ربیعہ بن حارث
ربیعہ بن حارث | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
پیدائشی نام | ربیعہ بن حارث |
مقام پیدائش | مکہ معظمہ |
مقام وفات | مدینہ منورہ |
کنیت | ابو اروى |
اولاد | عبد المطلب بن ربیعہ بن حارث |
والد | حارث بن عبد المطلب |
والدہ | غزیہ بنت قیس بن طریف الفہریہ[1] |
بہن/بھائی | |
رشتے دار | بھائی: ابو سفیان بن حارث نوفل بن حارث |
عملی زندگی | |
نسب | الہاشمی القریشی |
پیشہ | سائنس دان |
ربیعہ بن حارث بن عبد المطلب الہاشمی القریشی
نام و نسب
آپ کا نام ربیعہ کنیت "ابو اروی" والد کا نام حارث بن عبد المطلب جو نبی کریم کے سب سے بڑے چچا تھے اور والدہ کا نام غزیہ بنت قیس تھا۔ آپ ابو سفیان بن حارث ، عبد اللہ بن حارث اور نوفل بن حارث کے سگے بھائی ہے۔
سلسلہ نسب
آپ کا والد کی طرف سے سلسلہ نسب یہ ہے حارث بن عبد المطلب ابن عبد المطلب ابن ہاشم بن عبد مناف ابن عبد مناف بن قصی ابن قصی بن کلاب ابن کلاب بن مرہ ابن کعب بن لوی ابن لوی بن غالب ابن غالب بن فہر ابن فہر بن مالک القریش۔
والدہ کی جانب سے سلسلہ نسب یہ ہے غزیہ بنت قیس بن عبد العزی بن عامر بن عمیر بن ودیعہ بن الحارث بن فہر[2]
پیدائش
آپ کی پیدائش 566ء میں مکہ مکرمہ میں ہوئی۔ آپ اپنے چچا اور عم رسول ﷺ حضرت عباس بن عبد المطلب سے عمر میں دو سال بڑے تھے۔ [3]
تجارت
آپ تجارت میں حضرت عثمان بن عفان کے شریک تھے۔[4]جب مسلمانوں اور کفار کے درمیان غزوہ بدر کا واقعہ پیش آیا تو اس وقت آپ تجارت کی غرض سے ملک شام گئے ہوئے تھے اس وجہ سے آپ مشرکین کے ہمراہ بدر میں موجود نہ تھے۔[3]
قبول اسلام
عباس بن عبد المطلب ، نوفل بن حارث ایام خندق میں ہجرت کر کے رسول اللہ ﷺ کی خدمت روانہ ہوئے تو ربیعہ بن حارث نے مقام ابواء تک ان دونوں کی مشایعت کی۔ جب مکہ واپس جانے کا ارادہ کیا تو عباس و نوفل نے کہا تم دارالشرک کی طرف واپس جاتے ہو۔ جہاں لوگ رسول اللہ سے جنگ کرتے ہیں اور آپ کی تکذیب کرتے ہیں۔ رسول اللہ غالب ہو گئے ہیں۔ آپ کے اصحاب بہت ہو گئے ہیں۔ واپس آؤ۔ ربیعہ تیار ہوئے اور ان دونوں کے ساتھ روانہ ہو گئے یہاں تک کہ سب کے سب رسول اللہ ﷺ کے پاس مدینہ میں مسلم مہاجرین بن کر آئے۔[3]
غزوہ مکہ ، طائف و حنین
سیدنا ربیعہ رسول اللہ ﷺ کے ہمرکاب فتح مکہ طائف و حنین میں حاضر تھے۔ یوم حنین میں نبی کریم کے ان اصحاب و اہل بیت میں تھے جو ثابت قدم رہے اور اور ہمرکاب سعادت تھے۔[3]
مدینہ میں قیام اور جاگیر
آپ نے مدینہ منورہ میں بنی حدیلہ میں ایک مکان بنا لیا تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے خیبر سے آپ کو سو وسق سالانہ جاگیر عطا کی تھی۔[3]
بیٹے کا قتل
آدم (دم) یا (تمام) بن ربیعہ بن حارث وہی تھے جنہیں قبیلہ بنی ہذیل میں دودھ پلایا جاتا تھا۔ بنو لیث بن بکر نے اس جنگ میں قتل کر دیا تھا جو ان کے درمیان ہوئی تھی۔ یہ ابھی بچے تھے مکان کے آگے گھٹنوں کے بل چلتے تھے۔ بنو لیث نے ایک پتھر مارا جو ان کو لگا سر پاش پاش کر دیا۔
معافی
نبی کریم نے حجۃ الوداع کے موقع پر فرمایا آگاہ ہو ہر وہ خون جو جاہلیت میں ہوا میرے قدموں کے نیچے ہے (یعنی اب اس کا کوئی شمار اور انتقام نہیں ہے) سب سے پہلا خون جس سے میں درگزر کرتا ہوں وہ ربیعہ بن حارث بن عبد المطلب کے بیٹے کا خون ہے۔ [2]
حدیث میں ذکر
یہی ہیں جن کی نسبت نبی کریم ﷺ نے فرمایا تھا کہ ربیعہ کیا اچھا آدمی ہے کاش وہ اپنے بال کتروا دیتا اور اپنا لباس اونچا کر دیتا۔ اس حدیث کو سہل بن حنظلیہ خریم بن فاتک اسدی کے تذکرہ میں روایت کرتے ہیں۔[4]
روایت حدیث
آپ نے نبی کریم سے کئی حدیثیں روایت کی ہے منجملہ ان کے ایک یہ ہے کہ صدقہ لوگوں کا میل ہے۔ آپ سے آپ کے بیٹے عبد المطلب نے روایت کی ہے۔[4]
وفات
آپ کی وفات اپنے دونوں بھائیوں ابو سفیان بن حارث اور نوفل بن حارث کی وفات کے بعد[3]عہد فاروقی میں 23 ہجری مدینہ میں ہوئی۔[4]
اولاد
آپ کی اولاد میں سے سات بیٹے اور ایک بیٹی آپ کے چچا زبیر بن عبد المطلب کی بیٹی ام لحکیم بنت زبیر سے ہوئی جن میں محمد ، عباس ، حارث ، عبد اللہ ، عبد شمس ، امیہ ، عبد المطلب اور بیٹی اروٰی کبرٰی شامل ہیں۔[5] ایک اور بیٹی اروٰی صغرٰی کی والدہ ام ولد تھیں۔ اولاد میں محمد ، عباس ، عبد اللہ اور حارث کی اولاد باقی نہ تھی۔[2]
حوالہ جات
- سير أعلام النبلاء» الصحابة رضوان الله عليهم» ربيعة بن الحارث نسخہ محفوظہ 19 اپریل 2017 در وے بیک مشین
- طبقت ابن سعد جلد 2 حصہ چہارم صفحہ 171
- طبقت ابن سعد جلد 2 حصہ چہارم صفحہ 172
- اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ اردو صفحہ 751
- نبی کریم صلی اللہ وآلہ وسلم کے عزیز و اقارب صفحہ 106