سودہ بنت زمعہ
ام المؤمنین سودہ بنت زمعہ ازواج مطہرات میں سے ایک ہیں۔
|
◈ ◈ |
سودہ بنت زمعہ | |
---|---|
![]() | |
معلومات شخصیت | |
پیدائش | سنہ 589 مکہ |
وفات | 1 ستمبر 674 (84–85 سال) مدینہ منورہ |
شہریت | ![]() |
شوہر | سکران بن عمرو محمد بن عبداللہ (619–632) |
پیشہ ورانہ زبان | عربی |
نام و نسب
سودہ نام تھا، قبیلہ عامر بن لوی سے تھیں، جو قریش کا ایک نامور قبیلہ تھا، سلسلہ نسب یہ ہے، سودہ بنت زمعہ بن قیس بن عبد شمس بن عبدود بن نصر بن مالک بن حسل بن عامر ابن لوی، ماں کا نام شموس تھا، یہ مدینہ کے خاندان بنو نجار سے تھیں، ان کا پورا نام و نسب یہ ہے، شموس بنت قیس بن زید بن عمرو بن لبید بن فراش بن عامر بن غنم بن عدی بن النجا۔
نکاح
سکران بن عمرو سے جو ان کے والد کے ابن عم تھے، شادی ہوئی،
قبول اسلام
ابتدائے نبوت میں مشرف بہ اسلام ہوئیں، ان کے ساتھ ان کے شوہر بھی اسلام لائے۔ اس بنا پر ان کو قدیم السلام ہونے کا شرف حاصل ہے، حبشہ کی پہلی ہجرت کے وقت تک سودہ اور ان کے شوہر مکہ ہی میں مقیم رہے، لیکن جب مشرکین کے ظلم و ستم کی کوئی انتہا نہ رہی اور مہاجرین کی ایک بڑی جماعت ہجرت کے لیے آمادہ ہوئی تو ان میں سودہ اور ان کےشوہر بھی شامل ہو گئے۔ کئی برس حبشہ میں رہ کر مکہ کو واپس آئیں اور سکران نے کچھ دن کے بعد وفات پائی۔
آپﷺ سے نکاح
سودہ کو تمام ازواج مطہرات میں یہ فضیلت حاصل ہے کہ خدیجہ بنت خویلد کے بعد سب سے پہلے وہی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے عقد نکاح میں آئیں، خدیجہ کے انتقال سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نہایت پریشان و غمگین تھے، یہ حالت دیکھ کر خولہ بنت حکیم عثمان بن مظعون کی بیوی نے عرض کی کہ آپ کو ایک مونس و رفیق کی ضرورت ہے، آپ نے فرمایا ہاں، گھر بار بال بچوں کا انتظام سب خدیجہ کے متعلق تھا، آپ کے ایماء سے وہ سودہ کے والد کے پاس گئیں اور جاہلیت کے طریقہ پر اسلام کیا، انعم صباحا، پھر نکاح کا پیغام سنایا، انہوں نے کہا ہاں محمد صلی اللہ علیہ وسلم شریف کفو ہیں، لیکن سودہ سے بھی تو دریافت کرو، غرض سب مراتب طے ہو گئے تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم خود تشریف لے گئے اور سودہ کے والد نے نکاح پڑھایا، چار سو درہم مہر قرار پایا، نکاح کے بعد عبد اللہ بن زمع سودہ کے بھائی جو اس وقت کافر تھے، آئے اور ان کو یہ حال معلوم ہوا تو سر پر خاک ڈال لی کہ کیا غضب ہو گیا، چنانچہ اسلام لانے کے بعد اپنی اس حماقت و نادانی پر ہمیشہ ان کو افسوس آتا تھا۔[1] سودہ کا نکاح رمضان سنہ دس نبوی میں ہوا اور چونکہ ان کے اور امی عائشہ کے نکاح کا زمانہ قریب قریب ہے، اس لیے مؤرخین میں اختلاف ہے کہ کس کو تقدم حاصل ہے، ابن اسحاق کی روایت ہے کہ سودہ کو تقدم ہے اور عبد اللہ بن محمد بن عقیل عائشہ کو مقدم سمجھتے ہیں۔[2] بعض روایتوں میں ہے کہ سودہ نے اپنے پہلے شوہر کی زندگی میں ایک خواب دیکھا تھا، ان سے بیان کیا تو بولے کہ شاید میری موت کا زمانہ قریب ہے اور تمھارا نکاح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہو گا، چنانچہ یہ خواب حرف بہ حرف پورا ہوا۔[3]
عام حالات
نبوت کے تیرہویں سال جب آپ نے مدینہ منورہ میں ہجرت کی تو زید بن حارثہ کو مکہ بھیجا کہ سودہ وغیرہ کو لے کر آئیں، چنانچہ وہ اور فاطمہ زہرا زید کے ہمراہ مدینہ آئیں، سنہ دس ہجری میں جب محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے حج کیا تو سودہ بھی ساتھ تھیں، چونکہ وہ بلند و بالا و فربہ اندام تھیں اور اس وجہ سے تیزی کے ساتھ چل پھر نہیں سکتی تھیں۔ اس لیے محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اجازت دی کہ اور لوگوں کے مزدلفہ سے روانہ ہونے کے قبل ان کو چلا جانا چاہیے، کیونکہ ان کو بھیڑ بھاڑ میں چلنے سے تکلیف ہو گی۔[4]
وفات
ایک دفعہ ازواج مطہرات محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھیں، انہوں نے دریافت کیا کہ یا رسول اللہ! ہم میں سے سب سے پہلے کون مرے گا، فرمایا جس کا ہاتھ سب سے بڑا ہے، لوگوں نے ظاہرہ معنی سمجھے، ہاتھ ناپے گئے تو سب سے بڑا ہاتھ سودہ کا تھا[5] لیکن جب سب سے پہلے زینب بنت جحش کا انتقال ہوا۔ تو معلوم ہوا کہ ہاتھ کی بڑائی سے آپ کا مقصد سخاوت و فیاضی تھی، بہرحال واقدی نے سودہ کا سال وفات 54 ہجری بتایا ہے[6] لیکن ثقات کی روایت یہ ہے کہ انہوں نے عمر فاروق کے اخیر زمانہ خلافت میں انتقال کیا۔[7] عمر نے سنہ 23 ہجری میں وفات پائی ہے اس لیے سودہ کی وفات کا سال 22 ہجری ہو گا خمیس میں یہی روایت ہے اور یہی اصح ہے،[8] اور اس کو امام بخاری، ذہبی، جزری ابن عبد البر اور خزرجی نے اختیار کیا ہے۔
اولاد
محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی اولاد نہیں ہوئی، پہلے شوہر سکران نے ایک لڑکا یادگار چھوڑا تھا، جس کا نام عبد الرحمن تھا، انہوں نے جنگ جلولاء فارس میں شہادت حاصل کی۔[9]
حلیہ
ازواج مطہرات میں سودہ سے زیادہ کوئی بلند بالا نہ تھا، حضرت عائشہ کا قول ہے جس نے ان کو دیکھ لیا، اس سے وہ چھپ نہیں سکتی تھیں۔[10] زرقانی میں ہے کہ ان کا قد لمبا تھا۔[11]
فضل و کمال
سودہ سے صرف پانچ حدیثیں مروی ہیں، جن میں سے بخاری میں صرف ایک ہے، صحابہ میں ابن عباس، ابن زبیر اور یحی بن عبد الرحمن بن اسعد بن زرارہ نے ان سے روایت کی ہے۔
اخلاق
عائشہ فرماتی ہیں:[12] "سودہ کے علاوہ کسی عورت کو دیکھ کر مجھے یہ خیال نہیں ہوا کہ اس کے قالب میں میری روح ہوتی۔"
اطاعت و فرماں برداری میں وہ تمام ازواج مطہرات سے ممتاز تھیں، آپ نے حجۃ الوداع کے موقع پر ازواج مطہرات کو مخاطب کر کے فرمایا تھا۔ کہ میرے بعد گھر میں بیٹھنا،[13] چنانچہ سودہ نے اس حکم پر اس شدت سے عمل کیا کہ پھر کبھی حج کے لیے نہ نکلیں، فرماتی تھیں کہ میں حج و عمرہ دونوں کر چکی ہوں اور اب خدا کے حکم کے مطابق گھر میں بیٹھونگی،[14]
سخاوت و فیاضی بھی ان کا ایک اور نمایاں وصف تھا اور عائشہ کے سوا وہ اس وصف میں بھی سب سے ممتاز تھیں، ایک دفعہ عمر نے ان کی خدمت میں ایک تھیلی بھیجی، لانے والے سے پوچھا، اس میں کیا ہے؟ بولا درہم، بولیں کھجور کی طرح تھیلی میں درہم بھیجے جاتے ہیں۔ یہ کہ کر اسی وقت سبکو تقسیم کر دیا،[15] وہ طائف کی کھالیں بناتی تھیں اور اس سے جو آمدنی ہوتی تھی، اس کو نہایت آزادی کے ساتھ نیک کاموں میں صرف کرتی تھیں،[16]
ایثار میں بھی وہ ممتاز حیثیت رکھتی تھیں، وہ اور عائشہ آگے پیچھے نکاح میں آئیں تھیں لیکن چونکہ ان کا سن بہت زیادہ تھا۔ اس لیے جب بوڑھی ہوگئیں تو ان کو شبہ ہوا کہ شاید محمد صلی اللہ علیہ وسلم طلاق دے دیں اور شرف صحبت سے محروم ہو جائیں، اس بنا پر انہوں نے اپنی باری عائشہ کو دے دی اور انہوں نے خوشی سے قبول کر لی،[17]
مزاج تیز تھا، عائشہ ان کی بے حد معترف تھیں، لیکن کہتی ہیں کہ وہ بہت جلد غصہ سے بھڑک اٹھتی تھیں، ایک مرتبہ قضائے حاجت کے لیے صحرا کو جا رہی تھیں، راستے میں عمر مل گئے، چونکہ سودہ کا قد نمایاں تھا، انہوں نے پہچان لیا، عمر کو ازواج مطہرات کا باہر نکلنا ناگوار تھا اور وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پردہ کی تحریک کر چکے تھے، اس لیے بولے سودہ تم کو ہم نے پہچان لیا۔ سودہ کو سخت ناگوار ہوا۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچیں اور عمر کی شکایت کی، اسی واقعہ کے بعد آیتِ حجاب نازل ہوئی۔[18] بایں ہمہ ظرافت اس قدر تھی کہ کبھی کبھی اس انداز سے چلتی تھیں کہ آپ ہنس پڑتے تھے ایک مرتبہ کہنے لگیں کہ کل رات کو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی تھی، آپ نے اس قدر دیر تک رکوع کیا کہ مجھ کو نکسیر پھوٹنے کا شبہہ ہو گیا، اس لیے میں دیر تک ناک پکڑے رہی، آپ اس جملہ کو سن کر مسکرا اٹھے۔[19]
دجال سے بہت ڈرتی تھیں، ایک مرتبہ عائشہ اور حفصہ کے پاس آ رہی تھیں دونوں نے مذاق کے لہجہ میں کہا تم نے کچھ سنا؟ بولیں کیا؟ کہا دجال نے خروج کیا، سودہ یہ سن کر گھبرا گئیں، ایک خیمہ جس میں کچھ آدمی آگ سلگا رہے تھے، قریب تھا، فورا اس کے اندر داخل ہوگئیں، عائشہ اور حفصہ ہنستی ہوئی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچیں اور آپ کو اس مذاق کی خبر کی، آپ تشریف لائے اور خیمہ کے دروازے پر کھڑے ہو کر فرمایا کہ ابھی دجال نہیں نکلا ہے، یہ سن کر سودہ باہر آئیں۔ تو مکڑی کا جالا بدن میں لگا ہوا تھا، اس کو باہر آ کر صاف کیا،[20] سید سلیمان ندوی لکھتے ہیں میرے نزدیک یہ روایت مشکوک اور سنداً ضعیف ہے۔
حوالہ جات
- زرقانی، 261:3
- طبقات ابن سعد، 36-39:8؛ زرقانی، 360:3
- زرقانی، 260:3؛ وطبقات ابن سعد، 38-39:8
- صحیح بخارج، 228:1
- ،طبقات، 37:8
- طبقات ابن سعد، 37-39:8
- اسد الغابہ واستیعاب و خلاصہ تہذیب حالات سودہ
- زرقانی، 262:3
- زرقانی، 260:2
- صحیح بخاری، 707:3
- زرقانی، 459:3
- طبقات، 37:8
- زرقانی، 291:3
- طبقات، 38:8
- اصابہ، 118:8
- اصابہ، 65: حالات خیسہ
- صحیح بخاری و مسلمکتاب النکاح جواز ہبتہ نوبہتا لصرنتہا
- صحیح بخاری، 26:1
- سعد، 37:8
- اصابہ، 65:8