رقیہ بنت محمد

رُقَیۃ بنت رسول اللہ (متوفی.) حضرت محمد اور خدیجہ کی بیٹی جو حبشہ اور مدینہ کی طرف ہجرت کرنے والوں میں شامل تھی۔ شروع میں ابو لہب کا بیٹا عتبہ سے شادی کی اور «تَبَّتْ یدَا أَبِی لَہَبٍ وَتَبَّ»، کی آیت نازل ہونے کے بعد عتبہ نے اسے طلاق دی۔ اور پھر عثمان بن عفان سے شادی کی۔ سنہ دو ہجری کو وفات پائی اور جنت البقیع میں دفن ہوئی۔

رقيّة بنت محمد
بنت محمد بن عبد الله بن عبد المطلب
رقیہ بنت محمد

معلومات شخصیت
پیدائش سنہ 598 [1][2] اور سنہ 601  
مكہ
وفات 14 مارچ 624 (2526 سال) 
المدينة المنورة
مدفن جنت البقیع، مدینہ منورہ
لقب ذات الهجرتين
شوہر عثمان بن عفان
اولاد عبد الله بن عثمان بن عفان (مات صغيرًا)
والد محمد بن عبداللہ  
والدہ خدیجہ بنت خویلد  
بہن/بھائی
رشتے دار والد: محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم
والدہ: خدیجہ بنت خویلد
بھائی اور بہنیں: القاسم، عبد الله، ابراہيم، ام كلثوم، زينب، فاطمہ الزهراء
عملی زندگی
تاریخ قبول اسلام من السابقين
مقالہ بہ سلسلۂ مضامین

اولادِ محمد

حضرت محمد کے بیٹے

قاسم _ عبداللہ _ ابراھیم

حضرت محمد کی بیٹیاں

فاطمہ _ زینب _ ام کلثوم
رقیہ

حضرت فاطمہ کی اولاد
بیٹے

حسن _ حسین

حضرت فاطمہ کی اولاد
بیٹیاں

زینب _ ام کلثوم


حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی اولاد میں دوسری صاحبزادی رقیہ تھیں۔ خدیجہ کے بطن سے نبوت سے سات سال قبل پیدا ہوئیں۔


بعض شیعہ محققین جیسے سید جعفر مرتضی عاملی کا کہنا ہے کہ رقیہ رسول خداؐ اور خدیجہ کی اولاد نہیں تھی؛ بلکہ وہ خدیجہ کی بہن ہالہ کی بیٹی تھی چونکہ آنحضرتؐ کے گھر پرورش پائی تھی تو اس لیے پیغمبرؐ کی بیٹی سے مشہور ہو گئی۔

پیدائش اور نسب

اہل سنت کی نظر میں رقیہ پیغمبر اکرمؐ اور خدیجہ کی اولاد میں سے ہیں۔[3]لیکن شیعہ علما سے رقیہ کے نسب کے بارے میں تین نظریات منقول ہوئے ہیں:

  • رقیہ، (عثمان کی زوجہ) خدیجہ کی بہن ہالہ کی بیٹی اور پیغمبر اکرمؐ کی لے پالک بیٹی تھی جبکہ پیغمبر اکرمؐ کی بیٹی رقیہ بعثت کے بعد متولد ہوئی ہے۔[4]
  • رقیہ، خدیجہ کی بیٹی ہے، پیغمبر کی نہیں، چونکہ خدیجہ کی پیغمبر اکرمؐ سے شادی سے پہلے کسی اور سے شادی ہو چکی تھی۔
  • رقیہ پیغمبر اکرمؐ اور حضرت خدیجہ کی بیٹی تھی۔

رقیہ ہجرت سے پہلے مکہ میں متولد ہوئی ہے۔ انہیں پیغمبر اکرمؐ کی سب سے بڑی بیٹی، دوسری بیٹی یا سب سے چھوٹی بیٹی سے یاد کیا ہے۔[5]

شادی اور ہجرت

رقیہ نے عتبۃ بن ابی لہب سے شادی کی لیکن «تَبَّتْ یدَا أَبِی لَہَبٍ وَتَبَّ»،[6] نازل ہونے کے بعد عتبہ نے اپنے باپ کے حکم سے رقیہ کو طلاق دی۔[7] اس کے بعد پھر عثمان بن عفان سے شادی کی اور ان کے ساتھ حبشہ کو ہجرت کی۔ آنحضرتؐ کی مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کے وقت وہ بھی حبشہ سے مدینہ آئی۔[8]

تاریخِ اسلام کی کتابوں میں رقیہ اور عثمان بن عفان سے عبد اللہ نامی ایک بیٹے کا ذکر ہوتا ہے جو بچپنے میں ہی فوت ہوا۔[9]

جب خدیجہ نے پیغمبر اکرمؐ پر ایمان لے آیا تو رقیہ بھی مسلمان ہوئی اور جب خواتین نے آنحضرتؐ کی بیعت کی تو رقیہ نے بھی ان کے ساتھ بیعت کی۔[10]

جب رقیہ دنیا سے چل بسی تو رسول اللہ نے فرمایا:
«الْحَقِی بِسَلَفِنَا الصَّالِحِ عُثْمَانَ بْنِ مَظْعُونٍ وَ أَصْحَابِہ» ہمارے سلف صالح عثمان بن مظعون اور ان کے ساتھیوں کے ساتھ ملحق ہوجائے

کلینی، اصول کافی، ج۳، ص۲۴۱



رسول اللہ کی نبوت سے قبل ابو لہب کے بیٹے عتبہ سے رقیہ کا نکاح ہوا لیکن رخصتی سے قبل ہی طلاق ہوئی۔ جس کے لیے ایک روایت یہ ہے کہ اسلام مخالفت کی بنا پر ہوئی اور ایک روایت کے مطابق عتبہ نے اپنے والدین کے اظہار ناراضی پر طلاق دی۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نبوت کے منصب پر فائز ہوئے تو رقیہ نے بھی اسلام قبول کر لیا۔ عثمان غنی نے بھی ابتدائی سالوں میں اسلام قبول کیا تھا۔ ان کے اسلام لانے کے بعد رقیہ کا نکاح عثمان غنی سے ہو گیا۔

نبوت کے پانچویں سال پہلی ہجرت حبشہ میں یہ رقیہ اور عثمان بھی شامل تھے۔ حبشہ میں ایک عرصے تک رہنے کے بعد دونوں مکہ گئے لیکن تھوڑے دن بعد مدینہ منورہ چلے گئے۔

رقیہ سے ایک صاحبزادے عبد اللہ پیدا ہوئے لیکن کم عمری میں انتقال کیا۔ اس کے بعد کوئی اولاد نہ ہوئی۔ 2 ہجری میں غزوۂ بدر کے موقع پر رقیہ بیمار تھیں۔ ان کی تیمار داری کی خاطر عثمان غزوہ میں شریک نہ ہو سکے اور اسی سال آپ کا انتقال ہو گیا۔

اظہار نبوت سے سات برس قبل جب کہ حضورﷺ کی عمر شریف کا تینتیسواں سال تھا یہ مکہ مکرمہ میں پیدا ہوئیں پہلے ان کا نکاح ابولہب کے بیٹے عتبہ سے ہوا تھا مگر ابھی رخصتی بھی نہیں ہوئی تھی کہ سورۂ تبت یدا نازل ہوئی اس غصہ میں ابو لہب کے بیٹے عتبہ نے رقیہ کو طلاق دے دی اس کے بعد حضورﷺنے عثمان غنی سے ان کا نکاح کر دیا اور ان دونوں میاں بیوی نے حبشہ کی طرف اور پھر مدینہ کی طرف ہجرت کی اور دونوں صاحب الہجرتین (دو ہجرتوں والے) کے معزز لقب سے سرفراز ہوئے۔

جنگ بدر کے دنوں میں رقیہ زیادہ بیمار تھیں چنانچہ حضور ﷺنے عثمان کو ان کی تیمارداری کے لیے مدینہ میں رہنے کا حکم دے دیا اور جنگ بدر میں جانے سے روک دیا۔ زید بن حارثہ جس دن جنگ بدر میں فتح مبین کی خوشخبری لے کر مدینہ پہنچے اسی دن بی بی رقیہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا نے بیس برس کی عمر پاکر مدینہ میں انتقال کیا۔ حضور ﷺ جنگ بدر کی وجہ سے ان کے جنازہ میں شریک نہ ہو سکے۔ عثمان غنی اگر چہ جنگ بدر میں شریک نہیں ہوئے مگر حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے ان کو جنگ بدر کے مجاہدین میں شمار فرمایا اور مجاہدین کے برابر مال غنیمت میں سے حصہ بھی عطا فرمایا۔ بی بی رقیہ کے شکم مبارک سے ایک فرزند پیدا ہوئے تھے جن کا نام عبد اﷲ تھا مگر وہ اپنی والدہ کی وفات کے بعد 4ھ میں وفات پا گئے۔ بی بی رقیہ کی قبر بھی جنت البقیع میں ہے ۔[11][12]

وفات

جب رسول الله جنگ بدر کو جا رہے تھے تو رقیہ ٹائیفائیڈ میں مبتلا ہوئی۔ پیغمبر اکرم نے عثما کو ان کے پاس رہنے کا حکم دیا[13] رقیہ دو ہجری، رمضان میں جنگ بدر کے فتح کے دن وفات پائی۔[14]

شیعہ کتابوں میں رقیہ کی وفات کی وجہ عثمان کی ضرب و شتم ذکر کیا ہے۔[15]اور اس مار پٹائی کی وجہ مغیرۃ بن ابی العاص کے مخفی ہونے کی جگہ کے بارے میں پیغمبر اکرمؐ کو بتانا بیان کیا ہے۔[16]

ان کی قبر پر بعض خواتین نے گریہ کیا ان میں سے ایک فاطمہؑ بھی تھیں۔[17]خلیفہ دوم ان خواتین کو تازیانہ کے ذریعے رونے سے منع کرتے تھے تو پیغمبر اکرمؐ نے انہیں اس کام سے روکا۔[18]رسول خدا نے یہ کہہ کر کہ «جس نے بھی آج کی رات ہمبستری کی ہے قبر میں داخل نہ ہوجائیں»، عثمان کو قبر میں داخل ہونے سے روک دیا۔[19]

آپ کا نام رمضان المبارک کی دعاوں میں سے ایک میں آیا ہے: اللہم صل علی رقیۃ بنت نبیک...[20]

مقام دفن

پیغمبر اکرمؐ کے کہنے پر رقیہ کو بقیع میں دفن کیا۔[21] بقیع میں ائمہ بقیع کے مقبرے کے شمال اور ازواج نبی کے مقبرے کے جنوب مغرب میں پیغمبر اکرمؐ کی بیٹیوں سے منسوب ایک مقبرہ تھا جس پر قدیم زمانے میں ایک ضریح بھی نصب تھی[22]جو وہابیوں کے ہاتھوں مسمار ہوئیں۔

مزید پڑھیے

اس بارے میں مزید معلومات کے لیے مندرجہ ذیل کتاب کی طرف رجوع کرسکتے ہیں۔

  • سید جعفر مرتضی عاملی، بنات النبی أم ربائبہ

حوالہ جات

  1. https://www.wikitree.com/wiki/Bint_Muhammed-1 — اخذ شدہ بتاریخ: 14 جون 2019
  2. https://www.wikitree.com/wiki/Bint_Muhammed-1 — اخذ شدہ بتاریخ: 16 جولا‎ئی 2019
  3. ابن عبدالبر، الاستیعاب، 1412ق، ج4، ص1839.
  4. عاملی، الصحیح من سیرہ النبی، 1402ق، ج1، ص125-123.
  5. ابن عبدالبر، الاستیعاب، 1412ق، ج‏4، ص1839.
  6. مسد، آیہ‌1
  7. بلاذری، انساب الاشراف، 1417ق، ج1، ص401.
  8. ابن عبدالبر، الاستیعاب، 11412ق، ج‏3، ص‌1038 و ج4، ص1139-1140؛ کحّالہ، اعلام النساء، 1412ق، ج1، ص457؛ ابن‌سعد، الطبقات الکبری، 1418ق، ج8، ص35.
  9. ابن سعد، الطبقات الکبری، 1418ق، ج8، ص35؛ ابن عبدالبر،الاستیعاب، 1412ق، ج‏4، ص‌1840 و ج3، ص1037.
  10. صالحي دمشقي، سبل الہدى و الرشاد، 1414، ج11، ص33.
  11. شرح العلامۃ الزرقانی،الفصل الثانی فی ذکر اولادہ الکرام علیہ وعلیہم الصلوۃ والسلام،ج4،ص322۔323
  12. جنتی زیور،عبد المصطفٰی اعظمی،صفحہ501،ناشرمکتبۃ المدینہ باب المدینہ کراچی
  13. ابن عبدالبر، الاستیعاب، 1412ق، ج‏3، ص 1038.
  14. ابن عبدالبر، الاستیعاب، 1412ق، ج‏3، ص‌1038.
  15. کلینی، الكافی، 1407ق، ج‏3، ص236.
  16. مجلسی، بحارالانوار، 1403ق، ج22، ص167.
  17. کحّالہ، اعلام‌النساء، 1412ق، ج4، ص458.
  18. کحّالہ، اعلام‌النساء، 1412ق، ج4، ص458.
  19. امین، اعیان‌الشیعہ، دارالتعارف للمطبوعات، ج3، ص487.
  20. شیخ طوسی، تہذیب‌الاحکام، 1365ش، ج3، ص120.
  21. ابن شبہ، تاریخ‌ المدینة‌ المنورہ، 1410ق، ج1، ص103؛ ابن سعد، الطبقات الکبری، 1418ق، ج8، ص37.
  22. جعفریان، پنجاہ سفرنامہ حج قاجاری، 1389ش، ج5، ص241.

مآخذ

سانچہ:طومار

  • ابن سعد، الطبقات الكبری، بہ كوشش محمد عبدالقادر، بیروت، دارالكتب العلمیہ، 1418ق.
  • ابن شبّہ، تاریخ‌المدینة‌المنورہ، بہ كوشش شلتوت، قم، دارالفكر، 1410ق.
  • ابن عبدالبر، یوسف بن عبد اللہ،الاستیعاب فی معرفة الأصحاب، تحقیق علی محمد البجاوی، بیروت، دارالجیل، ط الأولی، 1412/ق1992م.
  • امین، سید محسن، أعیان‌الشیعة، تحقیق حسن الأمین، دارالتعارف للمطبوعات، بیروت، بی تا.
  • بلاذری، احمدبن یحیی بن جابر، انساب الاشراف، تحقیق سہیل زكار و ریاض زركلی، بیروت، دارالفكر، 1417ق.
  • جعفریان، رسول، پنجاہ سفرنامہ حج قاجاری، تہران، نشر علم، 1389ش.
  • شیخ طوسی، محمد بن حسن، تہذیب الاحکام، تہران، دارالكتب الإسلامیہ، 1365ش.
  • سیوطی، جلال الدین، تاریخ الخلفا، محقق حمدی الدمرداش، بی جا، مکتبة نزار مصطفی الباز، 1425ق.
  • صالحی دمشقی، سبل الہدى و الرشاد، بیروت، دارالکتب العلمیة، 1414ق.
  • عاملی، جعفر مرتضی، الصحیح من سیرةالنبی الاعظم، قم، انتشارات جامعہ مدرسین، 1402ق.
  • کحّالہ، عمر رضا، اعلام النساء، بیروت، موسسة الرسالة، طبعة العاشرة، 1412ق/1991م.
  • کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، محقق علی اکبر غفاری، تہران، دارالکتب الاسلامیہ، 1407ق.
  • مجلسی، محمدباقر، بحارالانوار، بیروت، موسسہ وفا، الطبعة الثانية، 1403ق.

سانچہ:خاتمہ

This article is issued from Wikipedia. The text is licensed under Creative Commons - Attribution - Sharealike. Additional terms may apply for the media files.