نوفل بن حارث

نوفل بن حارث محمد صل للہ علیہ والہ وسلم کے چچا زاد بھائی اور صحابی تھے۔[1]

نوفل بن حارث
 

معلومات شخصیت
مقام پیدائش مکہ  
مقام وفات مدینہ منورہ  
مدفن جنت البقیع  
اولاد حارث بن نوفل ، مغیرہ بن نوفل  
والد حارث بن عبدالمطلب  
بہن/بھائی
عسکری خدمات
لڑائیاں اور جنگیں فتح مکہ ، غزوہ حنین ، غزوہ طائف  

نام و نسب

نوفل نام، ابو حارث کنیت، نسب نامہ یہ ہے، نوفل بن حارث بن عبد المطلب بن ہاشم بن عبد مناف بن قصی قرشی ہاشمی،[2] ماں کا نام غزیہ تھا، نانہالی شجرہ یہ ہے، غزیہ بنت قیس بن طریف بن عبد العزی بن عامرہ بن عمیرہ بن ودیعہ بن حارث بن فہر، نوفل۔

ابوسفیان بن حارث اور ربیعہ بن حارث اور عبد شمس ان کے بھائی تھے۔[3][4]

غزوہ بدر

دعوت اسلام کے زمانہ میں محمد صل للہ علیہ والہ وسلم کے عزیز قریب بھی آپ کے دشمن ہو گئے ؛لیکن نوفل کے خون میں ہمیشہ یکساں برادرانہ محبت قائم رہی؛چنانچہ حالت شرک میں بھی آپ سے مقابلہ کرنا پسند نہ کرتے تھے، بدر میں جب طوعا ک رہا مشرکین کے ساتھ مسلمانوں کے مقابلہ کو نکلے، اس وقت یہ پر خلوص اشعار ورد زبان تھے۔[2]

حرام علي حرب أحمد إني أرى أحمد مني قريبا أواصره
وإن تك فهر أَلَّبَتْ وتجمَّعت عليه فإن الله لا شك ناصره

مجھ پر احمد سے جنگ کرنا حرام ہے وہ میرے قریبی عزیز ہیں

اسلام

بدر میں جب مشرکین کو شکست ہوئی تو دوسرے قیدیوں کے ساتھ یہ بھی گرفتار ہوئے، محمد صل للہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا، نوفل فدیہ دے کر رہا ہوجاؤ، عرض کیا یا رسول اللہ!میرے پاس فدیہ کے لائق کوئی چیز نہیں، فرمایا جدہ والے نیزے فدیہ میں دے دو، اس کے جواب میں انہوں نے آپ کی رسالت کا اعتراف کیا اور ہزارنیزے فدیہ میں پیش کیے اورذیل کے اشعار میں اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ الیکم الیکم اننی لست منکم تبرات من دین الشیرخ الاکابر دور ہو، دورہو، میں تمہاری جماعت میں نہیں ہوں، میں قریش کے بڑے بوڑھوں کے دین سے بیزار ہوں۔ شہدت علی ان النبی محمد اتی بالھدی من ربہ والبصائر میں نے شہادت دی ہے کہ محمد نبی ہیں اور خدا کی جانب سے وہ ہدایت اوربصیرت لائے ہیں وان رسول اللہ یدعواالی التقی وان رسول اللہ لیس لشاعر اوررسول اللہ تقویٰ کی طرف بلاتے ہیں اوررسول اللہ شاعر نہیں ہیں علی ذلک احیی ثم لبث موقتا واثوی علیہ متیتا فی المقابر میں اسی پر زندہ رہوں گا اوراسی پر میں قبر میں موت کی حالت میں سوؤں گا اورپھر اسی پر قیامت کے دن اٹھوں گا۔ اسلام کے بعد پھر مکہ واپس چلے گئے، غزوۂ خندق یا فتح مکہ کے زمانہ میں عباس کے ساتھ مدینہ کے قصد سے روانہ ہوئے، ابواء پہنچ کر ربیعہ بن حارث بن عبد المطلب نے لوٹنے کا ارادہ کیا، نوفلؓ نے کہا اس شرک کدہ میں کہاں جاتے ہو، جہاں کے آدمی رسول اللہ سے لڑتے اوران کی تکذیب کرتے ہیں، اب اللہ نے رسول اللہ کو عزت دی ہے اوران کے ساتھی بھی زیادہ ہو گئے ہیں، ہمارے ساتھ چلے چلو، چنانچہ یہ قافلہ ہجرت کرکے مدینہ پہنچا۔

غزوات

مدینہ آنے کے بعد سب سے پہلے فتح مکہ میں شریک ہوئے، پھر طائف وحنین وغیرہ میں داد شجاعت دی، خصوصاً حنین میں نہایت شجاعت وپامردی سے مقابلہ کیا اور اس وقت بھی جب مسلمانوں کی صفیں درہم برہم ہوگئیں اور وہ بے ترتیب ہو گئے ان کے پائے ثبات میں لغزش نہ آئی، [5] اس غزوہ میں انہوں نے مسلمانوں کی بڑی گراں قدر مدد کی تھی، 3 ہزار نیزے محمد صل للہ علیہ والہ وسلم کی خدمت میں پیش کیے، آپ نے مدحیہ فرمایا، میں دیکھ رہا ہوں کہ تمہارے نیزے مشرکوں کی پیٹھ توڑ رہے ہیں۔

وفات

عمر فاروق کے خلیفہ ہونے کے ایک سال3ماہ بعد مدینہ میں وفات پائی، عمرفاروق نے نماز جنازہ پڑھائی اورجنت البقیع میں سپرد خاک کیا۔[6]

حوالہ جات

This article is issued from Wikipedia. The text is licensed under Creative Commons - Attribution - Sharealike. Additional terms may apply for the media files.