خطبہ حجۃ الوداع

خطبہ حجۃ الوداع بلاشبہ انسانی حقوق کا اوّلین اور مثالی منشور اعظم ہے۔ اسے تاریخی حقائق کی روشنی میں انسانیت کا سب سے پہلامنشور انسانی حقوق ہونے کا اعزاز ہے۔[1] محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے جو آخری حج کیا اسے دو حوالوں سے حجۃ الوداع کہتے ہیں۔ ایک اس حوالہ سے کہ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے آخری حج وہی کیا اور اس حوالے سے بھی کہ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے خود اس خطبہ میں ارشاد فرمایا :وَاللَّهِ لاَ أَدْرِي لَعَلِّي لاَ أَلْقَاكُمْ بَعْدَ يَوْمِي هَذَا۔[2] یہ میری تم سے آخری اجتماعی ملاقات ہے، شاید اس مقام پر اس کے بعد تم مجھ سے نہ مل سکوں۔ خطبہ حجۃ الوداع کو اسلام میں بڑی اہمیت حاصل ہے۔ اس منشورمیں کسی گروہ کی حمایت کوئی نسلی، قومی مفادکسی قسم کی ذاتی غرض وغیرہ کا کوئی شائبہ تک نظرنہیں آتا۔ ذی قعدہ 10 ہجری میں محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حج کاارادہ کیایہ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا پہلا اورآخری حج تھا۔ اسی حوالے سے اسے ’’حجۃ الوداع‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہ ابلاغ اسلام کی بنا پر’’حج الاسلام‘‘اور’’حج البلاغ‘‘کے نام سے بھی موسوم ہے۔ اس حج کے موقع پر محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے جو خطبہ ارشادفرمایا اسے خطبہ حجۃ الوداع کہتے ہیں۔ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے گرد ایک لاکھ چوبیس ہزار یا ایک لاکھ چوالیس ہزار انسانوں کا سمندر ٹھاٹھیں مار رہا تھا۔[3] 9 ذوالحجہ 10 ھ کو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے عرفات کے میدا ن میں تمام مسلمانوں سے خطاب فرمایا۔ یہ خطبہ اسلامی تعلیمات کا نچوڑ ہے۔ اور اسلام کے سماجی، سیاسی اور تمدنی اصولوں کا جامع مرقع ہے، اس کے اہم نکات اور ان کے مذہبی اخلاقی اہمیت حسب ذیل ہے۔

مقالات بسلسلۂ
محمد ﷺ
محمد
باب محمد

مزید دیکھیے

حوالہ جات

  1. سید انسانیت،نعیم صدیقی،ص:208،مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز، دہلی
  2. مسند الدارمی،مؤلف: أبو محمد عبد الله الدارمی، ناشر: دار البشائر بيروت
  3. رحمۃ للعالمین جلد اول قاضی محمد سلیمان منصور پوری صفحہ 237مرکز الحرمین الاسلامی فیصل آباد
 یہ ایک نامکمل مضمون ہے۔ آپ اس میں اضافہ کر کے ویکیپیڈیا کی مدد کر سکتے ہیں۔
This article is issued from Wikipedia. The text is licensed under Creative Commons - Attribution - Sharealike. Additional terms may apply for the media files.