ہاشم بن عتبہ
ہاشم بن عتبہ سعد بن وقاص کے بھتیجے تھے۔
نام ونسب
ہاشم نام، ابو عمر کنیت، مر قال لقب، نسب نامہ یہ ہے،ہاشم بن عتبہ بن ابی وقاص ابن اہیب بن عبد مناف بن زہرہ قرشی زہری، ہاشم مشہور صحابی سعد بن ابی وقاص فاتح ایران کے بھتیجے ہیں۔
اسلام
فتح مکہ میں مشرف باسلام ہوئے۔
غزوات میں شرکت
بہت آخر میں اسلام لائے تھے، اس لیے حیاتِ نبویﷺ میں غزوات کا موقع نہ ملا، سب سے اول فاروقی عہد میں ان کے جو ہر نمایاں ہوئے،شام کی فتوحات میں خالدبن ولید کے دوش بدوش داد شجاعت دی، یرموک کی مشہور جنگ میں ایک آنکھ شہید ہوئی۔ اس زمانہ میں پورے شام اورایران میں جنگ چھڑی تھی، ہاشم دونوں میں شریک ہوئے،ایران کی معرکہ آرائیوں کے سلسلہ میں قادسیہ کا معرکہ نہایت اہم ہے،اس کے لیے عمرنے دار الخلافہ سے جو منتخب بہادر بھیجے تھے، اس میں ایک ہاشم بھی تھے؛چنانچہ وہ عمرکے حکم سے چھ ہزار کی جمعیت کے ساتھ شام سے روانہ ہوئے اورٹھیک تیسرے دن ایران کے حدود میں پہنچے اور یرموک کے معرکہ میں شریک ہوئے،اس جنگ میں انہوں نے اپنی شجاعت کے نہایت حیرت انگیز مناظر دکھائے اور ایسے کا رہائے نمایاں کیے کہ مجاہدین قادسیہ میں کوئی بھی ان کے کارناموں کو نہ پہنچ سکا، فاتحین قادسیہ میں ان کانام سر فہرست ہے۔[1] مدائن کی فتح کے بعد جب یزد گرد نے جلولاء میں تیاریاں شروع کیں اورسعد بن ابی وقاص کو اس کی خبر ہوئی تو انہوں نے ہاشم کو بارہ ہزار فوج کے ساتھ اس کے مقابلہ کو بھیجا، ان کے جلو لا پہنچنے سے پہلے ایرانی تمام انتظام مکمل کرکے مقابلہ کے لیے تیار ہوچکے تھے اور ہر ایرانی نے میدان جنگ میں جان دیدینے کا عہد کر لیا تھا اوران کے پاس حلوان سے امداد پر امداد چلی آ رہی تھی۔ اس لیے ہاشم کے آنے کے بعد مسلمانوں نے طے کیا کہ بلا کسی توقف وانتظار کے حملہ کردینا چاہیے، ورنہ ایرانیوں کی امدادی فوجوں کا سلسلہ ان کی قوت بہت بڑھادیگا، اس وقت مقابلہ میں زیادہ دشواری ہوگی، اس فیصلے کے بعد مسلمانوں نے جنگ چھیڑ دی، پہلے تیر چلے پھر تیر سے نکلے، آخر میں تلوار کی نوبت آئی،اوراس گھمسان کی جنگ ہوئی کہ تلواروں کی دھاریں الٹ الٹ گئیں، ایرانی برابر کا جواب دے رہے تھے، آخر میں مسلمانوں نے ہر طرف سے سمٹ کر ایسا زبردست حملہ کیا کہ ایرانیوں کے پاؤں اکھڑ گئے، اوروہ میدان چھوڑ کر بھاگ نکلے، مسلمان صبح سے شام تک تعاقب کر کے مارتے رہے،شام کی تاریکی میں مجبوراً علاحدہ ہونا پڑا۔ اس شکست فاش کے بعد یزد گرد حلوان چلا گیا اورمسلمان دجلہ کے مشرقی ساحل کے دیہاتوں پر قبضہ کرتے ہوئے،مہرور پہنچے، یہاں کے باشندوں نے جزیہ دیکر اطاعت قبول کرلی،مہرور کے بعد بند فین پہنچے، یہاں کے باشندوں نے بھی جزیہ دیکر اطاعت قبول کرلی،خانقین میں ایرانیوں کا ایک جتھا باقی رہ گیا تھا اسے جریر بن عبد اللہ بجلی نے ہٹادیا اورسواددجلہ کا پورا علاقہ ہاشم کے زیر قیادت تسخیر ہو گیا اس کے بعد ہاشم اوراشعث بن قیس ،وقوقا،خانپجار ہوتے ہوئے باجری کے اضلاع کو فتح کرتے ہوئے اسن بار کو عبور کرکے شہرزور کی سرحد تک پہنچ گئے۔[2] جلولار کا معرکہ اپنی اہمیت کی وجہ سے فتح الفتوح کہا جاتا ہے،اس میں دس لاکھ مال غنیمت مسلمانوں کے ہاتھ آیا،اس کی کامیابی تمامتر ہاشم کی کوششوں کا نتیجہ تھی۔
جنگ جمل
اس کے بعد جب خانہ جنگی کا دور آیا اور مسلمانوں کی تلواریں آپس ہی میں چلنے لگیں تو ہاشم کی حق پرست تلوار حقدار کی حمایت میں بے نیام ہوئی،ان کا رجحان ابتدا ہی سے علی کی جانب تھا؛ چنانچہ عثمان کی خبر شہادت سن کر ابو موسیٰ اشعری سے کہا کہ اب اس امت کے بہترین فرد کے ہاتھوں پر بیعت کرلینی چاہیے، ابو موسیٰ نے کہا ابھی جلدی کی کیا ضرورت ہے،لیکن ہاشم کو توقف گوارا نہ تھا،انہوں نے علی کی خدمت میں جانے تک کی تاخیر گوارا نہ کی اوراپنا ایک ہاتھ دوسرے ہاتھ پر رکھ کر کہا یہ علی کا ہاتھ ہے اوریہ میرا، میں بیعت کرتا ہوں، جب علی نے جنگ جمل کی تیاریاں شروع کیں ،تو حسن عمار بن یاسر اور ہاشم کو کوفیوں کو آمادہ کرنے کے لیے کوفہ روانہ کیا [3] اوراس کے بعد جب جنگ جمل کا آغاز ہوا تو ہاشم شروع سے آخرتک علی کے ساتھ اوران کے دست راست رہے۔
جنگ صفین
جنگ جمل کے بعد صفین میں بھی پیش پیش تھے اوروقتاً فوقتاً کوفی فوجوں کو لیکر شامیوں کے مقابلہ میں نکلے تھے،اشہر حرم میں التوائے جنگ کے بعد جب دوبارہ جنگی تیاریاں شروع ہوئی تو علی نے بڑا علم ہاشم کو مرحمت فرمایا۔
وفات
آخری فیصلہ کن معرکوں کے سلسلہ میں ایک دن پھر علی نے ہاشم کو علم برداری کا اعزاز بخشا انہوں نے علم برداری کا پورا حق ادا کر دیا،صبح سے شام تک مسلسل لڑتے رہے،شام کی تاریکی میں ان کے ساتھیوں کے پاؤں اکھڑ گئے،مگر وہ اپنے خاص آدمیوں کے ساتھ برابر جمے رہے،حارث بن منذر تنوخی نے نیزہ سے زخمی کر دیا، زخم بہت کاری تھا،لیکن ہاشم کے استقلال میں فرق نہ آیا، وہ اسی طرح لڑتے رہے،اسی درمیان میں علی کا پیام پہنچا کہ علم آگے بڑھاتے جاؤ، ہاشم نے پیام لانے والے سے کہا، کہ تم میری حالت کا مشاہدہ کرتے جاؤ ،اس نے پیٹ پر نظر ڈالی تو دیکھا کئی شگاف پڑے ہوئے تھے،زخموں نے بالکل نڈھال کر دیا تھا؛چنانچہ قاصدکی واپسی کے بعد ہی وہ زمین پر گر پڑے،ان کے گرنے سے ان کے باقی ماندہ ساتھیوں کے بھی پاؤں اکھڑ گئے او رہاشم نے اسی محشر ستان قتال میں جان دیدی۔[4]
حوالہ جات
- استیعاب:2/617
- فتوح البلدان بلاذری:272
- اخبار الطوال:153
- اسد الغابہ:5/749