محمد باقر

محمد باقر، زین العابدین کے فرزند اور اہل تشیع کے پانچویں امام ہیں۔ آپ کا نام اپنے جد بزرگوار حضرت رسول خدا کے نام پر محمد تھا اور باقر لقب۔ اسی وجہ سے محمد باقر کے نام سے مشہور ہوئے۔

بارہ اماموں میں سے یہ آپ ہی کو خصوصیت تھی کہ آپ کا سلسلہ نسب ماں اور باپ دونوں طرف حضرت رسول خدا تک پہنچتا ہے۔ دادا آپ کے سید الشہداء حضرت حسین تھے جو حضرت رسول خدا محمد مصطفے ٰ کے چھوٹے نواسے تھے اور والدہ آپ کی ام عبد اللہ فاطمہ حضرت حسن کی صاحبزادی تھیں جو حضرت رسول کے بڑے نواسے تھے۔
محمد باقر
 

معلومات شخصیت
پیدائش 8 مئی 677  
مدینہ منورہ  
وفات 26 جنوری 733 (56 سال) 
مدینہ منورہ  
وجۂ وفات زہر  
مدفن جنت البقیع  
زوجہ ام فروہ  
اولاد جعفر الصادق  
والد علی بن حسین  
والدہ فاطمہ بنت حسن  
بہن/بھائی
عملی زندگی
استاذ علی بن حسین  
تلمیذ خاص عبد الرحمٰن اوزاعی  
پیشہ ورانہ زبان عربی [1] 

اس طرح حضرت محمد باقر رسول کے بلند کمالات اور علی و فاطمہ کی نسل کے پاک خصوصیات کے باپ اور ماں دونوں سے وارث ہوئے۔

ولادت

آپ کی ولادت روز جمعہ یکم رجب 57ھ میں ہوئی ۔ یہ وہ وقت تھا جب حسن کی وفات کو سات برس ہوچکے تھے ۔ حسین مدینہ میں خاموشی کی زندگی بسر کر رہے تھے اور وقت کی رفتار تیزی سے واقعہ کربلا کے اسباب فراہم کر رہی تھی ۔ زمانہ ال رسول اور شیعانِ اہل بیت کے لیے صر اشوب تھا ۔ چُن چُن کر محبانِ علی گرفتار کیے جا رہے تھے ، تلوار کے گھاٹ اتارے جا رہے تھے یا سولیوں پر چڑھائے جا رہے تھے اس وقت اس مولود کی ولادت گویا کربلا کے جہاد میں شریک ہونے والے سلسلہ میں ایک کڑی کی تکمیل تھی ۔

واقعہ کربلا

تین برس محمد باقر اپنے جد بزرگوار حضرت حسین کے زیرِسایہ رہے ۔ جب آپ کاسن پورے تین سال کا ہوا تو حسین نے مدینہ سے سفر کیا۔ا س کم سنی میں محمد باقر بھی راستے کی تکلیفیں سہنے میں ا پنے بزرگوں کو شریک رہے ۔ حسین نے مکہ میں پناہ لی ۔ پھر کوفہ کاسفر اختیار کیا اور پھر کربلا پہنچے ۔ ساتویں محرم سے جب پانی بند ہو گیا تو یقیناً محمدباقر نے بھی تین یوم پیاس کی تکلیف برداشت کی ۔ یہ خالق کی منشا کی ایک تکمیل تھی کہ وہ روز عاشور میدان ُ قربانی میں نہیں لائے گئے ۔ ورنہ جب ان سے چھوٹے سن کا بچہ علی اصغر تیر ستم کا نشانہ ہو سکتا تھا تو محمد باقر کابھی قربان گاہ شہادت پر لاناممکن تھا ۔ مگر سلسلہ ت کادنیامیں قائم رہنا نظام کائنات کے برقرار رہنے کے لیے ضروری اور اہم تھا لٰہذا منظور الٰہی یہ تھا کہ محمد باقر کربلا کے میدان میں اس طرح شریک ہوئے۔عاشور کو دن بھر عزیزوں کے لاشے پر لاشے اتے دیکھنا ۔ بیبیوں میں کہرام ، بچوں میں تہلکہ ، حسین کاوداع ہونا اورننھی سی جان علی اصغر کا جھولے سے جدا ہوکر میدان میں جانا اور پھر واپس نہ انا ، کے باوفا گھوڑے کا درخیمہ پر خالی زین کے ساتھ آنا اور پھر خیمہ عصمت میں ایک قیامت کابرپا ہونا۔یہ سب مناظر محمد باقر کی انکھوں کے سامنے آئے اور پھر بعد عصر خیموں میں آگ کا لگنا ، اسباب کا لوٹا جانا، بیبیوں کے سروں سے چادروں کا اتارا جانا اور آگ کے شعلوں سے بچوں کاگھبرا کرسراسیمہ ومضطرب اَدھر اُدھر پھرنا ، اس عالم میں محمد باقر کے ننھے سے دل پر کیا گزری اور کیا تاثرات ان کے دل پر قائم رہ گئے اس کا اندازہ کوئی دوسرا انسان نہیں کر سکتا۔

گیارہ محرم کے بعد ماں اور پھوپھی ،دادی اورنانی تمام خاندان کے بزرگوں کو دشمنوں کی قید میں اسیر دیکھا ، یقیناً اگر سکینہ کا ہاتھ رسی میں بندھ سکتا ہے تو یقین کہا جاسکتا ہے کہ محمد باقر کاگلا بھی ریسمان ظلم سے ضرور باندھا گیا ۔ کربلا سے کوفہ او رکوفہ سے شام اور پھر رہائی کے بعد مدینہ کی واپسی ان تمام منازل میں نہ جانے کتنے صدمے تھے جو محمد باقر کے ننھے سے دل کو اٹھانا پڑے او رکتنے غم والم کے نقش جو دل پر ایسے بیٹھے کہ ائیندہ زندگی میں ہمیشہ برقرار رہے۔

تربیت

واقعہ کربلا کے بعد زین العابدین کی زندگی دنیا کی کشمکشوں اور آویزشوں سے بالکل الگ نہایت سکون اور سکوت کی زندگی تھی ، اہل دنیا سے میل جول بالکل ترک کبھی محراب عبادت اور کبھی باپ کاماتم ان ہی دو مشغلوں میں تمام اوقات صرف ہوتے تھے۔یہ وہی زمانہ تھا جس میں محمد باقر نے نشو و نما پائی۔61ھ سے 95ھ تک 43 برس اپنے مقدس باپ کی سیرت زندگی کامطالعہ کرتے رہے اور اپنے فطری اور خداداد ذاتی کمالات کے ساتھ ان تعلیمات سے فائدہ اٹھاتے رہے جو انھیں اپنے والد ُ بزرگوار کی زندگی کے ائینہ میں برابر نظر اتی رہیں۔

باپ کی وفات اور ت کی ذمہ داریاں

حضرت محمد باقر بھر پور جوانی کی منزلوں کو طے کرتے ہوئے ایک ساتھ جسمانی وروحانی کمال کے بلند نقطہ پر تھے اور 83 برس کی عمر تھی جب آپ کے والد بزرگوار حضرت زین العابدین کی شہادت ہوئی۔حضرت نے ا پنے وقت وفات ایک صندوق جس میں اہلِ بیت کے مخصوص علوم کی کتب تھیں محمد باقر کے سپرد کیا نیز اپنی تمام اولادکوجمع کرکے ان سب کی کفالت وتربیت کی ذمہ داری اپنے فرزند محمد باقر پر قرار دی اور ضروری وصایا فرمائے اس کے بعد ت کی ذمہ داریاں حضرت محمد باقر پر ائیں ۔ آپ سلسلہ اہلِ بیت کے پانچویں ہوئے ہیں جو رسول خدا کے برحق جانشین تھے

اس دور کی خصوصیات

یہ وہ زمانہ تھا جب بنی امیہ کی سلطنت اپنی مادری طاقت کے لحاظ سے بڑھاپے کی منزلوں سے گزر رہے تھے ۔ بنی ہاشم پر ظلم وستم اورخصوصاً کربلا کے واقعہ نے بہت حد تک دنیا کی انکھوں کو کھول دیا اور جب یزید خود اپنے مختصر زمانہ حیات ہی میں جو واقعہ کربلا کے بعد ہوا اپنے کیے پرپشیمان ہوچکا تھا اور اس کے برے نتائج کو محسوس کر چکا تھا اور اس کے بعد اس کا بیٹا معاویہ اپنے باپ اور دادا کے افعال سے کھلم کھلا اظہار بیزاری کرکے سلطنت سے دستبردار ہو گیا تو بعد کے سلاطین کوکہاں تک ان مظالم کے مہلک نتائج کااحساس نہ ہوتا ۔ جب کہ اس وقت جماعت توابین کا جہاد مختار رض اور ان کے ہمراہیوں کے خون حسین کا بدلہ لینے میں اقدامات اور نہ جانے کتنے واقعات سامنے اچکے تھے جن سے سلطنت شام کی بنیادیں ہل گئیں تھیں ۔ اس کا نتیجہ یہ تھا کہ محمد باقر کے زمانہ ت کو حکومت کے ظلم وتشدد کی گرفت سے کچھ آزادی نصیب ہوئی اور آپ کو خلق خدا کی اصلاح وہدایت کا کچھ زیادہ موقع مل سکا ۔

عزائے حسین میں انہماک

آپ واقع کربلا کو اپنی انکھوں سے دیکھے ہوئے تھے۔پھر اپنے باپ کی تمام زندگی کا جو مظلوم کے غم میں رونے میں بسر ہوئی ۔ مطالعہ کرچکے تھے ۔ یہ احساس بھی نہایت تکلیف دہ تھاکہ ان کے والد بزرگوار باوجود اتنے غم ورنج اور گریہ وزاری کے ایسا موقع نہ پا سکے کہ دوسروں کو حسین کے ماتم برپا کرنے کی دعوت دیتے اس کا نتیجہ یہ تھا کہ محمد باقر کو اس میں خاص اہتمام پیدا ہوا ۔ آپ مجالس کی بنا فرماتے تھے اور کمیت بن زید اسدی جو آپ کے زمانہ کے بڑے شاعر تھے ، ان کوبلا کر مراثیہائے حسین پڑھواتے اور سنتے تھے۔یہی وہ ابتداتھی جسے جعفر صادق اور اس کے بعد پھر رضا کے زمانہ میں بہت فروغ حاصل ہوا۔

علمی مرجعیت

دریا کا پانی بند کے باندھ دیے جانے سے جب کچھ عرصہ کے لیے ٹھہرجائے اور پھر کسی وجہ سے وہ بند ٹوٹے تو پانی بڑی قوت اور جوش وخروش کے ساتھ بہتا ہوا محسوس ہوگا۔ائمہ اہل بیت میں سے ہر ایک کے سینہ میں ایک ہی دریا تھا ، علم کا جو موجزن تھا مگر اکثر اوقات ظلم وتشدد کی وجہ سے اس دریا کو پیاسوں کے سیراب کرنے کے لیے بہنے کا موقع نہیں دیا گیا ۔ محمدباقر کے زمانہ میں جب تشدد کا شکنجہ ذرا ڈھیلا ہوا توعلوم اہلِبیت کا دریا پوری طاقت کے ساتھ امنڈااور ہزاروں پیاسوں کو سیراب کرتا ہوا ۔»شریعت حقہ« اور احکام الٰہی کے کھیتوں کو سرسبز بناتا ہوا دنیا میں پھیل گیا ۔ اس علمی تبحر اور وسعت معلومات کے مظاہرے کے نتیجے میں آپ کا لقب باقر مشہور ہوا ۔ اس لفظ کے معنی ہیں اندرونی باتوں کامظاہرہ کرنے والا چونکہ آپ نے اپنے سے بہت سے پوشیدہ مطالب کو ظاہر کیا اس لیے تمام مسلمان آپ کو باقر کے نام سے یاد کرنے لگے ۔ آپ سے علوم اہلبیت حاصل کرنے والوں کی تعداد سینکڑوں تک پہنچی ہوئی تھی۔بہت سے ایسے افراد بھی جو عقید تاً ائمہ معصومین سے وابستہ نہ تھے اور جنھیں جماعت اہلسنت اپنے محدثین میں بلند درجہ سمجھتی ہے وہ بھی علمی فیوض حاصل کرنے محمد باقر کی ڈیوڑھی پر اتے تھے جیسے زہری اوزاعی اور عطاربن جریح، قاضی حفض بن غیاث وغیرہ یہ سب محمد باقر کے شاگردوں میں محسوب ہیں۔

علوم اہلبیت کی اشاعت

حضرت کے زمانہ میں علوم اہلبیت کے تحفظ کااہتمام اور حضرت کے شاگردوں نے ان افادیات سے جو انہیں حضرت محمدباقر سے حاصل ہوئے۔ مختلف علوم وفنون اور مذہب کے شعبوں میں کتب تصنیف کیں ذیل میں حضرت کے کچھ شاگردوں کا ذکر ہے اور ان کی تصانیف کانام درج کیا جاتا ہے ۔ جس سے آپ کو اندازہ ہوگا کہ محمدباقر سے اسلامی دنیا میں علم ومذہب نے کتنی ترقی کی۔

  • ابان ابن تغلب : یہ علم قرآت اور لغت کے مانے گئے ہیں- سب سے پہلے کتاب غریب القرآن یعنی

قرآن مجید کے مشکل الفاظ کی تشریح انہوں نے تحریر کی تھی اور 141ھ میں وفات پائی۔

  • ابو جعفر محمد بن حسن ابن ابی سارہ رو اسی علم قرآت، نحو اور تفسیر کے مشہور عالم تھے۔ کتاب الفصیل معانی القرآن وغیرہ پانچ کتب کے مصنف ہیں۔101ھ میں وفات پائی۔* عبد اللّٰہ ابن میمون اسود القداح: ان کی تصانیف سے ایک کتاب مبعث بنی، رسالت مآب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی سیرت اور تاریخ زندگی میں اور ایک کتاب حالاتِ جنت و نار میں تھی- ~0105ئھ میں وفات پائی۔* عطیہ ابن سعید عوفی۔ پانچ جلدوں میں تفسیر قرآن لکھی۔111ھ میں وفات پائی- * اسماعیل ابن عبد الرحمان الدی الکبیر- یہ مشہور مفسر قرآن ہیں- جن کے حوالے تمام اسلامی مفسرین نے سدی کے نام سے دیے ہیں 127ھ میں وفات پائی-* جابر بن یزید جعفی، انہوں نے محمد باقر سے پچاس ہزارحدیثیں سن کر یاد کیں اور ایک روایت میں ستر ہزار کی تعداد بتائی گئی ہے- اس کاذکر صحاح ستہ میں سے صحیح مسلم میں موجود ہے- تفسیر، فقہ اور حدیث میں کئی کتب تصنیف کیں۔128ھ میں وفات پائی-* عمار بن معاویہ وہنی: فقہ میں ایک کتاب تصنیف کی۔ 132ھ میں وفات پائی۔* سالم بن ابی حفصہ ابو یونس کوفی: فقہ میں ایک کتاب لکھی وفات 137ھ میں پائی-* عبد المومن ابن قاسم ابو عبد اللّٰہ انصاری: یہ بھی فقہ میں ایک کتاب کے مصنف ہیں۔147ھ میں وفات پائی-* ابوحمزہ ثمالی: تفسیر قرآن میں ایک کتاب لکھی، اس کے علاوہ کتاب النوادر اور کتاب الزمد بھی ان کی تصانیف میں سے ہیں- 150ھ میں وفات پائی-* زرارہ ابن اعین: بڑے بزرگ مرتبہ شیعہ عالم تھے ان کی علم کلام اور فقہ اور حدیث میں بہت سی کتب ہیں- وفات150ھ* محمد بن مسلم: یہ بھی بڑے بلند پایہ بزرگ تھے- محمد باقر سے تیس ہزار حدیثیں سنیں بہت سی کتب کے مصنف ہیں جن میں سے ایک کتاب تھی۔ چہار صد مسئلہ اور ابواب حلال و حرام- وفات 150ھ* یحییٰ بن قاسم ابو بصیر اسدی جلیل المرتبہ بزرگ تھے۔ کتاب مناسک حج کتاب یوم دلیلہ تصنیف کی۔150ھ میں وفات پائی۔* اسحٰق قمی: فقہ میں ایک کتاب کے مصنف ہیں-* اسماعیل بن جابر خثعمی کوفی: احادیث کی کئی کتب تصنیف کیں اور ایک کتاب فقہ میں تصنیف کی-* اسمعیٰل بن عبد الخالق:بلند مرتبہ فقیہہ تھے- ان کی تصنیف سے بھی ایک کتاب تھی-* بروالا سکاف الازدی: فقہ میں ایک کتاب لکھی-* حارث بن مغیرہ: یہ بھی مسائل فقہ میں ابک کتاب کے مصنف ہیں-* حذیفہ بن منصور خزاعی: ان کی بھی ایک کتاب فقہ میں تھی-* حسن بن السری الکاتب: ایک کتاب تصنیف کی-* حسین بن ثور ابن ابی فاختہ: کتاب النوادر تحریر کی-* حسین بن حما عبد ی کوفی: ایک کتاب کے مصنف ہیں-* حسین بن مصعب بجلی: ان کی بھی ایک کتاب تھی-* حماد بن ابی طلحہ: ایک کتاب تحریر کی-* حمزہ بن حمران بن اعین: زرارہ کے بھتیجے تھے اور ایک کتاب کے مصنف تھے۔

یہ چند نام ہیں ان کثیر علمائ و فقہا و محدثین میں سے جنہوں نے محمد باقر سے علوم اہل بیت کو حاصل کر کے کتب کی صورت میں محفوظ کیا- یہ اور پھر اس کے بعد جعفر صادق کے دور میں جو سینکڑوں کتب تصنیف ہوئیں یہی وہ سرمایہ تھا جس سے بعد میں کافی۔ من لا یحضرہ، تہذیب اور استبصار ایسے بڑے حدیث کے خزانے جمع ہو سکے جن پر شیعیت کا آسمان دورہ کرتا رہا ہے۔

اخلاق و اوصاف

آپ کے اخلاق وہ تھے کہ دشمن بھی قائل تھے چنانچہ ایک شخص اہل شام میں سے مدینہ میں قیام رکھتا تھا اور اکثر محمد باقر کے پاس آ کر بیٹھا کرتا تھا- اس کا بیان تھا کہ مجھے اس گھرانے سے ہرگز کوئی خلوص و محبت نہیں مگر آپ کے اخلاق کی کشش اور فصاحت وہ ہے جس کی وجہ سے میں آپ کے پاس آنے اور بیٹھنے پر مجبور ہوں-

امورِ سلطنت میں مشورہ

سلطنتِ اسلامیہ حقیقت میں ان اہل بیت رسول کا حق تھی مگر دنیا والوں نے مادی اقتدار کے آگے سر جھکایا اور ان حضرات کو گوشہ نشینی اختیار کرنا پڑی- عام افراد انسانی کی ذہنیت کے مطابق اس صورت میں اگرچہ حکومتِ وقت کسی وقت ان حضرات کی امداد کی ضرورت محسوس کرتی تو صاف طور پر انکار میں جواب دیا جا سکتا تھا مگر ان حضرات کے پیش نظر اعلیٰ ظرفی کا وہ معیار تھا جس تک عام لوگ پہنچے ہوئے نہیں ہوتے- جس طرح امیر المومنین حضرت علی ابن ابی طالب نے سخت موقعوں پر حکومت وقت کو مشورے دینے سے گریز نہیں کیا اسی طرح اس سلسلہ کے تمام حضرات نے اپنے اپنے زمانہ کے بادشاہوں کے ساتھ یہی طرزِ عمل اختیار کیا- چنانچہ حضرت محمد باقر کے زمانہ میں بھی ایسی صورت پیش آئی- واقعہ یہ تھا کہ حکومتِ اسلام کی طرف سے اس وقت تک کوئی خاص سکہ نہیں بنایا گیا تھا- بلکہ روی سلطنت کے سکے اسلامی سلطنت میں بھی رائج تھے- ولید بن عبد الملک کے زمانہ میں سلطنت شام اور سلطان روم کے درمیان میں اختلافات پیدا ہو گیا- رومی سلطنت نے یہ ارادہ ظاہر کیا کہ وہ اپنے سکوں پر پیغمبر اسلام کی شان کے خلاف کچھ الفاظ درج کرا دے گی اس پر مسلمانوں میں بڑی بے چینی پیدا ہو گئی- ولید نے ایک بہت بڑا جلسہ مشاورت کے ليے منعقد کیا جس میں عالم السلام کے ممتاز افراد شریک تھے- اس جلسہ میں محمد باقر بھی شریک ہوئے اور آپ نے یہ رائے دی کہ مسلمان کو خود اپنا سکہ ڈھالنا چاہیے جس میں ایک طرف لاالٰہ الااللّٰہ اور دوسری طرف محمد رسول اللّٰہ نقش ہو- کی اس تجویز کے سامنے سر تسلیم خم کیا گیا اور اسلامی سکہ اس طور پر تیار کیا گیا-

سلطنت بنی امیہ کی طرف سے مزاحمت

باوجودیکہ محمد باقر معاملاتِ ملکی میں کوئی دخل نہ دیتے تھے اور دخل دیا بھی تو سلطنت کی خواہش پر وقارِ اسلامی کے برقرار رکھنے کے ليے- مگر آپ کی خاموش زندگی اور خالص علمی اور روحانی مرجعیت بھی سلطنت وقت کو گوارا نہ تھی چنانچہ ہشام بن عبد الملک نے مدینہ کے حاکم کو خط لکھا کہ باقر کو ان کے فرزند جعفر صادق کے ہمراہ دمشق بھیج دیا جائے- اس کو منظور یہ تھا کہ حضرت کی عزت و وقار کو اپنے خیال میں دھچکا پہنچائے چنانچہ جب یہ حضرات دمشق پہنچے تو تین دن تک ہشام نے ملاقات کا موقع نہیں دیا- چوتھے دن دربار میں بلا بھیجا- ایک ایسے موقع پر کہ جب وہ تخت شاہی پر بیٹھا تھا اور لشکر داہنے اور بائیں ہتھیار لگائے صف بستہ کھڑا تھا اور وسط دربار میں ایک نشانہ تیراندازی کا مقرر کیا گیا تھا اور رؤسائ سلطنت اس کے سامنے شرط باندھ کر تیر لگاتے تھے کے پہنچنے پر انتہائی جراَت اور جسارت کے ساتھ اس نے خواہش کی کہ آپ بھی ان لوگوں کے ہمراہ تیر کا نشانہ لگائیں- ہر چند حضرت نے معذرت فرمائی مگر اس نے قبول نہ کیا- وہ سمجھتا تھا کہ آل محمد طویل مدت سے گوشہ نشینی کی زندگی بسر کر رہے ہیں- ان کو جنگ کے فنون سے کیا واسطہ اور اس طرح منظور یہ تھا کہ لوگوں کو ہنسنے کا موقع ملے- مگر وہ یہ نہ جانتا تھا کہ ان میں سے ہر ایک فرد کے بازو میں علی کی قوت اور دل میں حسین کی طاقت موجود ہے- وہ حکم الٰہی اور فرض کا احساس ہے جس کی وجہ سے یہ حضرات ایک سکون اور سکوت کا مجسمہ نظر آتے ہیں- یہی ہوا کہ جب مجبور ہو کر حضرت نے تیر و کمان ہاتھ میں لیا اور چند تیرپے در پے ایک ہی نشانے پر بالکل ایک ہی نقطہ پر لگائے تو مجمع تعجب اور حیرت میں غرق ہو گیا اور ہر طرف سے تعریفیں ہونے لگیں- ہشام کو اپنے طرزِ عمل پر پشیمان ہونا پڑا- اس کے بعد اس کو یہ احساس ہوا کہ کا دمشق میں قیام کہیں عام خلقت کے دل میں اہل بیت کی عظمت قائم کر دینے کا سبب نہ ہو- اس لیے اس نے آپ کو واپس مدینہ جانے کی اجازت دے دی مگر دل میں حضرت کے ساتھ عداوت میں اور اضافہ ہو گیا۔

ازواج

  1. ام فروة بنت القاسم بن محمد بن أبي بكر بن أبي قحافة عثمان بن عامر بن عمرو بن كعب بن سعد بن تيم بن مرة بن كعب بن لؤي بن غالب بن فهر بن مالك بن قريش بن كنانة بن خزيمة بن مدركة بن إلياس بن مضر بن نزار بن معد بن عدنان۔[2]
  2. أم حكيم بنت أسيد بن المغيرة بن الأخنس بن شريق الثقفية۔[3][4]

اولاد

  1. جعفر الصادق
  2. عبد اللہ
  3. إبراهيم
  4. عبيد اللہ
  5. علي
  6. زينب
  7. أم سلمة

وفات

سلطنتِ شام کو جتنا محمد باقر کی جلالت اور بزرگی کا اندازہ زیادہ ہوتا گیا اتنا ہی آپ کا وجود ان کے ليے ناقابل برداشت محسوس ہوتا رہا- آخر آپ کو اس خاموش زہر کے حربے سے جو اکثر سلطنت بنی امیہ کی طرف سے کام میں لایا جاتا رہا تھا شہید کرنے کی تدبیر کر لی گئی- وہ ایک زین کا تحفہ تھا جس میں خاص تدبیروں سے زہر پوشیدہ کیا گیا تھا اور جب حضرت اس زین پر سوار ہوئے تو زہر جسم میں سرایت کر گیا۔ چند روز کرب و تکلیف میں بستر بیمار پر گزرے اور آخرت سات ذی الحجہ 114ھ کو 57برس کی عمر میں وفات پائی۔

آپ کو حسب وصیت تین کپڑوں کا کفن دیا گیا جن میں سے ایک وہ یمنی چادر تھی جسے اوڑھ کر آپ روز جمعہ نماز پڑھتے تھے اور ایک وہ پیراہن تھا جسے آپ ہمیشہ پہنے رہتے تھے اور جنت البقیع میں اسی قبہ میں کہ جہاں حسن اور زین العابدین دفن ہو چکے تھے، دفن کیے گئے۔

مزید دیکھیے

حوالہ جات

  1. http://data.bnf.fr/ark:/12148/cb15008600f — اخذ شدہ بتاریخ: 10 اکتوبر 2015 — اجازت نامہ: آزاد اجازت نامہ
  2. علي موسى الكعبي- الإمام أبو جعفر الباقر عليہ السلام سيرة وتاريخ- مجلد 1، صفحة 68
  3. بهاء الدين الإربلي، كشف الغمة، مجلد 2، صفحة 343
  4. نسخہ محفوظہ 28 ديسمبر 2017 در وے بیک مشین
This article is issued from Wikipedia. The text is licensed under Creative Commons - Attribution - Sharealike. Additional terms may apply for the media files.