عبد اللہ بن جحش

عبد اللہ بن جحشصحابی رسول ہیں ان کی کنیت ابو محمد ہے ام المؤمنین زینب بنت خزیمہ کا ان سے پہلے نکاح ہوا تھاغزوہ بدر میں شریک ہوئے۔

نام و نسب

عبد اللہ نام ،ابو محمد کنیت ،والد کا نام جحش اور والدہ کا نام امیمہ تھا، پورا سلسلہ نسب یہ ہے: عبد اللہ بن جحش بن رباب بن یعمربن مرہ بن کثیر بن غنم بن دودان بن اسد بن خزیمہ الاسدی، عبد اللہ کی والدہ امیمہ بنت عبد المطلب کی صاحبزادی اورآنحضرت ﷺ کی پھوپھی تھیں ِ ایامِ جاہلیت میں وہ حرب بن امیہ کے حلیف تھے، بعض نے قبیلہ بنی عبد شمس کو ان کا حلیف لکھا ہے۔

اسلام

عبد اللہ بن جحش نے ابتداہی میں اسلام قبول كيا تھا، اس وقت تک آنحضرت ﷺ ارقم بن ابی ارقم کے مکان دار ارقم میں پناہ گزین نہیں ہوئے تھے۔

ہجرت

مشرکین قریش کے ظلم سے یہ خاندان بھی محفوظ نہ تھا، انہوں نے دو دفعہ سرزمین حبش کی طرف ہجرت فرمائی، آخر سفر میں تمام خاندان یعنی دوبھائی ابو احمد، عبید اللہ اور تین بہنیں زینب، ام حبیبہ، حمنہ بنت جحش نیز عبد اللہ کی بیوی ام حبیبہ بنت ابی سفیان ساتھ تھیں۔ عبید اللہ نے حبش میں نصرانیت اختیار کرلی اور وہیں پیوندِ خاک ہوا،عبد اللہ بن جحش اپنے بقیہ خاندان کو پھر مکہ واپس لائے اور یہاں سے اپنے قبیلہ یعنی بنی غنم بن دودان کے تمام ممبروں کو جو سب کے سب دائرہ اسلام میں داخل ہو گئے تھے، ساتھ لے کر مدینہ پہنچے ،انہوں نے اپنے رشتہ داروں سے اس طرح مکہ کو خالی کر دیا تھا کہ محلہ کا محلہ بے رونق ہو گیا اوربہت سے مکانات مقفل ہو گئے۔ مدینہ میں عاصم بن ثابت بن ابی افلح انصاری نے ان کے تمام قبیلہ کو اپنا مہمان بنایا، آنحضرت ﷺ نے ان دونوں میں بھائی چارہ کرادیا تھا۔

غزوات

ماہ رجب 2 ھ میں رسول اللہ ﷺ نے ان کو ایک جمعیت کی امارت سپرد کی اورسربمہرفرمان دے کر حکم دیا کہ دوروز سفر کرنے کے بعد کھول کر پڑھیں اوراس کی ہدایتوں کو اپنا طرزِ عمل بنائیں، عبد اللہ نے حسبِ ارشاد دو منزلوں کے بعد کھول کر پڑھا، اس میں حکم دیا گیا تھا کہ مکہ اور طائف کے درمیان جو نخلستان ہے وہاں پہنچ کر قریش کی نقل و حرکت اوردوسرے ضروری حالات کا پتہ چلائیں،انہوں نے نہایت ادب کے ساتھ اس حکم پر سمعاً وطاعۃ کہا اوراپنے ساتھیوں سے مخاطب ہوکر بولے : "صاحبو میں رسول اللہ ﷺ کے اس فرمان کو پورا کرکے رہوں گا ،تم لوگوں میں سے جو شہادت کا آرزو مند ہو ساتھ چلے اورجو اس کو ناپسند کرتا ہو وہ لوٹ جائے، میں کسی کو مجبور نہیں کرتا۔ " اس تقریر پر سب نے جوش کے ساتھ رفاقت وجان نثاری کی ہامی بھری اورنخلستان پہنچ کر قریش کے تجسس میں مصروف ہوئے ،اتفاقاً اس طرف سے ایک تجارتی قافلہ گزرا، گوماہِ رجب میں مراسمِ جاہلیت کے مطابق قتل و خونریزی ناجائز تھی، تاہم مسلمانوں نے حملہ آورہونے کی رائے قائم کرلی اوریکایک ٹوٹ پڑے،عمرو بن حضرمی جو اس قافلہ کا سرگروہ تھا ماراگیا ،عثمان بن عبد اللہ اورحکیم بن کیسان گرفتار ہوئے، بہت سامالِ غنیمت ہاتھ آیا،عبد اللہ بن جحش نے اس میں سے ایک خمس نکال کر باقی حصہ مساوی تمام شرکائے جنگ میں تقسیم فرمادیا، اس وقت تک تقسیم غنیمت کے متعلق کوئی قانون وضع نہیں ہوا تھا،لیکن عبد اللہ کا اجتہاد صحیح ثابت ہوا اورقرآن میں اسی کے مطابق خمس کی آیت نازل ہوئی۔ عبد اللہ بن جحش مالِ غنیمت کا خمس لے کر دربارِ نبوت میں حاضر ہوئے تو آپ نے اس کے لینے میں پس و پیش کیا اور فرمایا کہ میں نے تم کو ماہِ حرام میں خونریزی کا حکم نہیں دیا تھا، مسلمانوں نے بھی اس جسارت پر ملامت کی، قریش نے اس واقعہ کوزیادہ شہرت دی، اورکہنے لگے، محمد ﷺ اوران کے اصحاب نے ماہِ محرم کو حلال کر لیا اور قتل وخونریزی کرکے اس کی بے حرمتی کی،لیکن وحیِ الہی نے ان کو اوران کے ساتھیوں کو ان جگر دوزطعنوں سے بری کر دیا۔[1] "يَسْأَلُونَكَ عَنِ الشَّهْرِ الْحَرَامِ قِتَالٍ فِيهِ قُلْ قِتَالٌ فِيهِ كَبِيرٌ وَصَدٌّ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ وَكُفْرٌ بِهِ وَالْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَإِخْرَاجُ أَهْلِهِ مِنْهُ أَكْبَرُ عِنْدَ اللَّهِ وَالْفِتْنَةُ أَكْبَرُ مِنَ الْقَتْلِ"(البقرۃ:217) لوگ آپ سے حرمت والے مہینے کے بارے میں پوچھتے ہیں کہ اس میں جنگ کرنا کیسا ہے؟آپ کہدیجئے کہ اس میں جنگ کرنا بڑاگناہ ہے،مگر لوگوں کو اللہ کے راستے سے روکنااس کے خلاف کفر کی روش اختیار کرنا،مسجد حرام پر بندش لگانا اور اس کے باسیوں کووہاں سے نکال باہر کرنااللہ کے نزدیک زیادہ بڑا گناہ ہے اورفتنہ قتل سے بھی زیادہ سنگین چیز ہے۔ عبد اللہ بن جحش غزوۂ بدر واحد میں شریک تھے،سعد بن ابی وقاص فرماتے ہیں کہ جنگ اُحد کے ایک روز پہلے میں نے اورعبداللہ نے ایک ساتھ دعامانگی تھی میرے الفاظ یہ تھے: "اے خدا!کل جو دشمن میرے مقابلہ میں آئے وہ نہایت بہادر اورغضبناک ہوتاکہ میں تیری راہ میں اس کو قتل کروں" عبد اللہ نے آمین کہا، پھر دست بدعا ہوئے: "خدایا! مجھے ایسا مقابل عطاکر جو نہایت شجاع اورسریع الغضب ہو، میں تیری راہ میں اس سے معرکہ آراہوں یہاں تک کہ وہ مجھے قتل کرکے ناک کان کاٹ ڈالے، جب میں تجھ سے ملوں گا اور تو فرمائے گا اے عبد اللہ!یہ تیرے کان ،ناک کیوں کاٹے گئے؟ تو عرض کروں گا تیرے لیے اورتیرے رسول کے لیے، ان کو اپنی یہ تمنا اس قدر متوقع محصول نظر آتی تھی کہ قسم کھا کھا کر کہتے تھے، خدایا! میں تیری قسم کھاتا ہوں کہ میں دشمن سے لڑوں گا، یہاں تک کہ وہ مجھے قتل کرکے میرا مثلہ کرلے گا۔"

شہادت

شوال معرکۂ کا رزار گرم ہوا، عبد اللہ بن جحش اس جوش سے لڑے کہ تلوار ٹکڑے ٹکڑے ہو گئی، آنحضرت ﷺ نے ان کو کھجور کی چھڑی مرحمت فرمائی جس نے ان کے ہاتھ میں تلوار کا کام دیا، دیر تک لڑتے رہے،بالآخر اسی حالت میں ابوالحکم ابن اخنس ثقفی کے وار نے شہادت کی تمنا پوری کردی، مشرکین نے مثلہ کیا اوران کے ناک کان کاٹ کر دھاگے میں پروئے، سعدنے دیکھا تو بولے: "خدا کی قسم عبد اللہ کی دعا میری دعا سے بہتر تھی" چالیس برس سے کچھ زیادہ عمر پائی، اپنے ماموں سید الشہداء امیرحمزہ کے ساتھ ایک ہی قبر میں مدفون ہوئے۔[2][3]

حوالہ جات

  1. سیرۃ ابن ہشام:1/344
  2. اسد الغابہ :3/131
  3. طبقات ابن سعد قسم اول جز ثالث ،ابن سعد
This article is issued from Wikipedia. The text is licensed under Creative Commons - Attribution - Sharealike. Additional terms may apply for the media files.