سعد بن ابی وقاص
سعد بن ابی وقاصفاتح ایران کا تعلق قریش کے قبیلہ بنو زہرہ سے تھا جو محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ننھیالی خاندان ہے اس لیے آپ رشتے میں حضور کے ماموں زاد بھائی تھے۔ حمزہ بن عبدالمطلب کی والدہ آپ کی سگی پھوپھی تھیں۔ ہجرت مدینہ سے تیس برس پہلے پیدا ہوئے۔ نزول وحی کے ساتویں روز ابوبکرصدیق کے ترغیب دلانے پر مشرف با اسلام ہوئے۔ اور عمر بھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے محافظ خصوصی کے فرائض انجام دیے۔
سعد بن ابی وقاص | |
---|---|
(عربی میں: سعد بن أبي وقاص) | |
![]() | |
معلومات شخصیت | |
پیدائش | سنہ 595 مکہ |
وفات | سنہ 674 (78–79 سال) مدینہ منورہ |
مدفن | جنت البقیع |
شہریت | ![]() |
اولاد | عمر بن سعد |
بہن/بھائی | |
عملی زندگی | |
پیشہ | تاجر |
پیشہ ورانہ زبان | عربی |
عسکری خدمات | |
شاخ | خلافت راشدہ کی فوج |
عہدہ | کمانڈر |
نام
ابی وقاص کا نام مالک تھا اس لیے ان کو سعد بن مالک بھی کہا جاتا ہے۔ سعد زہری قریشی ہیں
شخصیت
سعد بن ابی وقاص بہت مضبوط جسم کے انسان تھے۔ قد چھوٹا ہونے کے باوجود رعب دار شخصیت کے مالک تھے۔ آپ کا بڑا سر آپ کے مدبر ہونے کی غمازی کرتا تھا اور مضبوط انگلیاں قوت بازو کی شاہد تھیں۔ تیر اندازی میں اپنا جواب نہیں رکھتے تھے۔ اسلام کی خاطر سب سے پہلے کسی کافر کا خون بہانے کا شرف آپ کو حاصل ہوا۔ جب دور ابتلا میں کفار نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر حملہ کرنا چاہا تو ایک مردہ اونٹ کی ہڈی سے دشمنوں پر حملہ کرکے ان میں سے ایک کو لہولہان کر دیا اور باقی سب بھاگ جانے پر مجبور ہو گئے۔
غزوات میں شرکت
سعد بن ابی وقاص اور ان کا خاندان ذوق جہاد میں بہت ممتاز تھے۔ غزوہ بدر میں آپ کے کم عمر بھائی عمیر نے اصرار کرکے شرکت کی اجازت لی اور معروف پہلوان عمرو بن عبدود کے ساتھ مقابلہ کرکے جام شہادت نوش کیا۔ سعد نے قریش کے ناقابل شکست سردار سعد بن العاص کو جہنم رسید کیا اور تین کافروں کو باندھ کر حضور کی خدمت میں پیش کیا۔
غزوہ احد میں آپ نے تیر اندازی سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اس وقت تک حفاظت کی جب مسلمان تیر اندازوں کے پشت سے ہٹ جانے کے سبب خالد بن ولید کے دستے نے عقب سے حملہ کرکے بہت نازک صورت حال پیدا کر دی تھی۔ اس موقع پر حضور فرما رہے تھے۔ ’’اے سعد تجھ پرمیرے ماں باپ قربان تیر چلاتے جاؤ۔‘‘ غالباً اس انداز سے حضور نے کسی اور صحابی کو کبھی مخاطب نہیں کیا۔ "عامر بن سعد اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کے لیے احد کے دن اپنے ماں باپ کو جمع فرمایا سعد فرماتے ہیں کہ مشرکوں میں سے ایک آدمی تھا جس نے مسلمانوں کو جلا ڈالا تھا تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سعد سے فرمایا اے سعد (ارْمِ فِدَاکَ أَبِي وَأُمِّي) تیر پھینک میرے ماں باپ تجھ پر قربان سعد فرماتے ہیں کہ میں نے بغیر پرکھے تیر کھینچ کر اس کے پہلو پر مارا جس سے وہ گر پڑا اور اس کی شرمگاہ کھل گئی تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہنس پڑے یہاں تک کہ میں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی داڑھیں مبارک دیکھیں"۔[1]
سعد بن ابی وقاص نے غزوہ خندق میں بھی داد شجاعت دی۔ صلح حدیبیہ کے موقع پر بیعت رضوان میں شریک ہوئے۔ فتح مکہ کے موقع پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے تین صحابہ کو علمبردار مقرر کیا ان میں سے ایک سعد بن ابی وقاص بھی تھے۔ غزوہ حنین میں شرکت کا شرف بھی آپ کو حاصل تھا۔ فتح خیبر میں بھی آپ رسول اللہ کے ہم رکاب تھے اور غزوہ حنین میں بھی آپ کا خاص اعزاز یہ تھا کہ خطرناک ترین حالات میں آپ کو رسول اللہ کی حفاظت کی ذمہ داری سونپی جاتی
حجۃ الوداع کے موقع پر اتنے بیمار ہو گئے کہ صحت یابی کی امید نہ رہی۔ حضور نے دعا فرمائی چہرے اور شکم پر دست مبارک پھیرا اور آپ صحت یاب ہو گئے۔ اس موقع پر آپ کے دعائیہ کلمات آپ کے فاتح قادسیہ ہونے کی پیش گوئی کا رنگ لیے ہوئے ہیں۔ آپ نے فریایا۔ سعد شاید خدا تم کو بستر سے اٹھائے اور تم سے کچھ لوگوں کوفائدہ اور کچھ کو نقصان پہنچے۔ آپ نے اس موقع پر اپنا سارا مال صدقہ کر دینا چاہا لیکن حضور نے صرف ایک تہائی صدقہ کرنے کی اجازت دی۔
خلافت راشدہ میں خدمات
آپ حضرت ابوبکر صدیق کے ہاتھ پر بیعت کرنے میں پہل کرنے والوں میں سے تھے۔ اور انتظامی صلاحیت کی وجہ سے آپ کو بنو ہوازن کا عامل مقرر کیا گیا۔ اس منصب پر آپ کئی سال فائز رہے۔
ایران کی فتح
آپ کی زندگی کا بہت عظیم کارنامہ یہ ہے کہ آپ نے اس نازک وقت میں اسلامی لشکر کی قیادت کی جب ایران کے محاذ کی صورت بہت تشویشناک تھی۔ جسر کی جنگ میں ابوعبیدہ ثقفی شہید ہو گئے تھے۔ ایران میں نوجوان بادشاہ یزد گرد نے اقتدار سنبھال کر ایران کی فوجی حمیت کو اپیل کی تھی اور ایک لشکر جرار تیار کرکے اسلامی سلطنت پر حملہ آور ہونے کے احکامات جاری کیے تھے۔ ان حالات میں بعض صحابہ کی رائے یہ تھی کہ امیرالمومنین عمر بن خطاب کو خود محاذ پر جانا چاہیے۔ چنانچہ وہ مدینہ سے اس نیت سے روانہ ہو بھی گئے لیکن بعد میں علی المرتضی اور عبدالرحمن بن عوف نے سعد بن ابی وقاص کو سپہ سالار مقرر کرنے کی تجویز پیش کی۔ اس طرح یہ جہاندیدہ اور بہادر جرنیل محاذ جنگ پر پہنچا
قادسیہ کی جنگ طویل ترین ،سب سے زیادہ فیصلہ کن اور اہم جنگ تھی۔ تین روز کی اس جنگ میں شجاعت کے نئے ریکارڈ قائم ہوئے۔ جنگی چالوں میں دشمن کو مات دی گئی اور کسریٰ کی عظیم فوج کی شکست سے اس کی سلطنت کی بنیادیں ہل گئیں
جنگ کے بعد سعد بن ابی وقاص نے یکے بعد دیگرے ایران کے تمام فوجی مراکز کو سرنگوں کیا اور ایرانی درالحکومت مدائن کی طرف پیش قدمی کی۔ دریائے دجلہ کی طغیانی اور تند و تیز موجیں بھی لشکر اسلام کا راستہ نہ روک سکیں اور سعد بن ابی وقاص نے خدا کا نام لے کر اپنے گھوڑے کو دریا میں ڈال دیا۔ مسلمان ہنستے کھیلتے دریا عبور کرنے لگے تو ایرانی "دیو آ گئے دیو آ گئے" پکارتے ہوئے راہ فرار اختیار کر گئے۔ مدائن کے بعد جلولا اور دوسرے شہر فتح ہوئے اور نوادرات اور مال غنیمت مدینہ روانہ کر دیے گئے۔
سعد بن ابی وقاص مفتوحہ ایران کے پہلے امیر تھے۔ آپ نے کچھ دیر تک مدائن کو اپنا مرکز حکومت بنایا پھر 17 ھ میں کوفہ کا شہر بسایا۔ آپ کے دور امارت میں بے شمار مدرسے، مکتب، مساجد پل اور نہریں بنائی گئیں۔ عمرفاروق نے بعض شکایات موصول ہونے پر 21 ھ کو سعد بن ابی وقاص کو ان کی ذمہ داریوں سے سبکدوش کر دیا۔
عمرفاروق نے جن چھ افراد کو خلیفہ منتخب کرنے کا اختیار دیا تھا۔ سعد بن ابی وقاص ان میں سے ایک تھے۔ عثمان ذو النورین نے آپ کو دوبارہ کوفہ کا والی مقرر کیا۔ عبداللہ بن مسعود سے اختلاف ہو جانے پر تین سال بعد آپ کو پھر اس منصب سے علاحدہ کر دیا گیا۔
غیر جانبداری
سعد بن ابی وقاص ان لوگوں میں سے تھے جنہوں نے حضرت عثمان کے خلاف اٹھنے والی ہر شورش پر قابو پانے کی کوشش کی لیکن جب شہادت عثمان کا سانحہ رونما ہو کر رہا تو آپ نے علی المرتضی کے ہاتھ پر بیعت کرلی تاہم جنگ جمل اور جنگ صفین میں شرکت سے معذرت کر لی۔ اور علی نے جواباً کہا
’’مجھے ایسی تلوار بتاؤ جو کافر اور مسلمان میں امتیاز کر سکے۔‘‘
اس کے بعد اپنی وفات 55 ھ تک خانہ نشین رہے۔ اور باوجود اس کے کہ آپ اپنے مرتبہ کے لحاظ سے بہت ممتاز تھے، اپنے بیٹے اور دوسرے لوگوں کے اکسانے پر بھی خلافت کے دعویدار نہ بنے۔ آپ نے زہد و تقوی اور گمنامی کی زندگی کو پسند کیا اور اپنے آپ کو دور فتن کے فتنوں میں ملوث نہ کیا۔
حدیث میں ذکر
ان 10 صحابہ کرام کا ذکر عبدالرحمن بن عوف رضي اللہ تعالٰی عنہ کی روایت کردہ حدیث میں ہے کہ:
عبدالرحمن بن عوف بیان کرتے ہيں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
ابوبکر جنتی ہیں، عمر جنتی ہیں، عثمان جنتی ہيں، علی جنتی ہیں، طلحہ جنتی ہیں، زبیر جنتی ہیں، عبدالرحمن جنتی ہیں، سعد جنتی ہيں، سعید جنتی ہیں، ابوعبیدہ جنتی ہیں۔[2]
حوالہ جات
- صحیح مسلم:جلد سوم:حدیث نمبر 1736
- جامع ترمذی:جلد دوم:حدیث نمبر1713