ابان بن سعید

ابان بن سعیدبن العاصصحابی رسول کاتب وحی اور مکہ مکرمہ کے خاندان قریش کی سرکردہ شخصیت تھے ۔

ابان بن سعید
(عربی میں: أبان بن سعيد بن العاص) 
 

معلومات شخصیت
پیدائشی نام ابان بن سعید
مقام پیدائش مکہ
مقام وفات اجنادین
وجۂ وفات لڑائی میں مقتول  
شہریت خلافت راشدہ  
لقب کاتب وحی
عملی زندگی
طبقہ الصحابہ
نسب الجمحی القرشی
پیشہ تاجر  
آجر مدینہ منورہ  
عسکری خدمات
لڑائیاں اور جنگیں دیگر غزوات

نام ونسب

ابان نام،سلسلہ نسب یہ ہے،ابان بن سعید بن العاص بن امیہ بن عبد شمس بن عبد مناف بن قصی بن کلاب بن مرہ بن کعب بن لوی القرشی الاموی،ماں کا نام ہند بنت مغیرہ تھا، ان کا سلسلۂ نسب پانچویں پشت پر عبد مناف پر آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے مل جاتا ہے۔

زمانہ جاہلیت

اسلام لانے کے قبل ابان بھی دوسرے اہل خاندان کی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اورمسلمانوں کے سخت خلاف تھے ؛چنانچہ جب ان کے بھائی خالد اورعمرو مشرف بہ اسلام ہوئے تو انہوں نے اشعار میں اظہار ناراضی کیا، جس کا ایک شعریہ ہے۔ الالیت میتا بالظریبہ شاھد لمایفتری فی الدین عمروخالد (کاش ظریبہ میں موت کی نیند سونے والا دیکھتا کہ عمرو اورخالد نے دین میں کیا افترا کیا ہے) غزوۂ بدر میں مسلمانوں کے خلاف مشرکین کی حمایت میں اپنے بھائی عبیدہ اور عاص کے ساتھ لڑنے نکلے، عبیدہ اور عاص مسلمانوں کے ہاتھ سے مارے گئے ؛لیکن ابان بچ کر نکل گئے۔[1] صلح حدیبیہ کے موقع پر جب آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے عثمان غنی کو قریش کے پاس صلح کی گفت وشنید کے لیے بھیجا تو وہ ابان ہی کے یہاں مہمان ہوئے تھے، کیوں کہ یہ عثمان غنی کے عزیز تھے اور ان ہی نے ان کی حفاظت کی ذمہ داری لی تھی۔

راہب سے گفتگو

گو وہ اسلام اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے خلاف تھے تاہم اصل حقیقت کی جستجو رہتی تھی۔ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی نبوت کے بارہ میں واقف کاروں سے پوچھا کرتے تھے، اس وقت شام اصحاب علم وخبر کا مرکز تھا، یہ تجارت کے سلسلہ میں وہاں جایا کرتے تھے، ایک مرتبہ ایک راہب سے کہا کہ میں قبیلہ قریش سے تعلق رکھتا ہوں، اس قبیلہ کا ایک شخص اپنے کو خدا کا فرستادہ ظاہر کرتا ہے اور کہتا ہے کہ مجھ کو بھی خدا نے عیسی علیہ السلام اورموسیٰ علیہ السلام کی طرح نبی بناکر بھیجا ہے۔ راہب نے نام پوچھا، انہوں نے کہا محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ،راہب نے صحف آسمانی کی رو سے نبی مبعوث کا سن اور نسب وغیرہ بتایا ،ابان نے کہا یہ تمام باتیں تو اس شخص میں موجود ہیں، راہب نے کہا تو خدا کی قسم، وہ شخص عرب پر اقتدار حاصل کرنے کے بعد تمام دنیا پر چھاجائے گا، تم واپس جانا تو خدا کے اس نیک بندے تک میرا سلام پہنچادینا؛ چنانچہ ابان جب واپس ہوئے تو رنگ بدل چکا تھا اور اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ وہ پرخاش باقی نہ رہی۔

اسلام و ہجرت

کچھ دنوں تک آبائی مذہب کی لاج اورہم چشموں کی طعنہ زنی کے خیال سے خاموش رہے لیکن زیادہ دنوں تک جذبہ حق نہ دب سکا اور غزوہ خیبر سے پہلے مشرف بی اسلام ہو گئے اور اسلام کے بعد ہی ہجرت کی سعادت بھی حاصل کی۔

کاتب وحی

ابان بن سعید اُن صحابہٴ کرام میں سے ہیں، جن کو دربارِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں بارہا کتابت کا شرف حاصل ہوا، اس کی صراحت عمر بن شبہ، ابوبکر بن ابی شیبہ، ابن عبدالبر، ابن الاثیر، ابن کثیر د مشقی، ابن سید الناس، عراقی، انصاری اور مسعودی وغیرہ نے کی ہے، [2]

غزوات

اسلام لانے کے بعد ہی آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ایک سریہ کا امیر بناکر نجد روانہ کیا، وہاں سے کامیاب ہوکر واپس ہوئے تو خیبر فتح ہوچکا تھا، اسی وقت ابو ہریرہ بھی مہاجرین حبش کے ساتھ واپس ہوئے تھے، دونوں نے عرض کیا یا رسول اللہ خیبر کے مال غنیمت سے کچھ ہم لوگوں کو بھی مرحمت ہو، ان میں اور ابوہریرہ میں پہلے سے کچھ چشمک تھی، انہوں نے کہا یا رسول اللہ ان لوگوں کو نہ دیجئے، ابان کو غصہ آ گیا بولے پہاڑ کی بھیڑی اتری » (بلی سے چھوٹا ایک جانور)وہ بھی بولی!آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے دونوں کو خاموش کیا۔[3] نجد کی مہم کے علاوہ ان کو دوسرے سریوں کی امارت بھی عطا کی گئی۔

بحرین کی امارت

علاء بن حضرمی کو معزول کرنے کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان کو بحرین کے بری اور بحری دونوں حصوں کا عامل مقرر کیا، آپ کی وفات تک یہ اپنے فرائض ذمہ داری سے انجام دیتے رہے، وفات کی خبر سن کر وہاں سے واپس ہوئے۔

خلافت صدیقی

ابوبکر صدیق کی بیعت عام کے بعد قریش کے جو چند افراد کچھ دنوں تک ان کی بیعت سے دست کش رہے تھے، ان میں ایک ابان بھی تھے ؛لیکن جب بنو ہاشم نے بیعت کرلی ،تو ان کو بھی کوئی عذر نہ ہوا، صدیق اکبر نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے کسی عامل کو معزول نہیں کیا تھا، ابان بھی آپ کے مقرر کردہ عامل تھے، اس لیے ان سے دوبارہ واپس جانے کی خواہش کی ؛لیکن انہوں نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بعد کسی کا پیش کردہ عہدہ قبول نہیں کر سکتا، بعض روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ زیادہ دنوں تک اس عہد پر قائم نہیں رہے اورخلیفۂ اول کے اصرار پر یمن کی گورنری قبول کرلی۔[4]

وفات

زمانہ وفات میں بہت اختلاف ہے، بعض روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ ابوبکرصدیق کے آخر عہدِ خلافت میں جنگ اجنادین میں شہادت پائی، ابن اسحق کی روایت ہے کہ جنگ یرموک میں شہید ہوئے، ایک اور روایت سے پتہ چلتا ہے کہ عثمان کے عہدِ خلافت تک زندہ تھے اور مصحف عثمانی ان ہی کی نگرانی میں زید بن ثابت کاتب وحی نے لکھا تھا۔[5]

حوالہ جات

  1. الاصابۃ فی تمييز الصحابۃ،مؤلف : احمد بن علی بن حجر ابو الفضل العسقلانی، ناشر : دار الجيل - بيروت
  2. المصباح المضئی 18/1، الہدایہ والنہایہ5/ 340، الاستیعاب1/51، التاریخ الکامل 2/313، عیون الاثر 2/315 العجالة السنیہ 246، التنبیہ وا لإشراف 346
  3. بخاری،جلد2،کتاب المغازی غزوۂ خیبر
  4. اسد الغابہ1/35مؤلف، ابو الحسن علی الشيبانی الجزری عز الدين ابن الاثير، ناشر: دار الفكر بيروت
  5. الاستيعاب فی معرفۃ الأصحاب1/36مؤلف،ابو عمر يوسف بن عبد الله بن محمد بن عبد البر بن عاصم النمری القرطبی، ناشر: دار الجيل، بيروت
This article is issued from Wikipedia. The text is licensed under Creative Commons - Attribution - Sharealike. Additional terms may apply for the media files.