واقعہ کربلا

سانحۂ کربلا یا واقعہ کربلا یا کربلا کی جنگ 10 محرم 61ھ (بمطابق 9 یا 10 اکتوبر، 680ء)[1][2] کو موجودہ عراق میں کربلا کے مقام پر پیش آیا۔ جہاں اموی خلیفہ یزید اول کی بھیجی گئی فوج نے محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے نواسے امام حسین ابن علی اور ان کے اہل خانہ کو شہید کیا۔ امام حسین ابن علی کے ساتھ 72 ساتھی، کچھ غلام، 22 اہل بیت کے جوان اور خاندان نبوی کی کچھ خواتین و بچے شامل تھے۔

-

واقعۂ کربلا

عباس الموسوی، جنگ کربلا، بروکلین عجائب گھر
تاریخ بدھ 10 محرم الحرام 61ھ/ 10 اکتوبر 680ء
مقام کربلا، عراق
محل وقوع
نتیجہ حسینی قافلہ میں شریک مرد قتل کر دیئے گئے اور امام زین العابدین علی بن حسین اہلبیت کے آخری مرد بیمار ہونے کی وجہ سے اس جنگ میں بچ گئے تھے۔ ان کو اور خواتین کو قید کر کے پہلے ابن زیاد کے پاس کوفہ پھر دربار یزید میں لے جایا گيا۔
متحارب
یزید کی فوج امام حسین ابن علی کچھ مرد اور اہلبیت کی خواتین
قائدین
عمر بن سعد شمر ذی الجوشن امام حسین ابن علی
قوت
40 ہزار سے زائد 151
نقصانات
5 ہزار سے زائد (شیعہ روایات کے مطابق) 134 (72 اصحاب 62 رشتہ دار، بچے اور غلام)، بنو ہاشم سے 18 افراد شہید ہوئے۔

اسباب

امیر اور غریب میں بڑھتا فرق

حضرت عمر نے بیت المال کے عطیات کی تقسیم میں  تفضیل کا طریقہ اختیار کیا۔ رسول الله(ص) اور حضرت ابو بکر کےبرابری کے طریقے سے ہٹ گئے اور نتیجہ یہ ہوا جس کا وظیفہ زیادہ تھا اس کی بچت بھی زیادہ ہونے لگی، جس کا کم تھا اس کا سارا  کھانے پینے میں ہی خرچ ہو جایا کرتا۔ آخری دنوں تک جاتے جاتے امیر غریب کا فاصلہ بہت ہو گیا۔   کچھ بہت  امیر بن گئے اور غریب بھی بہت ہو گئے۔پھر انھیں اپنے اس فیصلے پر پچھتانا پڑا، حضرت عمر ؓ اس بارے میں فرماتے ہیں کہ یہ جو میں نے فاصلے مقرر کر دیے ہیں ، یہ جو امیر غریب کا فاصلہ ہو گیا ہے،اس کو درست کرنا چاہئیے، اسی طرح (باقی رکھنا) ٹھیک نہیں ہو گا۔ فتح الباری شرح صحیح البخاری ، ساتویں جلد کے صفحہ نمبر 490 پرحدیث پاک  (نمبر 4236) کی تشریح کے دوران  لفظ آ گیا ،”ببّانا”، اس  لفظ کے معانی کی تشریح کرتے ہوئے ابن حجر عسقلانی حضرت عمر کی جانب سے اس لفظ کے استعمال کا ذکر کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں کہ:

” قلت : وقد وقع من عمر ذكر هذه الكلمة في قصة أخرى وهو أنه كان يفضل في القسمة فقال:

“لئن عشت لأجعلن الناس ببانا واحدا

حضرت عمر جب وظائف تقسیم کرتے تھے تو لوگوں میں فرق کرتے تھے۔جیسے مہاجر کو زیادہ، انصاری کو کم، بدر میں شرکت کرنے والے کو زیادہ، دوسروں کو تھوڑا دیتے۔اپنی زندگی کے آخر ایام میں  انہوں نے اس ضمن میں کہا کہ “اگر میں  کچھ عرصہ اور زندہ رہا تو اس سلسلے میں مسلمانوں  میں برابری قائم کر  دوں گا”۔ یہاں سے پتا چلتا ہے کہ “ببّان” کے معنی برابر کر دینے کے ہیں۔امام دار لقطنی ؒ “غرائب مالک” میں اسی سلسلے میں  معن بن عیسیٰ  سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت عمر ؓنے فرمایا  “اگر میں اگلے سال تک زندہ رہا تو میں سب سے ادنی آدمی کو اعلی سے ملا دوں گا” یعنی سب کے وظیفے  برابر  قرار دوں گا۔ انہوں نے محسوس کر لیا کہ یہ پالیسی ٹھیک نہیں، اس سے امیری غریبی کا فاصلہ  مسلمانوں میں بڑھتا جا رہا ہے، اس کو ختم کرنا چاہئیے”[3]۔یہ حوالہ دینا بھی ضروری ہے کہ خود حضرت عمر نے کہا کہ مجھ سے یہ غلطی ہو گئی ہے ، اس کو ٹھیک کرنا چاہئیے، یہ صحیح نہیں ہے۔ مگر افسوس  یہ ہے کہ (آپ کے بعد) حضرت عثمان اس روش سے نہ ہٹے۔ انہوں نے اسی طرز پر وظیفے دیے اور وظیفوں کے ساتھ جاگیریں دینا بھی شروع کر دیا۔اسلام میں سرمایہ داری کی بنیاد پڑ گئی۔

حضرت ابوذر غفاری ، پہلے آدمی جنہوں نے اعلا کلمہ الحق کے لیے جان دی۔حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا تھا کہ آسمان کے نیچے اور زمین کے اوپر اس سے سچا  کوئی نہیں۔ صبر نہ کر سکے، کہا کہ یہ محل کیوں تعمیر ہو رہے ہیں، گورنروں نے اوقات نماز کا پاس کرنا  کیوں چھوڑ دیا ہے؟ ظالم حاکموں نے حضرت عثمان سے کہہ کے مدینہ الرسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے نکلوا دیا، حضور کی مسجد سے دور کر دیا۔ اسی سال کے بوڑھے انسان کو بیٹی سمیت ربذہ نامی جنگل میں بھیج دیا۔اور جس حال میں موت آئی اور ان کا جنازہ حضرت عبدللہ ابن مسعود وغیرہ نے پڑھا،ساری دنیا کے سامنے ہے۔بہت مظلومی کی موت مرے۔ رسول نے فرمایا تھا کہ اے ابوذر، تم اکیلے جیو گے، اکیلے مرو گے اور اکیلے قیامت کے دن اٹھائے جاؤ گے۔ وہیں ربذہ میں دفن ہیں۔

حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کا دور خلافت

حضرت عثمان ؓ کی شہادت کے وقت  پوری سلطنت میں انتشار تھا۔کچھ سجھائی نہیں دیتا تھا کہ آئندہ کیا ہو گا؟ ہر شہر میں گڑ بڑ تھی ، کون سنبھالے گا؟ اس وقت پھر سب نے حضرت علی ؓکے آگے ہاتھ جوڑے۔انہوں نے کہا میں کیا کروں؟ ماحول خراب ہو چکا ہے، لوگ بری چیزوں کے عادی ہو گئے ہیں،رشوت کھانے کے عادی ہو گئے ہیں،  وظیفے لینے کے عادی ہو گئے ہیں۔جسے بنانا ہے بنا لو، جس طرح پہلے وقت گزرا ہے، آگے بھی گزار لوں گا۔ سب سے اصرار کیا کہ آپ کے سوا اب کوئی نہیں ہے۔ امام ابن کثیر اپنی کتاب البدایہ و النھایہ میں فرماتے ہیں  کہ امت کے اس فرد کے ہاتھ پر بیعت کی گئی جس سے افضل روئے زمین پر کوئی نہ تھا۔ انہوں نے کہا کہ گھر پر  بیعت نہیں ہو گی، مسجد میں سب مہاجرین و انصار کو اکٹھا کرو، وہاں سب اپنی مرضی  اور آزادی سے بیعت کریں۔ آپؓ کی خلافت سب سے اعلی طریقے سے منعقد ہوئی – آپ نے پہلے پہل انصار کے ساتھ ہونے والی زیادتی کے خاتمے کا انتظام کیا۔  اس سے پہلے صرف مہاجرین یا قریش کو گورنر بنایا گیا تھا، آپ نے مدینے کے جلیل القدر انصار کو  بھی گورنر بنایا۔ مگر حشر یہ ہوا کہ سعد بن حریث ؓ شام پہنچے تو معاویہ کی فوجوں نے سرحد پر سے ہی واپس کر دیا۔ ہر اصولی اور محدث نے لکھا ہے کہ :”اول من بغیٰ  فی الاسلام معاویہ “، اسلام میں سب سے پہلے جس شخص نے بغاوت کی وہ معاویہ تھے۔ آپ ؓنے قرآن کے مطابق کہ باغی کے خلاف جنگ کی جائے، لشکر تیار کر کے شام کا قصد کیا۔   ابھی مدینے سے باہر ڈیرہ ڈالا تھا کہ اپنی چچی ، حضرت عباس ابن عبد المطلب کی زوجہ کا پیغام آیا کہ  حضرت عائشہ ؓ عمرے پر آئی تھیں اور انھیں حضرات طلحہؓ و زبیر ؓ اپنے ساتھ لے کر بصرہ روانہ ہو گئے ہیں – لشکر کا خرچہ حضرت عثمانؓ کے زمانے کے بصرہ اور یمن کے گورنروں نے ادا کیا  ، جنہوں نے بیت المال لوٹا تھا۔ چال یہ تھی کہ حضرت علی ؓکی  سیدھی ٹکر اگر امیر معاویہ سے ہوئی تو  کچومر نکل جائے گا۔ لہذا یوں کیا گیا کہ اس سے پہلے ہی ایک جنگ (جمل)کا بندوبست کیا گیا جس کے نتیجے میں یا علی ؓنہ  رہیں گے  یا طلحہؓ و زبیرؓ اور دونوں  صورتوں میں  بنی امیہ کے لیے خطرہ کم ہو جائے گا۔ اور یہ سازش کامیاب ہوئی، عراق میں کوفہ اور بصرہ  (جو خطرات سے نبٹنے کے لیے فوجی چھاونیاں بنائی گئی تھیں) کے لوگ آپس میں لڑ مرے۔ حضرت علیؓ کو جب پتا چلا تو انہوں نے فرمایا تھا کہ اسلام میں ایک رخنہ پڑا تھا، جو بند ہو سکتا ہے یہاں پر اپنی طرف سے من گھڑت کہانی لکھی گئی ہے (احباب اجتناب کریں کوئی ثبوت نہیں ہے)

حضرت عثمان ؓکے خلاف کوئی ایک بندہ نہیں ، پورا ملک اٹھ کھڑا ہوا تھا۔حضرت عائشہ ؓ اور طلحہ ؓو زبیر ؓجب قصاص عثمان ؓ کے نام پر بصرہ لے جائے گئے اور ہزاروں لوگ مارے گئے تو آخر میں ہرقوس بن  زہیر ہاتھ آیا۔ اس کو پکڑنے لگے تو چھ ہزار لوگ تلواریں لے کر کھڑے ہو گئے، انھیں دیکھ کر یہ لوگ چپ ہو گئے۔ حضرت علی ؓ نے کہا جس طرح کا قصاص مجھے لینے کا کہتے ہو خود کیوں نہیں لیتے؟یہ جو عثمان ؓ کے خون کا بدلہ طالب کرنے والے تھے ان کو دین کا زیادہ علم تھا یا حضرت علیؓ کو؟ حضرت علی ؓ قرآن کی ایک ایک آیت کو جانتے تھے کہ کیا حکم کرتی ہے۔ آپ دہائی دیتے رہے کہ حکومت کے خلاف بغاوت چھوڑ کر عدالت میں آؤ، قرآن فیصلہ کرے گا کہ یہ گورنر مجرم ہیں یا مظاہرین قاتل ہیں؟ جس جس کا اس قتل میں جو حصہ ہو گا میں نکال کر سامنے لاؤں گا۔ (بغاوت کرنے والے) عدالت کے سامنے نہیں آ ئے کیونکہ پتا تھا کہ شکنجے میں آ جائیں گے۔

معاویہ بن ابو سفیان کا زمانہ

صلح حسن ؑغیر مشروط نہ تھی۔ امام حسن ؑ نے جنگ بندی کے معاہدے میں منوایا  تھا کہ  کتاب و سنت اور خلفائے راشدین کے طریقے  پر حکومت کرنا، تیرے بعد میں خلیفہ ہوں گا اور پچھلی رنجشوں کی وجہ سے کسی کو کوئی دکھ نہیں دیا جائے گا۔اور آپ پڑھ لیں، ابن اثیر وغیرہ لکھتے ہیں کہ ایک شرط کو بھی امیر معاویہ نے پورا نہیں کیا۔ معاویہ مدینہ آئے تو حضرت عثمان ؓکی بیٹی عائشہؓ نے سوال کیا کہ چچا جس نعرے(قصاص عثمانؓ) پر آپ نے یہ حکومت حاصل کی ہے، اب اس کا کچھ نہیں کیا۔ معاویہ نے کہا، آرام سے بیٹھ جاؤ۔کوئی قصاص  نہیں  لیا گیا۔امام حسنؑ صلح نہ کرتے تو یہ پردہ نہ اٹھتا۔

امیر المومنین علی ؓ پر مسجد کے ممبروں سے لعنت کرواتے رہے۔ جمعے کے دوسرے خطبے میں رکھ دیا کہ جہاں خطیب اور باتیں کرے، یہ بھی کہے کہ علیؓ اور ان سے محبت رکھنے والوں پر  خدا کی لعنت ہو۔ ام المومنین حضرت ام سلمیٰ ؓ کے پاس ایک آدمی گیا تو انہوں نے کہا کہ تمھارے سامنے ممبر رسول ؐ پر حضور ؐ کو گالیاں دی جاتی ہیں۔ اس نے کہا اماں کون گالیاں دیتا ہے؟ انہوں نے کہا ،کہتے نہیں کہ علی ؓاور ان سے محبت رکھنے والوں پر لعنت ہو، میں حضور کے گھر میں رہی ہوں، سب سے بڑھ کر علی ؓسے محبت تو حضور ؐ رکھتے تھے[4]۔ حضور ؐ نے فرمایا، جس نے علی ؓ کو گالی دی اس نے مجھ کو گالی دی۔

رسول کریم ؐ نے فرمایا کہ سب سے پہلے جو میری سنت کو بدلے گا وہ بنی امیہ کا ایک آدمی ہو گا۔ علامہ البانی صاحب سلسلہ الحادیث الصحیحیہ کی چوتھی جلد میں لکھتے ہیں کہ وہ شخص معاویہ تھے۔

تخت بچھ گئے، سونے چاندی کے برتن (استعمال کیے جانے لگے)۔ حضرت مقدام ا بن معدیکرب   ؓنے کہا کہ میں تمہیں الله کی قسم دیتا ہوں، کیا  حضور ؐنے مردوں کے لیے ریشم حرام نہیں کیا، سونے چاندی کے برتنوں میں کھانا حرام نہیں کیا،درندوں کی کھالوں پر متکبر بن کر بیٹھنا حرام نہیں کیا؟[5]۔ معاویہ نے بے گناہ صحابہ ؓ کو مارا ، ان کی جائیدادیں ضبط کیں، زکوۃ بدلی، حج بدلا،  نماز کے اوقات تبدیل کیے۔  امام حسین ؑ کہتے تھے کہ میرے بھائی نے جو صلح کی میں اس کے مطابق دیکھ رہا ہوں کہ تم آخری شرط پر قائم رہتے ہو یا نہیں کہ اپنے بعد کسی کو مقرر نہ کرو؟ یہ خط لکھا کہ جو دن میرا تیری زندگی میں گزر رہا ہے ایک ایک بات ایسی ہے کہ تمھارے خلاف جہاد فرض ہو جاتا ہے۔ جب آخری بات بھی انہوں نے نہ معانی، معاہدے کے خلاف یزید کو ولی عہد بنا دیا۔ اور ولی عہد ی کے لیے بھی بڑے ظلم سے کام لیا۔ جب مروان نے مدینے میں اعلان کیا کہ امیر المومنین نے فیصلہ کیا ہے کہ اپنے بعد یزید کو حکمران بنا دیں جیسے کہ حضرت ابوبکر ؓنے حضرت عمر ؓکو مقرر کیا تھا۔اس وقت حضرت عبد الرحمن ابن ابو بکر ؓ نے کھڑے ہو کر کہا کہ کافر بادشاہ کا طریقہ زندہ کر رہے ہو کہ باپ مرے تو بیٹا تخت پر آ جائے۔ اسی وقت مروان نے حکم دیا کہ ان کو گرفتار کر لیا جائے، ابو بکر ؓکے بیٹے کو، انہوں نے بھاگ کر حضرت عائشہ ؓکے حجرے میں پناہ لی[6]۔بعد میں وہ مکہ چلے گئے جہاں ایک غار سے ان کی لاش ملی۔ حضرت عائشہؓ کو بہت عرصے تک شک رہا کہ ان کو معاویہ نے (خفیہ طور پر) قتل کرایا۔

یزید کی نامزدگی اور شخصی حکومت کا قیام

اسلامی نظام حکومت کی بنیاد شورائیت پر تھی۔ آنحضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور خلفائے راشدین کے ادوار اس کی بہترین مثال تھے۔ حضرت امام حسن بن علی سے معاویہ نے معاہدہ کیا تھا کہ وہ کسی کو خلیفہ نامزد نہ کریں گے مگر معاویہ نے یزید کو اپنا جانشین نامزد کرکے اسی اصول دین کی خلاف ورزی کی تھی کیونکہ اسلامی نقطہ حیات میں شخصی حکومت کے قیام کا کوئی جواز نہیں۔ ابھی تک سرزمین حجاز میں ایسے کبار صحابہ اور اکابرین موجود تھے جنہوں نے براہ راست نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا دور دیکھا تھا۔ لہذا ان کے لیے معاویہ کی غلط روایت قبول کرنا ممکن نہ تھا۔ امام حسین عليہ السلام نے ان ہی اصولوں کی خاطر یزید کی بیعت قبول کرنے سے انکار کر دیا۔

یزید کا ذاتی کردار

یزید کا ذاتی کردار ان تمام اوصاف سے عاری تھا جو امیر یا خلیفہ کے لیے شریعت اسلامیہ نے مقرر کیے ہیں۔ سیروشکار اور شراب و شباب اس کے پسندیدہ مشاغل تھے لہذا ذاتی حیثیت سے بھی کسی فاسق و فاجر کو بطور حکمران تسلیم کرنا امام حسین رضی اللہ عنہ عالی مقام کے لیے کس طرح ممکن ہو سکتا تھا۔بندروں سےکھیلنااسکاپسندیدہ شغل تھا۔

بیعت پر اصرار

یزید نے تخت نشین ہونے کے بعد حاکم مدینہ ولید بن عقبہ کی وساطت سے امام حسین رضی اللہ عنہ سے بیعت طلب کی ولید نے سختی سے کام نہ لیا لیکن مروان بن الحکم بزور بیعت لینے کے لیے مجبور کر رہا تھا۔ ان حالات میں امام حسین رضی اللہ عنہ نے سفر مکہ اختیار کیا اور وہاں سے اہل کوفہ کی دعوت پر کوفہ کے لیے روانہ ہوئے۔

اہل کوفہ کی دعوت

جب امام حسین عليہ السلام مکہ پہنچے تو اہل کوفہ نے انھیں سینکڑوں خطوط لکھ کر کوفہ آنے کی دعوت دی تاکہ وہ خلافت اسلامیہ کے قیام کی جدوجہد کا آغاز کر سکیں لیکن غدار اہل کوفہ نے ان سے غداری کی اور اپنے وعدوں سے پھر کر امام حسین عليہ السلام کا ساتھ نہ دیا۔ یزید کی بھیجی ہوئی افواج نے کربلا میں نواسہ رسول امام حسین عليہ السلام کو ان کے اہل خانہ اور اصحاب کو شہید کر دیا

واقعات

آل رسول(ص) کا مدینہ سے شام تک سفر، لحظہ بہ لحظہ، شہر بہ شہر

مکہ روانگی

ولید بن عتبہ نے امام حسین عليہ السلام اور عبداللہ بن زبیر کو قاصد کے ذریعہ بلایا۔ ابھی تک معاویہ کی وفات کی خبر مدینہ میں عام نہ ہوئی تھی۔ تاہم بلاوے کا مقصد دونوں حضرات نے سمجھ لیا ۔امام حسین عليہ السلام سے جب بیعت کے لیے کہاگیا تو انہوں نے جواب دیا کہ میرے جیسا آدمی خفیہ بیعت نہیں کر سکتا۔ جب بیعت عام ہوگی اس وقت آ جاؤں گا۔ ولید راضی ہو گیا اور انھیں واپس لوٹنے کی اجازت دے دی۔ عبداللہ بن زبیر ایک دن کی مہلت لے کر مکہ روانہ ہو گئے۔ بعد میں ان کا تعاقب کیا گیا مگر اس اثناء میں وہ کہیں دور جا چکے تھے۔ جب مروان کو اس صورت حال کا علم ہوا تو ولید سے بہت ناراض ہوا اور کہا کہ تم نے بیعت کا وقت کھو دیا۔ اب قیامت تک ان سے بیعت نہ لے سکو گے۔ امام حسین عليہ السلام عجیب الجھن سے دوچار تھے اگر وہ مدینہ میں مقیم رہتے تو بیعت کے بغیر کوئی چارہ کار نہ تھا۔ لٰہذا وہ27 رجب 60 ہجری میں مع اہل و عیال مکہ روانہ ہو گئے۔ مکہ پہنچ کر شعب ابی طالب میں قیام کیا۔

مسلم بن عقیل کی کوفہ روانگی

امام حسین عليہ السلام نے کوفیوں کے خطوط آنے کے بعد مسلم بن عقیل کو کوفہ روانہ کیا تاکہ وہ اصل صورت حال معلوم کریں۔ مسلم کے کوفہ پہنچنے کے پہلے ہی دن بارہ ہزار کوفیوں نے آپ کے ہاتھ پر بیعت کر لی۔ کوفہ کے اموی حاکم بشیر نے ان کے ساتھ نرمی سے کام لیا۔ کوفیوں کے جذبات سے متاثر ہو کر مسلم بن عقیل نے امام حسین عليہ السلام کو کوفہ آنے کا خط لکھا۔

ابن زیاد کوفہ میں

ان حالات کی بنا پر یزید نے فوراً نعمان کو معزول کر دیا اور عبیداللہ بن زیاد کو کوفہ کا حاکم مقرر کر دیا۔ کوفہ پہنچ کر اس نے اعلان کیا کہ جو لوگ مسلم بن عقیل سے اپنی وفاداریاں توڑ لیں گے انہیں امان دی جائے گی۔ اس کے بعد ہر محلہ کے رئیس کو بلایا اور اسے اپنے اپنے علاقہ کے امن و امان کا ذمہ دار قرار دے کر مسلم بن عقیل کی جائے پناہ کی تلاش شروع کردی۔ اس وقت مسلم بن عقیل ایک محب اہل بیت ہانی بن عروہ کے ہاں چلے گئے۔ عبیداللہ بن زیاد نے ہانی کو بلا کر مسلم کو پیش کرنے کا حکم دیا اور ہانی نے انکار کر دیا جس پر انہیں قید میں ڈال کر مار پیٹ کی گئی۔

مسلم کی گرفتاری اور شہادت

شہر میں افواہ پھیل گئی کہ ہانی قتل ہو گئے۔ یہ خبر سنتے ہی مسلم نے اٹھارہ ہزار ہمنواؤں کے ساتھ ابن زیاد کے محل کا محاصرہ کر لیا۔ ابن زیاد کے پاس اس وقت صرف پچاس آدمی موجود تھے۔ چنانچہ اس نے حکمت سے کام لیا اوران رؤساء کوفہ کی ترغیب سے لوگوں کو منتشر کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ آخر کار مسلم کے ساتھ صرف تیس آدمی رہ گئے۔ مجبوراً مسلم بن عقیل نے ایک بڑھیا کے گھر پناہ لی لیکن اس بڑھیا کے بیٹے نے انعام کے لالچ میں آکر خود جا کر ابن زیاد کو اطلاع کر دی۔ ابن زیاد نے یہ اطلاع پا کر مکان کا محاصرہ کر لیا۔ حضرت مسلم بن عقیل تن تنہا لڑنے پر مجبور ہوئے جب زخموں سے چور ہو گئے تو محمد بن اشعث نے امان دے کر گرفتار کر لیا۔ لیکن آپ کو جب ابن زیاد کے سامنے پیش کیا گیا تو اس نے امان کے وعدہ کو پس پشت ڈالتے ہوئے آپ کے قتل کا حکم دے دیا۔ مسلم بن عقیل نے محمد بن اشعث سے کہا کہ میرے قتل کی اطلاع امام حسین عليہ السلام تک پہنچا دینا اور انھیں میرا یہ پیغام بھی پہنچا دینا کہ ’’اہل کوفہ پر ہرگز بھروسا نہ کریں اور جہاں تک پہنچ چکے ہوں وہیں سے واپس چلے جائیں‘‘۔ ابن اشعث نے اپنا وعدہ پورا کیا اور ایک قاصد حضرت امام حسین عليہ السلام کی طرف روانہ کر دیا۔

امام حسین کا سفر کوفہ

اہل مکہ اور مدینہ نے آپ کو کوفہ جانے سے باز رکھنے کے لیے پوری کوششیں کیں کیونکہ کوفیوں کا سابقہ غدارانہ طرز عمل ان کے سامنے تھا۔ عمرو بن عبدالرحمن، عبداللہ ابن عباس، عبداللہ بن زبیر سب نے مشورہ دیا کہ

’’چونکہ کوفہ یزید کی حکومت کے تحت ہے وہاں ان کی افواج اور سامان سب کچھ موجود ہے اور کوئی قابل اعتماد نہیں اس لیے مناسب یہی ہے کہ آپ مکہ ہی میں رہیں۔‘‘

عبداللہ ابن زبیر نے تجویز کیا کہ آپ مکہ میں رہ کر اپنی خلافت کی جدوجہد کریں ہم سب آپ کی مدد کریں گے۔ لیکن جب امام حسین رضا مند نہ ہوئے تو حضرت عبداللہ ابن عباس نے آپ کو کوفہ کی بجائے یمن جانے کی تجویز پیش کی اور کہا کہ

’’اگر کوفہ کاسفر آپ کے نزدیک ضروری ہے تو پہلے کوفیوں کو لکھیے کہ وہ یزید کے حاکموں کو وہاں سے نکالیں پھر آپ وہاں کا قصد کریں۔‘‘

لیکن امام حسین نے کہا کہ

’’ابے ابن عمر میں جانتا ہوں کہ تم میرے خیر خواہ ہو۔ لیکن میں عزم کر چکا ہوں۔‘‘

اس پر عبداللہ ابن عباس نے کہا کہ ’’اگر آپ نہیں مانتے تو کم از کم اہل و عیال کو ساتھ نہ لے جائیے مجھے ڈر ہے کہ عثمان کی طرح آپ بھی بال بچوں کے سامنے ذبح کیے جائیں گے۔ ‘‘ لیکن ان تمام ترغیبات کے باوجود امام حسین عليہ السلام اپنے فیصلہ پر قائم رہے اور بالآخر 3 ذوالحج 60 ھ کو مکہ معظمہ سے کوفہ کے لیے چل پڑے۔ آپ کی روانگی کے بعد آپ کے چچا زاد بھائی عبداللہ بن جعفر نے ایک عریضہ اپنے لڑکوں عون اور محمد کے ہاتھ روانہ کیا کہ :

میں آپ کو اللہ تعالٰی کا واسطہ دیتا ہوں کہ جونہی میرا خط آپ کو ملے لوٹ آئیے کیونکہ جس جگہ آپ جارہے ہیں مجھے ڈر ہے کہ وہاں آپ کی جان کو خطرہ ہے اور آپ کے اہل بیت کی بربادی ہے۔ اگر خدانخواستہ آپ کو کچھ ہوگیا تو دنیا تاریک ہو جائے گی ۔ کیونکہ اس وقت آپ ہی ہدایت یافتہ لوگوں کا علم اور مومنوں کی امیدوں کا مرکز ہیں۔ آپ سفر میں جلدی کیجیے ۔ میں بھی جلد آپ کے پاس پہنچتا ہوں

حضرت عبداللہ بن جعفر، عمر بن سعد حاکم مکہ کا سفارشی خط لے کر امام حسین عليہ السلام سے ملے اور انھیں بتایا کہ کوفہ کے لوگوں پر اعتماد مناسب نہیں عمر بن سعد اس بات کا وعدہ کرتا ہے کہ آپ مکہ لوٹ آئیں تو میں یزید کے ساتھ آپ کے معاملات طے کرادوں گا اور آپ کو کوئی گزند نہیں پہنچے گا۔ لیکن آپ نے اس مشورہ کو ماننے سے انکار کر دیا اور اپنے ضمیر کی آواز کے مطابق سفر کوفہ جاری رکھنے کا فیصلہ کیا۔ مجبور ہو کر عبداللہ بن جعفر واپس ہو گئے مگر عون اور محمد کو ساتھ رہنے دیا۔ راستہ میں مشہور شاعر فرزوق آپ سے ملا اور امام حسین عليہ السلام سے عرض کی

لوگوں کے دل آپ کے ساتھ ہیں اور تلواریں بنی امیہ کے ساتھ ۔ قضاء الہی آسمان سے اتری ہے اور اللہ تعالٰی جو چاہتا ہے کرتا ہے

لیکن آپ نے اس کے باوجود سفر کو بدستور جاری رکھا۔

ابن زیاد کی تیاریاں

ابن زیاد کے حکم سے پولیس کے افسر حصین بن نمیر نے قادسیہ سے جبل لعل تک سواروں کو مقرر کر دیا اور تمام اہم راستوں کی ناکہ بندی کر دی۔ امام حسین کے قاصد قیس کو ابن زیاد کے آدمیوں نے گرفتار کرکے قتل کر دیا۔ جب آپ بطن رملہ سے آگے بڑھے تو انھیں عبداللہ ابن مطیع ملے۔ انھوں نے آپ کو آگے جانے سے روکا محمد بن اشعث کے بھیجے ہوئے قاصد نے آپ کو مقام ثعلبیہ پر مسلم بن عقیل کے قتل کی خبر دی۔

اب آپ سفر کوفہ کے بارے میں متردد ہوئے۔ ساتھیوں نے واپس لوٹنے کا مشورہ دیا لیکن مسلم بن عقیل کے بھائیوں نے اپنے بھائی کے خون کا انتقام لینے کی خاطر سفر جاری رکھنے کے لیے زور دیا۔ جس کے بعد پوزیشن واضح ہو گئی۔ آپ کے ساتھ دوران میں سفر بہت سے بدوی شامل ہو چکے تھے۔ آپ نے ان سب کو جمع کیا اور فرمایا جو لوگ واپس جانا چاہیں انہیں اجازت ہے۔ چنانچہ سوائے ان جان نثاروں کے جو مدینہ سے ساتھ آئے تھے سب ساتھ چھوڑ گئے۔

حر بن یزید تمیمی کی آمد

ابن زیاد نے امام حسین عليہ السلام کی پیش قدمی روکنے کے لیے حر بن یزید تمیمی کو روانہ کیا۔ ذمی حشم کے مقام پر آپ سے اس کی ملاقات ہوئی۔ امام حسین عليہ السلام نے اسے کوفیوں کے خطوط کے دو تھیلے منگوا کر دکھائے اور کہا کہ

’’اب آپ لوگوں کی رائے بدل گئی ہے۔ تو میں واپس جانے کے لیے تیار ہوں۔‘‘

لیکن حر نے کہا کہ ہمیں تو آپ کو گرفتار کرنے کا حکم ہے۔ چنانچہ امام حسین عليہ السلام نے اپنا سفر کوفہ جاری رکھا۔ آپ نے مقام بیضہ پر خطبہ دیا۔ جس میں اپنے مقاصد کی وضاحت کی۔ آپ نے فرمایا:

لوگو! رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جس نے ظالم ، محرمات الہٰی کے حلال کرنے والے ، خدا کا عہد توڑنے والے ، خدا اور رسول کی مخالفت اور خدا کے بندوں پر گناہ اور زیادتی کے ساتھ حکومت کرنے والے بادشاہ کو دیکھا اور قول و فعل کے ذریعہ سے غیرت کا اظہار نہ کیا تو خدا کا حق ہے کہ اس شخص کو اس بادشاہ کے ساتھ دوزخ میں داخل کر دے۔ لوگو! خبردار ہو جاؤ ۔ ان لوگوں نے شیطان کی اطاعت اختیار کی اور رحمٰن کی اطاعت چھوڑ دی ہے۔ ملک میں فساد پھیلایا ہے۔ حدود الہٰی کو معطل کر دیا ہے ۔ مال غنیمت میں اپنا حصہ زیادہ لیتے ہیں۔ خدا کی حرام کی ہوئی چیزوں کو حلال اور حلال کی ہوئی حرام کر دیا ہے۔ اس لیے مجھ کو غیرت میں آنے کا زیادہ حق ہے

کچھ دور جا کر طرماج بن عدی سے آپ کی ملاقات ہوئی۔ انہوں نے آپ کو یمن چلنے کی دعوت دی لیکن آپ نے یہ پیش کش شکریہ کے ساتھ ٹال دی ۔

میدانِ کربلا میں آمد

امام حسین عليہ السلام کا قافلہ اور حر بن یزید کی لشکر ساتھ ساتھ آگے کی طرف چلتی رہی، جہاں کہیں آپ کے قافلہ کا رخ صحرائے عرب کی طرف ہو جاتا حر آپ کو روک دیتا اور رخ پھیر کر کوفہ کی طرف کر دیتا۔ چلتے چلتے آپ نینوا پہنچے۔ وہاں ابن زیاد کے ایک قاصد نے حر کو ایک خط پہنچایا جس میں حکم تھا

جونہی میرا یہ خط اور میرا قاصد تم تک پہنچیں حسین اور ان کے ساتھیوں کو جہاں وہ ہیں وہیں روک لو اور انھیں ایسی جگہ اترنے پر مجبور کرو جو بالکل چٹیل میدان ہو اور جہاں کوئی سبزہ اور پانی کا چشمہ وغیرہ نہ ہو میرا یہ قاصد اس وقت تک تمہارے ساتھ ساتھ رہے گا ۔ جب تک مجھے یہ معلوم نہ ہو جائے کہ جو حکم میں نے تمہیں دیا ہے تم نے اس کی حرف بحرف تعمیل کی

حر نے تمام صورتِ حال سے امام حسین کو آگاہ کیا اور کہا کہ ’’اب میں آپ کو اس جگہ نہ رہنے دوں گا۔ ‘‘بالآخر یہ مختصر سا قافلہ 2 محرم الحرام61 ھ بمطابق 2 اکتوبر 680ء کو کربلا کے میدان میں اترا۔ دوسرے ہی روز عمر بن سعد 6 ہزار سپاہیوں کے ساتھ وہاں پہنچا۔ عمر بن سعد چونکہ امام حسین سے لڑنے کا خواہش مند نہ تھا، اس لیے قرہ بن سفیان کو آپ کے پاس بھیجا۔ قرہ بن سفیان سے امام حسین عليہ السلام نے کہا کہ ’’اگر تمہیں میرا آنا ناپسند ہے تو میں مکہ واپس جانے کے لیے تیار ہوں ۔‘‘ لیکن ابن زیاد نے اس تجویز کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا اور عمر بن سعد کو حکم دیا کہ اگرامام حسین عليہ السلام بیعت نہ کریں تو ان کا پانی بند کر دیا:
امام حسین عليہ السلام کو ایسی حالت میں جب کہ وہ قابو میں آچکے تھے گرفتار کرنا زیادہ مناسب اور ضروری قرار دیا۔ یہ سن کر ابن زیاد نے اپنی رائے تبدیل کر دی۔ اور عمر بن سعد کو اس کی اس بات پر سرزنش کرتے ہوئے حکم دیا کہ ’’اگر امام حسین عليہ السلام اور اس کے ساتھی اپنے آپ کو حوالہ کر دیں تو بہتر ہے ورنہ جنگ کی راہ لو۔‘‘ شمر مع خط کے عمر بن سعد کے پاس پہنچا۔ عمر بن سعد اپنے اقتدار کو قائم رکھنے کی خاطر امام حسین کے خلاف تلوار اٹھانے کے لیے تیار ہو گیا۔ یہ 9 محرم الحرام کا دن تھا۔

المیہ کربلا اور شہادتِ عظمٰی

صلح کی آخری گفتگو ناکام ہونے کے بعد امام حسین نے اپنے ساتھیوں سے فرمایا کہ جو جانا چاہتے ہیں انھیں میری طرف سے اجازت ہے۔ اس پر کچھ جان نثار اور اعزا باقی رہ گئے، جنہوں نے آخری وقت تک ساتھ دینے کا عہد کیا۔ ان جاں نثاروں کی تعداد صرف 72 تھی۔ امام حسین عليہ السلام نے اس مختصر ترین فوج کو منظم کیا۔ میمنہ پر زبیر بن قیس کو اور میسرہ پر حبیب بن مطہر کو متعین کرکے علم عباس کو مرحمت فرمایا۔ جنگ کے آغاز سے پیشتر اللہ تعالٰی کے حضور دعا کی اور ان سے تائید اور نصرت چاہی۔ اس کے بعد اتمام حجت کے لیے دشمنوں کی صفوں کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا:

اے لوگو! جلدی نہ کرو ۔ پہلے میری بات سن لو۔ مجھ پر تمہیں سمجھانے کاجو حق ہے اسے پورا کرلینے دو اور میرے آنے کی وجہ بھی سن لو ۔ اگر تم میرا عذر قبول کرلوگے اور مجھ سے انصاف کرو گے تو تم انتہائی خوش بخت انسان ہو گے لیکن اگر تم اس کے لیے تیار نہ ہوئے تو تمہاری مرضی ۔ تم اور تمہارے شریک مل کر میرے خلاف زور لگا لو اور مجھ سے جو برتاؤ کرنا چاہتے ہو کر ڈالو۔ اللہ تعالٰی میرا کارساز ہے اور وہی اپنے نیک بندوں کی مدد کرتا ہے

جونہی آپ تقریر کے اس حصے پر پہنچے تو خیموں سے اہل بیت کی مستورات کی شدّت رنج سے چیخیں نکل گئیں۔ آپ تھوڑی دیر کے لیے رک گئے اور اپنے بھائی عباس کو انہیں چپ کرانے کے لیے بھیجا۔ جب خاموشی طاری ہوئی تو آپ نے اپنی تقریر کو جاری رکھتے ہوئے فرمایا:

لوگو ! تم میرے حسب و نسب پر غور کرو اور دیکھو کہ میں کون ہوں ۔ اپنے گریبانوں میں منہ ڈالو اور اپنے آپ کو ملامت کرو۔ تم خیال کرو کیا تمہیں میرا قتل اور میری توہین زیب دیتی ہے؟ کیا میں تمہارے نبی کا نواسہ اور ان کے چچیرے بھائی کا بیٹا نہیں۔ جنہوں نے سب سے پہلے اللہ تعالٰیٰ کی آواز پر لبیک کہی اور اس کے رسول پر ایمان لائے؟ کیا سیدالشہداء حضرت امیر حمزہ میرے والد کے چچا نہ تھے؟ کیا جعفر طیار میرے چچا نہ تھے؟ کیا تمہیں رسول اللہ کا وہ قول یاد نہیں جو انہوں نے میرے اور میرے بھائی کے بارے میں فرمایا تھا کہ دونوں نوجوانان جنت کے سردار ہوں گے؟ اگر میرا یہ بیان سچا ہے اور ضرور سچا ہے۔ ہے ۔ تو بتاؤ کہ تمہیں ننگی تلواروں سے میرا مقابلہ کرنا ہے؟ اور اگر تم مجھے جھوٹا سمجھتے ہو تو آج بھی تم میں سے وہ لوگ موجود ہیں جنہوں نے میرے متعلق رسول اللہ کی حدیث سنی ہے۔ تم ان سے دریافت کرسکتے ہو ۔ تم مجھے بتاؤ کہ کیا آپ کی اس حدیث کی موجودگی میں بھی تم میرا خون بہانے سے باز نہیں رہ سکتے

لیکن کوفیوں اور ان کے سرداروں پر کوئی اثر نہ ہوا۔ صرف حر بن یزید تمیمی پر آپ کی اس تقریر کا اثر ہوا اور وہ یہ کہتے ہوئے کہ

یہ جنت یا دوزخ کے انتخاب کا موقع ہے۔ میں نے جنت کا انتخاب کر لیا ہے خواہ مجھے ٹکڑے ٹکڑے کر دیا جائے یا جلا دیا جائے

حضرت امام حسین عليہ السلام کے لشکر میں آ شامل ہوا۔ اس کے بعد شخصی مبازرت کے طریقے سے جنگ کا آغاز ہوا جس میں اہل بیت اطہر کا پلہ بھاری رہا۔ یہ دیکھ کر ابن سعد نے عام حملہ کا حکم دیا۔ فدایان و اراکین اہل بیت نے دشمنوں کی یلغاروں کا پوری قوت ایمانی سے ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ فدائی ایک ایک کرکے کٹ مرے لیکن میدان جنگ سے منہ نہ پھیرا۔ دوپہر تک امام حسین کے بیشتر آدمی کام آ چکے تھے۔ چنانچہ اب باری باری حضرت علی اکبر، عبداللہ بن مسلمہ، جعفر طیار کے پوتے عدی، عقیل کے فرزند عبد الرحمن، حضرت حسن کے صاحبزادے قاسم اور ابوبکر وغیرہ میدان میں اترے اور شہید ہوئے۔ ان کے بعد امام حسین عليہ السلام آئے۔ دشمنوں نے ہر طرف سے آپ پر یورش کی۔ یہ دیکھ کر آپ کے بھائی عباس، عبد اللہ، جعفر اور عثمان آپ کی حفاظت کے لیے ڈٹ گئے مگر چاروں نے شہادت پائی۔ امام حسین تنہا میدا میں جمے ہوئے تھے۔ عراقیوں نے آپ کو ہر طرف سے نرغہ میں لے لیا مگر شہید کرنے کی کسی کو بھی جرات نہ ہو رہی تھی کیونکہ کوئی نہ چاہتا تھا کہ یہ گناہ اس کے سر ہو۔ بالآخر شمر کے اکسانے پر زرعہ بن شریک تمیمی نے یہ بدبختی مول لی اور ہاتھ اور گردن پر تلوار کیے۔ سنان بن انس نے تیر چلایا اور آپ گر گئے۔ ان کے گرنے پر شمر ذی الجوشن آپ کی طرف بڑھا تو اس کی برص زدہ شکل دیکھتے ہی امام حسین علیہ السلام نے فرمایا کہ میرے نانا رسولِ خدا نے سچ فرمایا تھا کہ میں ایک دھبے دار کتے کو دیکھتا ہوں کہ وہ میرے اہلِ بیت کے خون سے ہاتھ رنگتا ہے[7]۔ اے بدبخت شمر بلاشبہ تو وہی کتا ہے جس کی نسبت میرے نانا نے خبر دی تھی۔ اس کے بعد شمر نے ان کا سر پیچھے کی طرف سے (پسِ گردن سے ) کاٹ کر تن سے جدا کر دیا۔ روایات کے مطابق اللہ کے نبی حضرت یحییٰ بن زکریا علیہ السلام کا سر بھی اسی طرح پس گردن سے کاٹ کر جدا کیا گیا تھا۔[7] ابن زیاد کے حکم کے مطابق آپ کا سربریدہ جسم گھوڑوں کے ٹاپوں سے روندوا دیا گیا۔ بعد میں تمام شہدائے اہلِ بیت کے سر نیزوں کی نوک پر رکھ کر پہلے ابنِ زیاد کے دربار میں لے جائے گئے اور بعد میں دمشق میں یزید کے دربار میں لے جائے گئے۔ یزید نے امام حسین کے سر کو اپنے سامنے طشت پر رکھ کر ان کے دندان مبارک کو چھڑی سے چھیڑتے ہوئے اپنے کچھ اشعار پڑھے جن سے اس کا نقطہ نظر معلوم ہوتا ہے جن کا ترجمہ کچھ یوں ہے [8]

کاش آج اس مجلس میں بدر میں مرنے والے میرے بزرگ (جو کفار کی طرف سے تھے) اور قبیلہ خزرج کی مصیبتوں کے شاہد، موجود ہوتے تو خوشی سے اچھل پڑتے اور کہتے : شاباش اے یزید تیرا ہاتھ شل نہ ہو، ہم نے ان کے بزرگوں کو قتل کیا اور بدر کا انتقام لے لیا ، بنی ہاشم سلطنت سے کھیل رہے تھے اور نہ آسمان سے کوئی وحی نازل ہوئي نہ کوئی فرشتہ آیا ہے

اس شعر کو سن کر اور یزید کا فخریہ انداز دیکھ کر دربار میں موجود ایک یہودی سفیر نے کہا کہ میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کی اولاد سے ہوں۔ میرے اور ان کے درمیان میں ستر پشتیں گزر چکی ہیں مگر اس کے باوجود یہودی میری بے حد عزت و تکریم کرتے ہیں اور ایک تم ہو کہ تم نے اپنے نبی کے نواسے کو شہید کر دیا ہے اور اب اس پر فخر بھی کر رہے ہو۔ یہ تمہارے لیے ڈوب مرنے کا مقام ہے۔[9] گبن کے الفاظ میں

Thus fell one of the noblest spirits of the age and with him perished all the male members of his family with the solitary exception of a sickly child named Ali who later in life received the designation of Zayn-ul-Abidin
ترجمہ : اس طرح زمانے کے پارسا ترین انسانوں میں سے ایک کا خاتمہ ہو گیا اور اس کے ساتھ اس کے خاندان کے تمام مرد بھی ختم ہو گئے سوائے امام زین العابدین علی بن حسین (جو بیماری کی وجہ سے جنگ میں شرکت نہ کر سکے) اور امام محمد باقر بن علی کے جو اس وقت بچے تھے۔

غدار کوفیوں کا شرمناک کردار

اس دلخراش سانحہ سے قبل بھی کوفیوں کا کردار نہایت ہی شرمناک رہا تھا۔ حضرت علی کے دارلخلافہ مدینہ سے کوفہ لے جانے سے ان سازشیوں کو کھل کر کھلنے کا موقع ملا۔ بظاہر یہ سازشی حب علی کا لبادہ اوڑھے رہا کرتے تھے لیکن آپ کی زات اطہر سے بھی الٹے سیدھے سوالات کرنا ان کا وتیرہ تھا۔ ایک موقع پر ان لوگوں نے حضرت علی سے سوال کیا۔ " مولا آپ سے پہلے کے خلفاء کے دور میں امن وامان تھا مگر آپ کے دور میں یہ کیوں عنقا ہے" اس گستاخانہ سوال پر حضرت علی نے ان منافقوں کو منہ توڑ جواب دیا۔ آپ نے فرمایا " اس بے امنی کی بنیادی وجہ یہ ہے کر سابقہ خلفاء کے مشیر میرے جیسے لوگ تھے اور میرے مشیر ہیں آپ جیسے لوگ"۔ ان لوگوں کی ان ہی حرکتوں کے باعث حضرت علی بالآخر اس طبقے سے بیزار رہنے لگے تھے۔ جب حضرت حسن نے خلافت سنبھالی تو آپ اپنے والد محترم کے دور میں ان منافقوں کا بغور مشاہدہ کر چکے تھے اسے لیے آپ نے ان کو زیادہ منہ نہ لگایا اور حضرت معاویہ سے صلح کرلی۔ اس صلح سے خانہ جنگی کا خاتمہ ہو گیا تھا۔ اس صلح سے ان منافقوں کی سازشوں پر پانی پھر رہا تھا اس لیے اس صلح پر بھی حضرت حسن کی زات گرامی پر اعتراض کرنے لگے۔ حضرت حسن نے فرمایا " اگر خلافت میرا حق تھا تو یہ میں نے ان (معاویہ) کو بخش دیا اور اگر یہ معاویہ کا حق تھا تو یہ ان تک پہنچ گیا"۔ جن کوفیوں نے امام حسین عليہ السلام کو خطوط لکھ کر کوفہ آنے کی دعوت تھی ان کی تعداد ایک روایت کے مطابق 12000 اور دوسری روایت کے مطابق 18000 تھی لیکن جب جنگ کی نوبت آگئی تو ان بے وفا اور دغا باز لوگوں میں سے کسی نے حضرت حسین کا ساتھ نہ دیا اور کھڑے تماشا دیکھتے رہے یہاں تک کہ آپ نے اپنے جانثار ساتھیوں کے ہمراہ جام شہادت نوش فرمایا۔ حسینی آج بھی عزاداری مناتے ہیں اور یزید کے اس سیاہ کارنامے کے خلاف اپنا احتجاج ریکارڈ کرواتے ہے

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی پیشگوئی

حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنی زوجہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا کو کچھ مٹی دی تھی اور فرمایا تھا کہ اے ام سلمیٰ جب یہ مٹی سرخ ہو جائے یعنی خون میں بدل جائے تو سمجھ لینا کہ میرا بیٹا حسین شہید کر دیا گیا۔ ایک دن ان کی بیٹی ان سے ملنے گئیں تو آپ زارو قطار رو رہی تھیں۔ پوچھا گیا تو ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے بتایا کہ ابھی رسولِ خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم خواب میں تشریف لائے تھے۔ ان کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے اور آپ کے سرِ انور اور ڈاڑھی مبارک پر مٹی تھی۔ میں نے پوچھا آقا یہ گرد کیسی تو فرمایا کہ اے ام سلمہ ابھی اپنے حسین کے قتل کا منظر دیکھ کر میدانِ کربلا سے آ رہا ہوں۔ جاگنے کے بعد میں نے وہ مٹی دیکھی جو انہوں نے مجھے دی تھی تو وہ خون ہو چکی تھی۔[10]

اہل بیت کی شام کو روانگی

حضرت امام حسین عليہ السلام کی شہادت کے بعد اہل بیت اطہر کے بقیہ افراد پر مشتمل قافلہ ابن زیاد کے پاس کوفہ پہنچا۔ یہ سیاہ بخت انسان اس خستہ حالت میں بھی افراد اہل بیت سے انتہائی بدتمیزی سے پیش آیا۔ حضرت امام حسین عليہ السلام کا کٹا ہوا سر ابن زیاد کے سامنے پڑا ہوا تھا۔ ہر خاص و عام کو محل میں داخل ہونے کی اجازت تھی۔ ابن زیاد سر مبارکہ کو دیکھ کر آپ کے لبوں پر بار بار چھڑی مارتا اور مسکراتا۔ صحابی رسول زید بن ارقم وہاں ایک کونے میں موجود تھے ان سے رہا نہ گیا تو فرمایا:

ان لبوں سے چھڑی ہٹا لو۔ اللہ تعالٰیٰ کی قسم جس کے سوا کوئی معبود نہیں میں نے اپنی ان آنکھوں سے دیکھا کہ رسول اللہ ان ہونٹوں پر اپنے ہونٹ رکھتے تھے

یہ کہہ کر وہ رونے لگے۔ یہ سن کر ابن زیاد کے غضب کی کوئی حد نہ رہی بولا۔ ’’اللہ تعالٰیٰ دونوں آنکھیں رلائے۔ واللہ ! اگر تو بوڑھا ہو کر سٹھیا نہ گیا ہوتا اور تیری عقل ماری نہ گئی ہوتی تو میں تیری گردان اڑا دیتا۔ ‘‘ یہ دیکھ کر زید بن ارقم مجلس سے اٹھتے ہوئے کہہ گئے:

اے لوگو! آج کے بعد تم غلام بن گئے کیونکہ تم نے فاطمہ کے لخت جگر کو قتل اور ابن زیاد کو اپنا حاکم بنایا جو تمہارے نیک لوگوں کو قتل کرتا اور شریروں کو نوازتا ہے

کوفہ سے ابن زیاد نے حضرت امام حسین عليہ السلام کا سر مبارک اور قافلہ اہل بیت کو دمشق بھجوا دیا۔ وہاں یزید نے امام حسین علیہ السلام کے سر مبارک کو چھڑی سے چھیڑا اور فخر کا اظہار کیا۔

نتائج

واقعہ حرہ

شہادتِ حسین کی خبر جب سرزمین حجاز میں پہنچی تو کوئی آنکھ ایسی نہ تھی جو اس سانحہ پر اشکبار نہ ہو۔ لٰہذا حجاز میں فوری طور پر انقلاب برپا ہو گیا۔ اہل مدینہ نے اموی حکام کو صوبہ سے نکال دیا اور عبد اللہ بن زبیر کی بیعت کر لی۔ یزید نے ولید بن عقبہ کی ماتحتی میں شامیوں کی فوج روانہ کی۔ اس فوج میں مسیحی کثیر تعداد میں شامل تھے۔ جب اہل مدینہ نے اطاعت قبول نہ کی تو ولید بن عقبہ نے شہر پر حملہ کرنے کا حکم دیا۔ اہل مدینہ نے اگرچہ بڑی بے جگری سے لڑے لیکن شامی افواج کے سامنے ان کو شکست ہوئی۔ اس جنگ میں بڑے بڑے اکابر مدینہ شہید ہوئے جن میں فضل بن عباس اور عبداللہ بن حنظلہ قابل ذکر ہیں۔ شہر پر قبضہ کے بعد مدینہ الرسول تین دن تک شامی فوجیوں کے ہاتھوں لٹتا رہا۔ مسلمانوں کی عزت و آبرو برباد ہوئی اور تین روز تک مسلسل قتل و غارت کا بازار گرم رہا۔ تاریخ اسلام میں یہ واقعہ بہت اہم ہے اور سانحہ کربلا کے بعد یزید کا دوسرا بڑا سیاہ کارنامہ قرار دیا جا سکتا ہے۔

عبد اللہ بن زبیر کی خلافت

اہل مدینہ نے یزید کی بجائے عبداللہ بن زبیر کو خلیفہ چن لیا۔ شہادت حسین نے لوگوں کے اندر سوئے ہوئے جذبات کو ازسرنو بیدار کر دیا اور سرزمین حجاز میں ناراضی کی ہمہ گیر لہر اموی اقتدار کے خلاف اٹھ کھڑی ہوئی۔ اہل حجاز کو ابن زبیر جیسی موثر شخصیت بطور رہنما میسر آئی۔ چنانچہ اہل مدینہ نے بھی جلد آپ کو خلیفہ تسلیم کر لیا اور آپ کی بیعت کر لی۔ اس انقلاب نے اموی اقتدار کے لیے بے پناہ مشکلات پیدا کر دیں۔ حجاز کی سرزمین سے مخالفت کے یہ ابلتے ہوئے جذبات درحقیقت تمام عالم اسلامی میں پیدا شدہ ہمہ گیر اضطراب کے ترجمان تھے۔

اموی خلافت کا زوال

واقعہ کربلا اموی خلافت کے زوال کا اہم سبب قرار دیا جاتا ہے۔ اموی حکومت اور اس کے عمال پہلے ہی عوام الناس میں مقبول نہ تھے۔ کیونکہ مسلمان جب ان کی حکومت کا موازنہ خلافت راشدہ سے کرتے تھے انہیں سخت مایوسی ہوتی۔ امام حسین کی شہادت نے ملت اسلامیہ کو بہت متاثر کیا۔ خود یزید کابیٹا معاویہ دل برداشتہ ہو کر خلافت سے ہی دست بردار ہو گیا۔ اگرچہ امویوں نے اپنی قوت اور استقلال کی بدولت حکومت کو وقتی طور پر اپنے خاندن میں محفوظ کر لیا لیکن خلیفہ مروان ثانی کے زمانہ تک کھلم کھلا اور زیر زمین کئی تحریکیں مسلسل اس بات کے لیے کوشاں رہیں کہ وہ امویوں کی حکومت کا تختہ الٹ دیں۔

عباسی تحریک

عباسیوں نے امویوں کے خلاف اس رد عمل سے خوب فائدہ اٹھایا۔ ان کے داعی ملک کے کونے کونے میں پھیل گئے اور اموی مظالم کی داستان اس قدر پر زور اور پر تاثیر انداز میں پیش کی کہ عوام کے جذبات بھڑک اٹھے۔ چنانچہ عباسیوں نے بھی حسین کے انتقام کو اپنے مقاصد کے لیے نہایت کامیابی سے استعمال کیا۔

حق پرستوں کے لیے مثال

اس واقعہ کا سب سے بڑا اہم نتیجہ یہ تھا کہ امام حسین کا کردار عین حق کے لیے ہمیشہ کے لیے روشنی کا ایک مینار بن گیا۔ حریت، آزادی اور اعلائے کلمۃ الحق کے لیے جب بھی مسلمانوں نے اپنی جدوجہد کا آغاز کیا توامام حسین عليہ السلام کی قربانی کو مشعل راہ پایا۔ آپ ہی سے مسلمانوں نے سیکھا کہ جبر و استبداد کے سامنے سینہ سپر ہونا عین رضائے الٰہی ہے۔

اہمیت

کربلا کا یہ واقعہ تاریخ اسلام کا بڑا افسوسناک حادثہ تھا۔ اس واقعہ کی خبر اللہ نے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو کر دی تھی۔ چنانچہ روایات میں آتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنی زوجہ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کو ایک شیشی میں کچھ مٹی دے کر فرمایا تھا کہ یہ اس جگہ کی مٹی ہے جہاں میرے نواسے کو شہید کیا جائے گا۔ جب وہ شہید ہوگا تو یہ مٹی خون کی طرح سرخ ہو جائے گی۔ کربلا کے واقعے کے وقت حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا زندہ تھیں اور جس وقت امام حسین علیہ السلام شہید ہوئے یہ مٹی خون کی طرح سرخ اور مائع ہو گئی تھی۔[11][12] اسلامی تاریخ کو کسی اور واقعہ نے اس قدر اور اس طرح متاثر نہیں کیا جیسے سانحہ کربلا نے کیا۔ آنحضور اور خلفائے راشدین نے جو اسلامی حکومت قائم کی اس کی بنیاد انسانی حاکمیت کی بجائے اللہ تعالٰی کی حاکمیت کے اصول پر رکھی گئی۔ اس نظام کی روح شورائیت میں پنہاں تھی۔ اسلامی تعلیمات کا بنیادی مقصد بنی نوع انسان کو شخصی غلامی سے نکال کر خداپرستی، حریت فکر، انسان دوستی، مساوات اور اخوت و محبت کا درس دینا تھا۔ خلفائے راشدین کے دور تک اسلامی حکومت کی یہ حیثیت برقرار رہی۔ یزید کی حکومت چونکہ ان اصولوں سے ہٹ کر شخصی بادشاہت کے تصور پر قائم کی گئی تھی۔ لٰہذا جمہور مسلمان اس تبدیلی کو اسلامی نظام شریعت پر ایک کاری ضرب سمجھتے تھے اس لیے امام حسین محض ان اسلامی اصولوں اور قدروں کی بقا و بحالی کے لیے میدانِ عمل میں اترے، راہِ حق پر چلنے والوں پر جو کچھ میدانِ کربلا میں گزری وہ جور جفا، بے رحمی اور استبداد کی بدترین مثال ہے۔ یہ تصور ہی کہ اسلام کے نام لیواؤں پر یہ ظلم یا تعدی خود ان لوگوں نے کی جو خود کو مسلمان کہتے تھے بڑا روح فرسا ہے۔ مزید براں، امام حسین کا جو تعلق آنحضور سے تھا اسے بھی ظالموں نے نگاہ میں نہ رکھا۔ نواسۂ رسول کو میدانِ کربلا میں بھوکا پیاسا رکھ کر جس بے دردی سے قتل کرکے ان کے جسم اور سر کی بے حرمتی کی گئی۔ یہ اخلاقی لحاظ سے بھی تاریخ اسلام میں اولین اور بدترین مثال ہے۔ اس جرم کی سنگینی میں مزید اضافہ اس امر سے بھی ہوتا ہے کہ امام حسین نے آخری لمحات میں جو انتہائی معقول تجاویز پیش کیں انھیں سرے سے درخورِ اعتنا ہی نہ سمجھا گیا۔ اس سے یزید کے اعمال کی آمرانہ ذہنیت کا اظہار بھی ہوتا ہے۔ یہاں یہ نقطہ قابلِ غور ہے کہ جب شخصی اور ذاتی مصالح، ملی، اخلاقی اور مذہبی مصلحتوں پر حاوی ہو جاتے ہیں تو انسان درندگی کی بدترین مثالیں بھی پیش کرنے پرقادر ہے اور ایسی مثالوں سے تو یورپ کی ساری تاریخ بھری پڑی ہے۔ لٰہذا ان حقائق کی روشنی میں سانحہ کربلا کا جائزہ لیا جائے تو یہ واقعہ اسلام کے نام پر سیاہ دھبہ ہے کیونکہ اس سے اسلامی نظامِ حکومت میں ایسی خرابی کا آغاز ہوا جس کے اثرات آج تک محسوس کر رہے ہیں۔ لیکن اگر ہم اس سانحہ کو اسلام کے نام پر ایک سیاہ دھبہ بھی قرار دیں تو یہ تصویر کا صرف ایک رخ ہوگا۔ کیونکہ جہاں تک حق و انصاف، حریت و آزادی اور اعلائے کلمۃ الحق کے لیے جدوجہد کا تعلق ہے یہ کہنا درست ہوگا کہ سانحہ کربلا تاریخ اسلام کا ایک شاندار اور زریں باب بھی ہے جہاں تک اسلامی تعلیمات کا تعلق ہے اس میں شخصی حکومتوں یا بادشاہت کا کوئی تصور موجود نہیں۔ یزید کی نامزدگی اسلام کے نظامِ شورائیت کی نفی تھی۔ لٰہذا امام حسین نے جس پامردی اور صبر سے کربلا کے میدان میں مصائب و مشکلات کو برداشت کیا وہ حریت، جرات اور صبر و استقلال کی لازوال داستان ہے۔ باطل کی قوتوں کے سامنے سرنگوں نہ ہو کر آپ نے حق و انصاف کے اصولوں کی بالادستی، حریت فکر اور خدا کی حاکمیت کا پرچم بلند کرکے اسلامی روایات کی لاج رکھ لی۔ اور انھیں ریگزارِ عجم میں دفن ہونے سے بچا لیا۔ امام حسین کا یہ ایثار اور قربانی تاریخ اسلام کا ایک ایسا درخشندہ باب ہے جو رہروان منزل شوق و محبت اور حریت پسندوں کے لیے ایک اعلیٰ ترین نمونہ ہے۔ سانحہ کربلا آزادی کی اس جدوجہد کا نقطہ آغاز ہے جو اسلامی اصولوں کی بقا اور احیاء کے لیے تاریخِ اسلام میں پہلی بار شروع کی گئی۔

مزید دیکھیے

یو ٹیوب پر

حوالہ جات

  1. Western-Islamic Calendar Converter
  2. Gregorian-Hijri Dates Converter
  3. فتح الباری شرح صحیح البخاری ، ساتویں جلد کے صفحہ نمبر 490، حدیث نمبر 4236
  4. مسند احمد بن حنبل، ج 18 ص 314 حدیث 26627
  5. سنن ابو داؤد،حدیث نمبر 4131
  6. صحیح بخاری، حدیث 4827
  7. ابن عساکر
  8. دمع السجوم ص 252
  9. خصائص الکبریٰ، الصواعق المحرقہ
  10. بخاری شریف، مشکوٰۃ، مستدرک الحاکم، خصائص الکبریٰ
  11. صحیح البخاری
  12. ترمذی شریف
This article is issued from Wikipedia. The text is licensed under Creative Commons - Attribution - Sharealike. Additional terms may apply for the media files.