رافع بن خدیج
رافع بن خدیجکمسن اور جانثار صحابی قبیلہ بنو حارثہ کے سردار تھے
نام ونسب
رافع نام،ابو عبد اللہ کنیت ،قبیلۂ اوس سے ہیں سلسلۂ نسب یہ ہے،رافع بن خدیج بن رافع بن عدی بن زید جشم بن حارثہ بن حارث بن خزرج بن عمر وبن مالک بن اوس ،والدہ کا نام حلیمہ بنت عروہ بن مسعود بن سنان بن عامر بن عدی بن امیہ بن بیاضہ ہے۔ رافع کے آباواجداد بنو حارثہ کے رئیس اورسردار تھے،باپ اورچچا کے بعد یہ مسند رافع کے حصہ میں آئی اور وہ تمام عمر اس پر متمکن رہے۔ ہجرت کے وقت صغیر السن تھے،
غزوات
غزوہ بدر میں 14 سال کا سن تھا، آنحضرتﷺ کے سامنے لڑائی میں شریک ہونے کے ارادہ سے حاضر ہوئے آپ نے کمسن خیال کرکے واپس کیا۔ آنحضرت ﷺ کے سامنے انصار کے لڑکے ہر سال پیش ہوتے تھے،چنانچہ دوسرے سال رافع بھی پیش ہوئے،اس وقت وہ پندرہ سال کے تھے،اس لیے شرکت کی اجازت مل گئی تو ایک دلچسپ واقعہ پیش آیا۔ ایک اورصحابی سمرہ بن جندبؓ بھی لڑکوں کی جماعت میں تھے، ان کو آنحضرتﷺ نے صغر سنی کی وجہ سے شامل نہیں فرمایا تھا، بولے کہ آپ نے رافع کو اجازت دیدی اورمجھ کو چھوڑدیا،حالانکہ میں کشتی میں ان کو پچھاڑ دوں گا،آنحضرتﷺ نے مقابلہ کرایا،سمرہ دیکھنے میں چھوٹے تھے،لیکن طاقتور تھے،رافع کو پچھاڑ دیا،اس لیے آنحضرتﷺ نے ان کو بھی میدان کی اجازت دیدی۔[1]یہ روایت طبری میں ہے، اسماء الرجال کی کتابوں میں بھی یہ واقعہ موجود ہے،لیکن ان میں رافع کے نام کی تصریح نہیں۔[2] اس غزوہ میں ان کے سینہ پر ایک تیر لگا جو ہڈیوں کو توڑ کر اند گھس گیا،لوگوں نے کھینچا تو نوک اندر رہ گئی،آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ میں تمہاری نسبت قیامت میں شہادت دوں گا۔ غزوۂ خندق اوراکثر معرکوں میں شامل رہے۔جنگ صفین میں حضرت علی کا ساتھ دیا۔
وفات
وفات کے وقت 86 برس کا سن تھا، سنہ وفات میں اختلاف ہے ،امام بخاری نے تاریخ اوسط میں لکھا ہے کہ امیر معاویہ کے زمانہ میں انتقال کیا،باقی مؤرخین کی رائے ہے کہ 74ھ کی ابتدا تھی اور عبد المالک بن مروان کی خلافت تھی۔ ابن عمرنے نماز جنازہ پڑھائی۔
فضل وکمال
حدیث کی کتابوں میں ان کے سلسلہ سے 78 روایتیں منقول ہیں،راویوں میں صحابہ اور تابعین دونوں گروہ کے لوگ شامل ہیں جن کے نام یہ ہیں، ابن عمر، محمود بن لبید، سائب بن یزید، اسید بن ظہیر، مجاہد، عطار، شعبی، عبایہ بن رفاعہ، عمرہ بنت عبد الرحمن،سعید بن مسیب، نافع بن جبیر، ابو سلمہ بن عبد الرحمن، ابو النجاشی ،سلیمان بن یسار، عیسیٰ ،عثمان بن سہل، ہریر بن عبد الرحمن،یحییٰ بن اسحاق ،ثابت بن انس بن ظہیر، حنظلہ بن قیس ،نافع، واسع بن حبان ،محمد بن یحییٰ بن حبان ،عبید اللہ بن عمرو بن عثمان۔
اخلاق
امر بالمعروف اوراطاعتِ رسول معدنِ اخلاق کے تابناک جواہر پارے ہیں ،ایک مرتبہ نعمان انصاری کے غلام نے چھوہارے کا ایک چھوٹا سا درخت کسی کے باغ سے اکھیڑ دیا، مروان کی عدالت میں مقدمہ پیش ہوا، اس نے چوری کا جرم عائد کرکے ہاتھ کاٹنے کا فیصلہ کر لیا، تو رافعؓ نے کہا کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا ہے کہ پھل میں قطع ید نہیں۔[3]
حوالہ جات
- اسد الغابہ:2/354
- طبری:3/1392
- مسند بن حنبل:4/141