبت سے زبان زد ہوئے۔
اسلام
عامربن ربیعہ ان خوش نصیب بزرگوں میں ہیں جنہوں نے ابتدا ہی میں داعیِ توحید ﷺ کو لبیک کہا تھا، اس وقت تک آنحضرت ﷺ ارقم بن ابی الارقم کے مکان میں پناہ گزین نہیں ہوئے تھے۔
ہجرت
دو دفعہ اپنی زوجہ لیلیٰ بنت ابی حشمہ کو ساتھ لے کر ملک حبش تشریف لے گئے، پھر وہاں سے واپس آکر ہجرت مدینہ کی،ان کا بیان ہے کہ اس وقت تک صرف ابو سلمہ بن عبدالاسد مدینہ پہنچے تھے، لیکن صحیح یہ ہے کہ ان سے پہلے چند اور حضرات بھی پہنچ چکے تھے، البتہ ان کی بیوی لیلی بنت حشمہ کو عورتوں میں اولیت کاشرف حاصل ہے۔[2]
غزوات
بدر،احد،خندق اورتمام دوسرے غزوات میں رسول اللہ ﷺ کے ہمرکاب تھے اس کے علاوہ چھوٹے چھوٹے مہمات میں بھی شریک ہوئے اور نہایت جفاکشی وجان کاہی سے اعلا کلمتہ اللہ کا فرض انجام دیا، اپنے صاحبزادہ عبد اللہ بن عامرسے اکثر فخر ومباہات کے ساتھ ان شاندار کارناموں کا تذکرہ فرمایا کرتے تھے، ایک روز اثنائے گفتگو میں بولے کہ "رسول اللہ ﷺ ہم لوگوں کو مہمات پر بھیجتے تھے اور عسرت وناداری کے باعث سامانِ رسد میں صرف تھوڑی سی کھجوریں ساتھ کردیتے جو پہلے ایک ایک مٹھی سب کو ملتی تھی، اس کے بعد کم ہوتے ہوتے صرف ایک ایک کھجور کی نوبت آجاتی تھی، عبد اللہ نے متعجب ہوکر پوچھا، ایک ایک کھجور سے کس طرح کام چلتا ہوگا؟ فرمایا جانِ پدر ایسا نہ کہو بسا اوقات جب کھجوریں ختم ہوجاتی تھیں تو ہم لوگ اس ایک کھجور کے لیے بھی ترس جاتے تھے۔[3]
شورش سے کنارہ کشی اوروفات
خلیفہ سوم عثمان غنی کے آخری عہد خلافت میں جب فتنہ وفساد کا بازار گرم ہوا تو عامر بن ربیعہ نے غایت تقویٰ کے باعث عزلت نشینی اختیار کرلی، دن رات روزہ ،نماز اوردرود وظائف میں مشغول رہتے، ایک رات دیر تک مصروفِ عبادت رہے، یہاں تک کہ اسی حالت میں آنکھ لگ گئی تو خواب میں بشارت ہوئی اُٹھ خدا سے دعاکر کہ وہ تجھے اس فتنہ سے بچائے،جس سے اس نے اپنے دوسرے نیک بندوں کو محفوظ رکھا ہے، عامر اسی وقت اُٹھ بیٹھے اور دوگانہ ادا کرکے نہایت خشوع وخضوع سے بارگاہِ رب الحاجات میں دست بدعا ہوئے، غرض اس بشارت غیبی نے ان کی گوشہ نشینی کو پہلے سے زیادہ سخت کر دیا اوراس کے بعد ان کو کسی نے گھر سے باہر نکلتے بھی نہ دیکھا، یہاں تک کہ اسی حالت میں بیمار ہوئے اور عثمان کی شہادت کے چنددنوں بعد وفات پائی، عزلت نشینی کے باعث لوگوں کو یہ بھی معلوم نہ ہو سکا کہ کب بیمار ہوئے؟ اورکب وفات پائی، [4][5]
حوالہ جات
- اسد الغابہ:3 /80
- طبقات ابن سعد قسم 1جز 3:281
- مسند ابن حنبل جلد 3 :446
- طبقات ابن سعد قسم اول جزء 3:282
- اصحاب بدر،صفحہ 100،قاضی محمد سلیمان منصور پوری، مکتبہ اسلامیہ اردو بازار لاہور