عبیدہ بن الحارث
عبید ہ بن الحارث غزوہ بدر کے شہداء میں شامل مہاجر صحابی ہیں۔
عبیدہ بن الحارث | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
پیدائشی نام | عبیدہ بن الحارث بن المطلب |
وفات | سنہ 624 غزوۂ بدر |
کنیت | ابو الحارث بو معاویہ |
زوجہ | زینب بنت خزیمہ |
عملی زندگی | |
نسب | المطلبی القرشی |
عسکری خدمات | |
لڑائیاں اور جنگیں | غزوہ بدر |
نام،نسب
عبید ہ نام،ابوالحارث یاابومعاویہ کنیت، والد کا نام حارث اور والدہ کا نام سنحیلہ تھا، سلسلہ نسب یہ ہے۔ عبیدہ بن حارث بن مطلب بن عبد مناف بن قصی القرشی۔ [1]
اسلام
عبید ہ ابوسلمہ بن اسد، عبد اللہ بن ارقم اور عثمان بن مظعون ایک ساتھ ایمان لائے تھے، آنحضرت ﷺ اس وقت تک ارقم بن ابی ارقم کے مکان میں پناہ گزین نہیں ہوئے تھے۔ مکہ میں بلال ان کے اسلامی بھائی قرارپائے۔
ہجرت
مدینہ کی طرف ہجرت کا حکم ہواتو عبید ہ اوران کے دونوں بھائی طفیل ،حصین اورمسطح بن اثاثہ ایک ساتھ روانہ ہوئے، اتفاقاًراہ میں مسطح کو بچھو نے ڈنگ مارا، اس لیے وہ پیچھے چھوٹ گئے،لیکن دوسرے روز خبرملی کہ وہ نقل وحرکت سے بالکل مجبور ہیں تو پھر واپس آئے اوران کو اٹھا کر مدینہ لائے ،یہاں عبد الرحمن بن سلمہ عجلانی نے خوش آمدید کہا اورلطف ومحبت کے ساتھ میزبانی کا حق اداکیا، آنحضرت ﷺ نے تشریف لانے کے بعد عمیر بن حمام انصاری سے مواخات کرادی مستقل سکونت کے لیے ایک قطعہ زمین مرحمت فرمایا جس میں ان کا تمام خاندان آباد ہوا۔
غزوات
ہجرت کے آٹھ مہینے بعد ماہ شوال میں ساٹھ مہاجرین کے ایک دستہ پر افسر مقرر ہوکر مشرکین قریش کی دیدبانی کے لیے وادی رابغ کی طرف بھیجے گئے ،تاریخ اسلام میں یہ دوسرا لوائے امارت تھا جو عبید ہ کو عطا ہوا۔ وہ رابغ کے قریب پہنچے تو ابوسفیان کی زیرامارت دوسو مشرکین کی ایک جماعت سے مڈبھیڑ ہوئی؛ لیکن جنگ وخونریزی کی نوبت نہ آئی، صرف معمولی طورسے چند تیروں کا تبادلہ ہوا۔
غزوۂ بدر
غزوۂ بدر میں شریک ہوئے، صف آرائی کے بعد مشرکین کی طرف سے عتبہ، شیبہ اورولید نے نکل کر
" ھل من مبارز"
کا نعرہ بلند کیا، لشکر اسلام سے چند انصاری نوجوان مقابلہ کے لیے بڑھے تو انہوں نے پکار کر کہا کہ "محمد ﷺ ہم ناجنسوں سے نہیں لڑسکتے، ہمارے مقابل والوں کو بھیجو، آنحضرت ﷺ نے علی، حمزہ اورعبیدہ کو آگے بڑھنے کا حکم دیا، جنبش لب کی دیر تھی کہ یہ تینوں نبرد آزما بہادر نیزے ہلاتے ہوئے اپنے اپنے حریف کے سامنے جا کھڑے ہوئے، عبید ہ اورولید میں دیر تک کشمکش جاری رہی، یہاں تک کہ دونوں زخمی ہو گئے، چونکہ علی اورحمزہ اپنے دشمنوں سے فارغ ہوچکے تھے، اس لیے دونوں ایک ساتھ ولید پر ٹوٹ پڑے اوراس کو تہ تیغ کرکے عبید ہ کو میدانِ جنگ سے اُٹھا لائے ۔[2]
عبید ہ کا ایک پاؤں شہید ہو گیا تھا اور تمام بدن زخموں سے چور تھا، آنحضرت ﷺ نے تسکین خاطر کے لیے ان کے زانو پر سرمبارک رکھ دیا، انہوں نے عرض کیا "یارسول اللہ " اگر ابوطالب مجھے دیکھتے تو انہیں یقین ہوجاتا کہ میں ان سے زیادہ ان کے اس قول کا مستحق ہوں۔
ونسلمہ حتی نصرع حولہ ونذھل عن انبا ئنا والحلائل
ہم محمد کی حفاظت کریں گے یہاں تک کہ ان کے ارد گرد مارے جائیں گے اوراپنے بچوں اوربیویوں سے غافل ہوجائیں گے۔
وفات
اختتام جنگ کے بعد آنحضرت ﷺ کے ساتھ بدر سے واپس آئے ؛لیکن زخم ایسے کاری تھے کہ جانبر نہ ہو سکے، 63 برس کی عمر میں وفات پائی اورمقامِ صفراء میں مدفون ہوئے۔[3][4] ایک مرتبہ آپ اپنے صحابۂ کرام کے ساتھ اس مقام پر رکے تو صحابۂ کرام نے کہا کہ ہمیں مشک کی خو شبو آ رہی ہے۔ آپ نے فرمایا: ایسا ہو سکتا ہے، کیونکہ یہاں ابومعاویہ (عبید ہ بن حارث) کی قبر ہے۔[5]
حوالہ جات
- اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ مصنف عزالدین بن الاثیر ابی الحسن بن محمد الجرزی اردو ترجمہ مولانا عبد الشکور فاروقی لکھنوی جلد دوم صفحہ 493
- ابوداؤد کتاب الجہاد باب البارزہ
- طبقات ابن سعد قسم اول جز3:135
- اصحاب بدر،صفحہ108،قاضی محمد سلیمان منصور پوری، مکتبہ اسلامیہ اردو بازار لاہور
- ’’الاستیعاب‘‘ ابن عبد البر