حسان بن ثابت
حسان بن ثابت (وفات: 55ھ بمطابق 674ء) ایک صحابی رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تھے۔
حسان بن ثابت | |
---|---|
حسان بن ثابت بن منذر بن حرام بن عمرو بن زید مناہ بن عدی بن عمرو بن مالک ابن نجار | |
![]() حسان بن ثابت | |
معلومات شخصیت | |
پیدائش | سنہ 554 مدينہ منورہ |
وفات | سنہ 674 (119–120 سال) مدینہ منورہ |
لقب | شاعر الرسول، ابو ولید، ابو عبد الرحمن |
طبی کیفیت | اندھا پن |
زوجہ | سیرین بنت شمعون |
اولاد | عبد الرحمن |
عملی زندگی | |
نسب | خزرجی |
خصوصیت | شاعر رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم |
پیشہ | شاعر |
پیشہ ورانہ زبان | عربی |
نام ونسب
نام حسان تھا جبکہ ابوالولید کنیت تھی۔ شاعر اور شاعر رسول اللہ القاب تھے۔ قبیلہ بنو خزرج میں مدینہ میں پیدا ہوئے۔ سلسلۂ نسب یہ ہے،حسان ابن ثابت بن منذر بن حرام بن عمروبن زید مناۃ بن عدی بن عمرو بن مالک بن نجا ربن ثعلبہ بن عمرو بن خزرج ،والدہ کا نام فریعہ بنت خالد بن خنیس بن لوذان بن عبد ودبن زید بن ثعلبہ بن خزرج بن کعب بن ساعدہ تھا، قبیلہ خزرج سے تھیں اور سعد بن عبادہ سردار خزرج کی بنت عم ہوتی تھیں ،[1]
معمر ترین اجداد
سلسلۂ اجداد کی چار پشتیں نہایت معمر گذریں،عرب میں کسی خاندان کی چار پشتیں مسلسل اتنی طویل العمر نہیں مل سکتیں، حرام کی عمر جو حسان کے پردادا تھے 120 سال کی تھی ان کے بیٹے منذر اورثابت بن منذر اورحسان بن ثابت سب نے یہی عمر پائی۔[2]
اسلام
حسان حالتِ ضعیفی میں ایمان لائے،ہجرت کے وقت 60 برس کا سن تھا۔ عمر رسیدہ ہونے اورضعف قلب کے باعث کسی غزوہ میں شامل نہ ہوئے
جہاد باللسان
جہاد بالنفس جان کی بجائے زبان سے جہاد کیا۔ آپ قریش کے اسلام دشمن شعرا کی ہجو کا مسکت جواب دیتے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی وفات پر حسان نے بڑے پر درد مرثیے لکھے۔ شاعری کے لحاظ سے جاہلیت کے بہترین شاعر تھے۔ کفار کی ہجو اور مسلمانوں کی شان میں بے شمار اشعار کہے ہیں۔
واقعہ افک
5ھ میں غزوہ مریسیع سے واپسی کے وقت منافقین نے عائشہ صدیقہ پر اتہام لگایا، عبد اللہ بن ابی ان سب میں پیش پیش تھا، مسلمانوں میں بھی چند آدمی اس کے فریب میں آ گئے، جن میں حسان، مسطح بن اثاثہ ،اورحمنہ بنت جحش بھی شامل تھیں، جب عائشہ کی برأت میں آیتیں اتریں تو آنحضرتﷺ نے اتہام لگانے والوں پر عفیفہ عورتوں پر تہمت لگانے کی قرآن کی مقرر کردہ حد جاری رکھی۔[3] گو حسان عائشہ پر تہمت لگانے والوں میں سے تھے،لیکن اس کے باوجود جب ان کے سامنے حسان کو کوئی برا کہتا تو منع کرتیں اور فرماتیں کہ وہ آنحضرتﷺ کی طرف سے کفار کو جواب دیا کرتے تھے اور آپ کی مدافعت کرتے تھے۔ ایک مرتبہ حسان عائشہ صدیقہ کو شعر سنا رہے تھے کہ مسروق بھی آ گئے اورکہا آپ ان کو کیوں آنے دیتی ہیں، حالانکہ خدا نے فرمایا ہے کہ افک میں جس نے زیادہ حصہ لیا اس کے لیے بڑا عذاب ہے،فرمایا یہ اندھے ہو گئے اس سے زیادہ اورکیا عذاب ہوگا ،پھر فرمایا بات یہ ہے کہ یہ رسول اللہ ﷺ کے لیے مشرکین کی ہجو کرتے تھے۔[4]
منبر رسول پر
ام المومنین عائشہ فرماتی ہیں کہ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حسان بن ثابت کے لیے مسجد میں منبر رکھایا کرتے تھے، تاکہ اس پر کھڑے ہو کر حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے مفاخرت کریں۔ یعنی حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تعریف میں فخریہ اشعار پڑھیں یا حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے مدافعت کریں، یعنی کفار کے الزامات کا جواب دیں۔ یہ شک راوی کا ہے اور حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ بھی فرماتے تھے کہ حق تعالیٰ روح القدس سے حسان کی امداد فرماتے ہیں۔ جب تک کہ وہ دین کی امداد کرتے ہیں۔[5]
شاعری
شوق شاعری
آپ نے یثرب کے شہری ماحول میں پرورش پائی۔ وہاں شعر و شاعری کے تذکرے عام تھے۔ آپ کا ذوق سلیم شاعری کے مطابق تھا۔ شعر کہنا شروع کیا۔ اپنے قبیلے کا جوش و جذبہ بڑھانے کے لیے شعر کہتے اور بہت جلد نامور ہو کر اشعر اہل المدر کہلائے۔ حضری شعرا میں تو کوئی ان کا مد مقابل نہ تھا۔ بدوی شعرا سے بھی تعلق رہتا اورشعری مبازرت کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیتے ۔[6] ناقدین آپ کی دور جاہلیت کی شاعری کو بہترین اور قابل استناد جانتے ہیں۔ آل جفنہ کی مدح میں آپ کے قصائد کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ ان قصائد کی ایک خوبی یہ تھی کہ یہ مالی اعانت یا انعام اکرام کی بجائے خلوص و محبت کے رنگ میں ڈھلے ہوئے تھے ۔
قصیدہ
اردو ترجمہ:
- میرے آقا میرے مولا، میرے آقا میرے مولا
- محمد رسول اللہ، محمد رسول اللہ
- جہاں میں ان سا چہرہ ہے نہ ہے خندہ جبیں کوئی
- ابھی تک جن سکیں نہ عورتیں ان سا حسین کوئی
- نہیں رکھی ہے قدرت نےمیرے آقا کمی تجھ میں
- جو چاہا آپ نے مولا وہ رکھا ہے سبھی تجھ میں
- میرے آقا میرے مولا، میرے آقا میرے مولا
- محمد رسول اللہ، محمد رسول اللہ
- بدی کا دور تھا ہر سو جہالت کی گھٹائیں تھیں
- گناہ و جرم سے چاروں طرف پھیلی ہوائیں تھیں
- خدا کے حکم سے نا آشنا مکے کی بستی تھی
- گناہ و جرم سے چاروں طرف وحشت برستی تھی
- خدا کے دین کو بچوں کا ایک کھیل سمجھتے تھے
- خدا کو چھوڑ کر ہر چیز کو معبود کہتے تھے
- وہ اپنے ہاتھ ہی سے پتھروں کے بُت بناتے تھے
- انہی کے سامنے جھکتے انہی کی حمد گاتے تھے
- کسی کا نام "عُزی" تھا کسی کو "لات" کہتے تھے
- "ہُبل" نامی بڑے بُت کو بتوں کا باپ کہتے تھے
- اگر لڑکی کی پیدائش کا ذکر گھر میں سن لیتے
- تو اُُس معصوم کو زندہ زمیں میں دفن کر دیتے
- پر جو بھی بُرائی تھی سب ان میں پائی جاتی تھی
- نہ تھی شرم و حیا آنکھوں میں گھر گھر بے حیائی تھی
- مگر اللہ نے ان پر جب اپنا رحم فرمایا
- تو عبد اللہ کے گھر میں خدا کا لاڈلا آیا
- عرب کے لوگ اس بچے کا جب اعزاز کرتے تھے
- تو عبد المطلب قسمت پر اپنی ناز کرتے تھے
- خدا کے دین کا پھر بول بالا ہونے والا تھا
- محمد سے جہاں میں پھر اُجالا ہونے والا تھا
- میرے آقا میرے مولا، میرے آقا میرے مولا
- محمد رسول اللہ، محمد رسول اللہ
- فرشتہ ایک اللہ کی طرف سے ہم میں حاضر ہے
- خدا کے حکم سے جبرئیل بھی اک فرد لشکر ہے
- سپہ سالار اور قائد ہمارے ہیں رسول اللہ
- مقابل ان کے آؤ گے ملے گی ذلت کُبری
- ہمیں فضل خدا سے مل چکی ایماں کی دولت ہے
- ملی دعوت تمہیں پر سر کشی تم سب کی فطرت ہے
- سنو اے لشکر کفار ہے اللہ غنی تم سے
- لیا تعمیر زمیں کا کام ہے اللہ نے ہم سے
- لڑائى اور مدح و ذم میں بھی ہم کو مہارت ہے
- قبیلہ معاذ سے ہر روز لڑنا تر سعادت ہے
- زبانی جنگ میں شعر و قوافی خوب کہتے ہیں
- لڑائی جب بھی لڑتے ہیں لہو دشمن کے بہتے ہیں
- میرے آقا میرے مولا، میرے آقا میرے مولا
- محمد رسول اللہ، محمد رسول اللہ
- محمد کے تقدس پر زبانیں جو نکالیں گے
- خدا کے حکم سے ایسی زبانیں کھینچ ڈالیں گے
- کہاں رفعت محمد کی کہاں تیری حقیقت ہے
- شرارت ہی شرارت بس تیری بے چین فطرت ہے
- مذمت کر رہا ہے تُو شرافت کے مسیحا کی
- امانت کے دیانت کے صداقت کے مسیحا کی
- اگر گستاخ ناموس احمد کر چکے ہو تم
- تو اپنی زندگی سے قبل ہی بس مر چکے ہو تم
- میرا سامان جان و تن فدا ان کی رفاقت پر
- میرے ماں باپ ہو جائیں نثار ان کی محبت پر
- زبان رکھتا ہوں ایسی جس کو سب تلوار کہتے ہیں
- میرے اشعار کو اہل جہاں ابحار کہتے ہیں
- میرے آقا میرے مولا، میرے آقا میرے مولا
- محمد رسول اللہ، محمد رسول اللہ
اہل و عیال
بیوی کا نام سیرین تھا جو ماریہ قبطیہ حرم رسول اللہ کی ہمشیرہ تھیں ان سے عبد الرحمن نامی ایک لڑکا پیدا ہوا،اس بنا پر عبد الرحمن ابراہیم بن رسول اللہ ﷺ حقیقی خالہ زاد بھائی تھے۔[7]
اخلاق وعادات
ان کا سب سے بڑا امتیاز یہ ہے کہ وہ دربار نبوی کے شاعر تھے اورآنحضرتﷺ کی جانب سے کفار کی مدافعت میں اشعار کہتے تھے اورآنحضرتﷺ نے ان کے لیے دعا فرمائی کہ خدایا روح القدس سے ان کی مدد کر،اس بنا پر بارگاہ رسالت میں ان کو خاص تقرب حاصل تھا۔ طبیعت کی کمزوری کے باوجود اخلاقی جرأت موجود تھی،ایک مرتبہ مسجد نبوی میں شعر پڑھ رہے تھے، عمرفاروق نے منع کیا تو جواب دیا کہ میں تم سے بہتر شخص کے سامنے پڑھا کرتا تھا۔[8]
وفات
آنحضرتﷺ کے بعد عرصہ تک زندہ رہے 120 برس کی عمر تھی،۔ امیر معاویہ کے زمانے 60ھ میں وفات پائی۔
حوالہ جات
- بخاری:2/595
- اسد الغابہ
- خلاصۃ الوفاء
- اسد الغابہ:2/7
- شمائل ترمذی:جلد اول:حدیث نمبر 236
- نعت کائنات
- اسدالغابہ:2/6
- بخاری:1/909،مسند:5/222