عبد اللہ بن عبد اللہ بن ابی
عبد اللہ بن عبد اللہ بن ابی ایک سچے مسلمان اور صحابی رسول تھے یہ منافقوں کے سردار کے بیٹے تھے۔ اسلام قبول کرنے سے پہلے ان کانام حباب بن عبد اللہ تھا
ان کا پورا نسب اس طرح ہے
عبد الله بن عبد الله بن ابی بن مالك بن الحارث بن عبيد بن مالك بن سالم بن غنم بن عوف بن الخزرج الانصاری الخزرجی
ان کا والد ابن سلول ان کی وجہ سے اپنی کنیت ابو الحباب رکھتا
یہ ابتدائی اسلام لانے والوں میں سے تھے جب مسلمان ہوئے تو ان کا نام رسول اللہ نے عبد اللہ رکھا۔ تمام غزوات میں شریک رہے۔ انہی کے کہنے پر رسول اللہ نے ان کے والد کا جنازہ پڑھایا۔[1]
ن کے باپ عبد اللہ بن ابی کے الفاظ قرآن نے بیان کیے
يَقُولُونَ لَئِن رَّجَعْنَا إِلَى الْمَدِينَةِ لَيُخْرِجَنَّ الْأَعَزُّ مِنْهَا الْأَذَلَّ وَلِلَّهِ الْعِزَّةُ وَلِرَسُولِهِ وَلِلْمُؤْمِنِينَ وَلَكِنَّ الْمُنَافِقِينَ لَا يَعْلَمُونَ- کہتے ہیں ہم مدینہ پھر کر گئے تو ضرور جو بڑی عزت والا ہے وہ اس میں سے نکال دے گا اسے جو نہایت ذلت والا ہے۔
عبد اللہ بن عبد اللہ بن ابی | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
پیدائشی نام | الحُباب بن عبد اللہ بن اُبیّ |
مقام پیدائش | یثرب |
مقام وفات | الیمامہ |
والد | عبد اللہ بن ابی |
والدہ | خولہ بنت منذر بن حرام بن عمرو |
عملی زندگی | |
طبقہ | صحابہ |
نسب | الخزرجی الانصاری |
عسکری خدمات | |
لڑائیاں اور جنگیں | غزوات نبوی فتنۂ ارتداد کی جنگیں |
عبد اللہ بن ابی کا بیٹا عبد اللہ مخلص مومن تھا اس نے جب اپنے باپ کے اس قول کے بارے میں سنا تو اپنے پر اشراف مدینہ کے روبروتلوار کھینچ لی اور کہا خدا کی قسم کہ میں تمہیں اس وقت تک نہ چھوڑوں گا جب تک کہ تو یہ نہ کہے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) انتہائی عزت والے ہیں اور میں سب سے زیادہ ذلیل ہوں پس اس نے باپ کو نہ چھوڑا جب تک اس نے یوں نہ کہا اور ایک روایت میں ہے کہ وہ مدینہ کے باہر ٹھہر گیا اور لوگ مدینہ میں داخل ہوتے رہے یہاں تک کہ اس کا باپ (عبد اللہ بن ابی ) آیا تو اس نے کہا : ” ٹھہرجا “ ابن ابی بولا تجھ پر افسوس ہے کہ تجھے کیا ہو گیا ہے۔ عبد اللہ بن عبد اللہ بن ابی نے کہا : خدا کی قسم کہ تو کبھی بھی مدینہ میں داخل نہ ہو سکے گا مگر یہ کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تیرے لیے اجازت فرمائیں اور آج تجھے ضرور پتا چل جائے گا کہ سب سے زیادہ عزت وا ال کون ہے اور سب سے زیادہ ذلت والا کون ہے پھر وہ پلٹ کر گیا اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ملاقات کی اور جو کچھ اس کے بیٹے نے کیا تھا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس کی شکایت کی تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کی طرف پیغام بھجوایا کہ اس کو چھوڑ دو اور (جانے دو ) تو انہوں نے باپ کو جانے دیا [2] عبد اللہ بن ابی کے بیٹے نے اپنے باپ سے کہا کہ اللہ کی قسم ہم اس وقت تک یہاں سے نہیں جائیں گے جب تک تم اس بات کا اقرار نہ کرو کہ تم ذلیل اور نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) معزز ہیں۔ پھر اس نے اقرار کیا۔[3][4]
حوالہ جات
- اسدالغابہ، ابن اثیر ،حصہ پنجم، صفحہ 291،المیزان پبلیکیشنز لاہور
- تفسیر الحسنات ابو الحسنات سید محمد احمد قادری
- جامع ترمذی:جلد دوم:حدیث نمبر 1264
- اصحاب بدر، صفحہ 166، قاضی محمد سلیمان منصور پوری، مکتبہ اسلامیہ اردو بازار لاہور