ابو الہیثم بن تیہان
مالک بن تیہان غزوہ بدر میں شامل انصاری صحابی ابو الہیثم بن تیہان سے مشہور ہیں
ابو الہیثم بن تیہان | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
پیدائشی نام | مالک بن تیہان |
مقام وفات | مدینہ منورہ |
کنیت | ابو الہیثم |
عملی زندگی | |
نسب | الاوسی الأنصاری |
عسکری خدمات | |
لڑائیاں اور جنگیں | غزوات نبوی |
نام ونسب
مالک نام، ابوالہیثم کنیت، قبیلہ اوس سے ہیں، نسب نامہ یہ ہے مالک بن التیھان بن مالک بن عتیک بن عمرو بن عبد الاعلم بن عامر بن زعورا بن جثم بن حارث بن خزرع بن عمرو بن مالک بن اوس۔
اسلام
وہ جاہلیت ہی میں توحید کے قائل تھے،ابن سعد میں ہے : مدینہ میں اسعد بن زرارہ اورابو الہیثم بن تیہان،توحید کا خیال ظاہر کرتے تھے۔[1] اسعد بن زرارہ 6 آدمیوں کے ساتھ جب مکہ سے مسلمان ہوکر آئے تو ابوالہیثم سے اپنا مسلمان ہونا بیان کیا اور اسلام کی تعلیم پیش کی،ابوالہیثم پہلے ہی دین الفطرت کے متلاشی تھے فوراً اس صدا کو لبیک کہا۔ اس کے ایک سال بعد 12 آدمیوں کا جو وفد مکہ گیا، ابوالہیثم اس میں شامل تھے محمد صل للہ علیہ والہ وسلم کے دست مقدس پر بیعت کی،دوسرے سال 70 آدمیوں کے ساتھ گئے اور بیعت حرب میں شریک ہوئے، کہتے ہیں کہ اس میں سب سے پہلے بیعت کے لیے جس شخص نے ہاتھ بڑھایا وہ ابوالہیثم تھے، بیعت کے بعد نقیبوں کا انتخاب ہوا، بنو عبد الاشہل میں اسید بن حضیر اور ابو الہیثم اس منصب کے لیے پیش کیے گئے۔
غزوات
عثمان بن مظعون جو بڑے پایہ کے مہاجر تھا،ان سے رشتہ اخوت قائم ہوا، غزوات عہد نبوت میں کسی غزوہ کی شرکت سے محروم نہیں رہے۔
وفات
عمرفاروق کے زمانہ خلافت 20ھ میں وفات پائی،
اخلاق
حب رسول پر ذیل کا واقعہ شاہد عدل ہے۔ ایک روز محمد صل للہ علیہ والہ وسلم خلاف معمول باہر تشریف لائے ،حضرت ابوبکرؓ بھی پہنچے،پوچھا ابوبکر اس وقت کیسے آئے، عرض کی حضور کی زیارت کو،تھوڑی دیر میں حضرت عمر بھی آ گئے،ان سے بھی یہی سوال ہوا، انہوں نے کہا یا رسول اللہ اس وقت بھوک یہاں لائی ارشاد ہوا میں بھوکا ہوں ،یہ تینوں بزرگ ابولہثیم کے یہاں چلے ابو الہیثم کے پاس کھجور کے باغات اور بکریوں کے ریوڑ تھے،لیکن کوئی نوکر نہ تھا اور تمام کام خود انجام دیتے تھے، اس وقت وہ گھر میں موجود نہ تھے، مکان پہنچ کر آواز دی ان کی بیوی نے کہا پانی بھرنے گئے ہیں ،تھوڑی دیر میں مشک لیے ہوئے آتے دکھائی دیے محمد صل للہ علیہ والہ وسلم کو دیکھ کر مشک رکھ دی اور آپ سے لپٹ کر نہایت ذوق و شوق سے کہنے لگے میرے ماں باپ آپ پر فدا، اس کے بعدا پنے باغ میں لے گئے بیٹھنے کے لیے کوئی چیز بچھادی اورخود چھوہاروں کی ایک شاخ کاٹ لائے،محمد صل للہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا پکے چھوہارے لائے ہوتے،عرض کیا اس میں پکے،گدر ہر قسم کے ہیں، جو مرغوب خاطر ہوں، آپ اس کو نوش فرمائیں، چھوہارے کھانے کے بعد پانی پلایا ،پانی نہایت صاف اورشیریں تھا، محمد صل للہ علیہ والہ وسلم نے کھانے کے بعد فرمایا، دیکھو، کتنی نعمتیں ہیں ،سایہ ،عمدہ چھوہارے،ٹھنڈا پانی، خدا کی قسم ان کا قیامت کے دن سوال ہوگا ،ابو الہیثم اپنے معزز مہمانوں کو باغ میں چھوڑ کر مکان آئے اور کھانے کا سامان کیا، محمد صل للہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا تھا کہ دودھ دینے والی بکری ذبح نہ کرنا، انہوں نے ایک بچہ ذبح کرایا اوراس کو بریاں کرکے حضور کی خدمت میں لائے،محمد صل للہ علیہ والہ وسلم نے کھانے کے بعد پوچھا تمہارے پاس نوکر ہے، عرض کیا نہیں، فرمایا جب میرے پاس قیدی آئیں تو آنا اس اثنامیں دو قیدی آئے، ابو الہیثم سے ارشاد ہوا کہ ایک کو پسند کرلو، انہوں نے محمد صل للہ علیہ والہ وسلم پر چھوڑا، آپ نے ایک کو اس بنا پر منتخب کیا کہ وہ نماز پڑھتا تھا، ساتھ ہی یہ بھی فرمایا کہ اس سے اچھا برتاؤ کرنا غلام کو لے کر گھر آئے اوربیوی سے یہ قول نقل کیا۔ بیوی بھی نہایت سمجھدار ملی تھی بولیں فرمان نبوی کی تعمیل منظور ہے، تو ان کو آزاد کر دو، انہوں نے ایسا ہی کیا ،محمد صل للہ علیہ والہ وسلم کو خبر ملی تو نہایت مسرور ہوئے اور میاں بیوی کی مدح فرمائی۔[2][3][4]
حوالہ جات
- طبقات، جلد1، قسم1، صفحہ:146
- جامع ترمذی:391
- اسد الغابہ جلد 3 صفحہ 80 حصہ ہشتم مؤلف: ابو الحسن عز الدين ابن الاثير ،ناشر: المیزان ناشران و تاجران کتب لاہور
- اصحاب بدر، صفحہ 189، قاضی محمد سلیمان منصور پوری، مکتبہ اسلامیہ اردو بازار لاہور