بلال ابن رباح
بلال ابن رباح (عربی: بلال بن رباح الحبشي) المعروف بلال حبشی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے مشہور صحابی تھے۔
بلال ابن رباح | |
---|---|
(عربی میں: بلال بن رباح) | |
![]() بلال ابن رباح | |
معلومات شخصیت | |
پیدائشی نام | بلال بن رباح |
پیدائش | سنہ 580 مکہ |
وفات | سنہ 642 (61–62 سال) دمشق |
مدفن | باب صغیر |
شہریت | ![]() |
کنیت | ابو عبد الکریم ابو عبد اللہ ابو عمرو |
زوجہ | ہند الخولانیہ |
والدہ | حمامہ |
عملی زندگی | |
نسب | حبشی |
پیشہ | مؤذن |
عسکری خدمات | |
لڑائیاں اور جنگیں | غزوات نبوی |
حلیہ
قد نہایت طویل، جسم لاغر، رنگ نہایت گندم گوں بلکہ سیاہی مائل، سر کے بال نہایت گھنے خمدار اور اکثر سفید تھے۔[1]
نام و نسب
بلال نام ، ابوعبداللہ کنیت، والد کا نام رباح اوروالدہ کانام حمامہ تھا، یہ حبشی نژاد غلام تھے ؛لیکن مکہ ہی میں پیدا ہوئے، بنی جمح ان کے آقا تھے۔
اسلام
بلال نے اس وقت اسلام کا اعلان کیا جب صرف سات آدمیوں کو اس کے اعلان کی توفیق ہوئی تھی جس کی وجہ سے مصائب اورطرح طرح کے مظالم سے ان کے استقلال واستقامت کی آزمائش ہوئی، تپتی ہوئی ریت ، جلتے ہوئے سنگریزوں اوردہکتے ہوئے انگاروں پر لٹائے گئے، مشرکین کے لڑکوں نے گلے مبارک میں رسیاں ڈال کر کرکھینچا، ابوجہل ان کو منہ کے بل سنگریزوں پر لٹا کر اوپر سے پتھر کی چکی رکھ دیتا اورجب آفتاب کی تمازت بیقرار کردیتی تو کہتا، بلال اب بھی محمد کے خدا سے بازآ، لیکن اس وقت بھی دہن مبارک سے یہی کلمہ احد احد نکلتا۔
آزادی
بلال ایک روز حسبِ معمول مشقِ ستم بنائے جا رہے تھے، ابوبکر صدیق اس طرف سے گزرے تو یہ درد ناک منظر دیکھ کر دل بھر آیا اورایک گرانقدر رقم معاوضہ دے کر آزاد کر دیا، آنحضرت ﷺ نے سنا تو فرمایا، ابوبکر تم مجھے اس میں شریک کرلو، عرض کیا یا رسول اللہ میں آزاد کراچکا ہوں۔
مؤذن رسول
اسلام کے پہلے مُؤذن تھے۔ اعلان عام کے لیے اذان کا طریقہ اپنایا کیا گیا، بلال سب سے پہلے وہ بزرگ ہیں جو اذان دینے پر مامور ہوئے۔[2] سفر میں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے کھانے پینے کا انتظام بلال کے سپرد ہوتا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بعد عمر کے اصرار پر صرف ایک دفعہ اذان کہی۔ کہا جاتا ہے کہ اس روز اذان میں جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا نام آیا تو غش کھا کر گر پڑے۔ بلال کی آواز نہایت بلند وبالا ودلکش تھی، ان کی ایک صدا توحید کے متوالوں تک پہنچتی، مرد اپنا کاروبار، عورتیں شبستان حرم اوربچے کھیل کود چھوڑ کروالہانہ وارفتگی کے ساتھ مسجد میں جمع ہوجاتے تو نہایت ادب کے ساتھ آستانہ نبوت پر کھڑے ہوکر کہتے حی علی الصلوۃ، حی علی الفلاح، الصلوۃ یا رسول اللہ! یعنی یارسول اللہ نماز تیار ہے، غرض آپ تشریف لاتے اوربلال اقامت کہتے اہل ایمان سربسجود ہونے کے لیے صف بصف کھڑے ہو جاتے۔
غزوات
بلال تمام مشہور غزوات میں شریک تھے، غزوۂ بدر میں انہوں نے امیہ بن خلف کو تہِہ تیغ کیا جو اسلام کا بہت بڑا دشمن تھا اورخود ان کی ایذارسانی میں بھی اس کا ہاتھ سب سے پیش پیش تھا۔
ہجرت
وہ مکہ سے ہجرت کر کے مدینہ پہنچے تو سعد بن خثیمہ کے مہمان ہوئے ابوردیحہ عبد اللہ بن عبد الرحمن خثعمی سے مواخات ہوئی، ان دونوں میں نہایت شدید محبت پیدا ہو گئی تھی، عہدِ فاروق میں بلال نے شامی مہم میں شرکت کا ارادہ کیا تو عمرنے پوچھا، بلال تمہارا وظیفہ کون وصول کرے گا؟ عرض کیا"ابوردیحہ کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے ہم دونوں میں جو برادرانہ تعلق پیدا کر دیا ہے وہ کبھی منقطع نہیں ہو سکتا۔[3]
وفات
20ھ میں دنیائے فانی کو خیرباد کہا، کم وبیش ساٹھ برس کی عمر پائی، دمشق میں باب الصغیر کے قریب مدفون ہوئے[4]
ازواج
بلال نے متعدد شادیاں کیں، ان کی بعض بیویاں عرب کے نہایت شریف ومعزز گھرانوں سے تعلق رکھتی تھیں، ابوبکر کی صاحبزادی سے خود رسول اللہ ﷺ نے نکاح کرادیا تھا، بنو زہرہ اور ابودرداء کے خاندان میں بھی رشتہ مصاہرت قائم ہواتھا، لیکن کسی سے کوئی اولاد نہیں ہوئی۔[5]
حوالہ جات
- صفہ اور اصحاب صفہ از مولانا مفتی مبشر ص 160
- بخاری باب بدءالاذان
- طبقات ابن سعد قسم اول جزوثالث : 167
- اسدالغابہ:1/207
- طبقات ابن سعد قسم اول جزوثالث :176