وہب بن وہب

وہب بن وہب شہدائے کربلا میں سے تھے۔ جنہوں نے واقعہ کربلا میں امام حسین کی فوج میں شمولیت اختیار کی۔

وہب بن وہب
معلومات شخصیت
وفات 10 اکتوبر 680  
کربلا  
رہائش کوفہ  
عملی زندگی
پیشہ تاجر  
عسکری خدمات
لڑائیاں اور جنگیں سانحۂ کربلا  

عبد اللہ ابن عمیر ابو وہب الکلبی امام حسین کے کربلا میں ساتھی تھے اور ان کے ساتھ کربلا کی لڑائی میں شہید ہوئے آپ کربلا سے گزرتے ہوئے امام سے ملے اور پھر ان کے ساتھ ہی ٹھہر گئے ، آپ قبیلہ بنو کلب سے تعلق رکھتے تھے جو اس وقت زیادہ تر عیسائی تھا آپ بھی پہلے عیسائی تھے امام سے ملاقات کے بعد اپنی بیوی اور ماں کے ساتھ اسلام قبول کیا[1]

آپ کی بیوی ، ام وہب ، کربلا میں شہید خواتین میں سے ہیں[2][3][4]

ابتدائی زندگی اور قبول اسلام

وہب پیدائشی طور پر مسیحی تھے پھر اسلام قبول کیا۔ آپ کوفہ کے جانے پہچانے تاجر تھے[2][3][4] آپ کوفہ سے شادی کر کے لوٹ رہے تھے ۔ آپ کے ساتھ آپ کی ماں اور بیوی تھی ۔ جب آپ کا کربلا سے گزر ہوا تو دیکھا امام حسین دشمنوں کے نرغے میں گھرے ہوئے ہیں اور آپ کے ساتھ آپ کے خاندان والے اور کچھ ساتھی ہیں ۔ یہ دیکھ کر آپ نے امام کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا ۔ حالانکہ آپکی نئی نئی شادی ہوئی تھی اور آپ کی عمر اس وقت 17 سال تھی۔

وہب حسین ابن علی کی شخصیت اس قدر متاثر ہوئے انہوں امام کا کربلا میں ساتھ دینے کا فیصلہ کیا یہ جاننے کے باوجود کربلا میں امام کا ساتھ دینے کے کیا نتائج ہوں گے۔ وہب لمبے اور چوڑے شانوں والے قوی انسان تھے ۔ وہ لوگوں کے درمیان میں بہت باعزت تھے اور اپنی جرات و بہادری اور سپاہ گری کے لیے جانے جاتے تھے ۔ [5]

قافلہ حسینی میں شمولیت

عبد الله بن عمير الكلبي(وہب) طائفة بني عليم سے تھے اور شہر الكوفہ کے باسی تھے.جب آپ نے جيش الكوفہ کو حسين ابن فاطمة بنت رسول الله سے جنگ کے لئے آمادہ دیکھا، تو نواسہ رسول الله کی حمایت میں جانے کا فیصلہ کیا. آپ نے اپنی زوجہ أم وهب ابنة عبد الله سے اپنے فیصلے کے بارے میں بات کی، اس نے اپنے شوہر کے فیصلے کی حمایت کی اور اس سے کہا: «یہ کتنی صائب اور عقلمندانہ رائے ہے، مجھے بھی اپنے ساتھ لے جائیۓ.»وہ کوفہ سے رات گئے نکلے اور محرم کے آٹھویں دن کربلا پہنچے اور امام حسین کے قافلے میں شامل ہوگئے ۔[6]

نسب

عبد الله بن عمير بن عباس بن عبد قيس بن عليم بن جناب الكلبي العليمي، أبو وهب.

وہب کا کربلا کی لڑائی میں ڈوئل

اسلام قبول۔کرنے کے بعد امام نے وہب کو اپنی طرف سے یزیدی فوجوں کے ساتھ جنگ کی اجازت دے دی ۔ کربلا کی جنگ کے پہلے حملے میں زیاد کے غلام یاسر اور ابن زیاد کے غلام سلیم میدان میں نکلے اور حسینی فوج سے مبارزت طلب کی ۔ اس موقع پر حبیب ابن مظاہر اور بریر نے ان کا چیلنچ قبول کرنے کی خواہش ظاہر کی لیکن امام نے اجازت نا دی۔ [5]

جب وہب نے اجازت مانگی تو امام نے دونوں کا مقابلہ کرنے کی اجازت دے دی ۔[5]وہب نے میدان جنگ میں قدم رکھا اور دونوں چیلنج کرنے والوں نے اپنی شناخت بتانے کا کہا ۔ انہوں نے اسے اپنے مقابل نا سمجھا اور حبیب ابن مظاہر , زہیر ابن قین یا بریر بن خضیر ہمدانی] کو مقابلے کے لیے پکارا ۔ یاسر نزدیک کھڑا تھا جسے وہب نے کہا "تو زانی کے بیٹے! مجھ سے لڑنا نہیں چاہتا !? [5] یہ کہتے ہوئے اس نے یاسر پر حملہ کر دیا اور اس سے تلواربازی شروع کر دی لیکن اسی وقت سلیم نے اس پر تلوار سے حملہ کر دیا ۔ اپنے آپ کو حملے سے بچاتے ہوئے وہب نے اپنے بائیں ہاتھ کی انگلیاں گنوا دیں اور جوابی وار میں اسنے یاسر اور سلیم کو قتل کر دیا۔ دونوں کو مارنے کے بعد آپ رجز پڑھتے ہوئے واپس امام کے پاس آئے۔[5]آپ کی بیوی ام وہب یہ سب منظر دیکھ رہی تھی۔ آپکے بہادرانہ حملے دیکھتے ہوئے وہ آپکے پاس آئیں اور کہا: میرے ماں باپ تم پر فدا, ایسے ہی اچھوں کی حفاظت کرتے رہو , جو محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اولاد ہے۔[5]

شہادت


وہب نے جوابی حملے میں حصہ لیا جب شمر نے امام حسین کی فوج کے میمنہ (دائیں بازو فوج) پر حملہ کیا ۔ وہب نے اس حملے میں 31 یزیدی سپاہیوں کو قتل کیا , جن میں 19 سوار اور 12 پیادے تھے۔ ہانی بن ثابت الحضرمی نے آپ کا دایاں ہاتھ کاٹ ڈالا ۔ [7] اور بکر ابن حی نے بایاں کاٹ ڈالا۔[8] ہاتھوں سے محروم ہونے کے بعد آپ کو پکڑ لیا گیا اور اسی وقت شہید کر دیا گیا۔[9] اس کے بعد آپکا سر کاٹ کر حسینی کیمپ کی طرف پھینک دیا گیا , اسے آپکی بیوی نے اٹھایا , اس نے سر سے خون صاف کیا اور پھر دشمن فوجوں کی طرف دوڑ لگا دی ۔ امام حسین نے یہ کہتے ہوئے انہیں واپس بھیجا, اللہ آپ پر رحم کرے , واپس جائیں , آپ کو جہاد شرکت کرنے سے چھوٹ ہے۔ آپ یہ کہتے ہوئے واپس گئیں "اے اللہ مجھے مایوس نا کرنا!" حسین ابن علی نے کہا "اللہ تمہیں کبھی مایوس نا کرے۔[9][10]

مقتل

آپ 10 محرم یوم عاشورا یہ رجز پڑھتے ہوئے دشمن پر حملہ آور ہوئے:[11]

إن تنكـروني فـأنـا بن كـلب حسبي بيتي فـي عليم حسـبي
إنـي امرؤ ذو مـرة وعصب ولـست بالخوار عند الـنكـب
إنــي زعــيـم لــك أم وهـــب بالطعن فيهما مقدما والضرب

عبد الله بن عمير (وہب) أصحاب الحسين میں مسلم بن عوسجہ کے بعد قتل ہونے دوسرے جانثار تھے. الزيارة الرجبية وزيارة الناحية المقدسة میں آپ پر سلام بھیجا گیا ہے «السَّلامُ عَلى‌ عَبدِ اللَّهِ بنِ عُمَيرٍ الكَلبِيِّ».


کچھ معلومات


مشہور یہ ہے جناب وہب نصرانی المذہب تھے وہ اپنی والدہ اور بیوی کے ساتھ سرکار سید الشہداءؑ کے دست حق پرست پر اسلام لائے تھےجیسا کہ روضہ الواعظین نیشاپوری ص۲۲۴ عاشر بحار بحار ص ۱۹۶ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وغیرہ کتب سے ظاہر ہے صاحب فرسان الہیجاء صفحہ ۱۳۷ پر لکھا ہے کہ وہب مذکورہ کی تازہ شادی ہوئی تھی روز عاشور زفاف کو ابھی سترہ روز سے زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا جب انہوں نے نصرت فرزند رسولؐ میں جام شہادت پینے کا ارادہ کیا تو ان کی زوجہ ان کو خدمت امامؑ میں لائیں اور عرض کیا ! فرزند رسولؐ دو باتیں عرض کرنا چاہتی ہوں ایک یہ کہ میرا شوہر تو عنقریب نیزہ و تلوار کے وار سے رہ سپار جنت ہو جائے گا اور چونکہ میرا یہاں کوئی مونس و غم گسار نہیں ہے اس لیے مجھے اپنے اہل حرم کے حوالے کر دیجیے دوسرے یہ کہ وہب سے وعدہ لیجیے کہ فروائے قیامت مجھے فراموش نہ کریں امام علیہ السلام اس معظمہ کی ان باتوں سے بہت متأثر ہوئے اور گریہ کرتے ہوئے فرمایا تیری ہر دو باتیں منظور ہیں ۔ بہر حال والدہ وہب نے حکم دیا کہ ‘‘ قم یا بنی و انصر ابن بنت رسول اللہ ’’ بیٹا اٹھو اور دختر رسول کے بیٹے کی نصرت کا حق ادا کرو وہب نے کہا ‘‘ افعل و لا اقصر ’’ مادر گرامی میں ایسا ہی کروں گا اور کوئی کوتاہی نہ ہو گی چنانچہ اس کے بعد یہ رجز پڑھتے ہوئے میدان وغا میں قدم رکھا۔ ( رجز نقل نہیں کر رہے منجانب الماتن ) ۔ اس کے بعد خوب جانفشانی سے لڑے اور ایک جماعت کو واصل جہنم کرنے کے بعد اپنی ماں اور زوجہ کے پاس آ گئے اور والدہ سے پوچھا ‘‘ یا اماہ ا رضیت ’’ اے مادر گرامی ! کیا آپ میری کار کردگی سے خوش ہیں ؟ ماں نے فرمایا ‘‘ ما رضیت اما تقتل بین یدی الحسینؑ ’’ میں اس وقت تک ہر گز نہ راضی ہوں گی جب تک تم امام کے سامنے جام شہادت نہ نوش کر لو یہ سن کر زوجہ وہب نے کہا ‘‘ باللہ لا تفجعنی فی نفسک ’’ خدا کیلیے مجھے اپنا دکھ نہ پہنچایئے مادر وہب نے کہا ‘‘ یا بنی لاتقبل قولھا و ارجع و قاتل بین یدی ابن رسول اللہ فیکون غدا فی یوم القیامۃ شفیعا لک بین یدی اللہ’’ بیٹا اس کی باتوں پر توجہ نہ دو اور میدان میں جا کر فرزند رسولؐ کی نصرت میں جہاد کرو تاکہ بروز قیامت جناب رسول خدا بارگاہ ایزدی میں تمہاری شفاعت کریں چنانچہ جنااب وہب یہ رجز پڑھتے ہوئے پھر میدان کارزار میں داخل ہوئے ۔ انی زعیم لک یا ام وہب بالطعن فیھم تارۃ و الضرب ضرب غلام مومن بالرب حتی یذیق القوم مر الحرب پھر بڑھ بڑھ کر حملے کیے یہاں تک کہ انیس سواروں اور بارہ پیادوں اور بروایاتے چوبیس سواروں اور بارہ پیادوں کو واصل جہنم کیا لڑتے لڑتے یکے بعد دیگرے ان کے دونوں ہاتھ قلم ہو گئے یہ کیفیت دیکھ کر ان کی زوجہ ایک گرز لے کر میدان میں نکل آئی وہب نے کہا یا تو تو مجھے روکتی تھی یا اب یہ کیفیت ؟ کہنے لگی مجھ سے آؒ رسول کی مظلومیت نہیں دیکھی جاتی وہب نے اسے واپس کرنا چاہا مگر وہ کنیز خدا جوش شہادت میں نہ مانی اور جام شہادت نوش کرنے کی ٹھان لی وہب نے امامؑ سے استغاثہ کیا امام علیہ السلام تشریف لائے اور سمجھا بجھا کر اسے واپس خیمہ میں لے گئے بروائیتے شہادت وہب کے بعد اس کی زوجہ اس کی لاش پر پہنچی اور ان کے چہرہ سے گرد و خاک صاف کرنا شروع کی اس موقع پر شمر بن ذوالجوشن کے غلام نے اس کے حکم سے اسے گرز مار کر شہید کر دیا ( بحار ج ۱۰ ص ۱۹۶ ) اور بالآخر جناب وہب درجہ شہادت پر فائز ہوئے برویتے ان کو زندہ پکڑ کر پسر سعد کے پاس لے جایا گیا پسر سعد نے کہا ‘‘ ما اشد صولتک ‘‘ اے جوان تیرا حملہ کس قدر سخت ہے پھر ان کو شہید کر دیا گیا اور ظالموں نے ان کا سر قلم کر کے سپاہ حسینیؑ کی طرف پھینک دیا وہب کی والدہ نے وہ سر اٹھایا اسے بوسہ دیا اور پھر شاید یہ سمجھ کر کہ جو چیز راہ خدا میں دے دی جائے وہ واپس نہیں لی جا سکتی اسے اٹھا کر لشکر ابن سعد کی طرف زور سے پھینک دیا اتفاق سے وہ ایک شریر کو لگا ( بروائتے وہی وہب کا قاتل تھا ) اور وہ اسی سے واصل جہنم ہو گیا پھر گرز لے کر میدانِ جنگ میں نکل پڑی اور دو سپاہیوں کو جہنم رسید کیا امام علیہ السلام نے فرمایا ‘‘ ارجعی یا ام وہب انت و ابنک مع رسول اللہ فان الجھاد مرفوع عن النساء ’’ اے ام وہب ! واپس پلٹ آؤ ! کیونکہ عورتوں پر جہاد واجب نہیں ہے ام وہب ! تم اور تمہارا بیٹا دونوں بارگاہ رسالت میں ہو گے امام عالی مقام کا ارشاد سن کر وہ مومنہ یہ کہتے ہوئے واپس لوٹی ‘‘ اللھم لا تقطع رجائی ’’ بار الہا ! میری امید قطع نہ کرنا امام علیہ السلام نے فرمایا ‘‘ یا ام وہب لا تقطع اللہ رجاک یا ام وہب ’’ اے ام وہب خدا تیری امید کو ہر گز قطع نہیں کرے گا

مزید دیکھیے

حوالہ جات

  1. "The Story of Karbala – Part 5 ABDULLAH BIN WAHB AL-KALBI"۔ اخذ شدہ بتاریخ 2010-12-20۔
  2. "The second phase of the battle of Karbala" (پی‌ڈی‌ایف)۔ اخذ شدہ بتاریخ 2010-12-20۔
  3. Ali Nazari Manfarid۔ The story of Karbala, translated from Persian by Sayid Husain Alamdar۔
  4. Sayed Mohsin Naqvi۔ The tragedy of Karbala۔
  5. {{cite book|last=Al Muqarram | first=Abd al Razzaq | title= Maqtal Al Husayn: Martyrdom Epic of Imam al Husain [as] | chapter= The First Campaign| pages=190–191
  6. Ibn Shahr Ashub۔ Al Manaqib۔ صفحہ 217۔
  7. Ibn Al Athir۔ Maqtal al Husayn۔ صفحہ 013۔
  8. Abd al Razzaq Al Muqarram۔ "The Left Wing"۔ Maqtal Al Husayn: Martyrdom Epic of Imam al Husain [as]۔ صفحہ 194۔
  9. Radiyy Al Deen Al Qazwini۔ Tazallum Al Zahra۔ صفحہ 113۔
  10. البلاذري، أنساب الأشراف ، الجزء الثالث صفحة 398.
This article is issued from Wikipedia. The text is licensed under Creative Commons - Attribution - Sharealike. Additional terms may apply for the media files.