خنساء

خنساء یا  تماضر بنت عمرو السلميہ (پیدائش: 575ء– وفات: 645ء) زمانہ جاہلیت اور عہد اسلام کے ابتدائی دور میں عربی کی سب سے بڑی مرثیہ گو شاعرہ تھیں جنہیں ارثی العرب کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔

خنساء
Al-Khansa
الخنساء
(عربی میں: الخنساء) 
"الخنساء’"، تصویر از جبران خلیل جبران
"الخنساء’"، تصویر از جبران خلیل جبران

معلومات شخصیت
پیدائش 575
نجد  
وفات 645ء (عمر 6970)
نجد  
عملی زندگی
پیشہ شاعرہ
پیشہ ورانہ زبان عربی  

نام و نسب

عرب شاعرہ۔ نام تماحز بنت عمرو۔ خنساء لقب۔ اس کے دو بھائی معاویہ بن عمرو اور صخر بن عمرو کسی قبائلی جنگ میں قتل ہو گئے تھے۔ یہ خاتون اپنے بھائیوں پر ساری زندگی آنسو بہاتی رہی۔ مرثیہ گوئی خنساء کا خاص موضوع تھا۔

قبول اسلام

نبوت کی روشنی چمکی تو پورے قبیلے سمیت حلقہ بگوش اسلام ہو گئی۔ صحابیت کے شرف سے سرفراز ہوئیں عہد اسلام میں نوحہ اور بین ممنوع قرار دیا گیا تھا، مگر نبی اکرمﷺ نے خنساء کو ماتمی لباس پہننے اور اپنے جاہلی عہد کے مقتول بھائیوں پر مرثیہ کہنے کی خصوصی اجازت مرحمت فرما رکھی تھی۔

زور خطابت

محرم 14ھ میں جنگ قادسیہ کے خونریز معرکہ میں یہ اپنے چار جوان بیٹوں کے ساتھ تشریف لے گئیں جب میدان جنگ میں لڑائی کی صفیں لگ گئیں اور بہادروں نے ہتھیار سنبھال لیے تو انہوں نے اپنے بیٹوں کے سامنے یہ تقریر کی کہ۔ میرے پیارے بیٹو! تم اپنے ملک کو دوبھر نہ تھے نہ تم پرکوئی قحط پڑا تھا باوجود اس کے تم اپنی بوڑھی ماں کو یہاں لائے اور فارس کے آگے ڈال دیا۔ خدا کی قسم! جس طرح تم ایک ماں کی اولاد ہو اسی طرح ایک باپ کی بھی ہو میں نے کبھی تمہارے باپ سے بد دیانتی نہیں کی نہ تمہارے ماموں کو رسوا کیا لو جاؤ آخر تک لڑو۔ بیٹوں نے ماں کی تقریر سن کر جوش میں بھرے ہوئے ایک ساتھ دشمنوں پر حملہ کر دیا جب نگاہ سے اوجھل ہو گئے تو حضرت خنساء رضی اﷲ تعالیٰ عنہا نے آسمان کی طرف ہاتھ اٹھا کر کہا کہ الٰہی عزوجل! تو میرے بچوں کا حافظ و ناصر ہے تو ان کی مدد فرما۔ چاروں بھائیوں نے انتہائی دلیری اور جانبازی کے ساتھ جنگ کی یہاں تک کہ چاروں اس لڑائی میں شہید ہو گئے امیر المومنین حضرت عمر فاروق اس واقعہ سے بے حد متاثر ہوئے اور ان چاروں بیٹوں کی تنخواہیں ان کی ماں حضرت خنساء رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کو عطا فرمانے لگے ۔[1]

شاعری میں مقام

زمانہ جاہلیت میں عکاظ کے میلے میں خنساء کے خیمے پر جو سائن بورڈ لگتا تھا اس پر ارثی العرب (عرب کی سب سے بڑی مرثیہ گو شاعرہ) لکھا ہوتا تھا ان کی شاعری کا دیوان آج بھی موجود ہے اور علمائے ادب کا اتفاق ہے کہ مرثیہ کے فن میں آج تک خنساء کا مثل پیدا نہیں ہوا بھائی معاویہ بن عمرو کے قتل پر بھی مرثیے لکھے تھے۔ لیکن دوسرے بھائی صخر بن عمرو کے قتل پر تو ایسے دردناک اشعار مسلسل کئی سال تک کہے جن کو سن کر مخالف قبیلے کے لوگوں کی آنکھوں میں بھی آنسو آ جاتے تھے۔ ان کے مفصل حالات علامہ ابو الفرج اصفہانی نے اپنی کتاب کتاب الاغانی میں تحریر کیے ہیں اور بے مثال شعر گوئی کے ساتھ یہ بہت ہی بہادر بھی تھیں ۔

مرثیہ کی مثال

اپنے ایک مرثیے میں وہ کہتی ہیں ” سورج کا طلوع و غروب اپنے معمول کے مطابق جاری ہے مگر ہر طلوع آفتاب صخر کی جدائی کا پیغام لے کر آتاہے اور دل پر آرے چلاتاہے۔ ہر غروب آفتاب غم کی اتھاہ گہرائیاں لے کر سیاہ رات مسلط کر دیتاہے اور مجھے صخر کی یاد تڑپاتی ہے۔ میں مانند بسمل تڑپتی ہوں۔ نہ موت کی آغوش نصیب ہوتی ہے نہ زندگی کی مسکراہٹ کا سرا ہاتھ آتا ہے۔ صخر تیرے فراق میں میری آنکھیں بے نور ہوا چاہتی ہیں مگر تیری رفاقت و معیت نے سالہا سال مجھے خوشیوں اور مسرتوں کی بہار یں بھی تو دکھائیں۔ مقتولین پر آہ و زاری اچھی نہیں ہوتی لیکن تجھ پر رونا قابل تحسین و ستائش ہے کہ تو واقعی بے مثال شہسوار اور منبع جود و سخا تھا ۔“

حوالہ جات

  1. (الاستیعاب ،باب النساء،باب الخاء 3351،خنساء بنت عمرو السلمیۃج4،ص387

<link rel="mw:PageProp/Category" href="./زمرہ:575ء_کی_پیدائشیں"/> <link rel="mw:PageProp/Category" href="./زمرہ:645ء_کی_وفیات"/>

This article is issued from Wikipedia. The text is licensed under Creative Commons - Attribution - Sharealike. Additional terms may apply for the media files.